یہ صحت کا نہیں ریاست کا انہدام ہے
اب اسپتالی انتظامیہ کی توپوں کا رخ ان ہاؤس الیکٹریکل انجینئر کی مبینہ غفلت کی جانب ہے۔
حالانکہ عید کے موقع پر کچھ اچھا اور میٹھا لکھنا بنتا ہے لیکن جب کوئی خبر دل اور دماغ کو کڑوا زہر بنا دے تو پھر اچھے کا خیال و ارادہ پرلے درجے کی منافقت لگتا ہے۔
جیسے یہی خبر کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ساہیوال میں ہفتے اور اتوار کے درمیان نرسری وارڈ میں آٹھ نومولود بچوں کی موت ہو گئی۔ورثا کہتے ہیں کہ وارڈ کا ایئرکنڈیشنڈ بند ہوگیا تھا۔عملہ اسے درست کرانے کے بجائے تسلیاں دیتا رہا کہ ایئرکنڈیشنڈ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ تو ایک ماہ میں کئی بار خراب ہو چکا ہے۔مگر چند ہی گھنٹوں میں آٹھ بچوں کی موت۔ان میں سے تین ایئرکنڈیشنڈ بند ہونے کے بعد مرے۔
ورثا نے اسپتالی عملے کے سامنے مزید رونا رونے یا احتجاج کرنے کے بجائے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے رجوع کیا۔اسپتالی انتظامیہ پھر بھی اڑی رہی کہ بچوں کی موت کا ایئرکنڈیشنڈ کی خرابی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ جب ڈی سی نے اسپتال کے میڈیکل سپرینڈنڈنٹ کے دفتر کا ایئرکنڈیشنڈ اتروا کر نرسری وارڈ میں ہنگامی طور پر لگوایا تب سے تادمِ تحریر نرسری وارڈ میں کسی اور نومولود کی موت نہیں ہوئی۔
اب اسپتالی انتظامیہ کی توپوں کا رخ ان ہاؤس الیکٹریکل انجینئر کی مبینہ غفلت کی جانب ہے۔ میڈیکل سپریٹنڈنٹ صاحب اس قدر معصوم ہیں کہ انھیں اپنے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر خبر ہی نہ ہوئی کہ نرسری وارڈ کا ایئرکنڈیشنڈ مہینے بھر سے آف آن ہو رہا ہے۔اور پھر جیسا کہ روایت ہے، لواحقین کا احتجاج ، ضلع انتظامیہ کی طرف سے تحقیقات کی یقین دہانی اور وزیرِ اعلی کے دفتر کی طرف سے فوری نوٹس لیا جانا۔یعنی اگلی واردات تک کام ختم۔
یہ نہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔سرگودھا کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں نومبر دو ہزار چودہ میں اڑتالیس گھنٹے میں انیس نومولود ہلاک ہوئے۔ وجوہات آکسیجن سلنڈرز ، اینکوبیٹرز کی کمی اور طبی عملے کی غفلت کو قرار دیا گیا۔اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے فوری نوٹس لیا بلکہ سپریم کورٹ نے بھی ازخود نوٹس لے لیا۔اس نوٹس بازی کا نتیجہ اگلے پانچ برس کے دوران نظام کی درستی کی شکل میں کیا نکلا ؟ یہ آپ کو اسی کالم کے پہلے پیرے میں معلوم ہو گیا ہوگا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرگودھا میں دو ہزار چودہ میں انیس نومولودوں کے مرنے کے بعد تمام صوبوں کے تمام سرکاری اسپتالوں میں نومولودوں کے وارڈز میں سہولتوں کی چھان پھٹک کی جاتی۔مگر ایسا کہاں ہوتا ہے ؟
چنانچہ ان ہلاکتوں کے ایک ماہ بعد ( تیرہ دسمبر دو ہزار چودہ ) سرگودھا سے سیکڑوں میل پرے دیہی سندھ کے سب سے بڑے سرکاری شفا خانے چانڈکا ٹیچنگ اسپتال لاڑکانہ سے خبر آئی کہ چلڈرن وارڈ میں آ کسیجن ختم ہونے سے پانچ نوزائیدہ بچے چٹ پٹ موت کے منہ میں چلے گئے۔ آ کسیجن یوں ختم ہو گئی کہ اس کا بجٹ ختم ہوگیا تھا۔وزیرِ اعلی نے '' فوری نوٹس ''لے لیا ۔
