لاہورکے اولڈ ایج ہومز میں مقیم بزرگ شہری عید پراپنوں کی راہ تکنے لگے

اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ میری اولاد کو ہدایت نصیب فرمائے، بوڑھی ماں کی دعا


June 04, 2019
لاہور میں اس وقت 10 کے قریب سرکاری وغیر سرکاری اولڈ ایج ہوم ہیں فوٹو: ایکسپریس

KARACHI: شہر کے مختلف اولڈ ایج ہومز میں مقیم بزرگ شہریوں کی آنکھیں عیدپراپنوں کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ قسمت اورحالات کا شکاران بزرگ شہریوں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی دیکھ بھال کرنیوالا کوئی نہیں ہے جبکہ کئی ایسے بھی ہیں جن کی اولاد خود انہیں یہاں چھوڑگئی ہے۔

لاہور کی پاک عرب سوسائٹی میں بنائے گئے ہیون ہومز میں اس وقت 14 بزرگ شہری مقیم ہیں ، ان میں 55 سالہ خاتون رشیدہ خانم بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے تین بچے ہیں اور تینوں شادی شدہ ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی تھیں لیکن بیٹا کاروبار میں نقصان کی وجہ سے بہت زیادہ مقروض ہوگیا اوراس نے مجھے میری بڑی بیٹی کے گھر چھوڑ دیا اور پھر بیٹی مجھے یہاں چھوڑگئی۔ انہوں نے آبدیدہ آوازمیں بتایا کہ بیٹا تو پھر بھی کبھی کبھار ملنے آجاتا ہے لیکن بیٹیاں جن سے وہ سب سے زیادہ پیارکرتی تھیں وہ آج تک ملنے نہیں آئیں۔ عید پر کوئی ملنے آگیا تو ٹھیک ورنہ صبر شکر کرکے جس طرح باقی دن گزرگئے عید کا دن بھی گزارلیں گے۔

ایک اور خاتون کا کہنا تھا ان کے 4 بچے ہیں، تینوں بیٹیاں شادی کے بعد بیرون ملک مقیم ہیں۔ ایک بیٹی کے ساتھ وہ ساؤتھ افریقا میں تھیں، بیٹی نے وہاں سے واپسی کا ٹکٹ کروا کر پاکستان بھیج دیا اورمیں پھر یہاں آگئی۔ وہ اپنے بچوں کے نام نہیں بتانا چاہتیں، وہ عزت دارلوگ ہیں اور بڑی سوسائٹی میں رہتے ہیں۔ اس طرح ان کی بدنامی ہوگی اور کوئی ماں اپنے بچوں کی بدنامی کیسے کرسکتی ہے۔ بس اللہ سے دعاکرتی ہوں کہ میری اولاد کو ہدایت نصیب فرمائے۔

ایک بزرگ محمد دین نے کہا اس نے زندگی کے 25 سال بیرون ملک گزارے جو کچھ کمایا اولاد کے لئے بھیجتا رہا، ان کواچھی تعلیم دلائی، شادیاں کیں اورجب واپس آیا تو اولاد نے منہ موڑ لیا۔ ایک بیٹا ڈاکٹر جب کہ دوسرا ایک بڑا سرکاری افسرہے۔ دونوں لاہورمیں ہی رہتے ہیں۔ کبھی کبھارفون پربات کرلیتے ہیں، ہوسکتا ہے عید پر وہ مجھے لینے آئیں۔

اولڈاویج میں مقیم بزرگوں کا کہنا تھا کہ انہیں عید پرنئے کپڑے اورجوتے ادارے کی طرف سے اورمخیرحضرات کی طرف سے مل گئے ہیں، اس طرح کے کپڑے اور جوتے شاید ان کی اپنی اولاد بھی نہ خرید کردیتی۔ کئی لوگ عیدی بھی دے کرگئے ہیں۔

اولڈ ایج ہوم کے نگران ڈاکٹر جمیل کہتے ہیں ان کا ادارہ گزشتہ 14 برس سے بے سہارا بزرگ شہریوں کی خدمات کرنے میں مصروف ہے، ان کے پاس ہرسال تقریبا 100 قریب بزرگ شہری آتے ہیں۔ ڈاکٹرجمیل نے بتایا زیادہ ترتین قسم کے بزرگ شہری اولڈ ایج ہوم میں رہتے ہیں، ایک وہ ہیں جو زندگی بھرشادی نہیں کرتے اور ضعیف ہونے پران کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ یہاں آجاتے ہیں۔ کچھ بزرگ ایسے ہیں جو شادی کرتے ہیں مگران کی اولاد نہیں ہوتی اور بوڑھا ہونے پر کوئی ان کی دیکھ بھال نہیں کرسکتا جبکہ تیسری قسم ایسے بزرگ شہریوں کی ہے جن کی سگی اولاد خود انہیں یہاں چھوڑجاتی ہے۔ بعض بزرگوں کی اولاد تو یہ بھی نہیں بتاتی کہ جن کو وہ یہاں چھوڑکرجارہے ہیں وہ ان کے ماں باپ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ بزرگ ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔

ڈاکٹر جمیل نے بتایا کہ اپنوں کے لگائے ہوئے زخموں کو تو یہ بزرگ کبھی نہیں بھول پاتے تاہم ان کی کوشش ہے کہ ان بزرگوں کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی جاسکے، ان کی صحت، خوراک اورآرام کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن جب کبھی کوئی خوشیوں کا تہوار آتا ہے توان بزرگوں کی آنکھیں اپنوں کی راہ دیکھتی ہیں۔ چند ایک ایسے بزرگ ہیں جن کے رشتہ دار عید پرانہیں واپس گھرلے جاتے ہیں تاہم اکثریت عید کی خوشیاں اولڈ ایج ہوم میں ہی مناتے ہیں۔

لاہورمیں اس وقت 10 کے قریب سرکاری وغیر سرکاری اولڈ ایج ہوم ہیں جن میں 500 سے زائد بے سہارا اور شہری اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں کے رہن سہن، خوراک اورصحت کا خیال مخیر حضرات کی طرف سے ملنے والے عطیات سے کیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