12 سال بعد مزدور کا قاتل گرفتار انصاف کے منتظر بوڑھے والدین دنیا سے رخصت
2007ء میں ملزم خالد وغیرہ نے شاہد کو اغوا کیا اور پھر قتل کرکے مسخ شدہ نعش ویرانے میں پھینک دی
قتل انسانیت کے خلاف کیا جانے والا سب سے بڑا جرم ہے، جو معاشرے میں صبر وتحمل کے فقدان کی علامت ہے۔
کہیں حرص و ہوس کی آگ تو کبھی مال و زر کی طلب اس کی وجہ بنتی ہے، کہیں جرم غصہ و انتقام سے جنم لیتا ہے تو کبھی شکوک و شبہات اس کا محرک بن جایا کرتے ہیں، مگر اس گھناؤنے فعل کو کرنے والا کبھی ریاستی اداروں کی نظروں سے چھپ پایا ہے نہ وہ سکھ چھین سے زندگی بسر کر پایا ہے۔ قدرت کا نظام ہے کہ دوسروں کے قتل سے اپنے ہاتھ رنگنے والا کبھی نہ کبھی پکڑ میں ضرور آجاتا ہے۔
12سال قبل ایسا ہی قبیح فعل کر نے کے بعد گجرات اور بھمبرآزادکشمیر سے اوجھل ہو جانے والا سپین پلٹ سفاک قاتل واردات کرکے دوبارہ زندگی کا پہیہ چلانے کے لئے سپین پہنچ گیا، مگر چند سال بعد وطن واپسی پر اُس نے اپنی سپینش بیوی کو قتل کیا اور پھر روپوش ہو گیا۔
24جولائی 2007ء کی تپتی دوپہر کو پہلی واردات اُس نے پولیس کی وردی پہن کر اپنے بہنوئی اور پھوپھی زاد بھائیوں کے ساتھ مل کردولت نگر میں کی، جس میں اُس نے بچوں کے لئے محنت مزدوری کی غرض سے خراد کی دکان میں کام میں مگن 28 سالہ شاہد حسین کو اغواء کر لیا، جس پر تھانہ صدر جلالپورجٹاں نے مقتول کے والد حاجی غلام رسول کی رپورٹ پر آزادکشمیر کے چار سگے بھائیوں محمد نواز، ناظم ، امتیاز لاہوریا، بہادروغیرہ سمیت 6 ملزمان کے خلاف درج کر لیا۔
پولیس نے اپنے تئیں ملزمان کی تلاش شروع کی مگر بے سود رہی جبکہ اغواء کار اپنی انا کی تسکین کے لئے اسے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا تے ہوئے اس کی چیخ و پکار فون کے ذریعے اس کے گھر والوں کو سناکر سبق سکھانے اور اسے گاؤں کے لوگوں کے لئے عبرت کا نشان بنا دینے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے۔
اپنے لعل کی آہ و بکا پر گھر والے بھی کانپ اُٹھتے، اہل خانہ تمام تر صورتحال سے مقامی پولیس کو آگاہ بھی کرتے رہے مگر ملزمان کے بااثر ،شاطر، خطرناک ہونے کی وجہ سے پولیس کی کمزور گرفت میں تو نہ آ سکے، مگر 24گھنٹوں بعد ملزمان شاہدحسین کی نعش ٹریکٹر سے باندھ کر گاؤں میں کئی میل تک گھسیٹتے رہے اور پھر دیدہ دلیری سے بھمبر روڈ پر ویران علاقے میں اس کی نوچی ہوئی نعش پھینک کر فرار ہو گئے۔
مقتول شاہد حسین کی نعش کو پوسٹمارٹم اور غسل دیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ضلع بھمبر آزاد کشمیر کے علاقہ پنڈی کس کے رہائشی درندہ صفت ملزم نوازنے بھائیوں اور کزن خالد جاوید جٹ سکنہ پنڈی کس نے نہ صرف اس کا جسم داغا بلکہ اس کی آنکھیں بھی نکال کر اسے مخص اس لیے اذیت اور درد ناک موت سے دوچار کیا کہ انہیں شک تھا کہ اس کے سپین میں قتل ہونے والے بہنوئی محمد ریاض اور بھائی محمد نوازکو ماضی میں اغواء کرنے میں شاہد حسین ملوث تھا۔
