سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کو بیورو کریسی نے ناکام بنا دیا
24 سرکاری جامعات میں سے 8 بغیر وائس چانسلرز کے کام کررہی ہیں، 14سرکاری جامعات میں ڈائریکٹر فنانس کا کلیدی عہدہ خالی
حکومت سندھ کی صوبے میں اعلیٰ تعلیم اورامتحانی شعبوں (ہائر ایجوکیشن اینڈ ایگزامنیشن سیکٹر) میں بلند وبانگ دعوؤں کے برعکس زمینی حقائق سامنے آئے ہیں اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کی جانب سے صوبے میں عائد کی گئی تعلیمی ایمرجنسی کو ہائر ایجوکیشن اورامتحانی بورڈزکی سطح پر بیوروکریسی نے بظاہرناکام بنادیا ہے۔
سندھ میں قائم 24 سرکاری جامعات میں سے کم از کم 8 بغیر وائس چانسلرز کے کام کررہی ہیں جبکہ کم ازکم14سرکاری جامعات ایسی ہیں جن میں ڈائریکٹرفنانس کاکلیدی عہدہ خالی ہے۔ مزیدبراں گزشتہ برس قائم کی جانے والی کم از کم 4سرکاری جامعات حکومت سندھ کی عدم دلچسپی کے سبب اب تک فعال ہوسکی ہیں اورنہ ہی ان میں داخلے دے کراکیڈمک سیشن شروع کیاجاسکا۔
دوسری جانب سندھ کے تمام ساتوں تعلیمی بورڈزمیں سیکریٹری اورکنٹرولرآف ایگزامینیشن کے کلیدی عہدے گزشتہ 4 برس سے خالی پڑے ہیں اسی طرح یہ تعلیمی بورڈزحکومتی فنڈ سے بھی محروم ہیں حکومت سندھ کی جانب سے صوبے میں سرکاری جامعات اورایجوکیشن بورڈزکوانتظامی سطح پر کنٹرول کرنے کے لیے قائم محکمہ برائے یونیورسٹیزاینڈبورڈزاپنی عدم فعالیت کے سبب ان مسائل پر قابوپانے اورام اداروں کوبہتری کی جانب گامزن کرنے میں مکمل طورپرناکام نظرآتاہے۔
''ایکسپریس''کوسندھ کی سرکاری جامعات کے حوالے سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور، نصرت بھٹویونیورسٹی برائے خواتین سکھر ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد، لیاری یونیورسٹی کراچی، شہید ذوالفقارعلی بھٹویونیورسٹی آف لا کراچی، شہیدبے نظیربھٹویونیورسٹی بے نظیرآباد(نوابشاہ)، پیپلز میڈیکل یونیورسٹی برائے خواتین نوابشاہ اورویٹرنری یونیورسٹی سکرنڈ مستقل وائس چانسلرزسے محروم ہیں ان جامعات میں وائس چانسلرکاچارج یاتوکسی دوسری جامعات کے سربراہوں کے پاس ہیں یاپھراپنی مدت پوری کرنے والے وائس چانسلرز ان جامعات میں تاحکم ثانی (Till further order )کام کررہے ہیں۔
گزشتہ برس سندھ میں نصرت بھٹویونیورسٹی برائے خواتین سکھرقائم کی گئی اس کاچارج یونیورسٹی آف صوفی ازم اینڈ پیس بھٹ شاہ کی وائس چانسلرڈاکٹرپروین منشی کودیاگیااب تک نصرت بھٹویونیورسٹی کاچارج ان ہی کے پاس ہے قابل ذکرامریہ ہے کہ تاحال نصرت بھٹویونیورسٹی سکھرفعال ہوسکی اورنہ ہی یونیورسٹی آف صوفی ازم خود فعال ہے اب تک نصرت بھٹویونیورسٹی سکھرکے وائس چانسلرکی تقرری کااشتہارجاری ہی نہیں ہوسکا۔
معلوم ہواہے کہ فی الحال یہ دونوں جامعات سرکاری اسکولوں کی عمارتوں سے شروع ہونی ہیں اورعملی طورپرنصرت بھٹویونیورسٹی محض کاغذوں پرکام کررہی ہے۔
''ایکسپریس''کے رابطہ کرنے پر پروین منشی نے بتایاکہ سکھریونیورسٹی کا پی سی ون منظورہوگیاتھا، عمارت کی تعمیرکاکام چل رہاہے اورشہیدبے نظیرآباد یونیورسٹی کے ڈائریکٹرفنانس کوسکھریونیورسٹی کے ڈائریکٹرفنانس کااضافی چارج دیاگیاہے یونیورسٹی کوداخلے دینے اورسیشن شروع کرنے کے لیے ایچ ای سی سے این اوسی درکارہے۔
