مودی کی دوبارہ جیت…پاک بھارت تعلقات میں برف پگھلے گی
امید ہے اب بھی ڈیڈلاک کا خاتمہ ہوگا، ماہرین امورخارجہ اورسیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارخیال
بھارت کے حالیہ انتخابات میں نریندر مودی ایک بار پھر جیت گئے۔ لوک سبھاکی 542 نشستوں میں سے بی جے پی کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے 350 نشستیں جیت کر فیصلہ کن برتری حاصل کی ۔ وزیراعظم عمران خان نے نریندر مودی کو بذریعہ ٹویٹر و ٹیلی فون مبارکباد پیش کی اور جنوبی ایشیاء کے امن، ترقی اور خوشحالی کیلئے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔
نریندر مودی اور بی جے پی کی اس جیت کے خطے ، کشمیر اور پاک بھارت تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس حوالے سے جاننے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(سیاسی تجزیہ نگار و ماہر امور خارجہ)
پاکستان اور بھارت کی70 سالہ سیاسی تاریخ ہے۔ بھارت میں ایک چائے بیچنے والا شخص سسٹم کے اندر رہتے ہوئے مقبول ترین لیڈر بن کر ابھرا جو جمہوریت کی بہترین مثال ہے تاہم ہمارے ملک میں یہ تصور محال ہے۔نریندر مودی کی جیت کے حوالے سے بات کریں تو دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے کس نعرے پر الیکشن لڑا۔ ان کا نعرہ تھا ''مودی ہے تو ممکن ہے''۔ سوال یہ ہے کہ کیا ممکن ہے؟ ''ممکن ہے پاکستان پر دباؤ ڈالنا اور اسے تنہا کرنا''۔ مودی نے اپنے 5 سالہ دور میں اقتصادی پالیسیوں پر بات نہیں کی اور نہ ہی اسے انتخابی مہم کا حصہ بنایا بلکہ ان کا بیانیہ تھا کہ بھارت کو پاکستان سے خطرہ ہے لہٰذاپاکستان کو سبق سکھانا ہے۔ پاکستان اور مسلم دشمنی ان کی رگ رگ میں ہے لہٰذا آئندہ 5 برس بھی وہ اس سے باہر نکلتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔
مودی نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا کہ آئین کا آرٹیکل 370کو تبدیل کرکے کشمیر کی آزاد حیثیت کو ختم کردیں گے۔ بھارت کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بارہا کوشش کرچکا ہے جس میں اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ مودی اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جس سے نقصان ہوگا۔ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس سے تحریک میں شدت پیدا ہوگی۔ مودی نے اگر اب اپنا بیانیہ تبدیل کرنے کی کوشش کی تو اسے شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا جس طرح امریکی صدر ٹرمپ اپنے انتخابی وعدے پورے کر رہے ہیں، اسی طرح مودی بھی وعدے وفا کرنے کی کوشش کریں گے جس سے خطے میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ بھارت کو اپنا اقتصادی ترقی کا خواب پورا کرنے کیلئے خطے میں امن چاہیے۔
مودی ماسوائے پاکستان کے دنیا کے ہر ملک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کے حوالے سے ان کی پالیسی تبدیل ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ دنیا بھارت کی بات سنتی ہے اور اسے سنجیدگی سے لیتی ہے۔ چین، روس، امریکا و دیگر ممالک کے ساتھ بھارت کے معاشی تعلقات ہیں جنہیں وہ مزید فروغ دینا چاہتا ہے۔امریکا افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتا ہے اور افغانستان میں ایسی پر امن حکومت بن جاتی ہے جس میں طالبان حصہ ہوں تو بھارت کیلئے ہمارے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی سہولت ختم ہوجائے گی جو ہمارے لیے بہتر ہوگا۔ نریندر مودی کا پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ناممکن نظر آتا ہے۔
مودی کی جیت ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے، وہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی مزید کوشش کرے گا لہٰذا ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سیاسی و اقتصادی استحکام کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ہماری اقتصادیات کمزور ہیں اور ان حالات میں دنیا ہمارا موقف نہیں سنے گی۔ ہم نے ہر ملک کے ساتھ امداد کے حصول کیلئے تعلقات قائم کیے۔ افسوس ہے کہ ہماری قیادت نے ملک کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے تو دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیاب جنگ لڑی مگر دنیا میں اسے درست انداز سے پیش نہیں کیا جاسکا۔ بھارت کی سیاسی قیادت قومی مفادات کی خاطر ایک ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر من حیث القوم ملکی بہتری کیلئے کام کرنا ہوگا۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار )
بھارت میں بہت بڑے انتخابات ہوئے اور دنیا نے انہیں جمہوریت کی فتح گردانا۔ الیکشن سے پہلے اور انتخابی عمل کے دوران کی صورتحال کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ بھارت جمہوریت کے بجائے شخصی ڈکٹیٹر شپ کی جانب بڑھ رہا ہے کیونکہ انتخابات میں نریندر مودی کی شخصیت نمایاں تھی اور سیاسی اتحاد بھی صرف بی جے پی کے گرد گھوم رہا تھا۔ شیو سینا و دیگر تمام ایسی جماعتوں کے ساتھ بی جے پی کا اتحاد تھا جو بابری مسجد جیسے سانحات میں ملوث ہیں۔ بھارت کے حالیہ انتخابات میں صرف سیاسی فلسفہ نہیں تھا بلکہ اس میں مذہبی انتہا پسندی کو ملا دیا گیا جو نہ صرف دنیا بلکہ خود بھارت کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔ انہیں 345نشستیں تو مل گئیں مگر تامل ناڈو میں علیحدگی پسندوں نے حملہ کیا جس میں ایم ایل اے سمیت 11 افراد جاں بحق ہو گئے۔
میرے نزدیک مودی کے آنے سے بھارت کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی بلکہ جیسے گزشتہ 5 برسوں میں حکومت چلائی گئی، اب بھی ویسے ہی چلے گی۔بھارت ایک ایسا ملک ہے جس میں ہر چیز استعمال ہوتی ہے اور دنیا کے وہاں مفادات ہیں۔ حالیہ انتخابات سے پہلے بھارت میں 200 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آئی۔الیکشن سے ایک ماہ قبل ممبئی کے بکیز نے کہہ دیا تھا بے جی پی جیتے گی اور نریندر مودی ہی اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ دنیا بھر میں موجود بھارت کے اپنے سرمایہ داروں اور عالمی سرمایہ داروں کی نظر بھی بھارتی مارکیٹ پر ہے۔
جو لیڈر دوبارہ منتخب ہوجائے، اسے دنیا زیادہ طاقتور تصور کرتی ہے اور اس سے بزنس کوفائدہ ہوتا ہے لہٰذا مودی کی جیت میں بھارتی کارپوریٹ سیکٹر کا ہاتھ بھی شامل ہے۔ عالمی طاقتیں کاروبار کرتی ہیں اور ان کے مالی مفادات ہوتے ہیں لہٰذا اب امریکا اور روس بھارت کو مزید ہتھیار بیچیں گے اور وہاں اسلحہ فیکٹریاں بھی لگائی جائیں گی۔ مودی ملکی سکیورٹی اور ترقی کا نعرہ لگا کر انتخابات جیتے۔ پہلے بھی ان کا یہی نعرہ تھا مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ان کی ساری توجہ ہندووآتہ کو فروغ دینے پر رہی۔ اس وقت اسرائیل اور بھارت میں ایک جیسی صورتحال ہے، امریکا ان کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ فلسطین اور کشمیر میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔
مودی کے آنے سے پاکستان کیلئے مسائل پیدا ہوں گے، خطے میں کشیدگی بڑھے گی جبکہ وہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔ بھارت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا، اس کی وجہ سے ہمیں پشتون موومنٹ، بلوچستان میں مسائل اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی صورت میں مزید مسائل کا سامنا کرنے پڑسکتاہے، یہ اجیت دوول کا ادھورا ایجنڈہ ہے جس پر کام جاری ہے، بھارت ہمارے ملک میں مسائل پیدا کر رہا ہے۔ بھارت کشمیر میں جو کر رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
عمران خان نے کہا تھا کہ بی جے پی آئے گی تو مسئلہ کشمیر کے حل میں پیش رفت ہوگی میرے نزدیک بی جے پی مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ بھارت کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کو ختم کرنا چاہتا ہے تاہم اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار داد موجود ہے کہ کشمیر کو کسی ملک میں ضم نہیں کیا جاسکتا۔ اب بی جے پی کے پاس قانون میں ترمیم کرنے کیلئے اکثریت موجود ہے، اسے ہندووآتہ کی تمام جماعتوں کی سپورٹ حاصل ہے لہٰذا وہ کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ انتخابات سے پہلے ہی کشمیر میں 35ہزار اضافی فورس لگا دی گئی۔
وہاں تو 4 امیدوار بھی کھڑے نہیں ہوئے تھے تو اس فوج کا مقصد کیا ہے؟ یہ کشمیر کے ساتھ چھیڑ خانی کی کوشش کے باعث آنے والے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر لگائی گئی ہے۔ معیشت مودی کی ترجیح نہیں وہ اپنے فلسفے پر عمل پیرا رہیں گے۔ بھارت کا جی ڈی پی ریٹ پہلے ہی بہتر ہے جبکہ کہا جا رہا ہے کہ 2020ء میں بھارت تیسری بڑی معاشی طاقت ہوگا۔اپوزیشن کی آوازیں حالیہ انتخابات میں دب کر رہ گئیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو بھارت میں جمہوریت کا خاتمہ ہوجائے گا اورمودی کا ''ون مین شو'' خطے کیلئے نقصاندہ ہوگا۔
محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ )
پاک بھارت تعلقات گزشتہ 70 برسوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں ، کبھی بات چیت شروع ہوتی ہے اور کبھی ڈیڈ لاک آجاتا ہے لہٰذا آئندہ بھی تعلقات ایسے ہی چلتے رہیں گے کوئی تبدیلی نہیںآئے گی۔ذوالفقار علی بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے مگر نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اسی طرح کبھی اعلان لاہور ہوا، کبھی آگرہ اور جے پور میں بات چیت ہوئی۔ اس طرح کے معاملات اب بھی چلیں گے لیکن یہ تصور کرنا کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا یا دونوں ممالک کے مابین مثالی تعلقات قائم ہوجائیں گے ، ایسا ممکن نہیں ہے۔ نریندر مودی نے صرف 7 مسلمانوں کو انتخابی ٹکٹ دیے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی انہوں نے 7 مسلمانوں کو ٹکٹ دیے اور دونوں مرتبہ یہ تمام مسلمان الیکشن ہار گئے۔ کانگریس نے گزشتہ الیکشن میں 35 مسلمانوں کو ٹکٹ دیے جبکہ اس مرتبہ 31 کو ٹکٹ دیے گئے۔