مقتول کی قتل کی واردات کے بعد پولیس نے اغواء کی ایف آئی آر کو قتل کی ایف آئی آر میں بدلنے پر اکتفا تو کر لیا لیکن ملزم کو گرفت میں لانے کی کوشش ہی نہ کی اور چند ماہ بعد ہی سپین پلٹ ملزم خالد جاوید بیرون ملک فرار ہو گیا، جہاں اُس نے ایک سپینش خاتون سے بیاہ رچا لیا اور اشتہاری ہونے پر 5 سال بعد بھیس بدل کر دوبارہ آزاد کشمیر آباد ہو گیا، جہاں اُس نے ایک جرم کی سزا نہ ملنے اور قانون سے بچ جانے پر 2009ء میں دوسرا گھناؤنا فعل کرتے ہوئے اپنی سپینش بیوی PAMLA MORLAS DIGLDO کو نامعلوم وجوہات کی بناء پر قتل کر کے نعش گاؤں میں ہی دفنا دی مگر بعدازاں سپینش حکومت نے قبر کشائی کے بعد مقتولہ کی نعش حاصل کر لی جبکہ گر فتاری سے بچنے کیلئے خالد جاویدسعودی عرب فرار ہو گیا۔
بھمبر پولیس نے اشتہاریوں کو پناہ دینے سمیت سنگین نوعیت کے مقدمات بھی درج کئے مگر ملزم پولیس کی پکڑ میں نہ آسکا، بالآخر ڈی پی او گجرات سید علی محسن نے متعلقہ پولیس کے بجائے سی آئی اے سٹاف کی خصوصی ٹیم کو قاتل کی گرفتاری کے لئے ٹاسک دیا، جنہوں نے آزادکشمیر میں چھاپہ مار کر 14سال بعد دوہرے قتل کے ملزم کو قانون کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔
ڈی پی او سید علی محسن نے کئی سال تک پولیس کی نظروں سے اوجھل رہنے والے ملزم کو گرفتار کر کے اپنا فرض نبھا کر تجربہ کار آفیسر ہونے کا ثبوت دے دیا تاہم دوسرے آفیسرز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا کہ وہ 14سال تک اس قاتل کو کیوں کر نہ ڈھونڈ پائے حالاں کہ موجودہ ایس پی انویسٹی گیشن غلام مصطفی گیلانی ماضی میں بھی گجرات میں ڈی ایس پی ، قائمقام ڈی پی او، قائمقام ایس پی کے عہدوں پر براجمان رہ چکے ہیں۔
ملزم کو گرفتار کرنے والے سی آئی اے ، تھانہ صدر جلالپور جٹاں کے ایس ایچ او مہندی رانجھا، بابر زمان کے مطابق خالد جاوید اور اس کی فیملی آزادکشمیر بھمبر کی جرائم کی دنیا کی بادشاہ ہے، ملزم کا بہنوئی محمد ریاض سپین میں پیسوں کے لین دین کے تنازع پر قتل ہوا جبکہ کزن محمد نواز 2009ء میں مخالفین کے ہاتھوں قتل ہوا۔ تیسرا کزن ناظم گجرات پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا، چوتھا کزن ملزم امتیاز لاہوریا سرائے عالمگیر میں قتل کے مقدمہ میں ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں سزا بھگت رہا ہے اور ایک کزن تصدق حسین سعودیہ عرب میں مقیم ہے۔
ملزم خالد جاوید علاقے میں روپ بدل کر چنگ چی ڈرائیور بنا ہوا تھا تاکہ پولیس کی نظروں سے اوجھل رہ سکے اور اپنی جرم کی دنیا بھی جاری رکھ سکے مگر گجرات پولیس نے بھی مسافروں کا بھیس بدل کر اسے پکڑ لیا۔
بلاشبہ ڈی پی او سید علی محسن نے خالد جاوید جیسے کئی سفاک قاتلوں کو گرفتار کر کے گجرات پولیس کے کئی سالوں سے الجھے ہوئے کیسوں کو سلجھا دیا ہے جن میں ڈی ایس پی لیگل اختر گوندل کے مطابق ابتک سید علی محسن کی زیر نگرانی سالہا سال سے بیرون ملک روپوش 25/30لاکھ سے زائد سر کی قیمت والے 5خطرناک اشتہاریوں ، قاتلوں ، ڈکیتوںسمیت 17ملزمان کو بھی گرفتار کیا چکا ہے تاہم دولت نگر کے شاہد حسین کے قاتل کو اپنے انجام تک پہنچتا دیکھنے اور بیٹے کے قتل کے انصاف کی خواہشات دل میں لئے اس کا بوڑھا والد غلام رسول اور والدہ منوں مٹی کے ڈھیر تلے جاچکے ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ مقتول شاہد حسین کے 5 یتیم بچوں، بیوہ کو انصاف مل پاتا ہے یا ملزم خالد جاوید اپنے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر قانون کی گرفت سے پھر آزاد ہو کر اپنی جرم کی دنیاآباد کر لے گا۔
کہیں حرص و ہوس کی آگ تو کبھی مال و زر کی طلب اس کی وجہ بنتی ہے، کہیں جرم غصہ و انتقام سے جنم لیتا ہے تو کبھی شکوک و شبہات اس کا محرک بن جایا کرتے ہیں، مگر اس گھناؤنے فعل کو کرنے والا کبھی ریاستی اداروں کی نظروں سے چھپ پایا ہے نہ وہ سکھ چھین سے زندگی بسر کر پایا ہے۔ قدرت کا نظام ہے کہ دوسروں کے قتل سے اپنے ہاتھ رنگنے والا کبھی نہ کبھی پکڑ میں ضرور آجاتا ہے۔
12سال قبل ایسا ہی قبیح فعل کر نے کے بعد گجرات اور بھمبرآزادکشمیر سے اوجھل ہو جانے والا سپین پلٹ سفاک قاتل واردات کرکے دوبارہ زندگی کا پہیہ چلانے کے لئے سپین پہنچ گیا، مگر چند سال بعد وطن واپسی پر اُس نے اپنی سپینش بیوی کو قتل کیا اور پھر روپوش ہو گیا۔
24جولائی 2007ء کی تپتی دوپہر کو پہلی واردات اُس نے پولیس کی وردی پہن کر اپنے بہنوئی اور پھوپھی زاد بھائیوں کے ساتھ مل کردولت نگر میں کی، جس میں اُس نے بچوں کے لئے محنت مزدوری کی غرض سے خراد کی دکان میں کام میں مگن 28 سالہ شاہد حسین کو اغواء کر لیا، جس پر تھانہ صدر جلالپورجٹاں نے مقتول کے والد حاجی غلام رسول کی رپورٹ پر آزادکشمیر کے چار سگے بھائیوں محمد نواز، ناظم ، امتیاز لاہوریا، بہادروغیرہ سمیت 6 ملزمان کے خلاف درج کر لیا۔
پولیس نے اپنے تئیں ملزمان کی تلاش شروع کی مگر بے سود رہی جبکہ اغواء کار اپنی انا کی تسکین کے لئے اسے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا تے ہوئے اس کی چیخ و پکار فون کے ذریعے اس کے گھر والوں کو سناکر سبق سکھانے اور اسے گاؤں کے لوگوں کے لئے عبرت کا نشان بنا دینے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے۔
اپنے لعل کی آہ و بکا پر گھر والے بھی کانپ اُٹھتے، اہل خانہ تمام تر صورتحال سے مقامی پولیس کو آگاہ بھی کرتے رہے مگر ملزمان کے بااثر ،شاطر، خطرناک ہونے کی وجہ سے پولیس کی کمزور گرفت میں تو نہ آ سکے، مگر 24گھنٹوں بعد ملزمان شاہدحسین کی نعش ٹریکٹر سے باندھ کر گاؤں میں کئی میل تک گھسیٹتے رہے اور پھر دیدہ دلیری سے بھمبر روڈ پر ویران علاقے میں اس کی نوچی ہوئی نعش پھینک کر فرار ہو گئے۔
مقتول شاہد حسین کی نعش کو پوسٹمارٹم اور غسل دیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ضلع بھمبر آزاد کشمیر کے علاقہ پنڈی کس کے رہائشی درندہ صفت ملزم نوازنے بھائیوں اور کزن خالد جاوید جٹ سکنہ پنڈی کس نے نہ صرف اس کا جسم داغا بلکہ اس کی آنکھیں بھی نکال کر اسے مخص اس لیے اذیت اور درد ناک موت سے دوچار کیا کہ انہیں شک تھا کہ اس کے سپین میں قتل ہونے والے بہنوئی محمد ریاض اور بھائی محمد نوازکو ماضی میں اغواء کرنے میں شاہد حسین ملوث تھا۔
مقتول کی قتل کی واردات کے بعد پولیس نے اغواء کی ایف آئی آر کو قتل کی ایف آئی آر میں بدلنے پر اکتفا تو کر لیا لیکن ملزم کو گرفت میں لانے کی کوشش ہی نہ کی اور چند ماہ بعد ہی سپین پلٹ ملزم خالد جاوید بیرون ملک فرار ہو گیا، جہاں اُس نے ایک سپینش خاتون سے بیاہ رچا لیا اور اشتہاری ہونے پر 5 سال بعد بھیس بدل کر دوبارہ آزاد کشمیر آباد ہو گیا، جہاں اُس نے ایک جرم کی سزا نہ ملنے اور قانون سے بچ جانے پر 2009ء میں دوسرا گھناؤنا فعل کرتے ہوئے اپنی سپینش بیوی PAMLA MORLAS DIGLDO کو نامعلوم وجوہات کی بناء پر قتل کر کے نعش گاؤں میں ہی دفنا دی مگر بعدازاں سپینش حکومت نے قبر کشائی کے بعد مقتولہ کی نعش حاصل کر لی جبکہ گر فتاری سے بچنے کیلئے خالد جاویدسعودی عرب فرار ہو گیا۔
