فرسودہ ٹیکس نظام خطرہ

حقیقت تلخ اور ملکی معاشی صورتحال ٹیکس نظام کے باب میں ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔


Editorial June 02, 2019
حقیقت تلخ اور ملکی معاشی صورتحال ٹیکس نظام کے باب میں ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ فوٹو: فائل

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے وزیراعظم عمران خان کو خط میں لکھا کہ موجودہ ٹیکس نظام کو ملکی معیشت کے لیے سنگین خطرہ ہے، یہ نظام آنیوالی نسلوں کے لیے پائیدار نہیں ، ٹیکس وصولی کا نظام جی ڈی پی کے 10 فیصد سے بھی کم ٹیکس اکٹھا کر رہا ہے جب کہ اِن ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ذریعے ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے اور کہا کہ کاروباری افراد کی بڑی تعداد ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے کو تیار نہیں ،22 کروڑ آبادی میں سے20 لاکھ ٹیکس دہندگان ، بجلی کے کمرشل کنکشن رکھنے والے31 لاکھ تاجروں میں سے90 فیصد ٹیکس سسٹم سے باہر ہیں، 85 فیصد سے زائد ٹیکس ملک کی300 کمپنیاں دیتی ہیں، ملک میں بڑے پیمانے پر غیر ٹیکس شدہ دولت جمع ہو چکی، ایک فیصد لوگ پوری ریاست کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔

ملکی ٹیکس نظام کی گھمبیرتا کوئی آج کی کہانی نہیں، اس استحصالی ، فرسودہ، ازکار رفتہ اور بوسیدہ ٹیکس نظام کے گرد اشرافیائی اور فیوڈل نظام کا سنہرا جال بچھا ہوا ہے جس نے 71 برس سے ملک میں غرت و امارت ، طلب و رسد، طبقاتی کشمکش، اور دولت کے ارتکاز و افزائش اور ماضی کے بائیس خاندانوں کی دلچسپ پاور پالیٹکس کی داستان سے سیاست و اقتدار کا جبروت قائم و دائم رکھا اور ملک کے لاکھوں محنت کش صرف نان جویں کو ترستے رہے۔

ماہرین اقتصادیات نے اس معمہ کو حل کرنے میں اپنی عمریں بتا دیں کہ اس ملک میں کب مساوات ، انصاف، اجتماعی اور سماجی انصاف کا اصول نافذ ہو گا اور ملکی معیشت ایک سموتھ سیلنگ کے ساتھ ریاستی اور حکومتی اہداف کو فلاحی مملکت کے معیار تک لا سکے گی۔ حقیقت میں ٹیکس نظام کی فرسودگی اور سسٹم میں مضمر خطرات کی نشاندہی چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ایک غیر معمولی صورحال کے چشم کشا تناظر میں کی ہے جس کا بنیادی نقطہ 22 کروڑ انسانوں کے معیار ٹیکس دہندگی سے مشروط دکھایا گیا ہے۔

ایک ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کا استدلال ہے کہ 22 کروڑ آبادی میں صرف 20 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں، ان کے تھیسیس پر سب سے اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا اتنی بڑی شرح آبادی میں جناب شبر زیدی نے تمام افرادی طاقت کو بنیادی طور پر لازماً ٹیکس دہندہ شمار کیا ہے، کیا اس ملک کا ہر بچہ، بچی ، غیر ملازم ، بیمار، بیروزگار، معذور وغیرہ ٹیکس نیٹ میں لائے جانے کا سزاوار ہے، ظاہر ہے پوری آبادی کو جو بائس کروڑ کی ہے وہ پوری ٹیکس نیٹ میں کس طرح شمار کی جا سکتی ہے، اس کا اولین اوسط نکالا جانا چاہیے۔

ہزاروں لاکھوں افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں وہ کس طرح ٹیکس نیٹ میں سمیٹے جائیں ،بیروزگاری کی شرح ، پتھارے دار ، چھابڑی والے ، اور چھوٹے دکاندار ، اجرتی مزدور اپنے مخصوص اعداد و شمار اور ملکی معاشی سرگرمیوں سے لاتعلق ہیں ، ان کے زوزگار اور ٹیکس ڈیڈکشن کی قابل ٹیکس آمدنی کی کیلکولیشن کیسے ترتیب دی جا سکتی ہیں، پھر سال ہا سال ایک معیشت ظاہری ٹیکس کے نیٹ میں آ رہی ہے ، اس سے ہر قسم کے ٹیکس کی وصولی ہوتی ہیں مگر اربوں کی غیر قانونی انڈر گرائونڈ معیشت کا کیا ہو گا جو اَن ڈاکومنٹڈ ہے۔

اسمگلنگ کے گندے خون سے پرورش پاتی ہے، ان گنت ٹچ ایبلز اور قانون سے بالاتر بار اثر سیاسی شخصیات ،کاروباری ، زرعی ملکیت ،لاکھوں ایکڑ اراضی والے ، زمیں دار ، وڈیرے ، فارم ہائوسز کے مالک ہیں جو زرعی انکم ٹیکس کے شکنجہ سے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں، ہمارا ٹیکس سسٹم اس ملازمت پیشہ محنت کش کو نچوڑتا ہے جو پابندی سے ہر ماہ اپنی ماہوار آمدن سے ٹیکس کی کٹوتی کراتا ہے، دورجنوں پروفیشنلز ہیں ٹیکس دیتے ہیں مگر لاتعداد چہرے ایسی ہیں جو کبھی ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے اور آج بھی شبر زیدی ان ہی کا نام لیتے ہیں کہ 31 لاکھ تاجروں میں سے 90 لاکھ ٹیکس سے باہر ہیں جب کہ 85 فیصد سے زائد ٹیکس ملک کی 300 کمپنیاں دیتی ہیں۔