ڈاکٹرپروین منشی کی اپنی جامعہ صوفی یونیورسٹی بھٹ شاہ کے حوالے سے ان کاکہناتھاکہ جولائی میں داخلے شروع ہوجائیںگے۔ مزیدبراں شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور کا چارج آئی بی اے سکھریونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نثار صدیقی کودیاگیاہے۔
''ایکسپریس''کے رابطہ کرنے پر آئی بی اے سکھریونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹرنثارصدیقی نے اس بات کی تصدیق کی کہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ ابھی تک تشکیل نہیں دی جاسکی ہے، موجودہ کیمپس کے علاوہ یونیورسٹی کو100ایکڑ زمین دی جاچکی ہے۔
دوسری جانب حکومت سندھ کی جانب سے ایک سال قبل حیدرآباد میں قائم کی گئی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآبادکے وائس چانسلرکاچارج بھی یونیورسٹی میں قائم کالی موری کالج کے پرنسپل پروفیسرڈاکٹرناصرالدین شیخ کے پاس ہے جوکالج کیڈرکے گریڈ20کے پروفیسرہیں۔
مزیدبراں لیاری یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹراختربلوچ اپنے عہدے کی مدت پوری کرچکے ہیں تاہم حکومت سندھ کی اس یونیورسٹی سے دلچسپی کایہ حال ہے کہ موجودہ قائم مقام وائس چانسلرکوآئندہ مدت کے لیے مستقل وائس چانسلرمقرر کیا گیا ہے اورنہ ہی کسی مستقل وائس چانسلرکے لیے اشتہارجاری کیاجاسکا۔ یونیورسٹی میں کوئی کنٹرولرہے اورنہ ہی رجسٹرار۔
سندھ میں پہلی بارقانون کی تعلیم دینے کے لیے قائم ہونے والے شہید ذوالفقارعلی بھٹویونیورسٹی آف لا کے پہلے وائس چانسلرجسٹس(ر)قاضی خالد اپنے عہدے کی مدت پوری کرکے فیڈرل سروس ٹریبیونل کے چیئرمین مقررکردیے گئے جس کے بعدیونیورسٹی کاچارج وہاں کے ایک سینئرفیکلٹی رکن کودے دیاگیاتاہم یہاں بھی کسی مستقل وائس چانسلرکی تقرری عمل میں نہیں آئی۔
شہیدبے نظیربھٹو یونیورسٹی نواب شاہ میں اکتوبر2018میں سابق وائس چانسلرارشدسلیم کے استعفے کے بعد سے وائس چانسلر کا عہدہ خالی ہے یونیورسٹی کے وائس چانسلرکاچارج وہاں کی ڈین طیبہ ظریف کے پاس چارج ہے۔ وائس چانسلرارشدسلیم نے طالبہ کو ہراساں کرنے کے ایک کیس میں تحقیقات میں پیش رفت نہ کرنے کے الزام کے بعد استعفیٰ دے دیاتھا۔
پیپلزمیڈیکل یونیورسٹی برائے خواتین نوابشاہ کے وائس چانسلراعظم یوسفانی بھی اپنے عہدے کی مدت پوری کرچکے ہیں پہلے انھیں بحیثیت قائم مقام وائس چانسلرتاحکم ثانی کام کرنے کی اجازت دی گئی اورمستقل وائس چانسلرکے لیے اشتہاربھی جاری کیاگیاتاہم اب اعظم یوسفانی کاتاحکم ثانی آرڈرمنسوخ کرکے وہاں ڈاکٹرگلشن میمن کووائس چانسلرکے عہدے کاچارج دے دیاگیاہے۔
محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ قائد عوام یونیورسٹی ،ویٹرنری یونیورسٹی سکرنڈ ،شہیدبے نظیرآباد یونیورسٹی (نوابشاہ)، پیپلزمیڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ (برائے خواتین)کا اشتہاردے کرمحض قائد عوام یونیورسٹی کے وائس چانسلرکی تعیناتی کرسکی ہے ویٹرنری یونیورسٹی کے وائس چانسلرکی تقرری کے لیے سرچ کمیٹی نے امیدواروں کے انٹرویوکیے تو انھیں کوئی موزوں امیدوارنہیں ملااب اس یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے لیے دوبارہ اشتہاردینے کا فیصلہ کیاگیاہے۔