بھمبر پولیس نے اشتہاریوں کو پناہ دینے سمیت سنگین نوعیت کے مقدمات بھی درج کئے مگر ملزم پولیس کی پکڑ میں نہ آسکا، بالآخر ڈی پی او گجرات سید علی محسن نے متعلقہ پولیس کے بجائے سی آئی اے سٹاف کی خصوصی ٹیم کو قاتل کی گرفتاری کے لئے ٹاسک دیا، جنہوں نے آزادکشمیر میں چھاپہ مار کر 14سال بعد دوہرے قتل کے ملزم کو قانون کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔
ڈی پی او سید علی محسن نے کئی سال تک پولیس کی نظروں سے اوجھل رہنے والے ملزم کو گرفتار کر کے اپنا فرض نبھا کر تجربہ کار آفیسر ہونے کا ثبوت دے دیا تاہم دوسرے آفیسرز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا کہ وہ 14سال تک اس قاتل کو کیوں کر نہ ڈھونڈ پائے حالاں کہ موجودہ ایس پی انویسٹی گیشن غلام مصطفی گیلانی ماضی میں بھی گجرات میں ڈی ایس پی ، قائمقام ڈی پی او، قائمقام ایس پی کے عہدوں پر براجمان رہ چکے ہیں۔
ملزم کو گرفتار کرنے والے سی آئی اے ، تھانہ صدر جلالپور جٹاں کے ایس ایچ او مہندی رانجھا، بابر زمان کے مطابق خالد جاوید اور اس کی فیملی آزادکشمیر بھمبر کی جرائم کی دنیا کی بادشاہ ہے، ملزم کا بہنوئی محمد ریاض سپین میں پیسوں کے لین دین کے تنازع پر قتل ہوا جبکہ کزن محمد نواز 2009ء میں مخالفین کے ہاتھوں قتل ہوا۔ تیسرا کزن ناظم گجرات پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا، چوتھا کزن ملزم امتیاز لاہوریا سرائے عالمگیر میں قتل کے مقدمہ میں ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں سزا بھگت رہا ہے اور ایک کزن تصدق حسین سعودیہ عرب میں مقیم ہے۔
ملزم خالد جاوید علاقے میں روپ بدل کر چنگ چی ڈرائیور بنا ہوا تھا تاکہ پولیس کی نظروں سے اوجھل رہ سکے اور اپنی جرم کی دنیا بھی جاری رکھ سکے مگر گجرات پولیس نے بھی مسافروں کا بھیس بدل کر اسے پکڑ لیا۔
بلاشبہ ڈی پی او سید علی محسن نے خالد جاوید جیسے کئی سفاک قاتلوں کو گرفتار کر کے گجرات پولیس کے کئی سالوں سے الجھے ہوئے کیسوں کو سلجھا دیا ہے جن میں ڈی ایس پی لیگل اختر گوندل کے مطابق ابتک سید علی محسن کی زیر نگرانی سالہا سال سے بیرون ملک روپوش 25/30لاکھ سے زائد سر کی قیمت والے 5خطرناک اشتہاریوں ، قاتلوں ، ڈکیتوںسمیت 17ملزمان کو بھی گرفتار کیا چکا ہے تاہم دولت نگر کے شاہد حسین کے قاتل کو اپنے انجام تک پہنچتا دیکھنے اور بیٹے کے قتل کے انصاف کی خواہشات دل میں لئے اس کا بوڑھا والد غلام رسول اور والدہ منوں مٹی کے ڈھیر تلے جاچکے ہیں، لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ مقتول شاہد حسین کے 5 یتیم بچوں، بیوہ کو انصاف مل پاتا ہے یا ملزم خالد جاوید اپنے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر قانون کی گرفت سے پھر آزاد ہو کر اپنی جرم کی دنیاآباد کر لے گا۔