ظفر آغا کا مضمون اور جواب شکوہ
مختلف صحافتی امور اور خبر پر تعاون ہی میرے اور ظفر آغا کے درمیان رشتہ مضبوط کرتا رہا ہے۔
KARACHI:
ظفر آغا نئی دہلی میں ایک سنیئر صحافی ہیں۔میرا ظفر آغا سے تعارف کوئی نیا نہیں ہے۔ ہم 2001سے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ اس دوران میں دو دفعہ بھارت گیا اور مجھے ظفر آغا کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے۔ تا ہم ظفر آغا ابھی تک پاکستان نہیں آسکے ہیں۔
اس لیے ابھی تک انھوں نے مجھے شرف میزبانی نہیں بخشا ہے۔ ظفر آغا اس دوران مختلف اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ تاہم میرا اور ان کا رابطہ تب ہوا جب وہ بھارت میں تہلکہ ڈاٹ کام کے ایڈیٹر تھے اور انھوں نے مجھے اس بھارتی ویب سائٹ کے لیے لاہور سے لکھنے کی پیشکش کی۔ میں نے ایک قلمی نام سے لکھنا شروع کر دیا۔ جوابی طور پر میں نے بھی انھیں پاکستان میں ایک روزنامہ میں لکھنے کے لیے قائل کیا۔ اس طرح ظفر آغا نے پاکستان میں ایک روزنامہ میں لکھنا شروع کر دیا۔
مختلف صحافتی امور اور خبر پر تعاون ہی میرے اور ظفر آغا کے درمیان رشتہ مضبوط کرتا رہا ہے۔ ظفر آغاا س وقت بھارت میں اردو ہندی اور انگریزی میں بیک وقت خبر دینے والی ایک نیوز ویب سائٹ گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ گروپ بیک وقت اردو میں قومی آواز انگریزی میں نیشنل ہیرلڈ اور ہندی میں نوجیون انڈیا ڈاٹ کام کے نام سے خبر دیتی ہے۔
بھارت میں انتخابات کے دوران ظفر آغاکے ساتھ قریبی رابطہ رہا۔ کہیں نہ کہیں انھیں بھی مودی کی اتنی بڑی کامیابی کی توقع نہیں تھی۔وہ بھارت میں ایک معلق پارلیمنٹ دیکھ رہے تھے۔ ان کے خیال میں مودی کی قیادت میں بی جے پی کواس دفعہ 2014کی نسبت کم کامیابی ملنے کی توقع تھی۔ ان کے خیال میں یو پی میں بھی بی جے پی کی سیٹییں کم ہو رہی تھیں۔
پوری انتخابی مہم کے دوران متعدد بار میں نے ان سے سوال کیا کہ اگلا وزیر اعظم کس کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ ان کی رائے میں عین ممکن ہے کہ نہ مودی اور نہ ہی راہول گاندھی بھارت کے وزیر اعظم بن سکیں بلکہ کسی چھوٹی جماعت سے وزیر اعظم بن جائے۔ بھارت میں ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ اس لیے ایک معلق پارلیمنٹ کی صورت میں یہ ممکن تھا۔ تاہم 23مئی کے نتائج مختلف تھے۔ مودی کو بہت بڑی ہی نہیں بلکہ تاریخی کامیابی مل گئی۔ کانگریس کا بستر گول ہو گیا۔ ان نتائج پر تبادلہ خیال کے لیے میں نے 24مئی کو ظفر آغا کو فون کیا۔ اس فون پر ہونے والی گفتگو کے تناظر میں ظفر آغا نے بھارت میںایک مضمون لکھا ہے جو اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں ظفر آغا لکھتے ہیں۔
