ایف بی آر نے بینکوں سے 10 لاکھ نکلوانے والوں کے کوائف طلب کرلیے

کھاتہ داروں سے کٹوتی کردہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی اسٹیٹمنٹس کی تفصیلات بھی طلب


Irshad Ansari June 02, 2019
معلومات کو ٹیکس نیٹ وسیع کرنے اور ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔ فوٹو:فائل

فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے تمام بینکوں سے ایک ماہ میں 10 لاکھ روپے یا اس سے زائد رقم نکلوانے والے لوگوں کے کوائف اور ان سے کٹوتی کردہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی اسٹیٹمنٹس کی تفصیلات مانگ لی ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ 2 روز قبل تمام بینکوں کے چیف فنانشل آفیسرز کی چیئرمین ایف بی آر سے ملاقات ہوئی ہے جس میں جہاں ایمنسٹی اسکیم کو کامیاب بنانے سے مطلق تعاون پر بات ہوئی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ انکم ٹیکس رْولز 2002 میں کی جانے والی ترامیم کے تحت بینکوں کو فائلر و نان فائلرز سے کی جانے والی ٹیکس کٹوتی کی تفصیلات ایف بی آر کو دینا ہیں مگر کسی بینک کی جانب سے یہ تفصیلات فراہم نہیں کی جارہی ہیں اور صرف 2 نجی بینکوں نے جزوی طور پر تفصیلات فراہم کی ہیں۔

ایف بی آر کی جانب سے بینکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپریل اور مئی کے دوران فائلرز ورنا فائلرز سے کی جانے والی ٹیکس کٹوتی کی تفصیلات اور ان انفرادی اکاؤنٹ ہولڈرز کے کوائف کی تفصیلات فراہم کریں، اسے ٹیکس نیٹ وسیع کرنے اور ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے استعمال میں لایا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر 50 ہزار روپے سے زائد یومیہ کی مد میں ایک ماہ کے دوران 10لاکھ روپے سے زائد رقوم نکلوانے والے فائلر و نان فائلر لوگوں کی مانیٹرنگ کرے گا اور بینکوں کی فراہم کردہ ماہانہ اسٹیٹمنٹس سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر ان لوگوں کے ذرائع آمدنی معلوم کیے جائیں گے جس کی مدد سے ٹیکس چوری روکنے کے ساتھ ساتھ قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود ٹیکس نیٹ سے باہر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔

ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ تمام کمرشل بینکوں کو ایف بی آر کے متعارف کروائے جانے والے فارم ڈی کے مطابق 10لاکھ روپے یا اس سے زائد رقم نکلوانے والے لوگوںکے کوائف اور ان سے کٹوتی کردہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی اسٹیٹمنٹس ایف بی آر کو ماہانہ بنیادوں پر جمع کروانا ہوںگی اور فارم ڈی کے مطابق ان لوگوں کے نام، پتے و دیگر کوائف ،کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ نمبرزاور نکلوائی جانے والی رقوم کی مالیت کے علاوہ ہر کیس کے بارے میں متعلقہ بینک آفیسر کے ریمارکس بھی فراہم کرنے ہوں گے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں