عید مبارک
رمضان المبارک آیا اور اپنی تمام رحمتیں، برکتیں، نعمتیں اور فضیلتیں نچھاور کر کے چلا گیا۔
عید کب کروا رہے ہو؟ ان کا خیال تھا کہ میں اس سوال کے جواب میں رویت ہلال کمیٹی کی شان میں کوئی قصیدہ سناؤں گا یا عید کا چاند ہونے کے بارے میں اپنا قیاس ظاہر کروں گا مگر میری زبان سے بے اختیار نکلا، ''بھائی آپ نے عید سے کیا لینا ہے؟'' اور میرا یہ جواب اپنی جگہ بالکل درست تھا، مجھے یہی کہنا چاہیے تھا مگر وہ صاحب ایسے جواب کے لیے تیار نہ تھے۔ گویا سٹپٹا گئے اور کہنے لگے، ''کیوں بھائی، یہ کیا کہہ رہے ہو؟'' میں نے کہا ''بھائی یہ عید تو اس کی ہو گی جس نے رمضان کے روزے رکھے ہوں۔''
دراصل وہ صاحب رمضان المبارک کے روزوں کو شاید غیر ضروری سمجھتے تھے (نعوذباللہ) یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ روزے نہیں رکھتے تھے بلکہ اپنے اس قبیح عمل کو چھپاتے بھی نہ تھے۔ گویا اس معاملے میں نہایت ہی بے حس واقع ہوئے تھے، آج کل ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں، آپ کو اپنے ارد گرد ایسے بے شمار کردار چلتے پھرتے نظر آئیں گے، سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسے لوگوں نے عید کس منہ سے منائی اور عید کے دن انھیں کس بات کی خوشی ہوئی ہو گی۔ حالانکہ عید کا دن ایسے لوگوں کے لیے خوشی کا نہیں بلکہ غم کا دن تھا۔ چنانچہ احادیث مبارکہ میں اس شخص کے لیے وعید آئی کہ جس نے رمضان کو ضایع کر دیا، رمضان پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا جب کہ مبارک باد کے مستحق ہیں وہ خوش نصیب لوگ، جنھوں نے رمضان شریف کی رحمت بھری، ہر ایک گھڑی میں اپنے لیے رحمتیں، نعمتیں، برکتیں اور فضیلتیں سمیٹ لیں اور مالا مال و خوشحال ہو گئے، چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ:
''جب عید الفطر کی رات (چاند رات) آتی ہے۔ ملائکہ خوشی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کی خاص تجلی فرماتا ہے۔ فرشتوں سے فرماتا ہے، اے گروہ ملائکہ! اس مزدورکا کیا بدلہ ہے جس نے کام پورا کر لیا (یعنی رمضان المبارک کے تمام روزے ایمان و اخلاص کے ساتھ پورے کر لیے)۔ فرشتے عرض کرتے ہیں، اس کو پورا پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں نے ان سب (روزہ داروں) کو بخش دیا۔''
آنحضرتؐ نے عید الفطر کی عظمت خود اس طرح بیان فرمائی، ''عید کا دن جب آتا ہے تو فرشتے راستے کے دہانوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور پکار پکارکر کہتے ہیں کہ اے مسلمانو! سویرے سویرے اپنے رب کی جانب چلو، جس نے بھلائیوں کے دروازے تمہارے لیے کھول رکھے ہیں۔ تم کو قیام الیل و نماز و تراویح کا حکم دیا گیا تھا، جس کو تم نے پورا کیا اور اپنے رب کی اطاعت کا حق ادا کر دیا۔ پھر جب نماز دوگانہ ادا کر لیتے ہیں تو منادی فلک پکارتا ہے کہ مسلمانو! تمہارے رب نے تم کو بخش دیا۔ جاؤ پاک صاف ہو کر اپنے گھروں کو جاؤ، یہی یوم الجائزہ انعام تقسیم ہونے کا دن ہے اور اسی دن کو آسمان والے بھی یوم الجائزہ کے دن سے یاد کرتے ہیں۔'' بے شک کسی بھی مومن کے لیے تمام خوشیوں سے بڑھ کر اعلیٰ اور افضل خوشی یہی عیدالفطر کے ایام ہیں۔
رمضان المبارک آیا اور اپنی تمام رحمتیں، برکتیں، نعمتیں اور فضیلتیں نچھاور کر کے چلا گیا۔ ہوش مند مومنین نے رب کائنات کی رحمت خاص کو خوب لوٹا۔ رمضان کریم کی برکات و سعادتوں سے اپنے دامن کو خوب بھرے۔ انوار و تجلیات سے اپنے تن من کے تاریک گوشوں کو خوب منور کیا۔ اہل توفیق نے دامن رحمت و مغفرت تھام کر صیام و قیام اور ذکر و تلاوت سے اپنے ایمان کو جلا بخشی۔ توبہ و انابت کی سبیل میں غوطہ زن ہو کر قدسیوں سے قدم ملانے کی کوشش کی۔ بے پناہ خوش نصیب اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ وہ عبادت گزار بندے جو رمضان شریف کی رحمت بھری راتوں سے لطف اندوز اور برکتوں بھرے دنوں سے مستفیض ہوئے۔
ماہ صیام و قیام کا حق ادا کیا اور اس مہمان سعید کی مہمان نوازی کا شرف حاصل کیا۔ قرب و سفاک منزلیں طے کیں۔ دن میں بھوک و پیاس اور راتوں میں طویل قیام اور شب بیداری کی سختیاں رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر برداشت کیں۔ فرائض، واجبات اور سنن کے علاوہ نوافل میں مصروف و مشغول رہے۔ تزکیہ نفس بلکہ نفس امارہ کا علاج کیا، عشرہ اول میں طالب رحمت، عشرہ دوم میں متلاشی مغفرت اور عشرہ سوم میں جہنم سے آزادی کے پروانے کے لیے آرزو مند و بے قرار رہا۔ راتوں میں جاگ کر ''شب قدر'' ہزار مہینوں سے بہتر کی تلاش میں سرگرداں رہا اور بالآخر رب غفور و رحیم و کریم کو منا ہی لیا۔
لیکن وہ بدنصیب تباہ و برباد ہو گیا جس نے صیام و قیام سے اپنی مغفرت کا سامان نہ پیدا کیا۔ ماہ مبارک میں اپنی مغفرت کے لیے اللہ عز و جل کو راضی نہ کر سکا۔ رمضان میں بھی عصیان و طغیان کو خیر باد نہ کہا۔ توبہ و انابت اور تصرع و زاری کے ذریعے جہنم سے آزادی پروانہ رحمت و مغفرت نہ حاصل کیا اور نہ ہی اس کی کوشش و جستجو کی، بلکہ کمال بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرائض و احکام خداوندی کا مذاق اڑایا اور نافرمانی کی۔ شیاطین تو مقید تھے مگر وہ ان کا سفیر، ایلچی اور آلہ کار بنا رہا۔ اس کے لیے عید میں کوئی حصہ نہیں رہا، کوئی انعام نہیں، کوئی خوشی کا پیام نہیں، کوئی مغفرت و جہنم سے آزادی کا اعلان نہیں۔ چنانچہ ان کے لیے عید، عید نہیں وعید ہے۔
تو کیا ایسے بدنصیبوں کو خوشی منانی چاہیے جنھوں نے اپنی تن آسانی اور تن پروری نیز نفسانی خواہشات کی خاطر اللہ کی رضا اور مغفرت کے حصول کا نادر و بیش قیمت موقع گنوا دیا ہو اور جن کے لیے افضل الملائکہ جبرئیلؑ نے ہلاکت کی بدعا کی ہو اور اس بد دعا پر افضل البشر خاتم الرسلؐ نے آمین کہی ہو۔ وہ رحمت اللعالمین جس نے اکثر بد دعا سے احتراز کیا، پتھر کھا کر دعائیں دیں۔ آخر کوئی بات تو ہے کہ ماہ رمضان ضایع کرنے والے کے لیے بد دعا پر آمین کہتے ہیں، کیا جبریلؑ کی بد دعا جس پر محبوب خدا نے آمین کہی ہو، رد ہو سکتی ہے؟ تو کیا جن لوگوں کے لیے یہ بددعا کی گئی، انھیں خوشیاں منانی چاہئیں یا سوگ؟
بہرحال اللہ کی رحمت سے مایوسی بھی تو کفر ہے، جب تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے، اللہ غفور الرحیم بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، تو میرے وہ بھائی جو رمضان کا ماہ مبارک ضایع کرنے کے بعد عید کی حقیقی خوشیوں سے محروم رہے، اس سچے اور پکے عہد کے ساتھ کہ آیندہ اب کبھی ماہ رحمت و مغفرت کی برکتوں سے محروم نہیں رہیں گے اور رضائے الٰہی کی خاطر، اطاعت الٰہی کا پورا خیال رکھیں گے۔ وہ دعا کریں اور اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کو یاد کر کے احساس ندامت کے ساتھ صدق دل سے اللہ کے حضور معافی چاہیں اور جب دل نرم پڑ جائے اور رونا آ جائے تو سمجھ لیں کہ بارگاہ رب العالمین میں توبہ قبول و مقبول ہو گئی۔ تمام عالم اسلام و مسلم امہ کو دلی عید مبارک۔