قرضوں پرطاقتورکمیٹی بنائیے
ساٹھ کے قریب کمیٹیوں کے سربراہ ہونے کے ناطے ملک کے طاقتورترین لوگوں میں شامل تھے
تین برس قبل پاکستان کے معاشی حالات ہمیشہ کی طرح انتہائی خراب تھے۔پارلیمنٹ میں ناقص بحث جاری تھی۔حکومتی وزراء ترقی کی بے مثال نویدسنارہے تھے۔ بڑے بڑے منصوبوں کاافتتاح ہو رہا تھا۔ لگتاتھاکہ پاکستان جاپان جیسا ملک بننے جارہاہے۔اپوزیشن حسبِ معمول ناکامی اورقرضوںکے بوجھ کی گردان کررہی تھی۔ قوم اتنی ہی پریشان اوربے خبرتھی،جتنی آج ہے۔قوم کالفظ مناسب نہیں۔انسانوں کاریوڑمناسب ہے۔مگرمعاشیات کے ماہرین سوفیصدجانتے تھے کہ ملک قرضوں پرچل رہاہے اورسرکار دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔مگراس دورکے وزیر خزانہ انتہائی مطمئن تھے۔
ساٹھ کے قریب کمیٹیوں کے سربراہ ہونے کے ناطے ملک کے طاقتورترین لوگوں میں شامل تھے۔ معاشی کھیل کی کنجی ان کے ہاتھ میں تھی۔ اسلام آبادمیں سینئرترین افسروں کوبدتمیزی سے ڈانتے تھے۔ فائلیں ان کے منہ پرمارتے تھے۔تمام سرکاری لوگ ان سے اس لیے ڈرتے تھے کہ سابقہ وزیراعظم کی ناک کابال اورقریبی عزیزتھے۔جب معاشی حالات دگرگوں ہونے لگے اورپیسے کی فراہمی کم ہوگئی توانھیں مسئلے کاحل نکالنے کوکہاگیا۔چنانچہ آئی ایم ایف کے ساتھ میٹنگ طے ہوئی۔ دبئی میں اس لیے کہ آئی ایم ایف کے وفدنے پاکستان آنے سے بڑے عرصے سے انکارکررکھا تھا۔وزارت خزانہ کے عمال اوروزیرخزانہ دبئی تشریف لے گئے۔ان سرکاری ممبروں میں ایک سینئرافسربھی تھے جومیری نظرمیں انتہائی قابل انسان ہیں۔دبئی میں کامیاب میٹنگ ہوئی۔ پاکستان کوآئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط پرقرضہ مل گیا۔ ملکی معیشت بتدریج سانس لینے لگی۔
چندہفتے بعد ملاقات،اس سینئرافسرسے ہوئی جو سرکاری وفداوروزیرخزانہ کے ساتھ گئے تھے۔میٹنگ کے متعلق پوچھاتو خاموش ہوگئے۔کہنے لگے گھرآنا۔ پھر بات کریںگے ۔دوتین ہفتے کاوقفہ آگیا۔وقت لے کر ان کے گھرچلاگیا۔کافی کادورچلنے لگا۔پوچھاکہ سر،آپ نے بتانا تھاکہ دبئی میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیسی میٹنگ رہی۔ انھوں نے حیرت انگیزبات کی۔بتانے لگے کہ حقیقت میں میٹنگ توہوئی ہی نہیں۔صرف تیس چالیس منٹ کی بیٹھک تھی۔میں حیران رہ گیا۔سوال کیاکہ میڈیا میں تووزیرخزانہ کی شان میں قصیدہ گوئی ہورہی ہے۔
کہاجارہاہے کہ انھوں نے توآئی ایم ایف کے سامنے پاکستان کی ہونے والی ترقی کاایسانقشہ کھینچاکہ گورے واہ واہ کراُٹھے۔سینئرافسرنے قہقہہ لگایا۔کہنے لگے، وہ توپوری نشست میں صرف چند منٹ بولے۔وہ بھی رسمی الفاظ۔ مذاکرات توہوئے ہی نہیں۔ مگریہ کیسے ہوسکتاہے کہ بغیر مذاکرات کے قرضہ مل جائے۔انھوں نے جواب دیا، مذاکرات فریقین کے درمیان ہوتے ہیں۔ یہ درست بات ہے کہ وزارت خزانہ نے پورا ایجنڈا ترتیب دے رکھا تھا۔مگربات کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
ہوا ایسے کہ آئی ایم ایف کے وفد نے ملکی معیشت پربات کی۔ اس کے بعد قرضے کی شرائط بتانی شروع کردیں۔شرائط سن کرمجھے پسینہ آگیا۔وزیرخزانہ خاموش رہے۔جب آئی ایم ایف کے وفد نے بات ختم کردی توانھوں نے صرف ایک فقرہ بولا، پاکستان کویہ تمام شرائط من وعن منظورہیں۔انھوں نے کسی بھی شرط کوختم کرنے پرکوئی بات نہیں کی۔ آئی ایم ایف کا وفد حیران رہ گیا۔انھیںایسی توقع نہیں تھی۔ وزیرخزانہ نے اپنے وفدکے سربراہ کو معاہدے پردستخط کرنے کوکہا۔سرکاری بابو روبوٹ کی طرح اُٹھا، دستخط کیے اورمیٹنگ ختم ہوگئی۔ میٹنگ کے بعدآئی ایم ایف کے وفدکے سربراہ نے مجھے بلایا اورکہاکہ اکیلے میں کچھ بات کرناچاہتے ہیں۔چنانچہ اسی بلڈنگ کے کونے میں غیرملکی ٹیم کے سربراہ سے غیررسمی بات شروع ہوگئی۔
گوراپوچھنے لگاکہ آپ کے وزیرخزانہ ٹھیک تو ہیں؟ میراجواب تھاکہ بالکل۔مگرآپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ گورے نے کہا،میں آئی ایم ایف میں پچیس سال سے نوکری کررہاہوں۔ دنیاکے سترفیصد وزراء اعظم اور خزانے کے وزیروں کوجانتاہوں۔ مگرآپ کے وزیرخزانہ جیساآدمی کبھی نہیں دیکھا۔ میں سوال کیاکہ مسئلہ کیا ہے؟ گوراکہنے لگا،آئی ایم ایف کی ٹیم چارہفتوں سے پاکستان کو قرضے دینے کی تجویز پرکام کررہی تھی۔ شرائط کے دوڈرافٹ بنائے تھے۔ایک میں قدرے نرم شرائط تھیں اورایک میں انتہائی سخت۔ہماراخیال تھاکہ ہماری شرائط کوکبھی تسلیم نہیںکیا جائے گا اور ان پربحث ہوگی۔ہم ایک دن کاوقفہ لیں گے۔ دوسرے دن،میٹنگ میں نرم شرائط والاڈرافٹ رکھیں گے۔ ان پرمعمولی سی گفتگوکے بعد،قرضے کی رسمی اجازت ہوجائیگی۔ مگرآپ نے توسخت ترین شرائط والے معاہدے کوپڑھے بغیر ایک منٹ میں مان لیااوردستخط ہوگئے۔گورے کی اگلی باتیں حددرجہ تلخ تھیں۔ہمارے پاس کبھی کبھی بھارتی وفود بھی آتے ہیں۔
وہ درمیانے درجے کے ہوٹل میں قیام کرتے ہیں۔معمولی سے کپڑے پہنتے ہیں۔پوراوفد ٹیکسی پر آتا ہے۔ہمارے مسودے کے ہرنکتے پر بحث دربحث کرتے ہیں۔ہماری کسی شرط کوبھی آج تک من وعن تسلیم نہیں کیا۔ مذاکرات کئی ہفتے جاری رہتے ہیں۔بھارتی وفد کا سربراہ اپنے ملک کے اہم سرکاری لوگوں سے رابطے میں رہتا ہے۔ کئی بارتوہماراصبرجواب دے دیتاہے۔چارپانچ بارتوایسے بھی ہواکہ ہم تھکن سے چورچورہوگئے۔مگروہ لوگ بالکل چوکس رہے۔مگراس کے برعکس،پاکستان کاپورا وفد دبئی کے سب سے مہنگے ہوٹل میں ٹھہراہواہے۔اکثرکی بیگمات بھی ساتھ ہیں۔لگتاہے کہ پکنک کاسماں ہے۔آپ کے وزیرخزانہ دبئی کے مہنگے ترین علاقے میں ذاتی گھر میں قیام پذیر ہیں۔جب میٹنگ میں تشریف لاتے ہیں توان کالباس سب سے قیمتی ہوتاہے۔
