نیا ہلال ’’دیکھنا‘‘ کیوں ضروری آخری حصہ

یہ ماڈل چاندکی پیدائش کے دن یا اس سے اگلے دن کرہ ارض کو پانچ خطوں میں تقسیم کرتا ہے

بروئین وہ پہلا جدید فلکیات دان ہے جس نے جدید طبیعات کو اس معاملے میں پہلی دفعہ استعمال کیا۔ اس نے غروب آفتاب کے بعد شفق پر پھیلی روشنی اور ہلال کی اوسط چمک کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تجزیہ کیا کہ کس طرح وقت گزرنے کے ساتھ شفق کی روشنی کم ہوتی ہے اور ہلال کی چمک میں اضافہ ہوتا ہے، مگر بروئین کے اس تجزیہ میں ایک بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں شفق کی روشنی اور ہلال کی چمک دونوں ہی کی مقداریں نہ صرف یہ کہ اوسط لی تھیں اور وہ بھی صرف تخیلاتی نہ کہ مشاہداتی۔ مگر اس کے باوجود بروئین کا ماڈل اپنے وقت کا بہترین ماڈل سمجھا جاتا ہے۔

بروئین کے ماڈل کو بنیاد بنا کر Yallop, 1998 نے مشہور زمانہ ماڈل دیا جس کو بنیاد بناکرکچھ کمپیوٹر پروگرام بنا لیے گئے جن میں ڈاکٹر منظور احمد کا Moon Cal اور محمد شوکت عودہ کا Accurate Timeبہت مقبول ہوگئے۔ یالپ کے ماڈل ہی کی طرح کا ماڈل شوکت عمودہ اور راقم (جسے اپنے PhD مقالے میں بھی شامل کیا) نے بھی بنایا ۔ یاد رہے کہ بروئین کا ماڈل اوسط اور خیالی مقداروں کی بنیاد پر تھا اور یالپ اور عودہ کا بروئین کے تصورات پر مبنی۔ یعنی سونے پر سہاگہ۔ مزید برآں ان دونوں ماڈلز میں شماریاتی امکانیات کا استعمال ہو رہا ہے لہٰذا ان دونوں ماڈلز کی بنیادیں قطعیت سے بے بہرہ ہیں۔بات کو آگے لے جانے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یالپ اور عودہ کے ماڈلزکیا پیش کرتے ہیں؟ چونکہ دونوں ایک ہی طرح کے ماڈلز ہیں تو یالپ کا ماڈل کا بیان کافی ہوگا۔

یہ ماڈل چاندکی پیدائش کے دن یا اس سے اگلے دن کرہ ارض کو پانچ خطوں میں تقسیم کرتا ہے۔ حصہ A یا (''الف'' جو سبز رنگ میں ہے) جس کے مغرب میں ہلال کے نظر آنے کے واضح امکانات ہوں۔ دوسرا حصہ B یا (''ب'' جوکہ پیلے رنگ میں ہے) جوکہ گزشتہ حصہ کے مشرق شمال اور جنوب میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ اس میں ہلال کے نظر آنے کے امکانات اس صورت میں ہوں گے کہ اگر موسمی اور فضائی حالات ''نہایت سازگار'' ہوں۔ تیسرا حصہ C یا (''ج'' جو گلابی رنگ میں ہے) جو حصہ B کے مشرق شمال اور جنوب میں پھیلا ہوا ہوتا ہے اور اس میں ہلال کے نظر آنے کے لیے پہلے ٹیلی اسکوپ سے تلاش کرنا ہوگا پھر ممکن ہے کہ آنکھ سے دکھائی دے جائے۔

چوتھا حصہ D یا (''د'' جوکہ نیلے رنگ کا ہے) جو حصہ C کے مشرق شمال اور جنوب میں پھیلا ہوا ہوتا ہے میں ہلال کے نظر آنے کے لیے دوربین کا استعمال ضروری ہے۔ اور آخری حصہ E یا (''ڈ'' جو سفید ہے) جو حصہ D کے مشرق شمال اور جنوب میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ اس میں ہلال کے نظر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ مندرجہ ذیل جدول یالپ کے مقالے سے لیا گیا ہے جس میں q کی قیمت ہلال کے مرکز کی چوڑائی W اور ہلال کی غروب آفتاب کے وقت افق سے بلندی (جسے Arc of Vision یا ARCV کہا جاتا ہے) کی بنیاد پر نکالی جاتی ہے۔ اس کے لیے یہ فارمولا استعمال ہوتا ہے۔

q = (ARCV - (11.8371 - 6.3226 W' + 0.7319 W' 2 - 0.1018 W' 3) / 10

q کی قیمتوں کی بنیاد پر ہی اوپر بیان کیے گئے کرہ ارض کے حصوں کا تعین کیا جاتا ہے۔

Easily Visible

q > 0.216

(A)

Visible Under Perfect Conditions

0.216 < q < -0.014

(B)


May need Optical Aid to Find Crescent

-0.014 < q < -0.16

(C)

