امن وامان میں بہتری لائیے …
کراچی میں بھتہ خوری کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافے کے بعد تاجروں نے شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مبالبہ کیا ہے۔
کراچی میں بھتہ خوری کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافے کی وجہ سے کراچی کے تاجروں نے حکومت سے یہ اپیل کی ہے کہ کراچی میں امن وامان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے اس شہر کو فوج کے حوالے کردیا جائے، جیسے عدلیہ میں عدل کے لیے سپریم کورٹ آخری حد ہوتی ہے، اسی طرح سیکیورٹی معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے فوج بھی آخری قوت ہوتی ہے۔ فوج اصل میں تو بیرونی خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہے، اسی لیے اس کی ٹریننگ بھی اسی طرح ہوتی ہے کہ اس نے دشمن پر غلبہ پانے کے لیے اپنی پوری قوت کا استعمال کرنا ہوتا ہے لیکن اگر فوج کو in aid to civil power استعمال کرنا ہو تو اس میں بڑی احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے کیونکہ یہ طاقت اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کرنا پڑتی ہے جو کہ گمراہ ہوچکے ہوتے ہیں۔
فوج جو کہ بیرک اور بارڈر ہی سے واقفیت رکھتی ہے جب اس کو شہر میں استعمال کرنا پڑتا ہے تو اس سلسلے میں بڑی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے، فوج کو شہر میں بھیجنے سے پہلے شہروں میں پیش آنے والی مشکلات اور جو چیلنج پیش آسکتے ہیں ان سے نمٹنے کے لیے مکمل ٹریننگ اور بریفنگ، جس میں یہاں کے حالات، علاقے کی ساخت، وہاں پر رہنے والوں کے کلچر وغیرہ سے بھی واقفیت دلائی جاتی ہے۔ فوج کو سول میں استعمال کرنے کا ایک اصول یہ ہے کہ فوج جب سول میں امن و امان کے لیے آتی ہے تو اس کا کردار فائر بریگیڈ جیسا ہوتا ہے یعنی جس طرح جب آگ لگی ہو تو فائربریگیڈ تیزی سے آتا ہے اور آگ بجھا کر چلا جاتا ہے اسی طرح فوج کو بھی تیزی سے آکر معاملات سلجھانے کے بعد واپس بیرکوں میں چلا جانا چاہیے اور معاملات پولیس کے حوالے کردینے چاہئیں کیونکہ اگر فوج کو زیادہ دیر تک شہروں میں ایکسپوز کیا جائے گا تو یہ بھی انسان ہی ہیں اور یہ لوگ بھی اپنے مقصد سے ہٹ سکتے ہیں۔
اس وقت کراچی میں جو مسئلہ ہے وہ پولیس اور رینجرز کی سینئر لیڈر شپ کا غیر فعال رویہ ہے۔ خدا جانے انھیں کس قسم کا پریشر ہے کہ عرصہ دراز گزر چکا لیکن ان سے ایسا پلان نہیں بن سکا جس پر عمل پیرا ہوکر یہ دہشت گردی کا خاتمہ کردیں، جہاں تک وسائل کا تعلق ہے ہمارے خیال میں اس وقت جو وسائل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مہیا ہیں وہ کافی ہیں، وہ ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے کم نہیں۔ اگر کمی ہے تو کمٹمنٹ کی یا پھر وہ جوش و جذبہ کی جو ان اداروں کو جوائن کرتے ہوئے سولجر میں موجود ہوتا ہے۔ سیاسی لیڈر شپ کے تو اپنے تقاضے اور سیاسی مصلحتیں ہوتی ہیں لیکن اداروں کی سینئر لیڈر شپ کو تو ملک اور قوم کی سلامتی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ اس وقت دہشت گردوں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلر اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث مجرموں نے شہر کے لوگوں کا جینا محال کردیا ہے، کاروباری حضرات کا اپنا کاروبار جاری رکھنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے، لوگ شہر چھوڑ رہے ہیں یا شہر چھوڑنے کی باتیں کررہے ہیں، بھتہ دینے کے بعد بھی ان کی سیکیورٹی کی کوئی ضمانت نہیں، اگر بھتہ ہی دینا ہے تو پھر حکومت ٹیکس کیوں لے رہی ہے۔
حکومت میں موجود لوگوں نے تو اپنے لیے سرکاری خرچ پر سیکیورٹی مہیا کی ہوئی ہے، عام لوگ خاص طور پر سفید پوش مڈل کلاس کے لوگ جنہوں نے محنت و مشقت سے عزت سے جینے کا مقام بنایا ہے، ان کا کیا قصور ہے کہ انھیں حکومت کی طرف سے جان و مال کا پروٹیکشن نہیں مل رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے اب تاجر برادری فوج سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ وہ شہر کا نظم و نسق سنبھال لے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ آخر یہ نوبت کیوں آگئی۔ پولیس والوں سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر انھیں اختیارات دے دیے جائیں اور غیر ضروری مداخلت بند کردی جائے تو وہ خود ہی امن و امان کے مسئلے کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔ فوج کو بھی اگر بلایا گیا تو وہ کچھ عرصہ تو موثر طور پر کردار ادا کرے گی اور فوج کی موجودگی میں یہ تمام قانون شکن بھی جو جرائم میں مبتلا ہیں غائب ہوجائیں گے اور جیسے ہی فوج نرم پڑے گی یہ لوگ دوبارہ سے سر اٹھائیں گے، کیونکہ یہ قدرتی امر ہے کہ فوج کی سختی ایک عرصہ تک تو ہوتی ہے پھر یہ بھی نرم پڑجاتے ہیں یا پھر ان کے تعلقات استوار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دراصل اس وقت مسئلہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کا ہے، کراچی میں فوج کو شہر میں بلانے سے بہتر یہ ہے کہ تین ماہ کے لیے امن و امان کی مکمل ذمے دار کراچی کور کمانڈر کے حوالے کردی جائے اور وہ پولیس اور رینجرز ہی کے ذریعے تمام پلاننگ کرا کر شہر کا امن و امان درست کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ کمانڈ ان کو دے دی جائے تو یہ اسی پولیس اور رینجرز کے ذریعے بلاخوف و خطر غیر جانبدار طور پر کرمنلز کا صفایا کردیں گے، کیونکہ ہماری پولیس اور رینجرز میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس مسئلے سے نبرد آزما ہوکر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ پولیس اور رینجرز جب آپریشنلی طور پر کور کمانڈر کے ماتحت ہوں گے تو انھیں کسی قسم کا سیاسی مصلحت یا اور کوئی پریشر نہ ہوگا اور بڑی غیر جانبداری سے یہ کام خوش اسلوبی سے سر انجام پا جائے گا۔
اس طرح شہر کو دہشت گردی و دیگر جرائم سے پاک کرنے میں فوج کی مدد بھی حاصل ہوجائے گی اور فوج بھی استعمال نہ ہوگی اور ہم اپنے موجودہ وسائل ہی کو استعمال میں لاکر اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرپائیں گے کیونکہ ہمارے لیے مسئلہ حکومتی رٹ کی بحالی ہے۔ کوئی کتنا بھی بڑا بدمعاش ہو حکومت کے آگے اگر وہ واقعی حکومت ہے تو اس کی ایک نہیں چلنی چاہیے، لیکن آج کل تو مجرم اور دہشت گرد حکومت کو منہ چڑھا رہے ہیں اور حکومتی اہلکار ٹیلی ویژن پر ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہ جاتے ہیں۔ ہمیں قانونی و آئینی تقاضوں کا علم نہیں لیکن ہمارے تجربہ اور حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے یہی بہتر حل محسوس ہوتا ہے کہ امن و امان کے لیے آپریشن کنٹرول کور کمانڈر کے حوالے کردیا جائے یا پھر حکومت ہی کوئی ایسا حل پیش کرے جس سے لوگوں میں یہ احساس ختم ہو کہ وہ غیر محفوظ ہیں، کیونکہ عوام غیر معینہ مدت تک غیر محفوظ نہیں رہ سکتے۔
فوج جو کہ بیرک اور بارڈر ہی سے واقفیت رکھتی ہے جب اس کو شہر میں استعمال کرنا پڑتا ہے تو اس سلسلے میں بڑی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے، فوج کو شہر میں بھیجنے سے پہلے شہروں میں پیش آنے والی مشکلات اور جو چیلنج پیش آسکتے ہیں ان سے نمٹنے کے لیے مکمل ٹریننگ اور بریفنگ، جس میں یہاں کے حالات، علاقے کی ساخت، وہاں پر رہنے والوں کے کلچر وغیرہ سے بھی واقفیت دلائی جاتی ہے۔ فوج کو سول میں استعمال کرنے کا ایک اصول یہ ہے کہ فوج جب سول میں امن و امان کے لیے آتی ہے تو اس کا کردار فائر بریگیڈ جیسا ہوتا ہے یعنی جس طرح جب آگ لگی ہو تو فائربریگیڈ تیزی سے آتا ہے اور آگ بجھا کر چلا جاتا ہے اسی طرح فوج کو بھی تیزی سے آکر معاملات سلجھانے کے بعد واپس بیرکوں میں چلا جانا چاہیے اور معاملات پولیس کے حوالے کردینے چاہئیں کیونکہ اگر فوج کو زیادہ دیر تک شہروں میں ایکسپوز کیا جائے گا تو یہ بھی انسان ہی ہیں اور یہ لوگ بھی اپنے مقصد سے ہٹ سکتے ہیں۔
اس وقت کراچی میں جو مسئلہ ہے وہ پولیس اور رینجرز کی سینئر لیڈر شپ کا غیر فعال رویہ ہے۔ خدا جانے انھیں کس قسم کا پریشر ہے کہ عرصہ دراز گزر چکا لیکن ان سے ایسا پلان نہیں بن سکا جس پر عمل پیرا ہوکر یہ دہشت گردی کا خاتمہ کردیں، جہاں تک وسائل کا تعلق ہے ہمارے خیال میں اس وقت جو وسائل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مہیا ہیں وہ کافی ہیں، وہ ان دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے کم نہیں۔ اگر کمی ہے تو کمٹمنٹ کی یا پھر وہ جوش و جذبہ کی جو ان اداروں کو جوائن کرتے ہوئے سولجر میں موجود ہوتا ہے۔ سیاسی لیڈر شپ کے تو اپنے تقاضے اور سیاسی مصلحتیں ہوتی ہیں لیکن اداروں کی سینئر لیڈر شپ کو تو ملک اور قوم کی سلامتی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ اس وقت دہشت گردوں، بھتہ خوروں، ٹارگٹ کلر اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث مجرموں نے شہر کے لوگوں کا جینا محال کردیا ہے، کاروباری حضرات کا اپنا کاروبار جاری رکھنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے، لوگ شہر چھوڑ رہے ہیں یا شہر چھوڑنے کی باتیں کررہے ہیں، بھتہ دینے کے بعد بھی ان کی سیکیورٹی کی کوئی ضمانت نہیں، اگر بھتہ ہی دینا ہے تو پھر حکومت ٹیکس کیوں لے رہی ہے۔
حکومت میں موجود لوگوں نے تو اپنے لیے سرکاری خرچ پر سیکیورٹی مہیا کی ہوئی ہے، عام لوگ خاص طور پر سفید پوش مڈل کلاس کے لوگ جنہوں نے محنت و مشقت سے عزت سے جینے کا مقام بنایا ہے، ان کا کیا قصور ہے کہ انھیں حکومت کی طرف سے جان و مال کا پروٹیکشن نہیں مل رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے اب تاجر برادری فوج سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ وہ شہر کا نظم و نسق سنبھال لے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ آخر یہ نوبت کیوں آگئی۔ پولیس والوں سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر انھیں اختیارات دے دیے جائیں اور غیر ضروری مداخلت بند کردی جائے تو وہ خود ہی امن و امان کے مسئلے کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔ فوج کو بھی اگر بلایا گیا تو وہ کچھ عرصہ تو موثر طور پر کردار ادا کرے گی اور فوج کی موجودگی میں یہ تمام قانون شکن بھی جو جرائم میں مبتلا ہیں غائب ہوجائیں گے اور جیسے ہی فوج نرم پڑے گی یہ لوگ دوبارہ سے سر اٹھائیں گے، کیونکہ یہ قدرتی امر ہے کہ فوج کی سختی ایک عرصہ تک تو ہوتی ہے پھر یہ بھی نرم پڑجاتے ہیں یا پھر ان کے تعلقات استوار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دراصل اس وقت مسئلہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کا ہے، کراچی میں فوج کو شہر میں بلانے سے بہتر یہ ہے کہ تین ماہ کے لیے امن و امان کی مکمل ذمے دار کراچی کور کمانڈر کے حوالے کردی جائے اور وہ پولیس اور رینجرز ہی کے ذریعے تمام پلاننگ کرا کر شہر کا امن و امان درست کریں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ کمانڈ ان کو دے دی جائے تو یہ اسی پولیس اور رینجرز کے ذریعے بلاخوف و خطر غیر جانبدار طور پر کرمنلز کا صفایا کردیں گے، کیونکہ ہماری پولیس اور رینجرز میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اس مسئلے سے نبرد آزما ہوکر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ پولیس اور رینجرز جب آپریشنلی طور پر کور کمانڈر کے ماتحت ہوں گے تو انھیں کسی قسم کا سیاسی مصلحت یا اور کوئی پریشر نہ ہوگا اور بڑی غیر جانبداری سے یہ کام خوش اسلوبی سے سر انجام پا جائے گا۔
اس طرح شہر کو دہشت گردی و دیگر جرائم سے پاک کرنے میں فوج کی مدد بھی حاصل ہوجائے گی اور فوج بھی استعمال نہ ہوگی اور ہم اپنے موجودہ وسائل ہی کو استعمال میں لاکر اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرپائیں گے کیونکہ ہمارے لیے مسئلہ حکومتی رٹ کی بحالی ہے۔ کوئی کتنا بھی بڑا بدمعاش ہو حکومت کے آگے اگر وہ واقعی حکومت ہے تو اس کی ایک نہیں چلنی چاہیے، لیکن آج کل تو مجرم اور دہشت گرد حکومت کو منہ چڑھا رہے ہیں اور حکومتی اہلکار ٹیلی ویژن پر ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہ جاتے ہیں۔ ہمیں قانونی و آئینی تقاضوں کا علم نہیں لیکن ہمارے تجربہ اور حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے یہی بہتر حل محسوس ہوتا ہے کہ امن و امان کے لیے آپریشن کنٹرول کور کمانڈر کے حوالے کردیا جائے یا پھر حکومت ہی کوئی ایسا حل پیش کرے جس سے لوگوں میں یہ احساس ختم ہو کہ وہ غیر محفوظ ہیں، کیونکہ عوام غیر معینہ مدت تک غیر محفوظ نہیں رہ سکتے۔