قسم قسم کے وارلارڈز
ٹیلی ویژن اسکرینوں پر اپنے حکمرانوں کے چہرے دیکھ کر قطعاً احساس نہیں ہوتا کہ پاکستان کسی قسم کے بحران سے دوچار ہے۔
ٹیلی ویژن اسکرینوں پر اپنے حکمرانوں کے چمکتے دمکتے اور مسکراتے چہرے دیکھ کر قطعاً احساس نہیں ہوتا کہ پاکستان کسی قسم کے بحران سے دوچار ہے۔ قیامت کی گرمی اور حبس میں پینٹ کوٹ یا شلوار سوٹ پر واسکٹ پہنے پاکستان کے خوش و خرم حکمران کراچی' بلوچستان اور فاٹا میں امن قائم کرنے کے لیے ائرکنڈیشنڈ کمروں میں کانفرنسوں پر کانفرنسیں کر رہے ہیں۔عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کاشغر سے گوادر تک ریلوے لائن بچھانے کے معاہدے ہو رہے ہیں' کراچی سے لاہور تک موٹر وے کی نوید سنائی جا رہی ہے' افغانستان کے ساتھ ریل رابطے کی خوشخبریاں ہیں اور بجلی کے ہوشربا منصوبے ہیں' ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں اور روشنیوں کا سماں ہے۔
ادھر حالت یہ ہے کہ خزانے میں پیسے نہیں، پہلے سے موجود ریلوے دم آخریں پہ ہے، بجلی کمپنیوں کو ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑا' ابھی مزید قرضہ لینا ہے' قرض دینے والے پریشان ہیں کہ مزید ادھار دیا تو واپس کیسے لیں گے۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے' پلے نہیں دھیلا' کر دی میلہ میلہ (جیب میں پیسے نہیں اور میلہ دیکھنے کی ضد کر رہی ہے) یہ محاورہ شاید پاکستان جیسے ملکوں کے لیے ہی بنا ہے۔ ملک میں لشکر پر لشکر بن رہے ہیں' فاٹا میں طالبان کے نام سے پہلے ہی ایک لشکر تیار ہے' بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی ہے' اب کراچی میں مہاجر لبریشن آرمی بننے کی خوشخبری بھی سامنے آئی ہے' پنجاب میں لشکر طیبہ' لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان نامی لشکر پہلے سے موجود ہیں' رہ گیا سندھ وہاں سے بھی کوئی لشکر اٹھ کھڑا ہو گا ورنہ کچے کے علاقے میں ڈاکو تو موجود ہی ہیں۔ ایسے حالات میں کہاں کی ریلوے لائنیں' کیسی موٹر ویز اور کونسے بجلی کے منصوبے لیکن آفرین ہے حکمرانوں پر کہ وہ اس سارے فساد اور زوال سے بے نیاز منصوبے پر منصوبے بنا رہے ہیں۔
ہمارے شمال مغربی ہمسائے افغانستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہاں کی شاہراہ پر کسی کی دو کنال زمین بھی تھی تو اس نے کلاشنکوف پکڑی اور رکاوٹ کھڑی کر کے راہداری ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا۔ میرے ایک جاننے والے جو ان دنوں بھی افغانستان جایا کرتے تھے' بتاتے ہیں کہ طورخم سے کابل تک بعض جگہیں ایسی بھی آتی تھیں جہاں دو تین فرلانگ کے فاصلے پر کئی راہداری پوائنٹ ہوتے تھے' کار سوار یا ٹرک والا ایک پوائنٹ پر گاڑی کھڑی کر کے پیدل چلتا اور باری باری ان وار لارڈز کو راہداری ٹیکس ادا کرتا، پھر واپس گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوتا کہ کون چند گز کے فاصلے پر گاڑی روکے اور ٹیکس ادا کرتا پھرے۔
یہ افغانستان میں لشکروں کے عروج کا زمانہ تھا' سوویت فوجیں واپس جا چکی تھیں، ڈاکٹر نجیب کی حکومت ختم ہو چکی تھی، احمد شاہ مسعود' حکمت یار' دو ستم اور نجانے کون کون سے خود ساختہ کمانڈر آپس میں لڑ رہے تھے اور بیچارے عام افغان ان لشکروں کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے تھے' ہر طرف لوٹ مار جاری تھی' کوئی حکومت تھی نہ آئین اور قانون' پولیس تھی نہ مجسٹریٹ و کمشنر حضرات اور نہ ہی فوج موجود تھی' جس کے جو جی میں آتا' وہ کر رہا تھا' ہر کمانڈر حاکم تھا اور اس کے لشکر کا ہر سپاہی تھانیدار۔ ایسا دور کبھی دہلی اور لاہور میں بھی آیا تھا جب یہاں پہلے نادر شاہ افشار اور بعد میں احمد شاہ ابدالی کے لشکروں نے لوٹ مار کی تھی' بابا وارث شاہ کے کلام اور میر تقی میر کی آپ بیتی میں اس پر آشوب دور کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے، کسی جان محفوظ نہ عزت اور مال۔ خاکم بدہن پاکستان میں ایسے حالات نہیں ہیں، اﷲ کرے کبھی نہ ہوں لیکن دماغ کے کسی گوشے میں خوف ضرور محسوس ہوتا ہے۔ دور کیوں جائیں' میں خود جانتا ہوں کہ لاہور سے چالیس پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر آباد دیہات میں شام ڈھلے گھروں سے نکلنا آسان نہیں ہے'چور ڈاکو گھات لگائے ہوتے ہیں، ایسے میں رات کے وقت گھر سے جو نکلتا ہے' پورا بندوبست کر کے باہر آتا ہے۔ یعنی اسلحہ اور محافظ ساتھ لے کر نکلتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک گائوں میں فوتیدگی ہوئی' وہاں تدفین میں شرکت کے لیے منڈی بہاء الدین سے 15بیس مرد و خواتین ایک کوچ میں آئے' تدفین مغرب کے بعد تھی' رات کوئی 9 بجے کے قریب یہ سارے لوگ کوچ میں بیٹھے اور واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے' اس گائوں سے ملتان روڈ تک کا فاصلہ تقریباً تین چار کلو میٹر ہے' کچا پکا راستہ ہے، ارد گرد کوئی آبادی نہیں کھیت ہی کھیت ہیں' آدھے راستے میں ڈاکوئوں نے کوچ کو روکا اور سب کو لوٹ لیا۔ یوں یہ سارے سوگوار لٹ لٹا کر اپنے گھروں کو پہنچے۔ پولیس والے بھی بیچارے کیا کریں' انھیں معلوم تو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن علاقے کے با اثر چوہدری کچھ کرنے نہیں دیتے۔ یہ چوہدری اور سردار بھی ایک طرح سے وار لارڈز کی ہی ایک شکل ہوتے ہیں۔ پنجاب میں تقریباً ہر رکن اسمبلی اپنے علاقے میں تھانیداراپنی مرضی کا لگواتا ہے' اس معاملے میں سیاستدان تو بدنام ہیں ہی' آج کل کئی صحافی بھی اتنے با اثر ہیں کہ اپنی مرضی کے پولیس افسر لگواتے ہیں' اگر کوئی رکن اسمبلی وزیر بن گیا ہے تو وہ اپنے علاقے میں تھانیدار کے ساتھ ساتھ تحصیلدار اور پٹواری بھی اپنی مرضی کے لگواتا ہے۔ یہ سرکاری اہلکار اپنے سرپرستوں کا ہر حکم مانتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حکم عدولی کی سزا معطلی یا تبادلہ ہوتا ہے۔