ایسے لگتاہے کہ قرض لینے نہیں بلکہ دینے کے لیے آئے ہیں۔گوراکہنے لگاکہ ہم لوگ دانتوں میں انگلیاں دبالیتے ہیں جب پاکستانی کسی چوں چراں کے بغیر مشکل ترین شرائط پرقرض وصول کرلیتے ہیں۔ہمیں یہ بھی علم ہے کہ ہمارے دیے گئے ڈالروں میں کتناعوام پرلگتاہے اورکتناآپ کے ملکی رہنماؤں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ مگرہم خاموش رہتے ہیں۔اس لیے کہ آپ اپنے قیمتی ترین اثاثے ہمارے پاس گروی رکھ کرڈالرلیتے ہو۔ سینئر افسر نے اوربھی بہت سی باتیں کیں ، انھیں قلمبندنہیں کروں گا۔ مگروہ بھی حددرجہ ناقص اورادنیٰ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت باربارکہتی ہے کہ سابقہ حکومتوں نے انتہائی نامناسب شرائط پرخطیرقرضہ لیا۔وہ یہ بھی اعلان کررہی ہے کہ سودکواداکرنے کے لیے مزیدقرضہ لینا مجبوری ہے۔چلیے،یہ بات دلیل کی بنیاد پرملک کا چند فیصد طبقہ مان لے گا۔مگرعوام کوتواس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انھیںتوروزمرہ کی تمام چیزیں مناسب نرخ پر چاہییں۔ انھیں توکوئی غرض نہیں کہ آئی ایم ایف یاورلڈبینک سے کس نے، کن شرائط پرقرض لیاتھا۔عام آدمی کوتواپنی ذاتی سہولتوں سے غرض ہے۔عام آدمی کایہ رویہ بالکل درست ہے۔
صرف یہ کہہ دیناکہ سابقہ حکومتوں نے ملک کوگروی رکھ دیا۔ بربادکردیا یا تباہ کردیا،اس بیانیے کے سچ ہونے اورغلط ہونے پربحث بے معنی ہے۔اصل نکتہ عوام کوہرصورت آسانیاں مہیا کرناہے۔اس میں ناکام ہونے کامطلب ناکامی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کونسالائحہ عمل اختیارکیاجائے،جس سے معاملات بہتری کی طرف چلناشروع کردیں۔اس میں ان ممالک کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے جو ہماری طرح قرضوں کے جال میں پھنسے اور پھر سرخروہوکرنکلے۔جنہوں نے پہلے قرضوں کوبالکل اسی طرح قبول کیاجیسے ہم کرتے تھے۔ پھر ان کی سیاسی قیادت نے سسٹم میں ایسے سیفٹی والوتشکیل دیے جن سے قرضوں کاحجم بھی کم ہوااورلوگوں کوآسانی بھی میسر ہوئی۔ جمیکا اس کی ایک مثال ہے۔ جمیکا نے تمام قرضوں کو پرکھنے اورجانچنے کیلیے ایک طاقتورکمیٹی بنائی تھی۔
جس میں قابل ترین قانون دان،ریٹائرڈجج،سول سوسائٹی کے نمائندے بلاامتیازشامل کیے گئے۔یہ کمیٹی ہرقرضے کے عمل کوتفصیل سے جانچنے کااختیاررکھتی تھی۔بالکل اسی طرزپرہمارے ہاں بھی بے داغ لوگوں پرمشتمل ایک طاقتوراقتصادی کمیٹی بنائی جائے جوماضی میں لیے گئے قرضوں کی بلاامتیاز اور غیرمتعصب چھان بین کرے ۔موجودہ قرضوں پربھی کڑی نظر رکھے۔ تحقیق کی بنیادپربتائے کہ پرانے قرضے کن ظالمانہ شرائط پر لیے گئے۔کس طرح سبسڈی کی افیم دیکران قرضوں سے اربوں روپے کی کمیشن حاصل کی گئیں۔ان میں کون کون سا اہم شخص اورگروہ شامل تھا۔جب تک ہم قرضہ جات کا بے رحم تجزیہ نہیں کرتے۔ ملک کا یہی حال رہے گا، عوام غیرمطمئن رہیںگے جب کہ امراء بھی خوش رہیںگے کیونکہ وہ تومال سمیٹ کرملک سے باہرآرام کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ہو سکتاہے کہ اصل حقائق جاننے کے بعد،ہم اپنی سمت کودرست لیں! اس وقت توصرف اورصرف تقریری مقابلے،مناظرے ہو رہے ہیں۔ان سے لوگ متنفرہوچکے ہیں۔کوشش کریں کہ معاشی معاملات بہترہوجائیں۔اُمیدہے مگر ہلکی سی!
