مبارک رات کی فضیلت
تمام اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ شب قدر کی مبارک رات کو تلاش کریں
ماہ رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کہ جب بھی آتا ہے اپنے ساتھ امت محمدیہ ﷺ کے لیے انوارات و برکات سے بھرپور تحفے لے کر آتا ہے اور اہل ایمان کی جھولیوں کو بھر کر رخصت ہو جاتا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اب بھی رمضان کریم آخری ساعتوں کا مہمان ہے اور جاتے جاتے ایک ایسا تحفہ بندگان خدا کی جھولی میں ڈال کر جا رہا ہے جسے شب قدر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جی ہاں ! وہی شب قدر جس کی عظمت سے فکر انسانی کو واقف کروانے کے لیے اﷲ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: '' شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ایک ہزار سال تک کی عبادت سے بھی اس ایک رات کی عبادت کی برابری نہیں ہو سکتی۔ اگر مسلمان تھوڑی سی بھی کوشش کر لیں تو اس رات ان کی مغفرت کا، بخشش کا سامان بھی ہوجاتا ہے اور دنیا اور آخرت بھی درست ہو جاتی ہے۔ یہی وہ رات ہے جب ہم اپنے رب کو منا بھی سکتے ہیں اور منوا بھی سکتے ہیں ۔
اسی رات کو آسمان سے فرشتے اتر کر اﷲ کے نیک بندوں (مومنین) کو سلام پیش کرتے ہیں، ان سے مصافحہ کرتے ہیں، ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور ان کی دعائوں پر آمین کہتے ہیں اور یہی اس رات کی افضلیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓفرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں جو کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر اﷲ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے، او رجب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو حق تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کی عبادت پر فخر فرماتے ہیں اور ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! اس مزدور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کر دے کیا بدلہ ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری دے دی جائے، تو ارشاد ہوتا ہے کہ فرشتو! میرے غلاموں نے اور باندیوں نے میرے فریضہ کو پورا کر دیا۔ پھر دعا کے ساتھ چلاّتے ہوئے عید گاہ کی طرف نکلے ہیں۔ میری عزت کی قسم ، میرے جلال کی قسم ، میری بخشش کی قسم ، میرے علّوِشان کی قسم ، میرے بلند مرتبے کی قسم، میں ان لوگو ں کی دعا ضرور قبول کروں گا ، پھر ان لوگوں کو خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جائو تمھارے گناہ معاف کر دیئے ہیں اور تمھاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے۔ پس یہ لوگ عید گاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا :''جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کرے، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔'' حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:''تمہارے اوپر ایک ایسا مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم ہو گیا گویا وہ ساری ہی خیر سے محروم ہوگیا۔'' (ابن ماجہ)حضور نبی کریم ؐ نے اپنی امت کی آسانی کے لیے کچھ نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں جن کو سامنے رکھ کر شب قدر کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرمؐ سے سنا: '' وہ رات (شب قدر) نورانی اور چمک دار ہوتی ہے نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈی۔'' اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔ شب قدر کی صبح کو نکلنے والا سورج چاند کی مانند ہوتا ہے، شعائوں اور کرنوں کے بغیر طلوع ہوتا ہے۔ سمندر کا کڑوا پانی بھی اس رات میٹھا پایا جاتا ہے۔
(الدرمنثور)اس مبارک رات کو پانے کے لیے آقا دو جہاں ﷺ خود آخری عشرے میں تن دہی سے عبادت میں مشغول رہتے تھے بل کہ اپنے گھر کے تمام افراد کو بھی اس کے لیے ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ روایت فرماتی ہیں: ''جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو رسول کریمؐ کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے یعنی پوری رات عبادت اور ذکر و دعا میں مشغول رہتے۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ شب قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں کی طاق راتوں میں۔ (بخاری) حضرت عبداﷲ بن عباسؓ جن کا شمار اکابر صحابہؓ میں ہوتا ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں امیرالمومنین حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں دیگر صحابۂ کرام بھی تشریف فرما تھے۔
حضرت عمر ؓ نے ان سے سوال کیا کہ '' رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو، تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ وہ کون سی رات ہوسکتی ہے؟ کسی نے کہا اکیسویں ، کسی نے کہا تیئسویں، کسی نے کہا پچیسویں، کسی نے کہا ستائیسویں ، میں خاموش بیٹھا رہا، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ بھئی تم بھی کچھ بولو ۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ہی نے تو فرمایا تھا کہ جب یہ بولیں تو تم نہ بولنا۔ آپؓ نے فرمایا بھئی تمہیں تو اسی لیے بلایا گیا ہے کہ تم بھی کچھ بولو۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سات چیزوں کو ذکر فرمایا ہے۔
مثلا سات آسمان پیدا فرمائے، سات زمینیں پیدا فرمائیں ، انسان کی تخلیق سات درجات میں فرمائی، انسان کی غذا کے لئے زمین سے سات چیزیں پیدا فرمائیں اسی لئے میری سمجھ میں تو یہی آتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں شب ہوگی۔ بات پوری مکمل ہو جانے کے بعد سیدنا عمر ؓ نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم سے وہ بات نہ ہو سکی جو اس بچے نے کہہ دی جس کے سر کے بال بھی ابھی مکمل نہیں آئے۔ بہ خدا! میرا بھی یہی خیال ہے جو یہ کہہ رہا ہے۔'' (شعب الایمان)سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں : '' میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا مجھے بتائیے کہ اگر میں معلوم کر لوں کون سی رات شب قدر ہے، تو میں اس رات اﷲ سے کیا عرض کروں اور کیا دعا مانگوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: '' اے میرے اﷲ تو بہت معاف فرمانے والا ہے، اور بڑا کرم فرما ہے، اور مجھے معاف کردینا تجھے پسند ہے، پس تو میری خطائیں معاف فرما دے۔'' (ترمذی)
اس لیے تمام اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ شب قدر کی مبارک رات کو تلاش کریں۔ طاق راتوں میں جس قدر ہو سکے نفل نماز ، تلاوت قرآن، ذکر و تسبیح میں مشغول رہیں۔ التجا کرتے ہوئے اﷲ رب العزت سے نیک اعمال کرنیکی ہمت و طاقت طلب فرمائیں، اپنے گناہوں کی بخشش طلب فرمائیں اور اپنے لئے اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب کیلئے دعائے خیر کریں۔ اور تمام مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ پور ے عالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں اور خصوصا پاکستان کے لیے دعا کریں کہ اﷲ رب العزت ہمارے ملک کی اندرونی و بیرونی، نظریاتی، فکری و جغرافیائی سرحدوں کی ہر قسم کے شرور و فتن سے حفاظت فرمائیں اور اسے ہمیشہ قائم دائم رکھیں۔ آمین
اسی رات کو آسمان سے فرشتے اتر کر اﷲ کے نیک بندوں (مومنین) کو سلام پیش کرتے ہیں، ان سے مصافحہ کرتے ہیں، ان کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں اور ان کی دعائوں پر آمین کہتے ہیں اور یہی اس رات کی افضلیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓفرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں نازل ہوتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں جو کھڑا ہو کر یا بیٹھ کر اﷲ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے، او رجب عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو حق تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں کی عبادت پر فخر فرماتے ہیں اور ان سے دریافت فرماتے ہیں کہ اے فرشتو! اس مزدور کا جو اپنی خدمت پوری پوری ادا کر دے کیا بدلہ ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی اجرت پوری دے دی جائے، تو ارشاد ہوتا ہے کہ فرشتو! میرے غلاموں نے اور باندیوں نے میرے فریضہ کو پورا کر دیا۔ پھر دعا کے ساتھ چلاّتے ہوئے عید گاہ کی طرف نکلے ہیں۔ میری عزت کی قسم ، میرے جلال کی قسم ، میری بخشش کی قسم ، میرے علّوِشان کی قسم ، میرے بلند مرتبے کی قسم، میں ان لوگو ں کی دعا ضرور قبول کروں گا ، پھر ان لوگوں کو خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جائو تمھارے گناہ معاف کر دیئے ہیں اور تمھاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے۔ پس یہ لوگ عید گاہ سے ایسے حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا :''جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کرے، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔'' حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا:''تمہارے اوپر ایک ایسا مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم ہو گیا گویا وہ ساری ہی خیر سے محروم ہوگیا۔'' (ابن ماجہ)حضور نبی کریم ؐ نے اپنی امت کی آسانی کے لیے کچھ نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں جن کو سامنے رکھ کر شب قدر کو تلاش کیا جاسکتا ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرمؐ سے سنا: '' وہ رات (شب قدر) نورانی اور چمک دار ہوتی ہے نہ زیادہ گرم اور نہ زیادہ ٹھنڈی۔'' اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے۔ شب قدر کی صبح کو نکلنے والا سورج چاند کی مانند ہوتا ہے، شعائوں اور کرنوں کے بغیر طلوع ہوتا ہے۔ سمندر کا کڑوا پانی بھی اس رات میٹھا پایا جاتا ہے۔
(الدرمنثور)اس مبارک رات کو پانے کے لیے آقا دو جہاں ﷺ خود آخری عشرے میں تن دہی سے عبادت میں مشغول رہتے تھے بل کہ اپنے گھر کے تمام افراد کو بھی اس کے لیے ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ روایت فرماتی ہیں: ''جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو رسول کریمؐ کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے یعنی پوری رات عبادت اور ذکر و دعا میں مشغول رہتے۔ سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ شب قدر کو تلاش کرو رمضان کی آخری دس راتوں کی طاق راتوں میں۔ (بخاری) حضرت عبداﷲ بن عباسؓ جن کا شمار اکابر صحابہؓ میں ہوتا ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں امیرالمومنین حضرت عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا وہاں دیگر صحابۂ کرام بھی تشریف فرما تھے۔
حضرت عمر ؓ نے ان سے سوال کیا کہ '' رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو، تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ وہ کون سی رات ہوسکتی ہے؟ کسی نے کہا اکیسویں ، کسی نے کہا تیئسویں، کسی نے کہا پچیسویں، کسی نے کہا ستائیسویں ، میں خاموش بیٹھا رہا، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ بھئی تم بھی کچھ بولو ۔ میں نے عرض کیا کہ آپ ہی نے تو فرمایا تھا کہ جب یہ بولیں تو تم نہ بولنا۔ آپؓ نے فرمایا بھئی تمہیں تو اسی لیے بلایا گیا ہے کہ تم بھی کچھ بولو۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سات چیزوں کو ذکر فرمایا ہے۔
مثلا سات آسمان پیدا فرمائے، سات زمینیں پیدا فرمائیں ، انسان کی تخلیق سات درجات میں فرمائی، انسان کی غذا کے لئے زمین سے سات چیزیں پیدا فرمائیں اسی لئے میری سمجھ میں تو یہی آتا ہے کہ شب قدر ستائیسویں شب ہوگی۔ بات پوری مکمل ہو جانے کے بعد سیدنا عمر ؓ نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم سے وہ بات نہ ہو سکی جو اس بچے نے کہہ دی جس کے سر کے بال بھی ابھی مکمل نہیں آئے۔ بہ خدا! میرا بھی یہی خیال ہے جو یہ کہہ رہا ہے۔'' (شعب الایمان)سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں : '' میں نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا مجھے بتائیے کہ اگر میں معلوم کر لوں کون سی رات شب قدر ہے، تو میں اس رات اﷲ سے کیا عرض کروں اور کیا دعا مانگوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: '' اے میرے اﷲ تو بہت معاف فرمانے والا ہے، اور بڑا کرم فرما ہے، اور مجھے معاف کردینا تجھے پسند ہے، پس تو میری خطائیں معاف فرما دے۔'' (ترمذی)
اس لیے تمام اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ شب قدر کی مبارک رات کو تلاش کریں۔ طاق راتوں میں جس قدر ہو سکے نفل نماز ، تلاوت قرآن، ذکر و تسبیح میں مشغول رہیں۔ التجا کرتے ہوئے اﷲ رب العزت سے نیک اعمال کرنیکی ہمت و طاقت طلب فرمائیں، اپنے گناہوں کی بخشش طلب فرمائیں اور اپنے لئے اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب کیلئے دعائے خیر کریں۔ اور تمام مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کریں۔ پور ے عالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کو اپنی دعائوں میں یاد رکھیں اور خصوصا پاکستان کے لیے دعا کریں کہ اﷲ رب العزت ہمارے ملک کی اندرونی و بیرونی، نظریاتی، فکری و جغرافیائی سرحدوں کی ہر قسم کے شرور و فتن سے حفاظت فرمائیں اور اسے ہمیشہ قائم دائم رکھیں۔ آمین