وہ بت شکن یہ قانون شکن
اس کی صورت خوشنما اور خوب نہ تھی۔ اس کے چہرے پر چیچک کے داغ نمایاں تھے۔ ایک روز اس نے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو اپنی بدصورتی سے بہت رنجیدہ اورپریشان ہوا اور اپنے وزیر سے کہا ''مشہور ہے کہ بادشاہوں کی صورت دیکھ کر آنکھوں میں روشنی آتی ہے، ایک میری صورت ہے کہ جسے دیکھ کر شاید دیکھنے والوں کو تکلیف ہوتی ہو۔''
وزیر نے جواب دیا ''تمہاری صورت تو شاید ہزاروں میں ایک دیکھتا ہو، لیکن تمہاری سیرت سے سبھوں کو تعلق ہے۔ تم اگر عمدہ سیرت کے حامل ہوجاؤ گے اور ہمیشہ ایسے ہی رہو گے تو لوگوں میں تمہیں ہر دلعزیزی حاصل ہوگی۔'' اس نے اپنے وزیر کی اس بات پر عمر بھر عمل کیا۔ 35 برس حکومت کی اور 63 برس کی عمر میں وفات پائی۔
دنیا اسے ''بت شکن'' ، ''فاتح سومنات'' اور ''سلطان محمود غزنوی'' کے نام سے جانتی ہے۔ وہ تمام دنیاوی اور دینی خوبیوں کا مجموعہ تھا۔ اپنی دلیری وشجاعت، عدل و انصاف، انتظام سلطنت اور فتوحات کی بنا پر دنیا کے گوشے گوشے میں مشہور تھا۔ اس کی معرکہ آرائیوں کا اصل سبب یہ تھا کہ اسلام اور انصاف کی برکات کو پھیلایا جائے اور ظلم و تعدی کی بنیادوں کو ڈھایا جائے۔ اس کی بہادری اور جرأت مندی اور استقلال کا یہ عالم تھا کہ میدان جنگ میں سیلاب کی طرح بڑھتا ہوا چلا جاتا تھا۔ انصاف کا یہ عالم تھا کہ دور و نزدیک ہر مقام پر اس کی انصاف پسندی کا بول بالا تھا۔
تاریخ طبری میں ہے کہ ایک دن اس کے دربار میں ایک شخص آیا۔ اس نے کہا کہ اس کی شکایت ایسی نہیں کہ سرِ دربار بیان کی جائے۔ سلطان محمود غزنوی اٹھا اور اسے اکیلے میں لے جا کر حال پوچھا۔ اس شخص نے کہا کہ سلطان کا بھانجا مسلح ہوکر گھر آتا ہے اور اسے مار پیٹ کر باہر نکال دیتا ہے اور اس کی بیوی کی بے حرمتی کرتا ہے۔ اس نے ہر امیر کو حال سنایا، مگر کسی میں جرأت نہیں۔ اللہ نے آپ کو ملک کا حاکم اعلیٰ بنایا ہے، اس لیے رعایا اور کمزور بندوں کی نگہداشت آپ کا فرض ہے۔ آپ انصاف کریں، ورنہ میں اس معاملے کو خدا کے سپرد کردوں گا اور اس کے منصفانہ فیصلے کا انتظار رہے گا۔
محمود غزنوی نے جواب دیا کہ اس گفتگو کا حال کسی کو نہ بتانا۔ جب وہ سفاک گھر آئے تو اس کی اطلاع مجھے فوری دینا۔ اس کے ساتھ ہی سلطان نے دربانوں کو بلایا اور سختی سے کہا کہ جب بھی یہ آئے فوری اس سے ملوایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے کہا کہ اگر تمہیں چوبدار میری عدیم الفرصتی یا آرام کا عذر کر روکیں تو تم محل کے فلاں حصے میں چھپ کر چلے آنا اور آہستہ سے مجھے آواز دینا۔ تیسری رات اس شخص نے محل کے اس کونے میں آکر آواز لگائی۔ کچھ دیر بعد سلطان باہر آیا اور وہ دونوں گھر پہنچے۔ سلطان نے وہاں پہنچ کر روشن شمع کو بجھادیا اور اپنے خنجر سے اس ظالم کا سر تن سے جدا کرنے کے بعد اس شخص سے کہا کہ اے بندۂ خدا ایک گھونٹ پانی کا پلا۔ سلطان محمود جب واپس جانے لگا تو اس شخص نے شمع بجھانے اور فوراً پانی مانگ کر پینے کی وجہ دریافت کی۔ سلطان نے جواب دیا:
''شمع اس لیے بجھائی کہ کہیں اس کی روشنی میں مجھے اپنے بھانجے کا چہرہ نظر نہ آئے اور اس پر رحم کھا کر انصاف سے باز نہ رہ سکوں۔ پانی مانگ کر پینے کی وجہ یہ تھی کہ جب تم نے مجھ سے اپنی روداد غم بیان کی تو میں نے عہد کیا تھا کہ جب تک تمہارے ساتھ پورا پورا انصاف نہ ہوگا، تب تک میں نہ کھانا کھاؤں گا اور نہ ہی پانی پیوں گا۔''
وہ بادشاہوں اور شہنشاہوں کا دور تھا، جو سیاہ و سفید کے مالک ہوتے تھے۔ عالیشان محلوں میں رہتے اور خزانے بھرے رہتے تھے۔ ان کی زندگی پرتعیش ہوتی تھی۔ طاقتور سپہ سالار ان کی ایک جنبش پر مخالفین کا نام و نشان تک مٹا دیتے تھے۔ مگر ایک بات تھی ان بادشاہوں میں کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے اگر ریاست میں ظلم بڑھتا گیا اور انصاف کمزور پڑتا گیا تو ان کے عالیشان محل، حکومت اور طاقت سب کچھ جاتا رہے گا۔
جدید جمہوری ادوار کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اس میں کوئی ایسی سنہری مثال دکھائی نہیں دی۔ ہم سیاسی، معاشرتی اور مذہبی سطح پر آج تک بحرانوں کے ریگزاروں میں زندگی گھسیٹ رہے ہیں۔ کوئی بھی شہری ہو یا سیاسی جماعت، ایک دوسرے کے وجود پر اعتبار کرنے کو تیار ہی نہیں۔ ہر سطح پر نااہلی، بدعنوانی اور کرپشن سمیت لوٹ کھسوٹ، بے اصولی اور ذاتی مفادات کے تحفظ کا نام ہی جمہوریت طے پایا ہے۔ ایسے میں جب بھی احتساب کی بات کی جاتی ہے تو تمام جماعتیں اپنے اختلافات بھلا کر یک جاں ہوجاتی ہیں اور یوں انصاف کا عمل بھی غیر شفاف لگنے لگتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