'' یہ ذکر ہے 24مئی کا یعنی نریندر مودی کی شاندار فتح سے کوئی چوبیس گھنٹے بعد۔ ہوا یوں کہ صبح نو بجے یکا یک میرے فون کی گھنٹی بجی۔ پاکستان سے میرے صحافی دوست مزمل سہروردی کا فون آیا۔ میں نے فون نہیں اٹھایا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن گیارہ بجے پھر مزمل کا فون آیا۔ میں پھر ٹال گیا۔ سوچا مزمل ہندوستان میں ہندو توا طاقتوں کی شاندار کامیابی پر چھینٹا کشی کریں گے۔ ہم لبرل ہندوستانی، مودی کی شاندار کامیابی پر یو ں ہی پریشان تھے۔ ایسے ماحول میں بھلا پاکستانیوں کے طعنے تشنے سننے کی کیسے ہمت ہوتی۔ لیکن مزمل ٹھہرے ایک صحافی، وہ بھی ظاہر ہے کہ ہندوستانی الیکشن پر بات کرنے کو بے چین تھے۔ تقریبا ایک بجے دوپہر مزمل کا فون پھر آیا۔ آخر میں نے فون اٹھا ہی لیا۔ اور ہوا وہی جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ مزمل چھوٹتے ہی بولے،''کیوں آغا جی آپ آج ہم سے کترا کیوں رہے ہیں۔
آپ گھبرائیے نہیں ہم آپ کو پاکستان میں سیاسی پناہ گزین بنوا دیں گے۔ ہم نے لاہور میں آپ کے لیے گھر بھی دیکھ لیا ہے''۔ میں نے جھنجھلا کر جواب دیا،'' آپ کو کیسے یقین آگیا کہ ہم پاکستان چلے آئیں گے۔ ہم نے تو آج تک پاکستان میں کبھی قدم بھی نہیں رکھا''۔ اب مزمل نے بھی کڑک کر جواب دیا، ''چھوڑیئے دیکھیے ہم نے 1947میں ہی اسلامک اسٹیٹ آف پاکستان بنا دی تھی اور اس کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ لیکن آپ نے اس وقت سیکولرازم کا لبادہ پہنا اور اس کا خوب ڈھنڈورا بھی پیٹا۔ لیکن ہم اب اسلامک ریپبلک آف پاکستان ہیں اور آپ ہندو ریپبلک آف انڈیا ہیں۔ آپ اس بات سے کتنا ہی منہ پھیر لیں، حقیقت یہی ہے۔ اور ہم نے تو کل اپنی ٹی وی شو میں بھی یہی کہاہے کہ آخر قائد اعظم محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ صحیح ثابت ہو ا''۔ )ظفر آغا کا یہ مضمون اردو میں بھارتی ویب سائٹ قومی آواز ڈاٹ کام پر موجود ہے)۔
مضمون میں آگے انھوں نے بھارت سے اپنی محبت کا ذکر کیاہے اور پاکستان نہ جانے کے اپنے آباؤ اجداد کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی ترقی اور اس بحرانی کیفیت سے نبٹنے کے لیے مسلمانوں کو راہ بھی دکھائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سرسید کے راستے پر چل کر ہی بھارتی مسلمان اس ہندوتوا کے حملے سے بچ سکتے ہیں۔ جس پر مجھے ان پر فخر ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ظفر آغا سے بات غلط نہیں کی ہے۔ بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتائج دراصل دو قومی نظریہ پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ نتائج چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ قائد اعظم ٹھیک کہہ رہے تھے، ہندواور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں۔ ان کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ ستر سال بھارت کے ہندوؤں نے ووٹ کی طاقت سے بھارت میں قائد اعظم کی سیاسی سوچ کو درست ثابت کر دیا ہے۔