ساٹھ کے قریب کمیٹیوں کے سربراہ ہونے کے ناطے ملک کے طاقتورترین لوگوں میں شامل تھے۔ معاشی کھیل کی کنجی ان کے ہاتھ میں تھی۔ اسلام آبادمیں سینئرترین افسروں کوبدتمیزی سے ڈانتے تھے۔ فائلیں ان کے منہ پرمارتے تھے۔تمام سرکاری لوگ ان سے اس لیے ڈرتے تھے کہ سابقہ وزیراعظم کی ناک کابال اورقریبی عزیزتھے۔جب معاشی حالات دگرگوں ہونے لگے اورپیسے کی فراہمی کم ہوگئی توانھیں مسئلے کاحل نکالنے کوکہاگیا۔چنانچہ آئی ایم ایف کے ساتھ میٹنگ طے ہوئی۔ دبئی میں اس لیے کہ آئی ایم ایف کے وفدنے پاکستان آنے سے بڑے عرصے سے انکارکررکھا تھا۔وزارت خزانہ کے عمال اوروزیرخزانہ دبئی تشریف لے گئے۔ان سرکاری ممبروں میں ایک سینئرافسربھی تھے جومیری نظرمیں انتہائی قابل انسان ہیں۔دبئی میں کامیاب میٹنگ ہوئی۔ پاکستان کوآئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط پرقرضہ مل گیا۔ ملکی معیشت بتدریج سانس لینے لگی۔
چندہفتے بعد ملاقات،اس سینئرافسرسے ہوئی جو سرکاری وفداوروزیرخزانہ کے ساتھ گئے تھے۔میٹنگ کے متعلق پوچھاتو خاموش ہوگئے۔کہنے لگے گھرآنا۔ پھر بات کریںگے ۔دوتین ہفتے کاوقفہ آگیا۔وقت لے کر ان کے گھرچلاگیا۔کافی کادورچلنے لگا۔پوچھاکہ سر،آپ نے بتانا تھاکہ دبئی میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیسی میٹنگ رہی۔ انھوں نے حیرت انگیزبات کی۔بتانے لگے کہ حقیقت میں میٹنگ توہوئی ہی نہیں۔صرف تیس چالیس منٹ کی بیٹھک تھی۔میں حیران رہ گیا۔سوال کیاکہ میڈیا میں تووزیرخزانہ کی شان میں قصیدہ گوئی ہورہی ہے۔
کہاجارہاہے کہ انھوں نے توآئی ایم ایف کے سامنے پاکستان کی ہونے والی ترقی کاایسانقشہ کھینچاکہ گورے واہ واہ کراُٹھے۔سینئرافسرنے قہقہہ لگایا۔کہنے لگے، وہ توپوری نشست میں صرف چند منٹ بولے۔وہ بھی رسمی الفاظ۔ مذاکرات توہوئے ہی نہیں۔ مگریہ کیسے ہوسکتاہے کہ بغیر مذاکرات کے قرضہ مل جائے۔انھوں نے جواب دیا، مذاکرات فریقین کے درمیان ہوتے ہیں۔ یہ درست بات ہے کہ وزارت خزانہ نے پورا ایجنڈا ترتیب دے رکھا تھا۔مگربات کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
ہوا ایسے کہ آئی ایم ایف کے وفد نے ملکی معیشت پربات کی۔ اس کے بعد قرضے کی شرائط بتانی شروع کردیں۔شرائط سن کرمجھے پسینہ آگیا۔وزیرخزانہ خاموش رہے۔جب آئی ایم ایف کے وفد نے بات ختم کردی توانھوں نے صرف ایک فقرہ بولا، پاکستان کویہ تمام شرائط من وعن منظورہیں۔انھوں نے کسی بھی شرط کوختم کرنے پرکوئی بات نہیں کی۔ آئی ایم ایف کا وفد حیران رہ گیا۔انھیںایسی توقع نہیں تھی۔ وزیرخزانہ نے اپنے وفدکے سربراہ کو معاہدے پردستخط کرنے کوکہا۔سرکاری بابو روبوٹ کی طرح اُٹھا، دستخط کیے اورمیٹنگ ختم ہوگئی۔ میٹنگ کے بعدآئی ایم ایف کے وفدکے سربراہ نے مجھے بلایا اورکہاکہ اکیلے میں کچھ بات کرناچاہتے ہیں۔چنانچہ اسی بلڈنگ کے کونے میں غیرملکی ٹیم کے سربراہ سے غیررسمی بات شروع ہوگئی۔