شکیل احمد کو بہار سے ٹکٹ نہیں دی حالانکہ ان کے دادا، والد اور خود وہ بھی دو مرتبہ الیکشن جیت چکے ہیں۔ راہول گاندھی نے انہیں کہا کہ دراصل میں نہیں چاہتا کہ ہندو ووٹ تقسیم ہو۔ میں نے راہول گاندھی سے ملاقات میں محسوس کیا کہ وہ ابھی وزیراعظم بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ میرے نزدیک نریندر مودی کی جیت کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے مقابلے کا لیڈر نہیں تھا۔ دوسری وجہ اپوزیشن اتحاد تھا، جو کہنے کو تو اتحاد تھا مگر وہ ایک دوسرے کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ راہول گاندھی جب بنگال گئے تو انہوں نے مودی کے بجائے ممتا بینر جی کے خلاف زیادہ تقاریر کیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ بنگال جیسی ریاست میں بی جے پی 8 نشستیں جیت گئی۔ راہول گاندھی امیٹھی کی نشست ہار گئے حالانکہ یہ وہ نشست ہے جس پر راجیو گاندھی نے اپنے دوست امیتابھ بچن کو کھڑا کیا اور وہ جیت گئے۔ اس مرتبہ 25 مسلمان الیکشن جیتے ہیں جس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاراشٹرا جیسے صوبے سے مسلمان جیتے ہیں ۔
یہاں مسلمانوں کا اتحاد دلتوں کے ساتھ ہوا۔ مسلم مخالف معاملہ صرف مودی کے ساتھ نہیں بلکہ اس مرتبہ کانگریس نے بھی مسلمانوں کو زیادہ ٹکٹ نہیں دیے۔دہلی کانگریس لیڈ ران نے راہول گاندھی کو خط لکھا کہ کم از کم ایک نشست مسلمانوں کو دیں۔ انہوں نے منع کردیا کہ یہ ان کی سیاست کیلئے نقصاندہ ہوگا ۔ 18کروڑ مسلمانوں والے ملک بھارت کی اسمبلی میں پہلے 29 فیصد مسلمان تھے تاہم اب کہا جا رہا ہے کہ صرف 5 فیصد مسلمان اسمبلی میں ہوں گے۔ یہ خوفناک صورتحال ہے اور وہاں کے اخبارات میں لکھا جارہا ہے کہ مسلمان کہاں غلطی کر رہے ہیں؟ کیا انہیں دوبارہ 1947ء والی سیاست کی جانب جانا ہوگا؟یہ معاملات آنے والے وقت میں مزید خراب ہوں گے۔ کشمیر کے حوالے سے قانون میں تبدیلی مودی کا انتخابی نعرہ نہیں تھا بلکہ یہ بی جے پی کے منشور کا حصہ ہے، اس کی مخالفت محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی کر چکے ہیں لہٰذا مودی کو کشمیر میں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مودی کے الیکشن جیتنے سے پاک بھارت تعلقات میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوگا۔
سفارتکاری میں خاموشی سب سے بڑی زبان ہوتی ہے۔ ہمیں یہ زبان استعمال کرنی چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے کہ بھارت کیا کرتا ہے۔ بھارت کا مسئلہ صرف پاکستان سے نہیں بلکہ چین، برما، بنگلہ دیش، سری لنکا و دیگر ممالک سے بھی ہے، اور دنیا یہ سب دیکھ رہی ہے۔کیا وہ ان مسائل کو کم کرنے کی کوشش کریں گے؟ میرے نزدیک مودی کی پالیسی میں لچک کی گنجائش نہیں لہٰذاپاکستان کو سوچ سمجھ کر، احتیاط کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ امریکا یہ کوشش کرے گا کہ بھارت پر دباؤ ڈالے اور اسے جنگی سازو سامان بیچے۔ بھارت کو امریکا کے لیے اپنی مارکیٹ وسیع کرنی پڑے گی۔ عالمی مارکیٹ انتظار کر رہی ہے کہ 350 ارب ڈالر کے بھارتی فارن ریزرو میں سے کب حصہ ملتا ہے۔ بھارت کو دنیا کے دیگر ممالک سے بھی جنگی ہتھیار خریدنے پڑیں گے اور اب ہم دیکھیں گے کہ جن ہتھیاروں کا ذکر مودی کرتے رہے وہ خریدے جائیں گے۔
دیوان غلام محی الدین
( رکن قانون ساز اسمبلی آزاد و جموں کشمیر )
سرجیکل سٹرائیک کی کوشش پر پاکستان نے بھارت کو جس انداز میں منہ توڑ جواب دیا اس سے مودی کو سمجھ آگئی تھی کہ ہم ہر طرح سے تیار ہیں اور پھر اس نے دانشمندانہ طریقے سے خود کو بچایا تاہم دوبارہ الیکشن جیتنے کے باوجود مودی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے راہ راست پر نہیں آئے گا، اس کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی لہٰذا پاکستان کو بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہنا ہوگا۔اسرائیل اور امریکا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں خدانخواستہ شام جیسی صورتحال پیدا کی جائے۔ اگر بھارت اور پاکستان لڑتے ہیں تو فائدہ اسرائیل اور امریکا کو ہے۔ ان کا اسلحہ و دیگر سامان بکے گا اور معیشت بہتر ہوگی۔
ہمارے ایٹم بم کی وجہ سے دنیا خوفزدہ ہے اور بھارت بھی اسی لیے ہمت نہیں کرتا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو واضح کردیا تھا کہ ہم جنگ میں تو جاسکتے ہیں مگر اس میں واپسی کا راستہ نہیں ہوگا، ہم نے بھارتی پائلٹ بھی رہا کیا اور کشیدگی کم کرنے میں دنیا نے ہمارے کردار کی تعریف کی۔ بھارت نے شروع سے ہی ہمیں نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا لہٰذا اب بھی اس سے اچھائی کی امید نہیں کی جاسکتی۔
ہمسائے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اس وقت ملک کی سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہے، ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں، مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔ پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ ہمیں اپنے معاشی حالات پر توجہ دینا ہوگی اور حل کیلئے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان کا بین الاقوامی موقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے۔ مسلمان ممالک میں سب سے بہترین اور غیرتمندانہ موقف پاکستان کا ہوتا ہے۔ ہم مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اور خطے کے مسائل بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں تاکہ غربت و دیگر مسائل کا خاتمہ ہو۔
سلمان عابد
(تجزیہ نگار )
یہ پہلے سے ہی واضح تھا کہ نریندر مودی ہی جیتیں گے مگر بحث یہ تھی کہ وہ بھاری اکثریت حاصل کرسکیں گے یا مخلوط حکومت بنے گی ۔ بہت سارے سیاسی پنڈت یہ کہہ رہے تھے کہ علاقائی جماعتیں، بی جے پی اور کانگریس کی حکومت بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔ان تمام جماعتوں کا جادو نہیں چل سکا جبکہ مودی کے بیانیے کو پذیرائی ملی۔ 2014ء میں جب نریندر مودی الیکشن جیتے تو خیال یہ تھا کہ وہ گجرات ماڈل پر بھارت کی ترقی چاہتے ہیں اور ان کا ماڈل معاشی ہے مگر بدقسمتی سے ان کا معاشی ماڈل ہندووآتہ کی سیاست میں تبدیل ہوگیا جس سے بھارت میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔ کشمیر کے تناظر میں بھی مودی نے جس قسم کا لب و لہجہ اختیار کیا تھا اس پر بھی ان کے خلاف مزاحمت پائی جاتی تھی مگر یہ اختلاف انتخابات کے نتائج میں نظر نہیں آیا۔
حالیہ بھارتی الیکشن سیکولر قوتوں اور ہندووآتہ کے درمیان تھا اور بھارتی عوام نے ہندووآتہ کو ووٹ دیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد اب مودی کے پاس دو آپشنز ہیں، ایک یہ کہ وہ الیکشن والے بیانیے کو لے کر آگے بڑھیں، ہندووآتہ کو فروغ دیں، پاکستان مخالف اقدامات کریں، پاکستان پر دباؤ بڑھائیں اور مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کے بجائے طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں، ایسا کرنے سے خطے میں کشیدگی ہوگی، جس کا نقصان خود بھارت کو بھی ہوگا۔ مودی کے پاس دوسری آپشن یہ ہے کہ وہ امن کو فروغ دیں اور بات چیت سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ خوش آئند ہے کہ بھارت میں مخلوط حکومت نہیںبنی۔ اگر مخلوط حکومت بنتی تو نہ صرف بھارت کے اندر مسئلہ ہوتا بلکہ پاک بھارت تعلقات میں بھی مزید مشکلات پیدا ہوتی لہٰذا اب اگر مودی چاہیں تو دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں نئی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ مودی دوسری مرتبہ وزیراعظم بن رہے ہیں لہٰذا ان کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ اس خطے کے امن و ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔ مودی نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں اپنے سیاسی مخالفین، پاکستان یا کشمیر مخالف کوئی بات نہیں کی بلکہ معیشت و مقامی مسائل پر بات کی، میرے نزدیک یہ مثبت آغاز ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے نریندر مودی کو مبارکباد دی جس کا انہوں نے مثبت انداز میں جواب دیا لہٰذا بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ میرا عرصہ دراز سے یہ تجزیہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہونے کے دو عوامل ہوں گے، ایک مضبوط بھارتی حکومت اور دوسرایہ کہ بی جے پی برسر اقتدار ہوگی۔ گزشتہ 70برسوں میں جب بھی بی جے پی برسر اقتدار آئی تو معاملات بہتری کی جانب گئے۔ عمران خان و دیگر سیاستدانوں نے کہا تھا کہ بھارتی انتخابات کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیں۔ اب انتخابات ہوچکے لہٰذا معاملات بہتری کی جانب بڑھیں گے۔ مودی نے کہا ہے کہ وہ علاقائی سیاست میں استحکام چاہتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں پاک بھارت ڈیڈلاک کا خاتمہ کرنا ہوگا، کشمیر کے حوالے سے سوچ تبدیل کرنا ہوگی اور نفرت پر مبنی سیاست کا داغ دھونا ہوگا۔سارک جیسے فورمز کو بھارت لیڈ کرتا ہے، اگر وہاں سے خطے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بہتر ہوگا۔ امریکا بھی سمجھ رہا تھا کہ انتخابات سے پہلے کچھ نہیں ہوسکے گا، دونوں ممالک پر تعلقات بہتر کرنے کیلئے عالمی دباؤ ہے۔
پاکستان تو اپنا کردار ادا کر رہا ہے مگر بھارت نہیں، اب چونکہ انتخابات ہوچکے ہیں لہٰذا عالمی طاقتیں مزید کردار ادا کریں گی۔ بھارت اور پاکستان دونوں سے ہی ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں جن سے سیکھتے ہوئے مستقبل کی جانب بڑھنا ہوگا۔ کانگریس و علاقائی جماعتوںکا ایجنڈا پاکستان مخالف نہیں ہے، انہوں نے انتخابی مہم میں ایسی کوئی بات نہیں کی لہٰذا اگر مودی مخالف جذبات ابھارنے کی کوشش کریں گے تو مسائل پیدا ہوں گے۔ اب گیند مودی کے کورٹ میں ہے،دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی ماضی کی سیاست کرتی ہے یا رویہ تبدیل کرکے خطے کی بہتری کیلئے کام کرتی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے آئین میں تبدیلی کے معاملے سے مودی کو گریز کرنا چاہیے، اس سے نفرت پیدا ہوگی اور خطے کو نقصان ہوگا۔
