آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے لیے اصلاحات اپنانی ہوں گی

موجودہ قرض کو آخری قرض بنانے کیلیے ماضی کے تجربات اور دیگر ملکوں سے سبق لینا ہوگا


منظور احمد June 03, 2019
 ماضی کی پالیسیاں جاری رہیں تو اس پروگرام کے اختتام پر ہم اسی صورتحال سے دوچار ہوں گے فوٹو: فائل

عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ڈیل اسٹاف کی سطح پر فائنل ہوچکی ہے مگر پچھلے 9 ماہ کے دوران پاکستان کے تذبذب اور ہچکچاہٹ نے معیشت کو تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ اس عرصے کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو تقریباً نصف ہوچکی ہے، افراط زر دگنا ہوگیا ہے اور اہم کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ ایک چوتھائی قدر کھوچکا ہے۔

اگر حکومت بروقت فیصلہ کرلیتی تو ان تمام مسائل سے بچا جاسکتا تھا۔ اب حکومت کو دوسری بڑی آزمائش کا سامنا ہے، اس میں کامیابی یا ناکامی کے سنجیدہ مضمرات کی حامل ہوگی۔ اگلے 39 ماہ کے لیے آئی ایم ایف کا 6.6 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج مختصر مدتی حل ہے۔ طویل المدت نتائج کے لیے حکومت کو ایک جامع پلان اور دیگر ممالک کے تجربات سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ماضی میں لیے گئے پروگراموں میں سے بھی حکومت رہنمائی لے سکتی ہے۔ اگرچہ پچھلے 60 برس میں دو درجن سے زائد بار آئی ایم ایف سے رجوع کیا گیا مگر پروگرام کے سائز کے اعتبار سے پچھلے 3 پروگرام ہی قابل موازنہ ہیں جو الگ الگ حکومتوں نے لیے تھے۔ یہ پروگرام بالترتیب 2001، 2008، اور 2013 لیے گئے تھے۔

ان میں سے کوئی بھی پروگرام طویل المدت معاشی استحکام فراہم نہیں کرسکا تھا اور ان کی کامیابی کی سطح بھی مختلف رہی تھی۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال سے 1991 کے انڈیا کی مثال زیادہ قریب ہے۔ 1991 میں انڈیا سنگین معاشی بحران کا شکار تھا۔ منجمد برآمدات اور بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے مالیاتی خسارہ بے حد بلند ہوچکا تھا۔ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے انڈیا کو اپنے سونے کے تمام ذخائر گروی رکھنے پڑے اور 2.2 ارب ڈالر کا قرضہ لینے کے لیے آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرنی پڑیں۔ اس کے بعد سے انڈیا نے اصلاحاتی سفر شروع کیا۔ دروں بینی کے بجائے مرکز گریز اپروچ اختیار کی۔ 2000ء میں عالمی تجارتی تنظیم کے قواعد اپنائے جس سے اصلاحاتی عمل میں مدد ملی۔ مثال کے طور پر انڈیا نے آٹو ڈیلیشن پالیسیاں ختم کردیں جس کی وجہ سے انڈسٹری مسابقت کی پوزیشن میں آتی چلی گئی۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں بھارت کی برآمدات 1992 کے 25 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2018 میں 500 ارب ڈالر ہوگئیں۔

اس کے زرمبادلہ کے ذخائر اب 420 ارب ڈالر کی سطح پر ہیں۔ پاکستان کو بھی اسی صورتحال کا سامنا ہے جو انڈیا کو 1991 میں درپیش تھی۔ اگر ہم نے وہی پالیسیاں جاری رکھیں جو پچھلے دو پروگرام لینے کے بعد جاری تھیں تو پھر اس پروگرام کے اختتام پر بھی ہم اسی صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ اگر ہم اس قرض کو آئی ایم ایف سے لیا گیا آخری قرضہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر بڑھتی ہوئی درآمدات اور خسارے میں چلنے والے ریاستی اداروں کا مسئلہ حل کرنا ہوگا جو ہمارے وسائل پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں