رمضان المبارک اور آج کے بچے
یہ بچہ رمضان کے ان آخری دنوں میں ہی گانوں پر ناچ گا رہا ہوگا اور عید کے پروگراموں کی ریکارڈنگ کروا رہا ہوگا
بچپن کی چند باتوں میں سے جو باتیں آج بھی یاد ہیں، ان میں رمضان کا مہینہ سب سے خاص ہے۔ میں جب چھوٹا تھا اس وقت رمضان سخت سردی میں آتا تھا۔ ایسی سردی کہ اٹھ کر سحری کرنا تو دور کی بات آنکھ کھولنے کا بھی دل نہ کرے۔ لیکن اس رمضان کے مہینے کی بات ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ سردی کے وقت اٹھنا اور سحری کرنا اور پھر والد کے ساتھ نماز کےلیے جانا۔ ابو کیونکہ درزی کا کام کرتے تھے تو رمضان میں سحری سے کچھ وقت قبل ہی گھر آتے تھے اور آکر ہم بہن بھائیوں کو جگاتے اور سب ساتھ سحری کرتے۔ جس دن ہم اپنی نیند کی وجہ سے نہیں اٹھ پاتے تھے تو اگلے دن غصہ امی ابو پر کرتے کہ سحری میں جگایا کیوں نہیں۔
ابو کا کام ایسا تھا کہ رمضان میں زیادہ تر دکان پر ہوتے تھے، اس لیے میں نماز و تراویح کےلیے دادا کے ساتھ مسجد جایا کرتا تھا۔ اس دور میں کیونکہ رمضان سردیوں میں آتے تھے اور اسکولوں کی چھٹیاں بھی نہیں ہوتی تھیں تو صبح اسکول جانا، وہاں سے آکر قاری صاحب سے قرآن پاک پڑھنا اور ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی۔ اور پھر افطاری کا وقت ہوتا تھا۔ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد تھوڑا آرام اور پھر دادا کے ساتھ تراویح کےلیے جانا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ گھر میں امی کو دیکھنا کہ وہ عام دنوں کے مقابلے میں رمضان میں زیادہ مصروف ہوجاتیں۔ گھر کے کام کاج کے ساتھ نماز، روزے کی پابندی بھی۔
جب تھوڑے اور بڑے ہوئے تو رمضان اور روزے کی فضیلت سمجھ آئی۔ پھر اور مزا آنے لگا رمضان کا۔ ذرا سی تبدیلی جو آئی، وہ یہ تھی کہ مغرب کے بعد دوستوں کے ساتھ باہر وقت گزارنا یا چھٹی والے دن، سحری سے پہلے تک رات بھر باہر کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنا۔ کیونکہ اس وقت رمضان میں ٹی وی پر رمضان نشریات جیسا کچھ نہیں ہوتا تھا، اس لیے رمضان بغیر ٹی وی دیکھے ہی گزرتا تھا۔
چاند رات آتی تو امی عید کے دن پہننے والے کپڑے استری کرکے رکھتیں۔ اور ہم چاند رات کو ہی وہ سب کپڑے جوتے پہن کر گھر میں ماڈلنگ کرتے اور خوش ہوتے رہتے۔ پوری چاند رات صرف عید کی خوشی میں جاگ کر گزارتے تھے اور عید کا دن دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ گزرتا تھا۔ عید کے کپڑے اور باقی سامان ابو اپنی مرضی سے لے کر آتے تھے اور ہم خوشی خوشی اس کو پہنتے تھے۔ جب تھوڑے بڑے ہوئے تو ابو ساتھ لے کر جاتے اور پسند کے کپڑے دلواتے تھے۔ اس طرح ہمارا رمضان اور عید گزرتی تھی۔
اور اب جب میں اس معصوم سے بچے احمد کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ہم اس کو اور اس عمر کے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں؟ جس عمر میں ہم رمضان میں خوشی خوشی نماز پڑھنے جایا کرتے تھے اور خاص طور پر ہمیں برائی سے دور رہنا سکھایا جاتا تھا، اس عمر میں یہ اپنا رمضان کسی ٹی وی کے پروگرام میں گزار رہا ہے۔ جس وقت ہم تراویح میں جاتے تھے، اس وقت یہ بچہ ایک ایسے پروگرام میں ہے جہاں لوگ ایک موٹر سائیکل یا موبائل کےلیے اپنی عزت دنیا کے سامنے نیلام کررہے ہیں؟
وہ مہینہ جس میں نماز عشاء کے بعد اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر اللہ سے مانگنا چاہیے، اس وقت لوگ برائے نام ''رمضان ٹرانسمیشن'' میں دنیاوی چیزیں مانگ رہے ہیں، وہ بھی اپنی عزت دے کر۔ جس وقت اللہ کا قرآن سننا چاہیے اس وقت لوگ خرافات سن رہے ہیں؟
اس بچے کا رمضان ایسا گزرا ہے تو اس کی عید بھی ایسی ہی ہوگی شاید۔ یہ بچہ رمضان کے ان آخری دنوں میں ہی گانوں پر ناچ گا رہا ہوگا اور عید کے پروگراموں کی ریکارڈنگ کروا رہا ہوگا۔ جس طرح یہ رمضان میں دین سکھانے والے لوگ رمضان میں ہی عید کے پروگرام ریکارڈ کرواتے ہیں اور اس پر ناچ گانا کررہے ہوتے ہیں۔
یہ معصوم بچہ احمد اور اس کے جیسے نجانے کتنے بچے یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ یقین کریں ان کا دل و دماغ ابھی خالی ہے، یہ سب معصوم ہیں، ان سے یہ سب ابھی سے کرواؤ گے تو آگے جاکر ان کے دل میں نماز، روزہ، تراویح کی محبت کیسے پیدا ہوگی؟ ان کو تو لگے گا رمضان کا مطلب ہے کہ روزہ کھولا اور لگ جاؤ ٹی وی پر۔ یہ میڈیا تو ایک مصنوعی دنیا ہے جس کا کام اور مطلب صرف پیسہ ہے۔ اب وہ جیسے بھی آئے۔ لیکن بس ڈر اس بات کا ہے اس نے آنے والی نسل کو اتنا بھی موقع نہیں دیا کہ وہ صحیح و غلط کا فیصلہ کرسکے۔
اللہ پاک ہم سب کو صحیح سمجھنے کی توفیق دے (آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ابو کا کام ایسا تھا کہ رمضان میں زیادہ تر دکان پر ہوتے تھے، اس لیے میں نماز و تراویح کےلیے دادا کے ساتھ مسجد جایا کرتا تھا۔ اس دور میں کیونکہ رمضان سردیوں میں آتے تھے اور اسکولوں کی چھٹیاں بھی نہیں ہوتی تھیں تو صبح اسکول جانا، وہاں سے آکر قاری صاحب سے قرآن پاک پڑھنا اور ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی۔ اور پھر افطاری کا وقت ہوتا تھا۔ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد تھوڑا آرام اور پھر دادا کے ساتھ تراویح کےلیے جانا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ گھر میں امی کو دیکھنا کہ وہ عام دنوں کے مقابلے میں رمضان میں زیادہ مصروف ہوجاتیں۔ گھر کے کام کاج کے ساتھ نماز، روزے کی پابندی بھی۔
جب تھوڑے اور بڑے ہوئے تو رمضان اور روزے کی فضیلت سمجھ آئی۔ پھر اور مزا آنے لگا رمضان کا۔ ذرا سی تبدیلی جو آئی، وہ یہ تھی کہ مغرب کے بعد دوستوں کے ساتھ باہر وقت گزارنا یا چھٹی والے دن، سحری سے پہلے تک رات بھر باہر کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلنا۔ کیونکہ اس وقت رمضان میں ٹی وی پر رمضان نشریات جیسا کچھ نہیں ہوتا تھا، اس لیے رمضان بغیر ٹی وی دیکھے ہی گزرتا تھا۔
چاند رات آتی تو امی عید کے دن پہننے والے کپڑے استری کرکے رکھتیں۔ اور ہم چاند رات کو ہی وہ سب کپڑے جوتے پہن کر گھر میں ماڈلنگ کرتے اور خوش ہوتے رہتے۔ پوری چاند رات صرف عید کی خوشی میں جاگ کر گزارتے تھے اور عید کا دن دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ گزرتا تھا۔ عید کے کپڑے اور باقی سامان ابو اپنی مرضی سے لے کر آتے تھے اور ہم خوشی خوشی اس کو پہنتے تھے۔ جب تھوڑے بڑے ہوئے تو ابو ساتھ لے کر جاتے اور پسند کے کپڑے دلواتے تھے۔ اس طرح ہمارا رمضان اور عید گزرتی تھی۔
اور اب جب میں اس معصوم سے بچے احمد کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ہم اس کو اور اس عمر کے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں؟ جس عمر میں ہم رمضان میں خوشی خوشی نماز پڑھنے جایا کرتے تھے اور خاص طور پر ہمیں برائی سے دور رہنا سکھایا جاتا تھا، اس عمر میں یہ اپنا رمضان کسی ٹی وی کے پروگرام میں گزار رہا ہے۔ جس وقت ہم تراویح میں جاتے تھے، اس وقت یہ بچہ ایک ایسے پروگرام میں ہے جہاں لوگ ایک موٹر سائیکل یا موبائل کےلیے اپنی عزت دنیا کے سامنے نیلام کررہے ہیں؟
وہ مہینہ جس میں نماز عشاء کے بعد اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر اللہ سے مانگنا چاہیے، اس وقت لوگ برائے نام ''رمضان ٹرانسمیشن'' میں دنیاوی چیزیں مانگ رہے ہیں، وہ بھی اپنی عزت دے کر۔ جس وقت اللہ کا قرآن سننا چاہیے اس وقت لوگ خرافات سن رہے ہیں؟
اس بچے کا رمضان ایسا گزرا ہے تو اس کی عید بھی ایسی ہی ہوگی شاید۔ یہ بچہ رمضان کے ان آخری دنوں میں ہی گانوں پر ناچ گا رہا ہوگا اور عید کے پروگراموں کی ریکارڈنگ کروا رہا ہوگا۔ جس طرح یہ رمضان میں دین سکھانے والے لوگ رمضان میں ہی عید کے پروگرام ریکارڈ کرواتے ہیں اور اس پر ناچ گانا کررہے ہوتے ہیں۔
یہ معصوم بچہ احمد اور اس کے جیسے نجانے کتنے بچے یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ یقین کریں ان کا دل و دماغ ابھی خالی ہے، یہ سب معصوم ہیں، ان سے یہ سب ابھی سے کرواؤ گے تو آگے جاکر ان کے دل میں نماز، روزہ، تراویح کی محبت کیسے پیدا ہوگی؟ ان کو تو لگے گا رمضان کا مطلب ہے کہ روزہ کھولا اور لگ جاؤ ٹی وی پر۔ یہ میڈیا تو ایک مصنوعی دنیا ہے جس کا کام اور مطلب صرف پیسہ ہے۔ اب وہ جیسے بھی آئے۔ لیکن بس ڈر اس بات کا ہے اس نے آنے والی نسل کو اتنا بھی موقع نہیں دیا کہ وہ صحیح و غلط کا فیصلہ کرسکے۔
اللہ پاک ہم سب کو صحیح سمجھنے کی توفیق دے (آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