شام پر فوری امریکی حملے میں رکاوٹ

شام کے بحران کے حوالے سے صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور عالمی سطح پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے.

شام کے خلاف فوجی کارروائی کے حوالے سے متضاد رائے سامنے آ رہی ہے. فوٹو: رائٹرز/ فائل

شام کے بحران کے حوالے سے صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور عالمی سطح پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے، شام کے خلاف فوجی کارروائی کے حوالے سے متضاد رائے سامنے آ رہی ہے، پاکستان نے کہا ہے کہ شام کی خود مختاری کا احترام کیا جانا چاہیے۔ سلامتی کونسل میں شام پر حملے کی امریکی قرارداد، جس کے پیشکاروں میں برطانیہ اور فرانس بھی شامل تھے، منظور نہ ہو سکی۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ انھوں نے ابھی تک شام کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تاہم مستقبل میں محدود پیمانے پر کارروائی کافی ہو گی۔ پی بی ایس نیوز آور میں گفتگوکرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ شامی حکومت دمشق کے نواحی علاقے غوطہ پر کیے جانے والے کیمیائی حملے میں ملوث ہے تاہم ابھی شام پر حملے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ شام کے خلاف فوجی کارروائی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو خطرناک ثابت کرنے میں اہم پیغام ثابت ہو گی۔ امریکی ایوان نمایندگان کے اسپیکرجان بوئیز نے اوباما کے نام اپنے ایک خط میں کہا ہے کہ صدر اوباما شام میں کسی بھی فوجی کارروائی کے لیے قانونی جواز اور فوجی حملے کی وضاحت کریں۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ عالمی برادی کی ذمے داری ہے کہ وہ شامی حکومت کے خلاف اس صورت میں بھی کارروائی کریں اگر اقوامِ متحدہ میں اتفاقِ رائے نہیں ہوتا۔ تاہم برطانوی حکومت کو ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے شام کے خلاف فوجی کارروائی منصوبے کا حصہ بننے کے حوالے سے سخت مخالفت کا سامنا ہے، وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے طلب کردہ پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس اور ووٹنگ کے دوران صرف 9 فیصد ارکان نے شام پر حملے کی حمایت کی۔


برطانوی دارالعوام اور نیشنل سیکیورٹی کونسل نے اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر شام پر فوجی ایکشن کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ یو این ماہرین کی تحقیقات کا انتظار کیا جائے۔ برطانوی اپوزیشن لیڈر ڈیوڈ ملی بینڈ نے کہا ہے حکومت کو شام میں کسی قسم کی ممکنہ فوجی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے۔ مغربی میڈیا کے مطابق برطانیہ میں شام پر ممکنہ حملے کے خلاف بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی رہائشگاہ کے باہر جمع ہو گئے جنہوں نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ دوسری طرف معلوم ہوا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور فرانس نے صدر بشارالاسد کو 'سبق سکھانے' کے لیے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔ بعض حلقے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ شاید چار پانچ روز میں شام پر حملہ کر دیا جائے تاہم ویٹی کن سٹی کا کہنا ہے کہ شام کے مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میرپیوٹن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کرتے ہوئے شام کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کو روکنے کے لیے متحدہ موقف کی تائید کی ہے۔ ایرانی آرمی چیف حسن فیروزآبادی نے کہا ہے کہ شام پر حملہ اسرائیل کو جلا دے گا اور امریکا، برطانیہ اور ان کے اتحادیوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں فوجی مداخلت کے مطالبات اقوام متحدہ کے منشور کے لیے کھلم کھلا چیلنج ہے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے مغرب کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس شام پر حملہ کرنے کے لیے کوئی جواز نہیں ہے، امریکا اور اس کے مغربی اتحادی شام کے معاملے پر جج، جیوری اور جلاد کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ادھر شامی صدر بشارالاسد نے کہا ہے کہ کسی بھی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کرینگے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل اور مغربی ممالک کی حمایت یافتہ دہشتگردی کو ختم کر دینگے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شام کے خلاف ممکنہ کارروائی کے لیے امریکا نے اپنا پانچواں بحری بیڑا بھی بحیرہ روم بھیج دیا ہے۔

جب کہ برطانیہ نے مزید چھ جنگی طیارے شام کے ساحلی علاقے کے قریب فوجی اڈے پر بھیج دیے ہیں۔ جواب میں شام کی سرکاری افواج نے ممکنہ امریکی حملے کے پیش نظر 'کیمو فلاج' کی غرض سے اپنی پوزیشنیں تبدیل کرنا شروع کر دی ہیں۔ اور اسرائیل نے بھی اپنا میزائل دفاعی سسٹم الرٹ کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شام میں زہریلی گیس کی تحقیقات کرنیوالی ٹیم ہفتے کو اپنا کام مکمل کر کے واپس چلی جائے گی، جس کے بعد ٹیم مجھے رپورٹ پیش کرے گی۔ ٹیم کی جانب سے لائے جانے والے شواہد کو سلامتی کونسل کے رکن ممالک سامنے پیش کیا جائیگا اور اس کا جائزہ لیا جائیگا۔ بان کی مون نے کہا کہ میں نے کل امریکی صدر بارک اوباما سے رابطہ کر کے کہا تھا کہ شام پر حملے کی تیاری روک دی جائے اور اس سلسلے میں شروع کی گئی سرگرمیاں بھی بند کی جائیں۔ ادھر او آئی سی نے کیمیائی حملوں کی مذمت کی ہے اور حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے اس کے جواب میں فیصلہ کن کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
Load Next Story