اس نوٹس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس بعد ( دو ہزار سولہ) اسی اسپتال میں ایچ آئی وی سے آلودہ خون کے سبب ڈائلیسس مشینوں کے ذریعے کئی مریضوں میں ایچ آئی وی وائرس منتقل ہو گیا۔حکومت نے پھر '' فوری نوٹس ''لے لیا اور ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔اس نے رپورٹ مرتب کی اور سفارشات کی روشنی میں اسپتال کے اردگرد آلودہ خون فروخت کرنے والے دو نجی بلڈ بینکس کو بند کر کے سربمہر کر دیا گیا۔کچھ عرصے بعد انھیں '' آیندہ ایسا نہیں ہوگا ''کی یقین دہانی پر دوبارہ کھول دیا گیا۔آج تین برس بعد بھی اسپتال کے اردگرد خون کی جعلی اسکریننگ و خرید و فروخت بہار پر ہے۔
اور پھر اب سے ڈیڑھ ماہ قبل بعد یہ خبر آ گئی کہ لاڑکانہ کے نواحی قصبے رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کی وبا پھوٹ پڑی۔ اب تک شمالی سندھ میں شکار پور سے رتو ڈیرو تک چھ سو سے زائد ایچ آئی وی پازیٹو کیسز سامنے آ چکے ہیں۔حکومت نے پھر '' نوٹس '' لے لیا ہے۔بلکہ اس بار تو عالمی ادارہِ صحت نے بھی رتو ڈیرو کی غیر معمولی صورتِ حال کا نوٹس لے لیا ہے۔
بلوچستان کی حکومت نے گذشتہ ہفتے تمام شہریوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کا انقلابی اعلان کیا ہے۔مگر یہ خبر بھی مثالی صوبائی مستعدی کے تالاب میں لاشے کی طرح تیر رہی ہے کہ تربت کے علاقے میں ایچ آئی وی کے کیسز میں پچھلے تین ماہ کے دوران غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔مارچ میں قریباً ایک سو ستر اور اپریل میں لگ بھگ ساڑھے تین سو۔مئی کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ یقیناً وزیرِ اعلی نے نوٹس لے لیا ہوگا۔
تھر میں بھک مری یا ناکافی غذائیت سے بچوں کی اموات ہوں کہ لاڑکانہ کے چانڈکا اسپتال میں اس سال کی پہلی سہہ ماہی میں چار سو تریسٹھ بچوں سمیت چودہ سو باون مریضوں کی طرح طرح کی وجوہات کے سبب مرنے کی خبر یا کراچی میں نجی دارالصحت اسپتال میں نو ماہ کی بچی کو غلط انجکشن دینے کے نتیجے میں موت کی خبر کے بعد میڈیا کی تسلی کے لیے اسپتال کو عارضی طور پر سربمہر کرنے کی پھرتی۔
یہ سارا بکھیڑا ، تکلف ، ڈرامہ اس کے سوا کیا بتاتا ہے کہ ریاست کا اپنا نظام شدید بیمار ہے۔شائد دماغی توازن بھی ڈھیلا ہو چکا ہے۔ایک جانب مفت علاج کے اعلانات اور صحت کارڈ بٹ رہے ہیں ، ہیلتھ انشورنس کی خوشخبریاں سنائی جا رہی ہیں تو دوسری جانب پورا نظامِ صحت کمیلا بن چکا ہے۔ مثالی علاج کی میراث سرکاری طبی شعبے سے خیراتی طبی شعبے کو منتقل ہو چکی ہے۔
اس ملک میں ریلوے کا نظام تب تک درست تھا جب تک جج ، وزرا اور جرنیل ریل میں سفر کرتے تھے۔ تعلیم کا نظام تب تک مثالی تھا جب سرکاری اسکولوں میں ڈپٹی کمشنر اور ارکانِ پارلیمان کے بچے پڑھتے تھے۔صحت کا نظام تیر کی طرح سیدھا تھا جب تک ڈاکٹروں کی وہ نسل زندہ تھی جس کے لیے مریض اول اور پیسہ ثانوی تھا۔تب مریضوں کے معائنے کا وقت دوا ساز کمپنیوں کے سیلز پرسنز نے یرغمال نہیں بنایا تھا۔ تب تک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندوں نے براہِ راست وزیرِ صحت کا دروازہ کھٹکٹانا نہیں سیکھا تھا اور سرکاری اسپتال میں ایک بڑی غفلت پھر نہیں دہرائی جاتی تھی بلکہ نئی طرح کی غفلت ہی سامنے آتی تھی۔
جب یہی نہ رہا تو باقی کیا بچا ؟ اب کوئی بھی موت افسردہ نہیں کرتی کیونکہ موت ایک کی ہو یا بیس کی۔بس دو کالم کی خبر بن کے رہ گئی ہے۔اگلے روز نیا سورج ، نیا المیہ ، نئی خبر ، نئی یقین دہانی۔اگر یہ ریاست کا انہدام نہیں تو پھر اور کیا ہے ریاست کا انہدام ؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