بلاشبہ یہ اوسط اور دولت کی ریل پیل یہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار کی بے پناہ وسعتیں ملکی ٹیکس نیٹ کی بڑھوتری کا جواز مہیا کرتی ہیں، لیکن صائب رائے یہی ہو سکتی ہیں کہ جو پہلے سے ٹیکس دینے والا متوسط طبقہ ہے اسے مزید ٹیکس کے بوجد تلے دبانے سے بہتر ہے کہ ایف بی آر ٹیکس دینے سے گریزاں اور پہلو تہی کرنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لائے ، جو قانون سے بالاتر سیاست دان، ارب پتی بزنس ٹائیکون ہیں ، کاروباری لوگ ہیں جو ٹیکس نیٹ میں لائے جانے کے مستحق ہیں جن کے ناموں کی فہرستیں تیار ہیں ان کو بلا تاخیر ٹیکس نیٹ میں لانا چاہیے۔

زراعت پر ٹیکس کا اطلاق عموماً ایک دو ایکڑ راضی یا محدود کاشتکاری اور جان وتن کا رشتہ قائم کرتے ہیں ان سے کتنا ٹیکس مل سکتا ہے، حکومت ملکی خزانہ کو زرعی ٹیکس سے بھرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اشرافیائی اور فیوڈلز ، نو دولتیوں پر سے ٹیکس استسثنیٰ کی پر فریب چادریں ہٹائیں، جو پارلیمنٹ میں قوم کے غم خوار بنے ہوئے ہیں ان سے ٹیکس لیں، حیرت کی بات ہیں کہ گزشتہ 9 مہینے اس شور وغوغا، الزامات ، بیان بازی، عدالتی کارروائیوں، گرفتاریوں، غیر ممالک سے کروڑوں اربوں کی لوٹی گئی دولت کے چرچے میں گزر گئے، میڈیا ٹرائل کی گھن گرج میں کچھ بھی نہ نکلا، اب یہ خبر ہے کہ حکومت کی نئی مالی ایمنسٹی اسکیم کا دم خم بھی محض چند کروڑوں سے آگے کی بات نہیں، لوگ اپنا پیسہ ملک میں لانے کے لیے تیار نہیں۔ ادھر حکومت کو وفاقی محاصل اور ریونیو کی مد میں ٹیکس نظام کی شفافیت کا بڑا بحران اور دریا عبور کرنا ہے ۔

صوبائی ٹیکسز کے حصول اور ریکوری بھی کچھ کم مایوس کن نہیں، مثلا آب کاری سے جتنا ٹیکس ملنا چاہیے اور ایکسائز محکموں کو سڑکوں پر چلنے والی لاکھوں وہیکلز اور ملکی و غیرملکی گاڑیوں کے نمبر پلیٹس اور ٹیکسز کی وصولی کا گراف مطلوبہ آمدن اور وصول شدہ ٹیکس اور جرمانوں کا حجم مزید بڑھنا شرط ہے، ہزاروں گاڑیاں ، کوچز، منی بسیں روٹ پرمٹ کے بغیر سڑکوں پر دوڑتی ہیں ، بس قانون نافذ کرنے والے اہلکار مک مکا کر کے ملکی خزانے کو خسارے سے دوچار کرتے ہیں۔ لاکھوں کارخانے، فیکٹریاں، گٹکا مافیا اور اوپن کاروبار کرنے والوں کی من مانیاں ٹیکس نطام کا مذاق اڑاتی ہیں۔

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے وزیراعظم عمران خان کو ملکی معیشت کو درپیش خطرے سے تحریری طور پر آگاہ کرتے ہوئے 2 صفحات پر مشتمل خط لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر غیر ٹیکس شدہ دولت جمع ہو چکی ہے، کاروباری لوگوں اور اداروں کی بڑی تعداد ٹیکسیشن سسٹم میں شامل ہونے سے گریزاں ہے، ملک میں صنعتی کنکشن رکھنے والوں کی تعداد 3 لاکھ 41 ہزار ہے، ان میں سے صرف 40 ہزار افراد سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں، رجسٹرڈ ایک لاکھ کمپنیوں میں سے صرف 50 فیصد انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرواتی ہیں۔

چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں کہا گیاکہ بجلی کے کمرشل کنکشن رکھنے والے 31 لاکھ تاجروں میں سے 90 فیصد ٹیکس سسٹم سے باہر ہیں، 85 فیصد سے زائد ٹیکس ملک کی 300 کمپنیاں ادا کرتی ہیں، 75 فیصد سے زائد ٹیکس مینوفیکچرنگ سیکٹر سے اکٹھا کیا جا رہا ہے جب کہ ملک کا مینوفیکچرنگ سیکٹر اور صنعتی شعبہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔

حقیقت تلخ اور ملکی معاشی صورتحال ٹیکس نظام کے باب میں ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ شبر زیدی نے ٹیکس نظام سے لاحق خطرات کی نشاندہی کی ہے، وہ ایک بڑی چٹان کوسرکانے کا معرکہ سر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر انھیں راستے میں بننے والے رکاوٹوں کو دور کرنا بھی ہے، معیشت کو ملکی عفریتوں اور مافیائوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ایک چومکھی لڑائی لڑنا ناگزیر ہے ۔ یہ غیرمعمولی جنگ ہے اس میں شبر زیدی کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ ریاستی مشینری اور حکومتی اقتصادی ٹیم مل کر میدان میں اتریں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں