ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پی ایچ ڈی الاؤنس
مغربی ممالک کی تعمیر و ترقی میں علم و تحقیق نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
IPOH, MALAYSIA:
مغربی ممالک کی تعمیر و ترقی میں علم و تحقیق نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ جدید علم و ٹیکنالوجی کے معیار میں آگے ہونے کے باعث تیسری دنیا کے ممالک پر ان کا ایک نفسیاتی اثر بھی قائم ہے، باالفاظ دیگر ان کی تعمیر و ترقی میں اس نفسیاتی اثر کا بھی ہاتھ ہے جو سیاسی منظرنامے میں بھی شامل ہے۔ عام افراد بھی روزمرہ زندگی میں ترقی یافتہ ممالک کی بڑے فخر سے مثالیں دیتے ہیں اور اگر تیسری دنیا کے کسی فرد کو ان ممالک میں چھوٹی موٹی ملازمت مل جائے تو اپنے حلقہ احباب میں بڑے فخر سے نہ صرف بیان کیا جاتا ہے بلکہ تمام خاندان اور ملنے والے افراد حسرت سے دیکھتے ہیں۔
اسی علم و تحقیق کو بڑھانے کے لیے تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں گزشتہ دہائی سے توجہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جس میں سر فہرست ہائر ایجوکیشن کمیشن کا نام آتا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی اس پر خصوصی توجہ دینے کی کوشش کی گئی۔ ممتاز ماہر تعلیم اور سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن نے اپنی سربراہی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے بڑے اقدامات کرنے کے دعوے کیے پھر ڈاکٹر جاوید لغاری نے باگ ڈور سنبھالنے کے بعد اقدامات کیے، جہاں ان حضرات پر تنقید کی جاسکتی ہے وہیں ایسے اقدامات بھی ہیں کہ جن کی تعریف نہ کرنا یقیناً زیادتی ہوگی۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بڑے اقدامات میں جامعات کی فنڈنگ، طلبا کو بیرون ملک اسکالر شپ کے ذریعے بھیجنا (اساتذہ کی بڑی تعداد بھی اس میں شامل رہی) اور تحقیق یعنی ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف اقدامات بھی شامل ہیں۔
پی ایچ ڈی کے معیار کو بلند کرنے کے لیے ملک بھر کی جامعات میں پرانے طریقہ کار کو تبدیل کرکے نئے مراحل متعارف کرائے گئے مثلاً کورس ورک کا سلسلہ شروع کیا گیا، جس سے تحقیق کرنے والوں کو ابتدا ہی میں اہم معلومات حاصل ہوجاتی ہیں اور یہ عمل انھیں تحقیق کے معیار کو بلند کرنے میں مددگار بھی ثابت ہوتا ہے۔
پی ایچ ڈی مکمل کرنے والوں کے لیے پہلے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے نام سے ماہانہ الاؤنس پانچ ہزار دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا پھر دیگر کلیہ جات سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ آج یہ الاؤنس جو پی ایچ ڈی ڈگری حاصل کرنے والوں کو دیا جارہا ہے دس ہزار ماہانہ تک ہوچکا ہے اور بعض جامعات میں تدریس سے وابستہ افراد کی پنشن میں بھی شامل کرنے کے احکامات جاری ہوچکے ہیں جوکہ ایک اچھی بات ہے کیونکہ اس عمل سے تحقیق کے لیے آگے آنے والوں کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ تاہم یہاں ایک تلخ حقیقت بیان کرنا بھی اشد ضروری ہے جو غالباً ہائر ایجوکیشن کمیشن کی نظر سے (کسی وجہ سے) اوجھل ہے، اور وہ ہے غیر تدریسی افراد کو اس عمل سے نظرانداز کرنا۔
پاکستان بھر کی مختلف جامعات میں تدریس سے وابستہ افراد یعنی اساتذہ کے علاوہ غیر تدریسی ملازمین نے بھی حکومت خصوصاً ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہمت افزا کوششوں کو دیکھتے ہوئے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کیں، اس کے علاوہ جامعات سے باہر بھی دیگر سرکاری محکموں میں مختلف افراد نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کیں۔ ان غیر تدریسی افراد کی جانب سے پی ایچ ڈی کرنا درحقیقت ان کوششوں کا نتیجہ تھا جو حکومت خصوصاً ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے لوگوں کو تحقیق کی طرف راغب کرنے کے لیے کی گئیں۔ ان ہی کوششوں میں سے ایک کوشش پی ایچ ڈی کرنے والوں کو الاؤنس کی شکل میں معقول الاؤنس کی فراہمی بھی تھی۔
بعض افراد نے غیر تدریسی ملازمین اور دیگر سرکاری ملازمین کو پی ایچ ڈی کرنے کے بعد الاؤنس دینے کی مخالفت کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ چونکہ ان افراد کا تعلق درس و تدریس سے نہیں ہے لہٰذا انھیں الاؤنس نہ دیا جائے جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ غیر تدریسی افراد نے پی ایچ ڈی مکمل کرکے ایک کارنامہ انجام دیا ہے کیونکہ یہ انھوں نے رضاکارانہ یا شوقیہ اور علم کی لگن اور وطن کی محبت خاص کر ایچ ای سی کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ تحقیق مکمل کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انھیں تدریس و تحقیق کے لیے جامعات میں کام کرنے کا موقع دیا جاتا مگر افسوس انھیں ملک بھر میں کہیں پندرہ سو، کہیں 22 سو روپے الاؤنس دیا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں پی ایچ ڈی کرنے والے کو جامعات میں تدریس و تحقیق کے مواقع فراہم کرنے کے لیے براہ راست ملازمت کی پیش کش کی جاتی ہے، ان سے انٹرویو بھی نہیں لیا جاتا کیونکہ یہ کسی بھی ملک و قوم کے لیے ایک بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے، مگر ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے؟ محض ہزار پندرہ سو روپے کا الاؤنس اور اگر وہ انٹرویو میں بیٹھے تو پہلے تحریری ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور اگر وہ اس میں بھی کامیاب ہوجائے تو انٹرویو میں فیل کرکے کنارے لگا کر عبرت کا نشان بنادیا جاتا ہے کہ کوئی دوسرا اس طرف آنے کی ہمت بھی نہ کرسکے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں پی ایچ ڈی کرنے والے مختلف محکموں کے اسٹاف کو برابری کی سطح پر 10 ہزار ماہانہ الاؤنس دیا جائے اور جو لوگ تحقیق کرنے اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہونا چاہیں انھیں تعلیمی اداروں خصوصاً جامعات کی طرف سے خصوصی آفر کی جانی چاہیے۔ نیز جو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرچکے ہیں اور کسی تعلیمی ادارے میں پہلے ہی غیر تدریسی آسامی پر کام کر رہے ہیں انھیں تدریس کے شعبے کی طرف منتقل کیا جائے۔ آج کل جامعات میں پہلے ہی مالی بحران چل رہا ہے لہٰذا اس عمل سے اس بحران کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی کیونکہ نئے اپائنٹمنٹ پر زیادہ اخراجات آتے ہیں۔
راقم کی گزشتہ دنوں ایک ایسے ہی پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل شخص سے ملاقات ہوئی جو کسی جامعہ میں گریڈ 18 میں ملازم بھی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اگر انھیں تدریس کا موقع دیا جائے تو وہ بغیر کسی اضافی گریڈ کے اپنی تدریسی و تحقیقی خدمات اپنی جامعہ کی نذر کرسکتے ہیں۔ہمارے ہاں اچھے لوگوں اور اچھے جذبات رکھنے والے انسان دوست لوگوں کی کمی نہیں ہے، شرط یہی ہے کہ ہم اپنے معاملات کو درست طریقے سے چلانے پر آمادہ ہوجائیں۔ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں تعلیم اور تحقیق کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے نہ کہ صرف سیمیناروں میں خوبصورت گفتگو اور اظہار خیال کی۔ ہمیں اپنی جامعات سمیت ملکی تعمیر و ترقی کے لیے پی ایچ ڈی کرنے والوں کو عزت و توقیر دینی چاہیے۔ سندھ کے گورنر اور وزیراعلیٰ اپنے نئے اختیارات کے ساتھ اور خاص کر ایچ ای سی اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دے کر علم و تحقیق کی نہ صرف خدمت کرسکتی ہے بلکہ ان غیر تدریسی پی ایچ ڈی ڈگری رکھنے والوں کی ہمت افزائی بھی کی جاسکتی ہے۔