دوسری جانب سندھ میں کم از کم 14سرکاری جامعات ایسی ہیں جہاں وائس چانسلرکے بعدانتہائی اہم سمجھی جانے والی''ڈائریکٹرفنانس''کی کلیدی اسامیاں خالی ہیں اورجونیئرافسران کوڈائریکٹرفنانس کاچارج دے کران سے کام لیاجارہاہے۔ جن جامعات میں ڈائریکٹرفنانس موجودنہیں ہیں ان میں سندھ یونیورسٹی جام شورو،جامعہ کراچی، سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی، ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کراچی، داؤدانجینیئرنگ یونیورسٹی کراچی،لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو،شہید بینظیربھٹویونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینیمل سائنسزسکرنڈ،سندھ ایگریکلچریونیورسٹی ٹنڈوجام،شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور،پیپلزیونیورسٹی آف میڈیکل اینڈہیلتھ سائنسز برائے خواتین نوابشاہ،شہید بے نظیربھٹومیڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ،بے نظیربھٹوشہیدیونیورسٹی لیاری کراچی،بینظیربھٹوشہیدیونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈاسکلزڈویلپمنٹ خیرپور اوریونیورسٹی آف صوفی ازم اینڈماڈرن سائنسز بھٹ شاہ شامل ہیں۔
سندھ کی جامعات کوحکومت سندھ کی جانب سے فنڈکی فراہمی کی صورتحال بھی ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے رواں مالی سال میں سندھ کی جامعات کوان کے مختص فنڈز5ہزارملین روپے میں سے ابتدا میں 50فیصد سے کچھ زیادہ فنڈجاری ہواتھاتاہم باقی فنڈمیں سے اب1849ملین روپے باقی بچے ہیں اگرایک ماہ میں حکومت سندھ یہ فنڈجاری نہ کرسکی توغیرترقیاتی گرانٹ ہونے کے سبب یہ فنڈlapseہوجائے گااورسندھ کی جامعات اس سے محروم رہ جائیں گی۔
ادھر حکومت سندھ کے ماتحت کام کرنے والے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی جانب سے تعلیمی بورڈزمیں بہتری کے لیے کچھ نہ کرنے کی کئی برس پرانی پالیسی پرعملدرآمد آج بھی جاری ہے جس سے سندھ کے سرکاری تعلیمی بورڈانتظامی سطح پربدترین زبوحالی کاشکارہیں اورآئے دن سندھ کے تعلیمی بورڈز بالخصوص انٹربورڈ کراچی سے بدانتظامی ،کرپشن اورنتائج کی تبدیلی کے نئے نئے اسکینڈلزسامنے آتے ہیں۔
محکمہ تعلیم نے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی،بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈسیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈسیکنڈری ایجوکیشن سکھر،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈسیکنڈری ایجوکیشن میرپور خاص،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈسیکنڈری ایجوکیشن لاڑکانہ،سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی میں سیکریٹری اورناظم امتحانات(کنٹرولر آف ایکزامینیشن) کی اسامیوں کے لیے اشتہاررواں سال مارچ میں دوبارہ دیاتھااس سے قبل یہی اشتہارکم از کم ایک سال یااس سے قبل دیے جاچکا تھاتاہم اب دوسرے اشتہارکوبھی دوماہ سے زائد گزرنے کے باوجود درخواست گزاروں کی اسکروٹنی اورانھیں انٹرویوزکے لیے بلانے کی کوئی اطلاع نہیں ہے سندھ میں میٹرک اورانٹرکے کئی امتحانات مستقل ناظم امتحانات کی عدم موجودگی میں ہی گزرگئے ہیں۔