نریندر مودی اور بی جے پی کی اس جیت کے خطے ، کشمیر اور پاک بھارت تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس حوالے سے جاننے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر اعجاز بٹ
(سیاسی تجزیہ نگار و ماہر امور خارجہ)
پاکستان اور بھارت کی70 سالہ سیاسی تاریخ ہے۔ بھارت میں ایک چائے بیچنے والا شخص سسٹم کے اندر رہتے ہوئے مقبول ترین لیڈر بن کر ابھرا جو جمہوریت کی بہترین مثال ہے تاہم ہمارے ملک میں یہ تصور محال ہے۔نریندر مودی کی جیت کے حوالے سے بات کریں تو دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے کس نعرے پر الیکشن لڑا۔ ان کا نعرہ تھا ''مودی ہے تو ممکن ہے''۔ سوال یہ ہے کہ کیا ممکن ہے؟ ''ممکن ہے پاکستان پر دباؤ ڈالنا اور اسے تنہا کرنا''۔ مودی نے اپنے 5 سالہ دور میں اقتصادی پالیسیوں پر بات نہیں کی اور نہ ہی اسے انتخابی مہم کا حصہ بنایا بلکہ ان کا بیانیہ تھا کہ بھارت کو پاکستان سے خطرہ ہے لہٰذاپاکستان کو سبق سکھانا ہے۔ پاکستان اور مسلم دشمنی ان کی رگ رگ میں ہے لہٰذا آئندہ 5 برس بھی وہ اس سے باہر نکلتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔
مودی نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا کہ آئین کا آرٹیکل 370کو تبدیل کرکے کشمیر کی آزاد حیثیت کو ختم کردیں گے۔ بھارت کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بارہا کوشش کرچکا ہے جس میں اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ مودی اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے جس سے نقصان ہوگا۔ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس سے تحریک میں شدت پیدا ہوگی۔ مودی نے اگر اب اپنا بیانیہ تبدیل کرنے کی کوشش کی تو اسے شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہٰذا جس طرح امریکی صدر ٹرمپ اپنے انتخابی وعدے پورے کر رہے ہیں، اسی طرح مودی بھی وعدے وفا کرنے کی کوشش کریں گے جس سے خطے میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ بھارت کو اپنا اقتصادی ترقی کا خواب پورا کرنے کیلئے خطے میں امن چاہیے۔
مودی ماسوائے پاکستان کے دنیا کے ہر ملک کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کے حوالے سے ان کی پالیسی تبدیل ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ دنیا بھارت کی بات سنتی ہے اور اسے سنجیدگی سے لیتی ہے۔ چین، روس، امریکا و دیگر ممالک کے ساتھ بھارت کے معاشی تعلقات ہیں جنہیں وہ مزید فروغ دینا چاہتا ہے۔امریکا افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتا ہے اور افغانستان میں ایسی پر امن حکومت بن جاتی ہے جس میں طالبان حصہ ہوں تو بھارت کیلئے ہمارے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی سہولت ختم ہوجائے گی جو ہمارے لیے بہتر ہوگا۔ نریندر مودی کا پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ناممکن نظر آتا ہے۔
مودی کی جیت ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے، وہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کی مزید کوشش کرے گا لہٰذا ہمیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر سیاسی و اقتصادی استحکام کیلئے کام کرنا ہوگا۔ ہماری اقتصادیات کمزور ہیں اور ان حالات میں دنیا ہمارا موقف نہیں سنے گی۔ ہم نے ہر ملک کے ساتھ امداد کے حصول کیلئے تعلقات قائم کیے۔ افسوس ہے کہ ہماری قیادت نے ملک کو معاشی طور پر خود مختار بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم نے تو دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیاب جنگ لڑی مگر دنیا میں اسے درست انداز سے پیش نہیں کیا جاسکا۔ بھارت کی سیاسی قیادت قومی مفادات کی خاطر ایک ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر من حیث القوم ملکی بہتری کیلئے کام کرنا ہوگا۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار )
بھارت میں بہت بڑے انتخابات ہوئے اور دنیا نے انہیں جمہوریت کی فتح گردانا۔ الیکشن سے پہلے اور انتخابی عمل کے دوران کی صورتحال کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ بھارت جمہوریت کے بجائے شخصی ڈکٹیٹر شپ کی جانب بڑھ رہا ہے کیونکہ انتخابات میں نریندر مودی کی شخصیت نمایاں تھی اور سیاسی اتحاد بھی صرف بی جے پی کے گرد گھوم رہا تھا۔ شیو سینا و دیگر تمام ایسی جماعتوں کے ساتھ بی جے پی کا اتحاد تھا جو بابری مسجد جیسے سانحات میں ملوث ہیں۔ بھارت کے حالیہ انتخابات میں صرف سیاسی فلسفہ نہیں تھا بلکہ اس میں مذہبی انتہا پسندی کو ملا دیا گیا جو نہ صرف دنیا بلکہ خود بھارت کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔ انہیں 345نشستیں تو مل گئیں مگر تامل ناڈو میں علیحدگی پسندوں نے حملہ کیا جس میں ایم ایل اے سمیت 11 افراد جاں بحق ہو گئے۔
