
جائزہ گروپوں کا کہنا ہے کہ 13 سو کے علاوہ مزید ایک سو گیارہ لوگ بھی لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زبانی طور پر اتحادی امریکی فورسز یہ دعویٰ بھی کرتی رہیں کہ وہ سویلین کی ہلاکتیں روکنے کے لیے جو کچھ ان کے بس میں ہے وہ کریں گے مگر جب بمبار طیارے فضا میں سے نیچے شہریوں پر حملہ کرتے ہیں تو وہ اوپر سے ہلاکتوں کی تعداد نہیں گن سکتے بلکہ ان کو وہی اعداد وشمار بیان کرنا پڑتے ہیں جو ان کے افسران انھیں بتاتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کی تصدیق کے لیے کسی علیحدہ ایجنسی کی ضرورت ہے لیکن امریکا کے مدمقابل کھڑے ہونے کی کس میں جرأت ہو سکتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بیگناہ سویلین ہلاکتوں کے بارے میں امریکی اعتراف کا خیرمقدم کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ سویلین ہلاکتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔
ایمنسٹی کی لندن میں موجود گروپ کی لیڈر ڈونائیلا روویرا نے کہا ہے کہ عراق اور شام میں امریکا کی فضائی کارروائیوں سے اصل میں ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ مس دونائیلا کا مزید کہا ہے کہ امریکی بمباریوں سے ہونے والی ہلاکتوں اور دیگر نقصانات کا صحیح اندازہ لگانے کی ضرورت ہے جو یقینی طور پر ان سے کئی گنا زیادہ ہے جتنا امریکا کی طرف سے اعتراف کیا گیا ہے۔
مس دونائیلا نے مزید کہا کہ امریکی فوج کو تمام ہلاکتوں کی وجوہات بھی بیان کرنی چاہئیں۔ انھوں نے کہا آخر کیا وجہ ہے کہ ہر بار امریکی بمبار طیاروں کا نشانہ خطا ہو جاتا ہے اور وہ عسکریت پسندوں کی بجائے عام شہریوں کا قتل عام شروع کر دیتے ہیں۔ ایمنسٹی کی طرف سے گزشتہ ماہ جو رپورٹ جاری کی گئی ہے اس میں سویلینز کی تعداد 1600 سے زائد بیان کی گئی ہے۔ یہ ہلاکتیں شام کے شہر رقعہ (Raqa) میں گزشتہ چار ماہ میں ہوئی ہیں اور اصل میں ہلاکتوں کی تعداد 7 ہزار 9 سو سے زیادہ ہے جس کو امریکی ذرائع تسلیم نہیں کر رہے۔ حقوق انسانی کے لیے شام کے گروپ کا کہنا ہے کہ صرف شام میں 3 ہزار 8 سو سے زائد شہری ہلاکت کا شکار ہوئے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