انٹربورڈ کراچی میں ناظم امتحانات کی اسامی پرجزوقتی بنیادوں پرایک ایساافسرتعینات ہے جس کے اپنے کیسز محکمہ اینٹی کرپشن میں زیرتفتیش ہیں۔ سندھ کے ساتوں تعلیمی بورڈزکامزید ایک اہم مسئلہ حکومت سندھ کی جانب سے انھیں سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ سے فیسوں کی وصولی روکنے کے بعدانھیں ان فیسوں کے عوض فنڈز کاعدم اجرا بناہواہے حکومت سندھ نے دوسال قبل اپریل 2017میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سندھ بھرکے تعلیمی بورڈزکوسرکاری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم میٹرک اورانٹرکے طلبہ سے انرولمنٹ اورامتحانی فیسوں کی وصولی سے یہ کہہ کرروک دیاتھاکہ اب امتحانی فیسوں کی رقم حکومت سندھ خود تعلیمی بورڈزکوفراہم کرے گی۔
محکمہ یونیورسٹیز اینڈبورڈزکے سیکریٹری کاچارج اس وقت ایک سینئر افسر ریاض الدین کے پاس ہے جنھیں صوبائی حکومت نے سندھ ایچ ای سی کی اضافی چارج بھی دے رکھاہے انھوں نے 26دسمبر2018کو سیکریٹری یونیورسٹیزاینڈبورڈزکی حیثیت سے جوائننگ دی تھی اور 5 ماہ گزرنے کے باوجود وہ جامعات میں وائس چانسلراور ڈائریکٹرفنانس جبکہ تعلیمی بورڈزمیں سیکریٹری اورکنٹرولرکی خالی اسامیاں مشتہرکرنے کے سواکچھ نہیں کرپائے۔
سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈ ریاض الدین کاکہناہے کہ جامعات اورتعلیمی بورڈزکے فنڈز جاری کرنے کی سمری بھیج چکے ہیں۔ تعلیمی بورڈزمیں سیکریٹری اورناظم امتحانات کی خالی اسامیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک موصولہ درخواستوں کی اسکروٹنی کاعمل مکمل نہیں ہوسکاہے اس میں مزید ایک یادوماہ لگ سکتے ہیں۔
سندھ میں قائم 24 سرکاری جامعات میں سے کم از کم 8 بغیر وائس چانسلرز کے کام کررہی ہیں جبکہ کم ازکم14سرکاری جامعات ایسی ہیں جن میں ڈائریکٹرفنانس کاکلیدی عہدہ خالی ہے۔ مزیدبراں گزشتہ برس قائم کی جانے والی کم از کم 4سرکاری جامعات حکومت سندھ کی عدم دلچسپی کے سبب اب تک فعال ہوسکی ہیں اورنہ ہی ان میں داخلے دے کراکیڈمک سیشن شروع کیاجاسکا۔
دوسری جانب سندھ کے تمام ساتوں تعلیمی بورڈزمیں سیکریٹری اورکنٹرولرآف ایگزامینیشن کے کلیدی عہدے گزشتہ 4 برس سے خالی پڑے ہیں اسی طرح یہ تعلیمی بورڈزحکومتی فنڈ سے بھی محروم ہیں حکومت سندھ کی جانب سے صوبے میں سرکاری جامعات اورایجوکیشن بورڈزکوانتظامی سطح پر کنٹرول کرنے کے لیے قائم محکمہ برائے یونیورسٹیزاینڈبورڈزاپنی عدم فعالیت کے سبب ان مسائل پر قابوپانے اورام اداروں کوبہتری کی جانب گامزن کرنے میں مکمل طورپرناکام نظرآتاہے۔
''ایکسپریس''کوسندھ کی سرکاری جامعات کے حوالے سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور، نصرت بھٹویونیورسٹی برائے خواتین سکھر ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآباد، لیاری یونیورسٹی کراچی، شہید ذوالفقارعلی بھٹویونیورسٹی آف لا کراچی، شہیدبے نظیربھٹویونیورسٹی بے نظیرآباد(نوابشاہ)، پیپلز میڈیکل یونیورسٹی برائے خواتین نوابشاہ اورویٹرنری یونیورسٹی سکرنڈ مستقل وائس چانسلرزسے محروم ہیں ان جامعات میں وائس چانسلرکاچارج یاتوکسی دوسری جامعات کے سربراہوں کے پاس ہیں یاپھراپنی مدت پوری کرنے والے وائس چانسلرز ان جامعات میں تاحکم ثانی (Till further order )کام کررہے ہیں۔
گزشتہ برس سندھ میں نصرت بھٹویونیورسٹی برائے خواتین سکھرقائم کی گئی اس کاچارج یونیورسٹی آف صوفی ازم اینڈ پیس بھٹ شاہ کی وائس چانسلرڈاکٹرپروین منشی کودیاگیااب تک نصرت بھٹویونیورسٹی کاچارج ان ہی کے پاس ہے قابل ذکرامریہ ہے کہ تاحال نصرت بھٹویونیورسٹی سکھرفعال ہوسکی اورنہ ہی یونیورسٹی آف صوفی ازم خود فعال ہے اب تک نصرت بھٹویونیورسٹی سکھرکے وائس چانسلرکی تقرری کااشتہارجاری ہی نہیں ہوسکا۔
معلوم ہواہے کہ فی الحال یہ دونوں جامعات سرکاری اسکولوں کی عمارتوں سے شروع ہونی ہیں اورعملی طورپرنصرت بھٹویونیورسٹی محض کاغذوں پرکام کررہی ہے۔
''ایکسپریس''کے رابطہ کرنے پر پروین منشی نے بتایاکہ سکھریونیورسٹی کا پی سی ون منظورہوگیاتھا، عمارت کی تعمیرکاکام چل رہاہے اورشہیدبے نظیرآباد یونیورسٹی کے ڈائریکٹرفنانس کوسکھریونیورسٹی کے ڈائریکٹرفنانس کااضافی چارج دیاگیاہے یونیورسٹی کوداخلے دینے اورسیشن شروع کرنے کے لیے ایچ ای سی سے این اوسی درکارہے۔
ڈاکٹرپروین منشی کی اپنی جامعہ صوفی یونیورسٹی بھٹ شاہ کے حوالے سے ان کاکہناتھاکہ جولائی میں داخلے شروع ہوجائیںگے۔ مزیدبراں شیخ ایاز یونیورسٹی شکارپور کا چارج آئی بی اے سکھریونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نثار صدیقی کودیاگیاہے۔
''ایکسپریس''کے رابطہ کرنے پر آئی بی اے سکھریونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹرنثارصدیقی نے اس بات کی تصدیق کی کہ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ ابھی تک تشکیل نہیں دی جاسکی ہے، موجودہ کیمپس کے علاوہ یونیورسٹی کو100ایکڑ زمین دی جاچکی ہے۔
دوسری جانب حکومت سندھ کی جانب سے ایک سال قبل حیدرآباد میں قائم کی گئی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی حیدرآبادکے وائس چانسلرکاچارج بھی یونیورسٹی میں قائم کالی موری کالج کے پرنسپل پروفیسرڈاکٹرناصرالدین شیخ کے پاس ہے جوکالج کیڈرکے گریڈ20کے پروفیسرہیں۔
مزیدبراں لیاری یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹراختربلوچ اپنے عہدے کی مدت پوری کرچکے ہیں تاہم حکومت سندھ کی اس یونیورسٹی سے دلچسپی کایہ حال ہے کہ موجودہ قائم مقام وائس چانسلرکوآئندہ مدت کے لیے مستقل وائس چانسلرمقرر کیا گیا ہے اورنہ ہی کسی مستقل وائس چانسلرکے لیے اشتہارجاری کیاجاسکا۔ یونیورسٹی میں کوئی کنٹرولرہے اورنہ ہی رجسٹرار۔
سندھ میں پہلی بارقانون کی تعلیم دینے کے لیے قائم ہونے والے شہید ذوالفقارعلی بھٹویونیورسٹی آف لا کے پہلے وائس چانسلرجسٹس(ر)قاضی خالد اپنے عہدے کی مدت پوری کرکے فیڈرل سروس ٹریبیونل کے چیئرمین مقررکردیے گئے جس کے بعدیونیورسٹی کاچارج وہاں کے ایک سینئرفیکلٹی رکن کودے دیاگیاتاہم یہاں بھی کسی مستقل وائس چانسلرکی تقرری عمل میں نہیں آئی۔