میرے نزدیک مودی کے آنے سے بھارت کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی بلکہ جیسے گزشتہ 5 برسوں میں حکومت چلائی گئی، اب بھی ویسے ہی چلے گی۔بھارت ایک ایسا ملک ہے جس میں ہر چیز استعمال ہوتی ہے اور دنیا کے وہاں مفادات ہیں۔ حالیہ انتخابات سے پہلے بھارت میں 200 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری آئی۔الیکشن سے ایک ماہ قبل ممبئی کے بکیز نے کہہ دیا تھا بے جی پی جیتے گی اور نریندر مودی ہی اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ دنیا بھر میں موجود بھارت کے اپنے سرمایہ داروں اور عالمی سرمایہ داروں کی نظر بھی بھارتی مارکیٹ پر ہے۔
جو لیڈر دوبارہ منتخب ہوجائے، اسے دنیا زیادہ طاقتور تصور کرتی ہے اور اس سے بزنس کوفائدہ ہوتا ہے لہٰذا مودی کی جیت میں بھارتی کارپوریٹ سیکٹر کا ہاتھ بھی شامل ہے۔ عالمی طاقتیں کاروبار کرتی ہیں اور ان کے مالی مفادات ہوتے ہیں لہٰذا اب امریکا اور روس بھارت کو مزید ہتھیار بیچیں گے اور وہاں اسلحہ فیکٹریاں بھی لگائی جائیں گی۔ مودی ملکی سکیورٹی اور ترقی کا نعرہ لگا کر انتخابات جیتے۔ پہلے بھی ان کا یہی نعرہ تھا مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ ان کی ساری توجہ ہندووآتہ کو فروغ دینے پر رہی۔ اس وقت اسرائیل اور بھارت میں ایک جیسی صورتحال ہے، امریکا ان کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ فلسطین اور کشمیر میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔
مودی کے آنے سے پاکستان کیلئے مسائل پیدا ہوں گے، خطے میں کشیدگی بڑھے گی جبکہ وہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش بھی کرے گا۔ بھارت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا، اس کی وجہ سے ہمیں پشتون موومنٹ، بلوچستان میں مسائل اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی صورت میں مزید مسائل کا سامنا کرنے پڑسکتاہے، یہ اجیت دوول کا ادھورا ایجنڈہ ہے جس پر کام جاری ہے، بھارت ہمارے ملک میں مسائل پیدا کر رہا ہے۔ بھارت کشمیر میں جو کر رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
عمران خان نے کہا تھا کہ بی جے پی آئے گی تو مسئلہ کشمیر کے حل میں پیش رفت ہوگی میرے نزدیک بی جے پی مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ بھارت کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کو ختم کرنا چاہتا ہے تاہم اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار داد موجود ہے کہ کشمیر کو کسی ملک میں ضم نہیں کیا جاسکتا۔ اب بی جے پی کے پاس قانون میں ترمیم کرنے کیلئے اکثریت موجود ہے، اسے ہندووآتہ کی تمام جماعتوں کی سپورٹ حاصل ہے لہٰذا وہ کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ انتخابات سے پہلے ہی کشمیر میں 35ہزار اضافی فورس لگا دی گئی۔
وہاں تو 4 امیدوار بھی کھڑے نہیں ہوئے تھے تو اس فوج کا مقصد کیا ہے؟ یہ کشمیر کے ساتھ چھیڑ خانی کی کوشش کے باعث آنے والے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر لگائی گئی ہے۔ معیشت مودی کی ترجیح نہیں وہ اپنے فلسفے پر عمل پیرا رہیں گے۔ بھارت کا جی ڈی پی ریٹ پہلے ہی بہتر ہے جبکہ کہا جا رہا ہے کہ 2020ء میں بھارت تیسری بڑی معاشی طاقت ہوگا۔اپوزیشن کی آوازیں حالیہ انتخابات میں دب کر رہ گئیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو بھارت میں جمہوریت کا خاتمہ ہوجائے گا اورمودی کا ''ون مین شو'' خطے کیلئے نقصاندہ ہوگا۔
محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ )
پاک بھارت تعلقات گزشتہ 70 برسوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں ، کبھی بات چیت شروع ہوتی ہے اور کبھی ڈیڈ لاک آجاتا ہے لہٰذا آئندہ بھی تعلقات ایسے ہی چلتے رہیں گے کوئی تبدیلی نہیںآئے گی۔ذوالفقار علی بھٹو اور سورن سنگھ کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے مگر نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اسی طرح کبھی اعلان لاہور ہوا، کبھی آگرہ اور جے پور میں بات چیت ہوئی۔ اس طرح کے معاملات اب بھی چلیں گے لیکن یہ تصور کرنا کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا یا دونوں ممالک کے مابین مثالی تعلقات قائم ہوجائیں گے ، ایسا ممکن نہیں ہے۔ نریندر مودی نے صرف 7 مسلمانوں کو انتخابی ٹکٹ دیے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی انہوں نے 7 مسلمانوں کو ٹکٹ دیے اور دونوں مرتبہ یہ تمام مسلمان الیکشن ہار گئے۔ کانگریس نے گزشتہ الیکشن میں 35 مسلمانوں کو ٹکٹ دیے جبکہ اس مرتبہ 31 کو ٹکٹ دیے گئے۔