Will need Optical Aid to Find Crescent

-0.16 < q < -0.232

(D)

Not Visible with Telescope

q < -.232

(E)

کمپیوٹر پروگرام کرہ ارض کے ہر مقام (طول البلد اور عرض البلد) کے لیے کیوکی مقدار معلوم کرکے کیو کی مقدار کے حساب سے ایک رنگ بھر دیتا ہے۔ اس طرح کرہ ارض پانچ رنگوں سے رنگ جاتا ہے۔ اس طرح کے نقشوں کو Visibility Chart کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے نقشہ جات کی بنیاد محض امکانات پر مبنی ہے۔ حصہ الف جس میں ہلال آسانی سے نظر آنے کا کہا گیا ہے اس کے کناروں پر کئی علاقوں میں ایسا ہوچکا ہے کہ ہلال نظر نہیں آیا (مثال کے طور پر 4 جون 2008 کو پاکستان کو یہ ماڈل A دکھا رہا ہے مگر مطلع ابر آلود نہ ہونے کے باوجود پورے پاکستان میں ہلال نظر نہیں آیا)۔ پاکستان میں حصہ ب میں ہلال شاذ و ناظر ہی دکھائی دیا ہے جب کہ محکمہ موسمیات اور جامعۃالرشید کے سو سے زائد مراکز سے حصہ ج کا ہلال کبھی نہیں دیکھا گیا (اس میں خیبر پختونخوا کے متنازع حوالے شامل نہیں) بقیہ دنیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے کہ حصہ الف میں زیادہ تر ہلال نظر آتا ہے مگر ہر جگہ نہیں۔ حصہ ب میں نسبتاً کم نظر آتا ہے۔ حصہ ج میں کبھی کبھار مگر زیادہ تر نظر نہیں آتا۔ حصہ د میں کبھی کبھار ٹیلی اسکوپ سے دکھائی دے جاتا ہے مگر زیادہ تر نہیں۔راقم اسی وجہ سے صرف تین حصوں کا قائل ہے۔ ایک مغربی جس میں ہلال نظر آنے کا قوی امکان ہوتا ہے۔

ایک درمیانہ اور ایک مشرقی۔ مشرقی جس میں ہلال دکھائی نہیں دیتا اور درمیانہ جس میں امکانات تو ہیں مگر جب بھی آپکا علاقہ اس حصے میں ہو تو ضروری نہیں کہ آپ جہاں سے دیکھ رہے ہیں وہاں سے ہلال نظر آجائے مگر ملک کے کسی اور علاقے سے نظر آجائے چنانچہ اس صورت میں ہر خاص و عام کو کوشش کرنی چاہیے اور نظر آنے پر قاضی کے روبرو گواہی دینی چاہیے۔ اس درمیانے حصے میں پائی جانیوالی غیر یقینی کو Scheffer نے بہت حقیقی طبیعاتی ماڈل کے ذریعے واضح کر دیا ہے جسکے ماڈل میں مقامی درجہ حرارت، ہوا میں نمی کا تناسب، ایئرو سول کا شمار وغیرہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس ماڈل کی بنیاد پر شیفر نے ماضی کے مشاہدات کو کھنگالا اور غیر معمولی مشاہدات کی وجہ بیان کی جو حصہ ''ج'' اور ''د'' میں کیے گئے چنانچہ جدید طبیعات اور فلکیات کے مطابق ہلال نظر آنے میں ایک فطری غیر یقینی پائی جاتی ہے۔

جس طرح کا کیلنڈر ابھی حکومت وقت نے تیار کیا ہے ایسے کیلنڈر مختلف لوگ اور ادارے بناتے رہتے ہیں جن میں جامعۃ الرشید بھی شامل ہے اور راقم نے بھی بنایا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ اس پر عملدرآمد ممکن نہیں۔اب اگر میں قرآن اور اسکو ہم تک پہنچانے والے رسولؐ پر ایمان رکھتا ہوں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ آخر اس ذات پاکؐ نے اپنی امت سے کیوں کہا کہ چاند دیکھو تو رمضان شروع کرو اور چاند دیکھو تو ختم کرو۔ وجہ بالکل واضح ہے کسی بھی مقام سے ہلال کا دکھائی دینا ہر مہینے یقینی نہیں اور اس کا تعین تیقن کے ساتھ کیا بھی نہیں جاسکتا۔کسی بھی کیلنڈر کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد قطعیت پر مبنی ہو جیساکہ شمسی کیلنڈر میں ہوتی ہے اور ان قمری کیلنڈرز میں ہوتی ہے جو چاند کی پیدائش پر مبنی ہوں۔ پس ہلال کی رویت کا چونکہ پہلے سے قطعیت کے ساتھ تعین نہیں ہوسکتا تو براہ مہربانی سنت پاکؐ کو جاری رکھیے اور زبردستی رویت کے حساب سے کیلنڈر بنانے میں قوم کو نہ الجھائیے۔
Load Next Story