پاکستانی ہاکی کا یومِ سیاہ سابق اسٹارز غم سے چور
حکام سے کوئی بازپرس کرنے والا نہیں(شہباز) ڈومیسٹک نظام بہتربنائیں(حسن سردار).
تاریخ میں پہلی بار ٹیم کے ورلڈکپ سے باہر ہونے پر سابق اسٹارز غم سے چور ہیں، انھوں نے اسے پاکستانی ہاکی کا یوم سیاہ قرار دیا ہے۔
1971 میں پہلا عالمی اعزاز جیتنے والی ٹیم کے کپتان خالد محمود نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہاکہ مجھے شکست پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ یہ نوشتہ دیوار پہلے ہی پڑھ لیا گیا تھا، انھوں نے کہا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈور اور ٹیم مینجمنٹ سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے، جب ایسا ہوگا تو نتائج بھی بدترین ہی آئیں گے۔ 1978 کا ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان اصلاح الدین نے کہا کہ یہ ملکی ہاکی کا سیاہ ترین دن ہے، اس کے ذمہ دار پی ایچ ایف کے کرتا دھرتا ہیں، انھیں نہ ہٹایا گیا تو دنیا میں پاکستانی ہاکی کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہے گا، انھوں نے کہا کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ملک جس نے دنیا میں ہاکی کا ورلڈکپ متعارف کرایا وہ کبھی اس ٹورنامنٹ سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔
1994 ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد نے کہاکہ موجودہ فیڈریشن نے قومی کھیل کو بدترین مقام پر لاکھڑا کیا، قومی کھیل کے ساتھ جس طرح مذاق ہوا اور ملکی وقار کو دھچکا پہنچااس کے باوجود کوئی بازپرس کرنے والا نہیں ہے، افسوس اس بات پر ہے کہ حکومت بھی اس معاملے میں دلچسپی نہیں لیتی رہی ۔ حسن سردار نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم کے پہلی مرتبہ ورلڈکپ میں شرکت نہ کرنے میں بہت غمزدہ ہوں، ہاکی کے حوالے سے یہ میری زندگی کا بدترین دن ہے،کھلاڑیوں میں میچ ٹمپرامنٹ کی کمی نظر آئی،ملنے والے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا،حریف کھلاڑیوں کی مارکنگ نہ کی جا سکی، فارورڈ لائن اپنی ذمہ داری ادا نہ کر سکی اور پاکستان کو شکست ہوگئی۔
انھوں نے کہا کہ پی ایچ ایف کوقومی ہاکی کا کھویا ہوا مقام واپس لانے کے ڈومیسٹک اسٹرکچر بہتر کرنا ہو گا،نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے،انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کے بجائے قومی سطح پرزیادہ ٹورنامنٹس کا انعقاد کرنا چاہیے۔ سابق اسٹار رانا مجاہد نے کہاکہ قومی ٹیم کی جنوبی کوریا سے شکست کے ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف ایکشن لیا جائے، انھوں نے کہا کہ گرین شرٹس نے سیمی فائنل میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن بدقسمتی سے فتح نہ مل سکی،انھوں نے کہاکہ میں شکست پر ٹیم کا دفاع نہیں کروں گا کیونکہ حقیقت سب کے سامنے ہے، ورلڈ کپ کیلیے کوالیفائی نہ کرنے کا مجھے بھی بہت دکھ ہے۔
1971 میں پہلا عالمی اعزاز جیتنے والی ٹیم کے کپتان خالد محمود نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہاکہ مجھے شکست پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ یہ نوشتہ دیوار پہلے ہی پڑھ لیا گیا تھا، انھوں نے کہا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈور اور ٹیم مینجمنٹ سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے، جب ایسا ہوگا تو نتائج بھی بدترین ہی آئیں گے۔ 1978 کا ورلڈکپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان اصلاح الدین نے کہا کہ یہ ملکی ہاکی کا سیاہ ترین دن ہے، اس کے ذمہ دار پی ایچ ایف کے کرتا دھرتا ہیں، انھیں نہ ہٹایا گیا تو دنیا میں پاکستانی ہاکی کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہے گا، انھوں نے کہا کہ میں کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ملک جس نے دنیا میں ہاکی کا ورلڈکپ متعارف کرایا وہ کبھی اس ٹورنامنٹ سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔
1994 ورلڈکپ کی فاتح ٹیم کے کپتان شہباز احمد نے کہاکہ موجودہ فیڈریشن نے قومی کھیل کو بدترین مقام پر لاکھڑا کیا، قومی کھیل کے ساتھ جس طرح مذاق ہوا اور ملکی وقار کو دھچکا پہنچااس کے باوجود کوئی بازپرس کرنے والا نہیں ہے، افسوس اس بات پر ہے کہ حکومت بھی اس معاملے میں دلچسپی نہیں لیتی رہی ۔ حسن سردار نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹیم کے پہلی مرتبہ ورلڈکپ میں شرکت نہ کرنے میں بہت غمزدہ ہوں، ہاکی کے حوالے سے یہ میری زندگی کا بدترین دن ہے،کھلاڑیوں میں میچ ٹمپرامنٹ کی کمی نظر آئی،ملنے والے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا،حریف کھلاڑیوں کی مارکنگ نہ کی جا سکی، فارورڈ لائن اپنی ذمہ داری ادا نہ کر سکی اور پاکستان کو شکست ہوگئی۔
انھوں نے کہا کہ پی ایچ ایف کوقومی ہاکی کا کھویا ہوا مقام واپس لانے کے ڈومیسٹک اسٹرکچر بہتر کرنا ہو گا،نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے،انٹرنیشنل ایونٹس میں شرکت کے بجائے قومی سطح پرزیادہ ٹورنامنٹس کا انعقاد کرنا چاہیے۔ سابق اسٹار رانا مجاہد نے کہاکہ قومی ٹیم کی جنوبی کوریا سے شکست کے ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف ایکشن لیا جائے، انھوں نے کہا کہ گرین شرٹس نے سیمی فائنل میں اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن بدقسمتی سے فتح نہ مل سکی،انھوں نے کہاکہ میں شکست پر ٹیم کا دفاع نہیں کروں گا کیونکہ حقیقت سب کے سامنے ہے، ورلڈ کپ کیلیے کوالیفائی نہ کرنے کا مجھے بھی بہت دکھ ہے۔