فلسطین اور اسرائیل مذاکرات

امریکا اس کوشش میں ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کے زریعےغاصب اسرائیل کو مزید تحفظ فراہم کیا جائے۔

مشرق وسطیٰ اور بالخصوص مصر میں جمہوری حکومت کے خاتمے اور شام میں جاری بحرانی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر امریکا اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے تا کہ فلسطینی اتھارٹی جس کے صدر محمود عباس ہیں، کو مذاکرات میں یرغمال بنا کر ماضی کی طرح مزید فائدہ حاصل کیا جائے اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو نہ صرف مزید تحفظ فراہم کیا جائے بلکہ غاصبانہ تسلط کو بھی پروان چڑھایا جائے اور یہود ی آبادکاری میں اضافہ کیا جاسکے۔

فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین مذاکرات کے عمل کو ایک مرتبہ پھر سے شروع کرنے کا منصوبہ نئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا ہے جنہوںنے حال ہی میں ایک مرتبہ پھر امن مذاکرات کا راگ الاپ کر فلسطینیوں کی حقوق کے سودے بازی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ یقیناً کیری یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ شام میں امریکی مداخلت کے باوجود امریکا کو وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکے جس کی امریکا نے خواہش رکھی تھی یا جس کے لیے کوشش کی گئی تھی۔ کیری یہ بات بھی اچھی طرح سمجھتے ہیںکہ امریکی حکومت نے کس طرح مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کردار ادا کیا ہے اور اب باہر سے تماشا دیکھنے میں مصروف ہے، تاہم کیری جو کہ امریکی سیاست میں ایک اہم ترین فرد سمجھے جاتے ہیں، انھوں نے ماضی کی طرح پھر سے فلسطین اور اسرائیل مذاکرات کو شروع کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس معاملے میں وہ شام اور مصر کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔

جان کیری کی جانب سے فلسطین اسرائیلی مذاکرات کے آغاز پر گفتگو کرتے ہوئے فلسطین کی ایک سینئر سیاست دان اور تجزیہ نگار کاکہنا ہے کہ امریکا یہ بات جان چکا ہے کہ وہ دنیا کے تمام خطوں میں بر ی طرح ناکام ہی نہیں ہوا بلکہ ذلت و رسوائی سے دوچار بھی ہوا ہے، خواہ افغانستان ہو، عراق، یمن، شام، مصر اور تقریباً ہر اس مقام سے کہ جہاں اس نے مداخلت کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکا فلسطین میں اس مرتبہ بری شکست سے دوچار ہوگا اور بدترین ذلت اور رسوائی امریکا کے حصے میں آئے گی۔

یہ بات بڑی واضح ہوچکی ہے کہ دنیا کے تمام محاذوں پر شکست کے بعد اب امریکا نے ایک نیا ڈرامہ شروع کیا ہے جسے فلسطین اور اسرائیل کے مابین مذاکرات کا نام دیا گیا ہے۔ یقیناً فلسطینی عوام اور ان کی قیادت اس بات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں کہ امریکا فلسطین سمیت دنیا بھر میں ناکام ہوچکا ہے لیکن اب امریکا اپنی ذلت و رسوائی کو چھپانے کی خاطر اس طرح کی حرکتیں انجام دے رہا ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا ہے۔ فلسطین کے معروف تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر فلسطین اسرائیل مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار بھی کردیا جائے تو ہم یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کا کوئی مثبت یا منفی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ یہ مذاکرات صرف اور صرف وقت ضایع کرنے کے مترادف ہیں، کیونکہ دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس حوالے سے کوئی احساسات ہی نہیں رکھتے، انھوں نے مذاکرات سے پہلے بھی فلسطینی عوام کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا ہے اور مذاکرات کے بعد زیادہ بنایا جائے گا۔


موجودہ حالات میں تجزیہ نگاروں کی آراء کے مطابق امریکا کی سیاست مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں شدید متاثر ہوئی ہے اور اب امریکا بری طرح ناکام ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل بھی متاثر ہو رہا ہے تاہم امریکا کی کوشش ہے کہ کسی طرح فلسطین اور اسرائیل کے مابین ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ ایسے معاہدے انجام دیے جائیں جس کا براہ راست فائدہ غاصب اسرائیلی ریاست کو پہنچتا ہو، جیسا کہ ماضی میں بھی دیکھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر اسرائیل میں موجود دائیں بازو کا طبقہ اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ تصادم سے خود کو بچایا جائے اور بالخصوص القدس کے معاملے پر کوئی ایسی حکمت عملی بنائی جائے جس کا راستہ تصادم نہ ہو۔

فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات کے پہلے دور کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ اسرائیل نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا، جسے آج غزہ اور مغربی کنارے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاہم یہ کیونکر امید رکھی جا سکتی ہے کہ موجودہ امن مذاکرات میں فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کر لیا جائے گا؟ یہاں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 1967 کی فلسطینی سرزمین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے کو جاری رکھے جانے کے بارے میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے غیرمعقول اور شدت پسندانہ موقف اپنائے جانے کی وجہ سے فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے مذاکرات سے کنارہ کشی کا اعلان کردیا۔ جب کہ اس بار مشرقی بیت المقدس اور کرانہ باختری میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود محمود عباس امریکی دبائو کے تحت مذاکرات کی میز پر واپس لوٹ آئے ہیں۔

امریکا نے اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور ابومازن محمود عباس کے ساتھ گفتگو کو ازسر نو شروع کرنے پر مجبور کرنے کے لیے دھمکیوں اور لالچ دینے کی پالیسی سے کام لیا ہے۔ اگرچہ اوباما کی حکومت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو مذاکرات میں شرکت کرنے کی صورت میں وسیع پیمانے پر مدد کا وعدہ کیا ہے لیکن دوسری طرف یورپی یونین نے اسرائیلی بستیوں میں تیارکردہ مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کرکے لالچ پر مبنی امریکی پالیسی کی تکمیل کردی ہے۔ دوسری طرف محمود عباس کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے امریکا کو کسی تگ و دو کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ محمود عباس اس لیے مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ انھوں نے 1993 میں اسرائیل کے مقابلے میں مسلح جدوجہد کا آپشن ترک کرچکے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکی ایما پر ہونے والے نام نہاد فلسطین اسرائیل امن مذاکرات دراصل فلسطینیوں کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہے جو ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فلسطین اور اسرائیل کے مابین ہونے والے امن مذاکرات کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ ختم کردیا ہے؟ کیا فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ اب نہیں توڑے جائیں گے؟ کیا معصوم فلسطینی بچے اپنے گھروں میں زندگی بسر کر پائیں گے؟ کیا مذاکرات کے بعد اسرائیل فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے سے باز رہے گا؟ کیا اسرائیل فلسطین میں قائم انفرا اسٹرکچر کو بھی باقی رہنے دے گا؟ جیسا کہ اس نے ماضی میں نہیں رہنے دیا تھا، یا اسرائیل ان امن مذاکرات میں اس بات کوتسلیم کرنے پر رضامند ہوجائے گا کہ بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے؟ کیا صہیونی جیلوں میں قید ہزاروں بے گناہ فلسطینی مرد و خواتین قیدیوں کو فی الفور رہا کر دیا جائے گا؟ یا پھر مجموعی طور پر ان امن مذاکرات میں اسرائیل محمود عباس کو یہ ضمانت دے گاکہ اب فلسطین کے عوام کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی روا نہیں رکھی جائے گی؟

یقیناً ایسا نہیں ہو گا، کیونکہ ان نام نہاد امن مذاکرات میں جو پہلی بات اب تک سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں میں سے 26 قیدیوں کو رہا کردیا ہے جس کے بدلے میں اسرائیل نے 1200 نئے مکانات تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور فلسطینی اتھارٹی اس کو اپنی کامیابی و کامرانی تصور کر رہی ہے جو کہ ایک خام خیالی سے زیادہ نہیں ہے۔ پہلے ہی معاہدے اور عمل سے غاصب صہیونی اسرائیل کے عزائم واضح ہو چکے ہیں۔ کیا یہ فلسطینیوں کی فتح ہے کہ 26 قیدیوں کو رہا کردیا گیا لیکن اس کے بعد اب اسرائیل 1200 نئے مکانات تعمیر کرے گا اور یہودی آباد کاری کو وسعت دے گا۔ فتح تو ایسی ہوتی ہے کہ حزب اﷲ نے دو اسرائیلی قیدیوں کو گرفتار کیا اور بدلے میں چار سو فلسطینی قیدیوں کو آزاد کروایا، اسی طرح حماس نے ایک اسرائیلی فوجی اہلکار کو گرفتار کیا اور اس کی رہائی کے بدلے میں سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی۔ پس جان لیجیے امریکا شر مطلق ہے جس سے کوئی خیر کی امید نہیں کی جاسکتی، جب امریکا امن مذاکرات کی بات کرتا ہوا نظر آئے تو دنیا کو جان لینا چاہیے کہ اس میں یقینا اسرائیل کا مفاد پنہاں ہے نہ کہ فلسطین کا۔
Load Next Story