شکیل احمد کو بہار سے ٹکٹ نہیں دی حالانکہ ان کے دادا، والد اور خود وہ بھی دو مرتبہ الیکشن جیت چکے ہیں۔ راہول گاندھی نے انہیں کہا کہ دراصل میں نہیں چاہتا کہ ہندو ووٹ تقسیم ہو۔ میں نے راہول گاندھی سے ملاقات میں محسوس کیا کہ وہ ابھی وزیراعظم بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ میرے نزدیک نریندر مودی کی جیت کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے مقابلے کا لیڈر نہیں تھا۔ دوسری وجہ اپوزیشن اتحاد تھا، جو کہنے کو تو اتحاد تھا مگر وہ ایک دوسرے کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ راہول گاندھی جب بنگال گئے تو انہوں نے مودی کے بجائے ممتا بینر جی کے خلاف زیادہ تقاریر کیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ بنگال جیسی ریاست میں بی جے پی 8 نشستیں جیت گئی۔ راہول گاندھی امیٹھی کی نشست ہار گئے حالانکہ یہ وہ نشست ہے جس پر راجیو گاندھی نے اپنے دوست امیتابھ بچن کو کھڑا کیا اور وہ جیت گئے۔ اس مرتبہ 25 مسلمان الیکشن جیتے ہیں جس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مہاراشٹرا جیسے صوبے سے مسلمان جیتے ہیں ۔
یہاں مسلمانوں کا اتحاد دلتوں کے ساتھ ہوا۔ مسلم مخالف معاملہ صرف مودی کے ساتھ نہیں بلکہ اس مرتبہ کانگریس نے بھی مسلمانوں کو زیادہ ٹکٹ نہیں دیے۔دہلی کانگریس لیڈ ران نے راہول گاندھی کو خط لکھا کہ کم از کم ایک نشست مسلمانوں کو دیں۔ انہوں نے منع کردیا کہ یہ ان کی سیاست کیلئے نقصاندہ ہوگا ۔ 18کروڑ مسلمانوں والے ملک بھارت کی اسمبلی میں پہلے 29 فیصد مسلمان تھے تاہم اب کہا جا رہا ہے کہ صرف 5 فیصد مسلمان اسمبلی میں ہوں گے۔ یہ خوفناک صورتحال ہے اور وہاں کے اخبارات میں لکھا جارہا ہے کہ مسلمان کہاں غلطی کر رہے ہیں؟ کیا انہیں دوبارہ 1947ء والی سیاست کی جانب جانا ہوگا؟یہ معاملات آنے والے وقت میں مزید خراب ہوں گے۔ کشمیر کے حوالے سے قانون میں تبدیلی مودی کا انتخابی نعرہ نہیں تھا بلکہ یہ بی جے پی کے منشور کا حصہ ہے، اس کی مخالفت محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی کر چکے ہیں لہٰذا مودی کو کشمیر میں شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مودی کے الیکشن جیتنے سے پاک بھارت تعلقات میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوگا۔
سفارتکاری میں خاموشی سب سے بڑی زبان ہوتی ہے۔ ہمیں یہ زبان استعمال کرنی چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے کہ بھارت کیا کرتا ہے۔ بھارت کا مسئلہ صرف پاکستان سے نہیں بلکہ چین، برما، بنگلہ دیش، سری لنکا و دیگر ممالک سے بھی ہے، اور دنیا یہ سب دیکھ رہی ہے۔کیا وہ ان مسائل کو کم کرنے کی کوشش کریں گے؟ میرے نزدیک مودی کی پالیسی میں لچک کی گنجائش نہیں لہٰذاپاکستان کو سوچ سمجھ کر، احتیاط کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ امریکا یہ کوشش کرے گا کہ بھارت پر دباؤ ڈالے اور اسے جنگی سازو سامان بیچے۔ بھارت کو امریکا کے لیے اپنی مارکیٹ وسیع کرنی پڑے گی۔ عالمی مارکیٹ انتظار کر رہی ہے کہ 350 ارب ڈالر کے بھارتی فارن ریزرو میں سے کب حصہ ملتا ہے۔ بھارت کو دنیا کے دیگر ممالک سے بھی جنگی ہتھیار خریدنے پڑیں گے اور اب ہم دیکھیں گے کہ جن ہتھیاروں کا ذکر مودی کرتے رہے وہ خریدے جائیں گے۔
دیوان غلام محی الدین
( رکن قانون ساز اسمبلی آزاد و جموں کشمیر )
سرجیکل سٹرائیک کی کوشش پر پاکستان نے بھارت کو جس انداز میں منہ توڑ جواب دیا اس سے مودی کو سمجھ آگئی تھی کہ ہم ہر طرح سے تیار ہیں اور پھر اس نے دانشمندانہ طریقے سے خود کو بچایا تاہم دوبارہ الیکشن جیتنے کے باوجود مودی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے راہ راست پر نہیں آئے گا، اس کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی لہٰذا پاکستان کو بھی اپنے موقف پر ڈٹے رہنا ہوگا۔اسرائیل اور امریکا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں خدانخواستہ شام جیسی صورتحال پیدا کی جائے۔ اگر بھارت اور پاکستان لڑتے ہیں تو فائدہ اسرائیل اور امریکا کو ہے۔ ان کا اسلحہ و دیگر سامان بکے گا اور معیشت بہتر ہوگی۔
ہمارے ایٹم بم کی وجہ سے دنیا خوفزدہ ہے اور بھارت بھی اسی لیے ہمت نہیں کرتا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارت کو واضح کردیا تھا کہ ہم جنگ میں تو جاسکتے ہیں مگر اس میں واپسی کا راستہ نہیں ہوگا، ہم نے بھارتی پائلٹ بھی رہا کیا اور کشیدگی کم کرنے میں دنیا نے ہمارے کردار کی تعریف کی۔ بھارت نے شروع سے ہی ہمیں نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا لہٰذا اب بھی اس سے اچھائی کی امید نہیں کی جاسکتی۔
ہمسائے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ اس وقت ملک کی سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہے، ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں، مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔ پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ معیشت ہے۔ ہمیں اپنے معاشی حالات پر توجہ دینا ہوگی اور حل کیلئے کام کرنا ہوگا۔ پاکستان کا بین الاقوامی موقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے۔ مسلمان ممالک میں سب سے بہترین اور غیرتمندانہ موقف پاکستان کا ہوتا ہے۔ ہم مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اور خطے کے مسائل بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں تاکہ غربت و دیگر مسائل کا خاتمہ ہو۔