کسی زمانے میں سیاستدانوں کے رشتے دار' بیٹے بیٹیاں سرکاری نوکریاں نہیں کرتے تھے بلکہ اسے معیوب سمجھا جاتا تھا' لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اب ایک بھائی پولیس افسر ہے تو دوسرا رکن اسمبلی یا وزیر ہے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور میں تعینات ایک ڈی سی او بلوچستان کے با اثر قوم پرست سیاستدان کا قریبی عزیز تھا' اگر کوئی تحقیق کرے تو وہ حیران رہ جائے کہ افسر شاہی میں کون کس کا بھائی' بیٹا' داماد' بھانجا یا بھتیجا موجود ہے۔ عدلیہ اور فوج میں بھی سیاستدانوں نے رشتہ داریاں پیدا کر لی ہیں۔ اب اشرافیہ نے عام آدمی کے لیے ترقی اور آگے بڑھنے کے دروازے بند کر دیے ہیں کیونکہ سیاستدان بھی وہی ہیں اور صنعتکار بھی وہی' رکن اسمبلی اور وزیر بھی وہی ہیں۔ سرکاری افسر بھی وہی' اب تو ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کسی محکمے میں مالی یا چوکیدار کی سیٹ خالی ہوئی تو اس کے سربراہ نے یہاں بھی دور پار کے کسی غریب اور بے روزگار شخص کو بھرتی کرا دیا کہ چلو ویلے پھرنے سے بہتر ہے کہ سرکاری خزانے سے وظیفہ ملتا رہے یعنی جس کا جہاں دائو لگ رہا ہے' وہ کوئی رعایت نہیں کر رہا ہے۔
اس ملک میں تو اب بھیک مانگنا بھی مشکل ہو گیا ہے، بھکاریوں کو پولیس پکڑ لیتی ہے اور ان سے رشوت لے کر چھوڑ دیتی ہے، پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پولیس بھکاری سے بھی رشوت لیتی ہے۔ چمچماتی کاروں میں بیٹھی بیگمات سے کوئی بھکاری فریاد کرے تو وہ بے نیازی سے کہتی ہے کہ ہٹے کٹے ہو، کوئی کام کیوں نہیں کرتے حالانکہ وہ خود بھی کوئی کام نہیں کرتی، صرف حکم چلانا جانتی ہے۔ زندگی کے تاریک پہلو سے نا آشنا حکمران کلاس نے پاکستان کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں جنوبی وزیرستان گیا تھا' سرا روغہ میں ایک مقامی قبائلی نے میرے کان میں کہا کہ طالبان نے بہت ظلم کیے ہوں گے لیکن انھوں نے ایک اچھا کام کیا ہے کہ سارے قبائلی مشران اور ملکان ختم کر دیے کیونکہ انھوں نے عام قبائلیوں کے لیے ترقی کے مواقع ختم کر دیے تھے۔ اﷲ نہ کرے پاکستان میں بھی عوام ظلم کے قیامت خیز حبس میں لو کی دعا مانگنے پر مجبور ہو جائیں۔
ادھر حالت یہ ہے کہ خزانے میں پیسے نہیں، پہلے سے موجود ریلوے دم آخریں پہ ہے، بجلی کمپنیوں کو ادائیگی کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا پڑا' ابھی مزید قرضہ لینا ہے' قرض دینے والے پریشان ہیں کہ مزید ادھار دیا تو واپس کیسے لیں گے۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے' پلے نہیں دھیلا' کر دی میلہ میلہ (جیب میں پیسے نہیں اور میلہ دیکھنے کی ضد کر رہی ہے) یہ محاورہ شاید پاکستان جیسے ملکوں کے لیے ہی بنا ہے۔ ملک میں لشکر پر لشکر بن رہے ہیں' فاٹا میں طالبان کے نام سے پہلے ہی ایک لشکر تیار ہے' بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی ہے' اب کراچی میں مہاجر لبریشن آرمی بننے کی خوشخبری بھی سامنے آئی ہے' پنجاب میں لشکر طیبہ' لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان نامی لشکر پہلے سے موجود ہیں' رہ گیا سندھ وہاں سے بھی کوئی لشکر اٹھ کھڑا ہو گا ورنہ کچے کے علاقے میں ڈاکو تو موجود ہی ہیں۔ ایسے حالات میں کہاں کی ریلوے لائنیں' کیسی موٹر ویز اور کونسے بجلی کے منصوبے لیکن آفرین ہے حکمرانوں پر کہ وہ اس سارے فساد اور زوال سے بے نیاز منصوبے پر منصوبے بنا رہے ہیں۔
ہمارے شمال مغربی ہمسائے افغانستان میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب وہاں کی شاہراہ پر کسی کی دو کنال زمین بھی تھی تو اس نے کلاشنکوف پکڑی اور رکاوٹ کھڑی کر کے راہداری ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا۔ میرے ایک جاننے والے جو ان دنوں بھی افغانستان جایا کرتے تھے' بتاتے ہیں کہ طورخم سے کابل تک بعض جگہیں ایسی بھی آتی تھیں جہاں دو تین فرلانگ کے فاصلے پر کئی راہداری پوائنٹ ہوتے تھے' کار سوار یا ٹرک والا ایک پوائنٹ پر گاڑی کھڑی کر کے پیدل چلتا اور باری باری ان وار لارڈز کو راہداری ٹیکس ادا کرتا، پھر واپس گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوتا کہ کون چند گز کے فاصلے پر گاڑی روکے اور ٹیکس ادا کرتا پھرے۔
یہ افغانستان میں لشکروں کے عروج کا زمانہ تھا' سوویت فوجیں واپس جا چکی تھیں، ڈاکٹر نجیب کی حکومت ختم ہو چکی تھی، احمد شاہ مسعود' حکمت یار' دو ستم اور نجانے کون کون سے خود ساختہ کمانڈر آپس میں لڑ رہے تھے اور بیچارے عام افغان ان لشکروں کے درمیان سینڈوچ بنے ہوئے تھے' ہر طرف لوٹ مار جاری تھی' کوئی حکومت تھی نہ آئین اور قانون' پولیس تھی نہ مجسٹریٹ و کمشنر حضرات اور نہ ہی فوج موجود تھی' جس کے جو جی میں آتا' وہ کر رہا تھا' ہر کمانڈر حاکم تھا اور اس کے لشکر کا ہر سپاہی تھانیدار۔ ایسا دور کبھی دہلی اور لاہور میں بھی آیا تھا جب یہاں پہلے نادر شاہ افشار اور بعد میں احمد شاہ ابدالی کے لشکروں نے لوٹ مار کی تھی' بابا وارث شاہ کے کلام اور میر تقی میر کی آپ بیتی میں اس پر آشوب دور کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے، کسی جان محفوظ نہ عزت اور مال۔ خاکم بدہن پاکستان میں ایسے حالات نہیں ہیں، اﷲ کرے کبھی نہ ہوں لیکن دماغ کے کسی گوشے میں خوف ضرور محسوس ہوتا ہے۔ دور کیوں جائیں' میں خود جانتا ہوں کہ لاہور سے چالیس پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر آباد دیہات میں شام ڈھلے گھروں سے نکلنا آسان نہیں ہے'چور ڈاکو گھات لگائے ہوتے ہیں، ایسے میں رات کے وقت گھر سے جو نکلتا ہے' پورا بندوبست کر کے باہر آتا ہے۔ یعنی اسلحہ اور محافظ ساتھ لے کر نکلتا ہے۔
پچھلے دنوں ایک گائوں میں فوتیدگی ہوئی' وہاں تدفین میں شرکت کے لیے منڈی بہاء الدین سے 15بیس مرد و خواتین ایک کوچ میں آئے' تدفین مغرب کے بعد تھی' رات کوئی 9 بجے کے قریب یہ سارے لوگ کوچ میں بیٹھے اور واپس جانے کے لیے روانہ ہوئے' اس گائوں سے ملتان روڈ تک کا فاصلہ تقریباً تین چار کلو میٹر ہے' کچا پکا راستہ ہے، ارد گرد کوئی آبادی نہیں کھیت ہی کھیت ہیں' آدھے راستے میں ڈاکوئوں نے کوچ کو روکا اور سب کو لوٹ لیا۔ یوں یہ سارے سوگوار لٹ لٹا کر اپنے گھروں کو پہنچے۔ پولیس والے بھی بیچارے کیا کریں' انھیں معلوم تو بہت کچھ ہوتا ہے لیکن علاقے کے با اثر چوہدری کچھ کرنے نہیں دیتے۔ یہ چوہدری اور سردار بھی ایک طرح سے وار لارڈز کی ہی ایک شکل ہوتے ہیں۔ پنجاب میں تقریباً ہر رکن اسمبلی اپنے علاقے میں تھانیداراپنی مرضی کا لگواتا ہے' اس معاملے میں سیاستدان تو بدنام ہیں ہی' آج کل کئی صحافی بھی اتنے با اثر ہیں کہ اپنی مرضی کے پولیس افسر لگواتے ہیں' اگر کوئی رکن اسمبلی وزیر بن گیا ہے تو وہ اپنے علاقے میں تھانیدار کے ساتھ ساتھ تحصیلدار اور پٹواری بھی اپنی مرضی کے لگواتا ہے۔ یہ سرکاری اہلکار اپنے سرپرستوں کا ہر حکم مانتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حکم عدولی کی سزا معطلی یا تبادلہ ہوتا ہے۔
کسی زمانے میں سیاستدانوں کے رشتے دار' بیٹے بیٹیاں سرکاری نوکریاں نہیں کرتے تھے بلکہ اسے معیوب سمجھا جاتا تھا' لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ اب ایک بھائی پولیس افسر ہے تو دوسرا رکن اسمبلی یا وزیر ہے۔ کچھ عرصہ قبل لاہور میں تعینات ایک ڈی سی او بلوچستان کے با اثر قوم پرست سیاستدان کا قریبی عزیز تھا' اگر کوئی تحقیق کرے تو وہ حیران رہ جائے کہ افسر شاہی میں کون کس کا بھائی' بیٹا' داماد' بھانجا یا بھتیجا موجود ہے۔ عدلیہ اور فوج میں بھی سیاستدانوں نے رشتہ داریاں پیدا کر لی ہیں۔ اب اشرافیہ نے عام آدمی کے لیے ترقی اور آگے بڑھنے کے دروازے بند کر دیے ہیں کیونکہ سیاستدان بھی وہی ہیں اور صنعتکار بھی وہی' رکن اسمبلی اور وزیر بھی وہی ہیں۔ سرکاری افسر بھی وہی' اب تو ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کسی محکمے میں مالی یا چوکیدار کی سیٹ خالی ہوئی تو اس کے سربراہ نے یہاں بھی دور پار کے کسی غریب اور بے روزگار شخص کو بھرتی کرا دیا کہ چلو ویلے پھرنے سے بہتر ہے کہ سرکاری خزانے سے وظیفہ ملتا رہے یعنی جس کا جہاں دائو لگ رہا ہے' وہ کوئی رعایت نہیں کر رہا ہے۔
اس ملک میں تو اب بھیک مانگنا بھی مشکل ہو گیا ہے، بھکاریوں کو پولیس پکڑ لیتی ہے اور ان سے رشوت لے کر چھوڑ دیتی ہے، پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پولیس بھکاری سے بھی رشوت لیتی ہے۔ چمچماتی کاروں میں بیٹھی بیگمات سے کوئی بھکاری فریاد کرے تو وہ بے نیازی سے کہتی ہے کہ ہٹے کٹے ہو، کوئی کام کیوں نہیں کرتے حالانکہ وہ خود بھی کوئی کام نہیں کرتی، صرف حکم چلانا جانتی ہے۔ زندگی کے تاریک پہلو سے نا آشنا حکمران کلاس نے پاکستان کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں جنوبی وزیرستان گیا تھا' سرا روغہ میں ایک مقامی قبائلی نے میرے کان میں کہا کہ طالبان نے بہت ظلم کیے ہوں گے لیکن انھوں نے ایک اچھا کام کیا ہے کہ سارے قبائلی مشران اور ملکان ختم کر دیے کیونکہ انھوں نے عام قبائلیوں کے لیے ترقی کے مواقع ختم کر دیے تھے۔ اﷲ نہ کرے پاکستان میں بھی عوام ظلم کے قیامت خیز حبس میں لو کی دعا مانگنے پر مجبور ہو جائیں۔