خیبرپختونخوا میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں ہولناک اضافہ
فنڈز کی قلت کے باعث محکمہ صحت صرف 4 ہزار مریضوں کو ہی مفت علاج فراہم کررہا ہے
خیبر پختونخوا میں ایک برس کے دوران ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں ہیپاٹائٹس سی یعنی کالے یرقان کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد گزشتہ سال 12000 ہزار تھی جوکہ رواں سال بڑھ کر 16000ہزار ہوگئی ہے۔ اسی طرح ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی تعداد بھی 5500 سے بڑھ کر 7000ہزار ہوگئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اعدادوشمار میں ابھی نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں کا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں ہپٹائٹس سی کی شرح 4.5 فیصد اور ہیپاٹائٹس بی کی شرح 2.5 فیصد بتائی جاتی ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے قطع نظر صرف کالے یرقان کے مریضوں کی تعداد 70ہزار سے زائد ہوچکی ہے جوکہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس حوالے سے تاحال اقدامات کا اب بھی فقدان ہے۔
اس وقت صوبے میں سب سے زیادہ کالے یرقان کا شکار مریضوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں رجسٹرڈ کیا گیاہے جہاں یہ تعداد 1500 بتائی جاتی ہے جبکہ دیگر 2 بڑے ایم ٹی آئی اسپتالوں میں بھی 600 سے زائد مریض رجسٹرڈ ہیں اسی طرح نصیر اللہ بابر میموریل اسپتال پشاور میں 500 کالے یرقان کے مریضوں کو رجسٹرڈ کیا گیاہے۔
پشاور کے علاوہ اس وقت سوات اور مانسہرہ میں 1200،1200، چارسدہ، مردان اور بنوں میں ،600، 600، بونیر میں 500، نوشہرہ اور ٹانک 200 جب کہ لکی مروت میں 100 مریضوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔
دوسری طرف ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی تعداد بھی کم نہیں،ہیپاٹائٹس بی نے اس وقت سب سے زیادہ ڈی آئی خان میں وبائی صورتحال اختیار کر رکھی ہے جہاں 1300 مریضوں کو رپورٹ کیا گیا ہے جب کہ بنوں میں بھی 600 کےعلاوہ ٹانک میں 500، مانسہرہ 400، بونیر 200، سوات 200 اور لکی مروت 150 مریضوں کے ساتھ سرفہرست ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں حالیہ محکمہ صحت نے ہیپٹائٹس کے مریضوں کے لئے 5 کروڑ روپے کی ادویات خریدی ہیں تاہم بڑھتے ہوئے مرض کے مقابلے میں یہ ادویات مریضوں کے لئے ناکافی ہیں۔ صوبے میں فنڈز کی قلت کے باعث محکمہ صحت صرف 4 ہزار مریضوں کو ہی مفت علاج فراہم کررہا ہے جب کہ خیبر پختونخوا کے مقابلے میں صوبہ پنجاب میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کے لئیے 70کروڑ کی ادویات کی خریداری کی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں آبادی میں اضافہ، آلودہ خوراک و پانی کے استعمال، ناقص سیوریج نظام، حفظان صحت کے اصولوں کے منافی صورتحال، آلودہ سرنجوں وآلات کے استعمال اور آگاہی کی کمی سے مرض میں اضافہ ہورہا ہے۔
محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں ہیپاٹائٹس سی یعنی کالے یرقان کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد گزشتہ سال 12000 ہزار تھی جوکہ رواں سال بڑھ کر 16000ہزار ہوگئی ہے۔ اسی طرح ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی تعداد بھی 5500 سے بڑھ کر 7000ہزار ہوگئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اعدادوشمار میں ابھی نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں کا ڈیٹا شامل نہیں ہے۔ اس وقت خیبر پختونخوا میں ہپٹائٹس سی کی شرح 4.5 فیصد اور ہیپاٹائٹس بی کی شرح 2.5 فیصد بتائی جاتی ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری اعدادوشمار کے قطع نظر صرف کالے یرقان کے مریضوں کی تعداد 70ہزار سے زائد ہوچکی ہے جوکہ انتہائی خطرناک ہے۔ اس حوالے سے تاحال اقدامات کا اب بھی فقدان ہے۔
اس وقت صوبے میں سب سے زیادہ کالے یرقان کا شکار مریضوں کو لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور میں رجسٹرڈ کیا گیاہے جہاں یہ تعداد 1500 بتائی جاتی ہے جبکہ دیگر 2 بڑے ایم ٹی آئی اسپتالوں میں بھی 600 سے زائد مریض رجسٹرڈ ہیں اسی طرح نصیر اللہ بابر میموریل اسپتال پشاور میں 500 کالے یرقان کے مریضوں کو رجسٹرڈ کیا گیاہے۔
پشاور کے علاوہ اس وقت سوات اور مانسہرہ میں 1200،1200، چارسدہ، مردان اور بنوں میں ،600، 600، بونیر میں 500، نوشہرہ اور ٹانک 200 جب کہ لکی مروت میں 100 مریضوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔
دوسری طرف ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی تعداد بھی کم نہیں،ہیپاٹائٹس بی نے اس وقت سب سے زیادہ ڈی آئی خان میں وبائی صورتحال اختیار کر رکھی ہے جہاں 1300 مریضوں کو رپورٹ کیا گیا ہے جب کہ بنوں میں بھی 600 کےعلاوہ ٹانک میں 500، مانسہرہ 400، بونیر 200، سوات 200 اور لکی مروت 150 مریضوں کے ساتھ سرفہرست ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں حالیہ محکمہ صحت نے ہیپٹائٹس کے مریضوں کے لئے 5 کروڑ روپے کی ادویات خریدی ہیں تاہم بڑھتے ہوئے مرض کے مقابلے میں یہ ادویات مریضوں کے لئے ناکافی ہیں۔ صوبے میں فنڈز کی قلت کے باعث محکمہ صحت صرف 4 ہزار مریضوں کو ہی مفت علاج فراہم کررہا ہے جب کہ خیبر پختونخوا کے مقابلے میں صوبہ پنجاب میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کے لئیے 70کروڑ کی ادویات کی خریداری کی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں آبادی میں اضافہ، آلودہ خوراک و پانی کے استعمال، ناقص سیوریج نظام، حفظان صحت کے اصولوں کے منافی صورتحال، آلودہ سرنجوں وآلات کے استعمال اور آگاہی کی کمی سے مرض میں اضافہ ہورہا ہے۔