جیسے یہی خبر کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال ساہیوال میں ہفتے اور اتوار کے درمیان نرسری وارڈ میں آٹھ نومولود بچوں کی موت ہو گئی۔ورثا کہتے ہیں کہ وارڈ کا ایئرکنڈیشنڈ بند ہوگیا تھا۔عملہ اسے درست کرانے کے بجائے تسلیاں دیتا رہا کہ ایئرکنڈیشنڈ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ تو ایک ماہ میں کئی بار خراب ہو چکا ہے۔مگر چند ہی گھنٹوں میں آٹھ بچوں کی موت۔ان میں سے تین ایئرکنڈیشنڈ بند ہونے کے بعد مرے۔
ورثا نے اسپتالی عملے کے سامنے مزید رونا رونے یا احتجاج کرنے کے بجائے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے رجوع کیا۔اسپتالی انتظامیہ پھر بھی اڑی رہی کہ بچوں کی موت کا ایئرکنڈیشنڈ کی خرابی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ جب ڈی سی نے اسپتال کے میڈیکل سپرینڈنڈنٹ کے دفتر کا ایئرکنڈیشنڈ اتروا کر نرسری وارڈ میں ہنگامی طور پر لگوایا تب سے تادمِ تحریر نرسری وارڈ میں کسی اور نومولود کی موت نہیں ہوئی۔
اب اسپتالی انتظامیہ کی توپوں کا رخ ان ہاؤس الیکٹریکل انجینئر کی مبینہ غفلت کی جانب ہے۔ میڈیکل سپریٹنڈنٹ صاحب اس قدر معصوم ہیں کہ انھیں اپنے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر خبر ہی نہ ہوئی کہ نرسری وارڈ کا ایئرکنڈیشنڈ مہینے بھر سے آف آن ہو رہا ہے۔اور پھر جیسا کہ روایت ہے، لواحقین کا احتجاج ، ضلع انتظامیہ کی طرف سے تحقیقات کی یقین دہانی اور وزیرِ اعلی کے دفتر کی طرف سے فوری نوٹس لیا جانا۔یعنی اگلی واردات تک کام ختم۔
یہ نہ پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری۔سرگودھا کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال میں نومبر دو ہزار چودہ میں اڑتالیس گھنٹے میں انیس نومولود ہلاک ہوئے۔ وجوہات آکسیجن سلنڈرز ، اینکوبیٹرز کی کمی اور طبی عملے کی غفلت کو قرار دیا گیا۔اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے فوری نوٹس لیا بلکہ سپریم کورٹ نے بھی ازخود نوٹس لے لیا۔اس نوٹس بازی کا نتیجہ اگلے پانچ برس کے دوران نظام کی درستی کی شکل میں کیا نکلا ؟ یہ آپ کو اسی کالم کے پہلے پیرے میں معلوم ہو گیا ہوگا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرگودھا میں دو ہزار چودہ میں انیس نومولودوں کے مرنے کے بعد تمام صوبوں کے تمام سرکاری اسپتالوں میں نومولودوں کے وارڈز میں سہولتوں کی چھان پھٹک کی جاتی۔مگر ایسا کہاں ہوتا ہے ؟
چنانچہ ان ہلاکتوں کے ایک ماہ بعد ( تیرہ دسمبر دو ہزار چودہ ) سرگودھا سے سیکڑوں میل پرے دیہی سندھ کے سب سے بڑے سرکاری شفا خانے چانڈکا ٹیچنگ اسپتال لاڑکانہ سے خبر آئی کہ چلڈرن وارڈ میں آ کسیجن ختم ہونے سے پانچ نوزائیدہ بچے چٹ پٹ موت کے منہ میں چلے گئے۔ آ کسیجن یوں ختم ہو گئی کہ اس کا بجٹ ختم ہوگیا تھا۔وزیرِ اعلی نے '' فوری نوٹس ''لے لیا ۔