سلمان عابد
(تجزیہ نگار )
یہ پہلے سے ہی واضح تھا کہ نریندر مودی ہی جیتیں گے مگر بحث یہ تھی کہ وہ بھاری اکثریت حاصل کرسکیں گے یا مخلوط حکومت بنے گی ۔ بہت سارے سیاسی پنڈت یہ کہہ رہے تھے کہ علاقائی جماعتیں، بی جے پی اور کانگریس کی حکومت بنانے میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گی۔ان تمام جماعتوں کا جادو نہیں چل سکا جبکہ مودی کے بیانیے کو پذیرائی ملی۔ 2014ء میں جب نریندر مودی الیکشن جیتے تو خیال یہ تھا کہ وہ گجرات ماڈل پر بھارت کی ترقی چاہتے ہیں اور ان کا ماڈل معاشی ہے مگر بدقسمتی سے ان کا معاشی ماڈل ہندووآتہ کی سیاست میں تبدیل ہوگیا جس سے بھارت میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔ کشمیر کے تناظر میں بھی مودی نے جس قسم کا لب و لہجہ اختیار کیا تھا اس پر بھی ان کے خلاف مزاحمت پائی جاتی تھی مگر یہ اختلاف انتخابات کے نتائج میں نظر نہیں آیا۔
حالیہ بھارتی الیکشن سیکولر قوتوں اور ہندووآتہ کے درمیان تھا اور بھارتی عوام نے ہندووآتہ کو ووٹ دیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد اب مودی کے پاس دو آپشنز ہیں، ایک یہ کہ وہ الیکشن والے بیانیے کو لے کر آگے بڑھیں، ہندووآتہ کو فروغ دیں، پاکستان مخالف اقدامات کریں، پاکستان پر دباؤ بڑھائیں اور مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل کے بجائے طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں، ایسا کرنے سے خطے میں کشیدگی ہوگی، جس کا نقصان خود بھارت کو بھی ہوگا۔ مودی کے پاس دوسری آپشن یہ ہے کہ وہ امن کو فروغ دیں اور بات چیت سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ خوش آئند ہے کہ بھارت میں مخلوط حکومت نہیںبنی۔ اگر مخلوط حکومت بنتی تو نہ صرف بھارت کے اندر مسئلہ ہوتا بلکہ پاک بھارت تعلقات میں بھی مزید مشکلات پیدا ہوتی لہٰذا اب اگر مودی چاہیں تو دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں نئی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ مودی دوسری مرتبہ وزیراعظم بن رہے ہیں لہٰذا ان کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ اس خطے کے امن و ترقی میں اہم کردار ادا کریں۔ مودی نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں اپنے سیاسی مخالفین، پاکستان یا کشمیر مخالف کوئی بات نہیں کی بلکہ معیشت و مقامی مسائل پر بات کی، میرے نزدیک یہ مثبت آغاز ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے نریندر مودی کو مبارکباد دی جس کا انہوں نے مثبت انداز میں جواب دیا لہٰذا بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔ میرا عرصہ دراز سے یہ تجزیہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہونے کے دو عوامل ہوں گے، ایک مضبوط بھارتی حکومت اور دوسرایہ کہ بی جے پی برسر اقتدار ہوگی۔ گزشتہ 70برسوں میں جب بھی بی جے پی برسر اقتدار آئی تو معاملات بہتری کی جانب گئے۔ عمران خان و دیگر سیاستدانوں نے کہا تھا کہ بھارتی انتخابات کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیں۔ اب انتخابات ہوچکے لہٰذا معاملات بہتری کی جانب بڑھیں گے۔ مودی نے کہا ہے کہ وہ علاقائی سیاست میں استحکام چاہتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں پاک بھارت ڈیڈلاک کا خاتمہ کرنا ہوگا، کشمیر کے حوالے سے سوچ تبدیل کرنا ہوگی اور نفرت پر مبنی سیاست کا داغ دھونا ہوگا۔سارک جیسے فورمز کو بھارت لیڈ کرتا ہے، اگر وہاں سے خطے کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ بہتر ہوگا۔ امریکا بھی سمجھ رہا تھا کہ انتخابات سے پہلے کچھ نہیں ہوسکے گا، دونوں ممالک پر تعلقات بہتر کرنے کیلئے عالمی دباؤ ہے۔
پاکستان تو اپنا کردار ادا کر رہا ہے مگر بھارت نہیں، اب چونکہ انتخابات ہوچکے ہیں لہٰذا عالمی طاقتیں مزید کردار ادا کریں گی۔ بھارت اور پاکستان دونوں سے ہی ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں جن سے سیکھتے ہوئے مستقبل کی جانب بڑھنا ہوگا۔ کانگریس و علاقائی جماعتوںکا ایجنڈا پاکستان مخالف نہیں ہے، انہوں نے انتخابی مہم میں ایسی کوئی بات نہیں کی لہٰذا اگر مودی مخالف جذبات ابھارنے کی کوشش کریں گے تو مسائل پیدا ہوں گے۔ اب گیند مودی کے کورٹ میں ہے،دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی ماضی کی سیاست کرتی ہے یا رویہ تبدیل کرکے خطے کی بہتری کیلئے کام کرتی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے آئین میں تبدیلی کے معاملے سے مودی کو گریز کرنا چاہیے، اس سے نفرت پیدا ہوگی اور خطے کو نقصان ہوگا۔