ظفر آغا اپنے اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں۔''تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس ملک کے ہر مسلمان کو 23مئی سے یہی سوال پریشان کر رہا ہے اور ایک مسلمان ہی کیا کروڑوں لبرل ہندو بھی اسی طرح پریشان ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی پریشانی ایک قدم آگے ہی ہے۔ وہ گھبرایا ہوا ہے۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش میں ہے کہ آیا اب اس ملک میں اس کے لیے کوئی جگہ بچی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ نریندر مودی کوئی اٹل بہاری واجپائی جیسے ہندو لیڈر نہیں ہیں۔ وہ خود کو جن سنگھ اور ہندوتوا نظریہ کا ایک سپاہی مانتے ہیں۔ اوربھارت کو ہندو راشٹر بنانا اپنی زندگی کا عین مقصد سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ہندو راشٹر میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کے لیے محض دوسرے درجہ کی شہری کی جگہ بنتی ہے۔ باالفاظ دیگر کم وبیش غلامی کی ہی زندگی بسر کر سکتا ہے۔
یعنی اب وہ چھوٹے موٹے کام کر کے گندی بستیوں میں رہ کر اور ہر قسم کے اختیار سے محروم ہو کر ہی جی سکتا ہے۔ دراصل ہندوستانی مسلمان آج اسی پریشانی سے ایک بار پھر دوچار ہے جو پریشانی اس کے سامنے 1857کی جنگ آزادی کے بعد آن پڑی تھی۔ اس وقت انگریزوں نے مغل سلطنت کا خاتمہ کر کے محض حکومت ہی نہیں بدلی تھی بلکہ انگریزی دور کے عروج کے ساتھ ساتھ اس ملک کے مسلمانوں کی پوری طرز زندگی کا نظریہ ہی بکھر گیا تھا۔ اس کی زبان، اس کا تعلیمی نظام، اس کی سیاسی و سماجی فکر، اس کا نظام عدل۔ انگریزوں نے راتوں رات سب ختم کر کے پورا کا پوراا یک نیا نظام کھڑا کر دیا تھا۔ یہ وہ صورتحال تھی کہ اس میں سمجھنا ہی مشکل تھا کہ کیا کریں ۔ آخر جائیں کہاں ۔ کیونکہ پورا نظام بکھر گیا تھا۔ آگے نئے نظام کو سمجھنے کا طریقہ اورسمجھ ہی نہ تھی۔ مرزا غالب جنہوں نے خود غدر دیکھا تھا، اس وقت کی ذہنی کوفت کو یوں بیان کیا۔
ایماں مجھے روکے ہے،کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
گاندھی اور نہرو کے آئیڈیا آف انڈیا کے بکھرنے کے بعد کچھ یہی کیفیت ہے۔ اب سیکولر ہندوستان ختم اور ہندوتوا والے ہندوستا ن میں آگے کیسے چلا جائے۔ یہ ہندوستانی مسلمان کی سمجھ سے باہر ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ نہرو کے گنگا جمنی ہندوستان اور مودی کے نیا بھارت کے بیچ اب صرف ایک لفط سیکولرازم کا فاصلہ بچا ہے۔ ایڈوانی جی پہلے ہی کہتے تھے اندرا گاندھی نے لفظ سیکولرازم آئین میں جوڑا تھا۔ اور ہم کو جب موقع ملے گاتو ہم اس لفظ کو ہٹا دیں گے۔ یعنی اب باقاعدہ ہندو راشٹر کا وقت آگیا اور مودی یہ کام کر کے ہی دم لیں گے۔
ظفر آغانے اپنے مضمون میں ہندوستان کے مسلمان کی حالت زارکی منظر کشی کی ہے۔ ان کے مضمون میں ریاست ہندوستان کے لیے بہت سے سوال ہیں۔ ان کا مضمون چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ بھارت کے حالیہ انتخابی نتائج بھارتی مسلمانوں کے لیے کوئی خیر کی خبر نہیں لائے ہیں۔ لیکن مجھے ظفر آغا کی ہمت کی داد بھی دینی ہے کہ وہ ہندوستان کے مسلمان کو امید بھی دلا رہے ہیں۔ حالات سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کی ہمت ابھی ظفر آغا میں ہے۔ جو خوش آئند ہے۔
ظفر آغا نئی دہلی میں ایک سنیئر صحافی ہیں۔میرا ظفر آغا سے تعارف کوئی نیا نہیں ہے۔ ہم 2001سے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ اس دوران میں دو دفعہ بھارت گیا اور مجھے ظفر آغا کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا ہے۔ تا ہم ظفر آغا ابھی تک پاکستان نہیں آسکے ہیں۔
اس لیے ابھی تک انھوں نے مجھے شرف میزبانی نہیں بخشا ہے۔ ظفر آغا اس دوران مختلف اداروں سے وابستہ رہے ہیں۔ تاہم میرا اور ان کا رابطہ تب ہوا جب وہ بھارت میں تہلکہ ڈاٹ کام کے ایڈیٹر تھے اور انھوں نے مجھے اس بھارتی ویب سائٹ کے لیے لاہور سے لکھنے کی پیشکش کی۔ میں نے ایک قلمی نام سے لکھنا شروع کر دیا۔ جوابی طور پر میں نے بھی انھیں پاکستان میں ایک روزنامہ میں لکھنے کے لیے قائل کیا۔ اس طرح ظفر آغا نے پاکستان میں ایک روزنامہ میں لکھنا شروع کر دیا۔
مختلف صحافتی امور اور خبر پر تعاون ہی میرے اور ظفر آغا کے درمیان رشتہ مضبوط کرتا رہا ہے۔ ظفر آغاا س وقت بھارت میں اردو ہندی اور انگریزی میں بیک وقت خبر دینے والی ایک نیوز ویب سائٹ گروپ کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ گروپ بیک وقت اردو میں قومی آواز انگریزی میں نیشنل ہیرلڈ اور ہندی میں نوجیون انڈیا ڈاٹ کام کے نام سے خبر دیتی ہے۔
بھارت میں انتخابات کے دوران ظفر آغاکے ساتھ قریبی رابطہ رہا۔ کہیں نہ کہیں انھیں بھی مودی کی اتنی بڑی کامیابی کی توقع نہیں تھی۔وہ بھارت میں ایک معلق پارلیمنٹ دیکھ رہے تھے۔ ان کے خیال میں مودی کی قیادت میں بی جے پی کواس دفعہ 2014کی نسبت کم کامیابی ملنے کی توقع تھی۔ ان کے خیال میں یو پی میں بھی بی جے پی کی سیٹییں کم ہو رہی تھیں۔
پوری انتخابی مہم کے دوران متعدد بار میں نے ان سے سوال کیا کہ اگلا وزیر اعظم کس کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ ان کی رائے میں عین ممکن ہے کہ نہ مودی اور نہ ہی راہول گاندھی بھارت کے وزیر اعظم بن سکیں بلکہ کسی چھوٹی جماعت سے وزیر اعظم بن جائے۔ بھارت میں ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے۔ اس لیے ایک معلق پارلیمنٹ کی صورت میں یہ ممکن تھا۔ تاہم 23مئی کے نتائج مختلف تھے۔ مودی کو بہت بڑی ہی نہیں بلکہ تاریخی کامیابی مل گئی۔ کانگریس کا بستر گول ہو گیا۔ ان نتائج پر تبادلہ خیال کے لیے میں نے 24مئی کو ظفر آغا کو فون کیا۔ اس فون پر ہونے والی گفتگو کے تناظر میں ظفر آغا نے بھارت میںایک مضمون لکھا ہے جو اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں ظفر آغا لکھتے ہیں۔
'' یہ ذکر ہے 24مئی کا یعنی نریندر مودی کی شاندار فتح سے کوئی چوبیس گھنٹے بعد۔ ہوا یوں کہ صبح نو بجے یکا یک میرے فون کی گھنٹی بجی۔ پاکستان سے میرے صحافی دوست مزمل سہروردی کا فون آیا۔ میں نے فون نہیں اٹھایا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن گیارہ بجے پھر مزمل کا فون آیا۔ میں پھر ٹال گیا۔ سوچا مزمل ہندوستان میں ہندو توا طاقتوں کی شاندار کامیابی پر چھینٹا کشی کریں گے۔ ہم لبرل ہندوستانی، مودی کی شاندار کامیابی پر یو ں ہی پریشان تھے۔ ایسے ماحول میں بھلا پاکستانیوں کے طعنے تشنے سننے کی کیسے ہمت ہوتی۔ لیکن مزمل ٹھہرے ایک صحافی، وہ بھی ظاہر ہے کہ ہندوستانی الیکشن پر بات کرنے کو بے چین تھے۔ تقریبا ایک بجے دوپہر مزمل کا فون پھر آیا۔ آخر میں نے فون اٹھا ہی لیا۔ اور ہوا وہی جس کا مجھے اندیشہ تھا۔ مزمل چھوٹتے ہی بولے،''کیوں آغا جی آپ آج ہم سے کترا کیوں رہے ہیں۔
آپ گھبرائیے نہیں ہم آپ کو پاکستان میں سیاسی پناہ گزین بنوا دیں گے۔ ہم نے لاہور میں آپ کے لیے گھر بھی دیکھ لیا ہے''۔ میں نے جھنجھلا کر جواب دیا،'' آپ کو کیسے یقین آگیا کہ ہم پاکستان چلے آئیں گے۔ ہم نے تو آج تک پاکستان میں کبھی قدم بھی نہیں رکھا''۔ اب مزمل نے بھی کڑک کر جواب دیا، ''چھوڑیئے دیکھیے ہم نے 1947میں ہی اسلامک اسٹیٹ آف پاکستان بنا دی تھی اور اس کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ لیکن آپ نے اس وقت سیکولرازم کا لبادہ پہنا اور اس کا خوب ڈھنڈورا بھی پیٹا۔ لیکن ہم اب اسلامک ریپبلک آف پاکستان ہیں اور آپ ہندو ریپبلک آف انڈیا ہیں۔ آپ اس بات سے کتنا ہی منہ پھیر لیں، حقیقت یہی ہے۔ اور ہم نے تو کل اپنی ٹی وی شو میں بھی یہی کہاہے کہ آخر قائد اعظم محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ صحیح ثابت ہو ا''۔ )ظفر آغا کا یہ مضمون اردو میں بھارتی ویب سائٹ قومی آواز ڈاٹ کام پر موجود ہے)۔
مضمون میں آگے انھوں نے بھارت سے اپنی محبت کا ذکر کیاہے اور پاکستان نہ جانے کے اپنے آباؤ اجداد کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی ترقی اور اس بحرانی کیفیت سے نبٹنے کے لیے مسلمانوں کو راہ بھی دکھائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سرسید کے راستے پر چل کر ہی بھارتی مسلمان اس ہندوتوا کے حملے سے بچ سکتے ہیں۔ جس پر مجھے ان پر فخر ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ظفر آغا سے بات غلط نہیں کی ہے۔ بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتائج دراصل دو قومی نظریہ پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ نتائج چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ قائد اعظم ٹھیک کہہ رہے تھے، ہندواور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں۔ ان کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ ستر سال بھارت کے ہندوؤں نے ووٹ کی طاقت سے بھارت میں قائد اعظم کی سیاسی سوچ کو درست ثابت کر دیا ہے۔