شہیدبے نظیربھٹو یونیورسٹی نواب شاہ میں اکتوبر2018میں سابق وائس چانسلرارشدسلیم کے استعفے کے بعد سے وائس چانسلر کا عہدہ خالی ہے یونیورسٹی کے وائس چانسلرکاچارج وہاں کی ڈین طیبہ ظریف کے پاس چارج ہے۔ وائس چانسلرارشدسلیم نے طالبہ کو ہراساں کرنے کے ایک کیس میں تحقیقات میں پیش رفت نہ کرنے کے الزام کے بعد استعفیٰ دے دیاتھا۔
پیپلزمیڈیکل یونیورسٹی برائے خواتین نوابشاہ کے وائس چانسلراعظم یوسفانی بھی اپنے عہدے کی مدت پوری کرچکے ہیں پہلے انھیں بحیثیت قائم مقام وائس چانسلرتاحکم ثانی کام کرنے کی اجازت دی گئی اورمستقل وائس چانسلرکے لیے اشتہاربھی جاری کیاگیاتاہم اب اعظم یوسفانی کاتاحکم ثانی آرڈرمنسوخ کرکے وہاں ڈاکٹرگلشن میمن کووائس چانسلرکے عہدے کاچارج دے دیاگیاہے۔
محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ قائد عوام یونیورسٹی ،ویٹرنری یونیورسٹی سکرنڈ ،شہیدبے نظیرآباد یونیورسٹی (نوابشاہ)، پیپلزمیڈیکل یونیورسٹی نوابشاہ (برائے خواتین)کا اشتہاردے کرمحض قائد عوام یونیورسٹی کے وائس چانسلرکی تعیناتی کرسکی ہے ویٹرنری یونیورسٹی کے وائس چانسلرکی تقرری کے لیے سرچ کمیٹی نے امیدواروں کے انٹرویوکیے تو انھیں کوئی موزوں امیدوارنہیں ملااب اس یونیورسٹی کے وائس چانسلرکے لیے دوبارہ اشتہاردینے کا فیصلہ کیاگیاہے۔
دوسری جانب سندھ میں کم از کم 14سرکاری جامعات ایسی ہیں جہاں وائس چانسلرکے بعدانتہائی اہم سمجھی جانے والی''ڈائریکٹرفنانس''کی کلیدی اسامیاں خالی ہیں اورجونیئرافسران کوڈائریکٹرفنانس کاچارج دے کران سے کام لیاجارہاہے۔ جن جامعات میں ڈائریکٹرفنانس موجودنہیں ہیں ان میں سندھ یونیورسٹی جام شورو،جامعہ کراچی، سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی، ڈاؤمیڈیکل یونیورسٹی کراچی، داؤدانجینیئرنگ یونیورسٹی کراچی،لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو،شہید بینظیربھٹویونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈاینیمل سائنسزسکرنڈ،سندھ ایگریکلچریونیورسٹی ٹنڈوجام،شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور،پیپلزیونیورسٹی آف میڈیکل اینڈہیلتھ سائنسز برائے خواتین نوابشاہ،شہید بے نظیربھٹومیڈیکل یونیورسٹی لاڑکانہ،بے نظیربھٹوشہیدیونیورسٹی لیاری کراچی،بینظیربھٹوشہیدیونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈاسکلزڈویلپمنٹ خیرپور اوریونیورسٹی آف صوفی ازم اینڈماڈرن سائنسز بھٹ شاہ شامل ہیں۔
سندھ کی جامعات کوحکومت سندھ کی جانب سے فنڈکی فراہمی کی صورتحال بھی ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے رواں مالی سال میں سندھ کی جامعات کوان کے مختص فنڈز5ہزارملین روپے میں سے ابتدا میں 50فیصد سے کچھ زیادہ فنڈجاری ہواتھاتاہم باقی فنڈمیں سے اب1849ملین روپے باقی بچے ہیں اگرایک ماہ میں حکومت سندھ یہ فنڈجاری نہ کرسکی توغیرترقیاتی گرانٹ ہونے کے سبب یہ فنڈlapseہوجائے گااورسندھ کی جامعات اس سے محروم رہ جائیں گی۔