گوراپوچھنے لگاکہ آپ کے وزیرخزانہ ٹھیک تو ہیں؟ میراجواب تھاکہ بالکل۔مگرآپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ گورے نے کہا،میں آئی ایم ایف میں پچیس سال سے نوکری کررہاہوں۔ دنیاکے سترفیصد وزراء اعظم اور خزانے کے وزیروں کوجانتاہوں۔ مگرآپ کے وزیرخزانہ جیساآدمی کبھی نہیں دیکھا۔ میں سوال کیاکہ مسئلہ کیا ہے؟ گوراکہنے لگا،آئی ایم ایف کی ٹیم چارہفتوں سے پاکستان کو قرضے دینے کی تجویز پرکام کررہی تھی۔ شرائط کے دوڈرافٹ بنائے تھے۔ایک میں قدرے نرم شرائط تھیں اورایک میں انتہائی سخت۔ہماراخیال تھاکہ ہماری شرائط کوکبھی تسلیم نہیںکیا جائے گا اور ان پربحث ہوگی۔ہم ایک دن کاوقفہ لیں گے۔ دوسرے دن،میٹنگ میں نرم شرائط والاڈرافٹ رکھیں گے۔ ان پرمعمولی سی گفتگوکے بعد،قرضے کی رسمی اجازت ہوجائیگی۔ مگرآپ نے توسخت ترین شرائط والے معاہدے کوپڑھے بغیر ایک منٹ میں مان لیااوردستخط ہوگئے۔گورے کی اگلی باتیں حددرجہ تلخ تھیں۔ہمارے پاس کبھی کبھی بھارتی وفود بھی آتے ہیں۔
وہ درمیانے درجے کے ہوٹل میں قیام کرتے ہیں۔معمولی سے کپڑے پہنتے ہیں۔پوراوفد ٹیکسی پر آتا ہے۔ہمارے مسودے کے ہرنکتے پر بحث دربحث کرتے ہیں۔ہماری کسی شرط کوبھی آج تک من وعن تسلیم نہیں کیا۔ مذاکرات کئی ہفتے جاری رہتے ہیں۔بھارتی وفد کا سربراہ اپنے ملک کے اہم سرکاری لوگوں سے رابطے میں رہتا ہے۔ کئی بارتوہماراصبرجواب دے دیتاہے۔چارپانچ بارتوایسے بھی ہواکہ ہم تھکن سے چورچورہوگئے۔مگروہ لوگ بالکل چوکس رہے۔مگراس کے برعکس،پاکستان کاپورا وفد دبئی کے سب سے مہنگے ہوٹل میں ٹھہراہواہے۔اکثرکی بیگمات بھی ساتھ ہیں۔لگتاہے کہ پکنک کاسماں ہے۔آپ کے وزیرخزانہ دبئی کے مہنگے ترین علاقے میں ذاتی گھر میں قیام پذیر ہیں۔جب میٹنگ میں تشریف لاتے ہیں توان کالباس سب سے قیمتی ہوتاہے۔
ایسے لگتاہے کہ قرض لینے نہیں بلکہ دینے کے لیے آئے ہیں۔گوراکہنے لگاکہ ہم لوگ دانتوں میں انگلیاں دبالیتے ہیں جب پاکستانی کسی چوں چراں کے بغیر مشکل ترین شرائط پرقرض وصول کرلیتے ہیں۔ہمیں یہ بھی علم ہے کہ ہمارے دیے گئے ڈالروں میں کتناعوام پرلگتاہے اورکتناآپ کے ملکی رہنماؤں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ مگرہم خاموش رہتے ہیں۔اس لیے کہ آپ اپنے قیمتی ترین اثاثے ہمارے پاس گروی رکھ کرڈالرلیتے ہو۔ سینئر افسر نے اوربھی بہت سی باتیں کیں ، انھیں قلمبندنہیں کروں گا۔ مگروہ بھی حددرجہ ناقص اورادنیٰ ہیں۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت باربارکہتی ہے کہ سابقہ حکومتوں نے انتہائی نامناسب شرائط پرخطیرقرضہ لیا۔وہ یہ بھی اعلان کررہی ہے کہ سودکواداکرنے کے لیے مزیدقرضہ لینا مجبوری ہے۔چلیے،یہ بات دلیل کی بنیاد پرملک کا چند فیصد طبقہ مان لے گا۔مگرعوام کوتواس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انھیںتوروزمرہ کی تمام چیزیں مناسب نرخ پر چاہییں۔ انھیں توکوئی غرض نہیں کہ آئی ایم ایف یاورلڈبینک سے کس نے، کن شرائط پرقرض لیاتھا۔عام آدمی کوتواپنی ذاتی سہولتوں سے غرض ہے۔عام آدمی کایہ رویہ بالکل درست ہے۔
صرف یہ کہہ دیناکہ سابقہ حکومتوں نے ملک کوگروی رکھ دیا۔ بربادکردیا یا تباہ کردیا،اس بیانیے کے سچ ہونے اورغلط ہونے پربحث بے معنی ہے۔اصل نکتہ عوام کوہرصورت آسانیاں مہیا کرناہے۔اس میں ناکام ہونے کامطلب ناکامی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کونسالائحہ عمل اختیارکیاجائے،جس سے معاملات بہتری کی طرف چلناشروع کردیں۔اس میں ان ممالک کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے جو ہماری طرح قرضوں کے جال میں پھنسے اور پھر سرخروہوکرنکلے۔جنہوں نے پہلے قرضوں کوبالکل اسی طرح قبول کیاجیسے ہم کرتے تھے۔ پھر ان کی سیاسی قیادت نے سسٹم میں ایسے سیفٹی والوتشکیل دیے جن سے قرضوں کاحجم بھی کم ہوااورلوگوں کوآسانی بھی میسر ہوئی۔ جمیکا اس کی ایک مثال ہے۔ جمیکا نے تمام قرضوں کو پرکھنے اورجانچنے کیلیے ایک طاقتورکمیٹی بنائی تھی۔
جس میں قابل ترین قانون دان،ریٹائرڈجج،سول سوسائٹی کے نمائندے بلاامتیازشامل کیے گئے۔یہ کمیٹی ہرقرضے کے عمل کوتفصیل سے جانچنے کااختیاررکھتی تھی۔بالکل اسی طرزپرہمارے ہاں بھی بے داغ لوگوں پرمشتمل ایک طاقتوراقتصادی کمیٹی بنائی جائے جوماضی میں لیے گئے قرضوں کی بلاامتیاز اور غیرمتعصب چھان بین کرے ۔موجودہ قرضوں پربھی کڑی نظر رکھے۔ تحقیق کی بنیادپربتائے کہ پرانے قرضے کن ظالمانہ شرائط پر لیے گئے۔کس طرح سبسڈی کی افیم دیکران قرضوں سے اربوں روپے کی کمیشن حاصل کی گئیں۔ان میں کون کون سا اہم شخص اورگروہ شامل تھا۔جب تک ہم قرضہ جات کا بے رحم تجزیہ نہیں کرتے۔ ملک کا یہی حال رہے گا، عوام غیرمطمئن رہیںگے جب کہ امراء بھی خوش رہیںگے کیونکہ وہ تومال سمیٹ کرملک سے باہرآرام کی زندگی گزاررہے ہیں۔ ہو سکتاہے کہ اصل حقائق جاننے کے بعد،ہم اپنی سمت کودرست لیں! اس وقت توصرف اورصرف تقریری مقابلے،مناظرے ہو رہے ہیں۔ان سے لوگ متنفرہوچکے ہیں۔کوشش کریں کہ معاشی معاملات بہترہوجائیں۔اُمیدہے مگر ہلکی سی!