ظفر آغا اپنے اسی مضمون میں آگے لکھتے ہیں۔''تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس ملک کے ہر مسلمان کو 23مئی سے یہی سوال پریشان کر رہا ہے اور ایک مسلمان ہی کیا کروڑوں لبرل ہندو بھی اسی طرح پریشان ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی پریشانی ایک قدم آگے ہی ہے۔ وہ گھبرایا ہوا ہے۔ اور یہ سمجھنے کی کوشش میں ہے کہ آیا اب اس ملک میں اس کے لیے کوئی جگہ بچی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ نریندر مودی کوئی اٹل بہاری واجپائی جیسے ہندو لیڈر نہیں ہیں۔ وہ خود کو جن سنگھ اور ہندوتوا نظریہ کا ایک سپاہی مانتے ہیں۔ اوربھارت کو ہندو راشٹر بنانا اپنی زندگی کا عین مقصد سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ہندو راشٹر میں اقلیتوں اور بالخصوص مسلم اقلیت کے لیے محض دوسرے درجہ کی شہری کی جگہ بنتی ہے۔ باالفاظ دیگر کم وبیش غلامی کی ہی زندگی بسر کر سکتا ہے۔
یعنی اب وہ چھوٹے موٹے کام کر کے گندی بستیوں میں رہ کر اور ہر قسم کے اختیار سے محروم ہو کر ہی جی سکتا ہے۔ دراصل ہندوستانی مسلمان آج اسی پریشانی سے ایک بار پھر دوچار ہے جو پریشانی اس کے سامنے 1857کی جنگ آزادی کے بعد آن پڑی تھی۔ اس وقت انگریزوں نے مغل سلطنت کا خاتمہ کر کے محض حکومت ہی نہیں بدلی تھی بلکہ انگریزی دور کے عروج کے ساتھ ساتھ اس ملک کے مسلمانوں کی پوری طرز زندگی کا نظریہ ہی بکھر گیا تھا۔ اس کی زبان، اس کا تعلیمی نظام، اس کی سیاسی و سماجی فکر، اس کا نظام عدل۔ انگریزوں نے راتوں رات سب ختم کر کے پورا کا پوراا یک نیا نظام کھڑا کر دیا تھا۔ یہ وہ صورتحال تھی کہ اس میں سمجھنا ہی مشکل تھا کہ کیا کریں ۔ آخر جائیں کہاں ۔ کیونکہ پورا نظام بکھر گیا تھا۔ آگے نئے نظام کو سمجھنے کا طریقہ اورسمجھ ہی نہ تھی۔ مرزا غالب جنہوں نے خود غدر دیکھا تھا، اس وقت کی ذہنی کوفت کو یوں بیان کیا۔
ایماں مجھے روکے ہے،کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
گاندھی اور نہرو کے آئیڈیا آف انڈیا کے بکھرنے کے بعد کچھ یہی کیفیت ہے۔ اب سیکولر ہندوستان ختم اور ہندوتوا والے ہندوستا ن میں آگے کیسے چلا جائے۔ یہ ہندوستانی مسلمان کی سمجھ سے باہر ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ نہرو کے گنگا جمنی ہندوستان اور مودی کے نیا بھارت کے بیچ اب صرف ایک لفط سیکولرازم کا فاصلہ بچا ہے۔ ایڈوانی جی پہلے ہی کہتے تھے اندرا گاندھی نے لفظ سیکولرازم آئین میں جوڑا تھا۔ اور ہم کو جب موقع ملے گاتو ہم اس لفظ کو ہٹا دیں گے۔ یعنی اب باقاعدہ ہندو راشٹر کا وقت آگیا اور مودی یہ کام کر کے ہی دم لیں گے۔
ظفر آغانے اپنے مضمون میں ہندوستان کے مسلمان کی حالت زارکی منظر کشی کی ہے۔ ان کے مضمون میں ریاست ہندوستان کے لیے بہت سے سوال ہیں۔ ان کا مضمون چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ بھارت کے حالیہ انتخابی نتائج بھارتی مسلمانوں کے لیے کوئی خیر کی خبر نہیں لائے ہیں۔ لیکن مجھے ظفر آغا کی ہمت کی داد بھی دینی ہے کہ وہ ہندوستان کے مسلمان کو امید بھی دلا رہے ہیں۔ حالات سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کی ہمت ابھی ظفر آغا میں ہے۔ جو خوش آئند ہے۔