ادھر حکومت سندھ کے ماتحت کام کرنے والے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کی جانب سے تعلیمی بورڈزمیں بہتری کے لیے کچھ نہ کرنے کی کئی برس پرانی پالیسی پرعملدرآمد آج بھی جاری ہے جس سے سندھ کے سرکاری تعلیمی بورڈانتظامی سطح پربدترین زبوحالی کاشکارہیں اورآئے دن سندھ کے تعلیمی بورڈز بالخصوص انٹربورڈ کراچی سے بدانتظامی ،کرپشن اورنتائج کی تبدیلی کے نئے نئے اسکینڈلزسامنے آتے ہیں۔
محکمہ تعلیم نے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کراچی،بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈسیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈسیکنڈری ایجوکیشن سکھر،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈسیکنڈری ایجوکیشن میرپور خاص،بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈسیکنڈری ایجوکیشن لاڑکانہ،سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کراچی میں سیکریٹری اورناظم امتحانات(کنٹرولر آف ایکزامینیشن) کی اسامیوں کے لیے اشتہاررواں سال مارچ میں دوبارہ دیاتھااس سے قبل یہی اشتہارکم از کم ایک سال یااس سے قبل دیے جاچکا تھاتاہم اب دوسرے اشتہارکوبھی دوماہ سے زائد گزرنے کے باوجود درخواست گزاروں کی اسکروٹنی اورانھیں انٹرویوزکے لیے بلانے کی کوئی اطلاع نہیں ہے سندھ میں میٹرک اورانٹرکے کئی امتحانات مستقل ناظم امتحانات کی عدم موجودگی میں ہی گزرگئے ہیں۔
انٹربورڈ کراچی میں ناظم امتحانات کی اسامی پرجزوقتی بنیادوں پرایک ایساافسرتعینات ہے جس کے اپنے کیسز محکمہ اینٹی کرپشن میں زیرتفتیش ہیں۔ سندھ کے ساتوں تعلیمی بورڈزکامزید ایک اہم مسئلہ حکومت سندھ کی جانب سے انھیں سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ سے فیسوں کی وصولی روکنے کے بعدانھیں ان فیسوں کے عوض فنڈز کاعدم اجرا بناہواہے حکومت سندھ نے دوسال قبل اپریل 2017میں ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے سندھ بھرکے تعلیمی بورڈزکوسرکاری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم میٹرک اورانٹرکے طلبہ سے انرولمنٹ اورامتحانی فیسوں کی وصولی سے یہ کہہ کرروک دیاتھاکہ اب امتحانی فیسوں کی رقم حکومت سندھ خود تعلیمی بورڈزکوفراہم کرے گی۔
محکمہ یونیورسٹیز اینڈبورڈزکے سیکریٹری کاچارج اس وقت ایک سینئر افسر ریاض الدین کے پاس ہے جنھیں صوبائی حکومت نے سندھ ایچ ای سی کی اضافی چارج بھی دے رکھاہے انھوں نے 26دسمبر2018کو سیکریٹری یونیورسٹیزاینڈبورڈزکی حیثیت سے جوائننگ دی تھی اور 5 ماہ گزرنے کے باوجود وہ جامعات میں وائس چانسلراور ڈائریکٹرفنانس جبکہ تعلیمی بورڈزمیں سیکریٹری اورکنٹرولرکی خالی اسامیاں مشتہرکرنے کے سواکچھ نہیں کرپائے۔
سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈ ریاض الدین کاکہناہے کہ جامعات اورتعلیمی بورڈزکے فنڈز جاری کرنے کی سمری بھیج چکے ہیں۔ تعلیمی بورڈزمیں سیکریٹری اورناظم امتحانات کی خالی اسامیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک موصولہ درخواستوں کی اسکروٹنی کاعمل مکمل نہیں ہوسکاہے اس میں مزید ایک یادوماہ لگ سکتے ہیں۔