اس نوٹس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس بعد ( دو ہزار سولہ) اسی اسپتال میں ایچ آئی وی سے آلودہ خون کے سبب ڈائلیسس مشینوں کے ذریعے کئی مریضوں میں ایچ آئی وی وائرس منتقل ہو گیا۔حکومت نے پھر '' فوری نوٹس ''لے لیا اور ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔اس نے رپورٹ مرتب کی اور سفارشات کی روشنی میں اسپتال کے اردگرد آلودہ خون فروخت کرنے والے دو نجی بلڈ بینکس کو بند کر کے سربمہر کر دیا گیا۔کچھ عرصے بعد انھیں '' آیندہ ایسا نہیں ہوگا ''کی یقین دہانی پر دوبارہ کھول دیا گیا۔آج تین برس بعد بھی اسپتال کے اردگرد خون کی جعلی اسکریننگ و خرید و فروخت بہار پر ہے۔
اور پھر اب سے ڈیڑھ ماہ قبل بعد یہ خبر آ گئی کہ لاڑکانہ کے نواحی قصبے رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کی وبا پھوٹ پڑی۔ اب تک شمالی سندھ میں شکار پور سے رتو ڈیرو تک چھ سو سے زائد ایچ آئی وی پازیٹو کیسز سامنے آ چکے ہیں۔حکومت نے پھر '' نوٹس '' لے لیا ہے۔بلکہ اس بار تو عالمی ادارہِ صحت نے بھی رتو ڈیرو کی غیر معمولی صورتِ حال کا نوٹس لے لیا ہے۔
بلوچستان کی حکومت نے گذشتہ ہفتے تمام شہریوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کا انقلابی اعلان کیا ہے۔مگر یہ خبر بھی مثالی صوبائی مستعدی کے تالاب میں لاشے کی طرح تیر رہی ہے کہ تربت کے علاقے میں ایچ آئی وی کے کیسز میں پچھلے تین ماہ کے دوران غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔مارچ میں قریباً ایک سو ستر اور اپریل میں لگ بھگ ساڑھے تین سو۔مئی کی رپورٹ کا انتظار ہے۔ یقیناً وزیرِ اعلی نے نوٹس لے لیا ہوگا۔
تھر میں بھک مری یا ناکافی غذائیت سے بچوں کی اموات ہوں کہ لاڑکانہ کے چانڈکا اسپتال میں اس سال کی پہلی سہہ ماہی میں چار سو تریسٹھ بچوں سمیت چودہ سو باون مریضوں کی طرح طرح کی وجوہات کے سبب مرنے کی خبر یا کراچی میں نجی دارالصحت اسپتال میں نو ماہ کی بچی کو غلط انجکشن دینے کے نتیجے میں موت کی خبر کے بعد میڈیا کی تسلی کے لیے اسپتال کو عارضی طور پر سربمہر کرنے کی پھرتی۔
یہ سارا بکھیڑا ، تکلف ، ڈرامہ اس کے سوا کیا بتاتا ہے کہ ریاست کا اپنا نظام شدید بیمار ہے۔شائد دماغی توازن بھی ڈھیلا ہو چکا ہے۔ایک جانب مفت علاج کے اعلانات اور صحت کارڈ بٹ رہے ہیں ، ہیلتھ انشورنس کی خوشخبریاں سنائی جا رہی ہیں تو دوسری جانب پورا نظامِ صحت کمیلا بن چکا ہے۔ مثالی علاج کی میراث سرکاری طبی شعبے سے خیراتی طبی شعبے کو منتقل ہو چکی ہے۔
اس ملک میں ریلوے کا نظام تب تک درست تھا جب تک جج ، وزرا اور جرنیل ریل میں سفر کرتے تھے۔ تعلیم کا نظام تب تک مثالی تھا جب سرکاری اسکولوں میں ڈپٹی کمشنر اور ارکانِ پارلیمان کے بچے پڑھتے تھے۔صحت کا نظام تیر کی طرح سیدھا تھا جب تک ڈاکٹروں کی وہ نسل زندہ تھی جس کے لیے مریض اول اور پیسہ ثانوی تھا۔تب مریضوں کے معائنے کا وقت دوا ساز کمپنیوں کے سیلز پرسنز نے یرغمال نہیں بنایا تھا۔ تب تک ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندوں نے براہِ راست وزیرِ صحت کا دروازہ کھٹکٹانا نہیں سیکھا تھا اور سرکاری اسپتال میں ایک بڑی غفلت پھر نہیں دہرائی جاتی تھی بلکہ نئی طرح کی غفلت ہی سامنے آتی تھی۔
جب یہی نہ رہا تو باقی کیا بچا ؟ اب کوئی بھی موت افسردہ نہیں کرتی کیونکہ موت ایک کی ہو یا بیس کی۔بس دو کالم کی خبر بن کے رہ گئی ہے۔اگلے روز نیا سورج ، نیا المیہ ، نئی خبر ، نئی یقین دہانی۔اگر یہ ریاست کا انہدام نہیں تو پھر اور کیا ہے ریاست کا انہدام ؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)