اور روزے گزر گئے

رمضان المبارک میں اگر بازاروں کی رونق بڑھتی ہے تو پہلی تراویح سے ہی مساجد میں بڑھنے والی رونق دیکھنے والی ہوتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی حکومت کے لیے پاکستان میں پہلا رمضان المبارک حسب معمول آیا اور ماضی کی طرح اس بار بھی روزے گزر گئے اور ویسے ہی گزرے جیسے ماضی کی تمام جمہوری و غیر جمہوری حکومتوں میں گزرا کرتے تھے۔

نئے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان جو رمضان المبارک اور عید الفطر پر آتا تھا، اس پر ڈالر کی اونچی اڑان اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھنے سے چند ماہ قبل ہی آ گیا تھا جس کا اثر پورے ملک پر پڑا ۔

تبدیلی حکومت نے بھی پہلے مہنگائی بڑھائی اور بعد میں ماضی کی حکومتوں کی طرح رمضان المبارک میں قوم پر احسان۔ یوٹیلٹی اسٹورز پر فروخت کی جانے والی اشیا، جن کے معیار کی ضمانت کبھی کسی حکومت سے نہیں ملی، پر سبسڈی دے کر کیا، جو عوام سے زیادہ ان گراں فروش دکانداروں کو ملی جو یوٹیلیٹی اسٹورز کے انچارجوں سے ملی بھگت کر کے رات کے اندھیرے میں وہ سستی اشیا خرید لیتے ہیں جو غریبوں کے لیے آتی ہیں مگر انھیں برائے نام اور مشروط طور پر ملتی ہیں اور حکومت کی عوام کے لیے دی گئی، سبسڈی عوام کے بجائے یوٹیلٹی اسٹورز افسران کی کچھ جیب میں جاتی ہے اور باقی ان دکانداروں کی جو یوٹیلیٹی اسٹور پر آتی ہیں۔

بالا ہی بالا خرید لیتے ہیں جو انھیں ہول سیل سے بھی ارزاں ملتی ہیں اور عوام انتظار کرتے ہی رہ جاتے ہیں۔گراں فروشوں پر کنٹرول اب صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے اس لیے وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو یہ ہدایت بھی نہیں کرتیں کہ کہیں صوبائی خودمختاری میں مداخلت نہ تصور ہو جائے ، جب کہ صوبائی حکومتیں پہلے ہی کہہ دیتی ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر ویلیو بڑھا کر جب وفاقی حکومت خود مہنگائی بڑھاتی ہے تو صوبائی حکومتیں قیمتوں پر کنٹرول کیسے کریں؟ صوبائی حکومتوں کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر روایتی طور پر رمضان سے قبل اجلاس منعقد کر کے غیر حقیقی نرخ مقرر کرا دیتے ہیں اور تاجروں کو روایتی انتباہ کر کے اپنی اپنی ذمے داریاں پوری کر دیتی ہیں جن پر عمل کبھی بھی نہیں ہوا۔

میڈیا میں گراں فروشی کے شور پر سرکاری افسران سبزی و پھل مارکیٹوں اور دکانوں خصوصاً ریڑھی پتھاروں پر جا کر جرمانے کرتے ہیں جو سر کاری فنڈ میں جاتے ہیں۔ گراں فروش جرمانے کی رقم بمع سود گاہکوں سے قیمتیں بڑھا کر وصول کر لیتے ہیں اور جرمانہ مہم کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔


رمضان المبارک میں حکومت سال میں صرف ایک بار عوام کو یوٹیلیٹی اسٹوروں سے خریداری پر سبسڈی دینے کا ناکام ڈرامہ کرتی ہے جب کہ فلاحی اور سماجی ادارے سال بھر عوام کو سہولتیں دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ بعض ادارے غریبوں کے قابل بچوں کو اعلیٰ تعلیم اور مستحق مریضوں کا علاج زکوٰۃ و عطیات سے کراتے ہیں جب کہ وفاقی حکومت یکم رمضان کو بینکوں کے ذریعے جبری طور جو زکوٰۃ کے نام پر رقم وصول کرتی ہے وہ ملک بھر میں ان زکوٰہ کمیٹیوں کے ذریعے تقسیم کراتی ہے جن زکوٰۃ کمیٹیوں کے انتخابات خون خرابے اور سیاسی طور پر ہوتے ہیں جن کے اکثر عہدیدار زکوٰۃ کی رقم میں خرد برد کو گناہ نہیں سمجھتے اور نہ سرکاری طور پر رمضان سے قبل بتایا جاتا ہے کہ بینکوں کے ذریعے جو جبری زکوٰۃ کٹوائی گئی تھی وہ کتنی، کہاں اور کیسے خرچ ہوئی۔

سرکاری زکوٰۃ کی تقسیم میں غریبوں کو ذلیل کر کے، ان کی عزت نفس کھلے عام مجروح کرنا معمول رہا ہے جب کہ بعض سماجی ادارے زکوٰۃ و عطیات کی تقسیم اس طرح سے کرتے ہیں کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ اس سلسلے میں ایک واضح مثال سیلانی انٹرنیشنل ویلفیئر ٹرسٹ کی بھی ہے جو کسی غریب کی شادی کے لیے جو جہیز کا سامان فراہم کرتا ہے وہ سامان سیلانی کی گاڑیوں کی بجائے پرائیویٹ گاڑیوں کے ذریعے بھیجا جاتا ہے تا کہ کسی اور کو پتہ نہ چلے کہ سامان بازار سے خریدا گیا ہے یا کہیں سے امداد میں ملا ہے۔ فلاحی ادارے چلانے والے عہدیدار اپنے طور معلومات کروا کر امداد فراہم کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مستحق کو ہی امداد ملے جب کہ ہمارے یہاں تو زکوٰۃ کا مال بھی باپ کا مال سمجھ کر ہڑپ کرنے کو برا یا غیر شرعی نہیں سمجھا جاتا۔ اس سلسلے میں سیلانی ٹرسٹ کے سربراہ مولانا بشیر احمد فاروقی نماز ظہر کے بعد لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ ان کے اسٹاف سے کسی کو تنگ کرنے کی کوئی شکایت تو نہیں کیونکہ تنگ کر کے مدد کرنا مناسب عمل نہیں ہے۔

کراچی میں 1980ء سے قائم ناتھا فاؤنڈیشن بھی اپنی سماجی خدمات شاہ بی بی اسپتال کے علاوہ راشن کی تقسیم اور غریب طلبا کی اسکول فیس خاموشی سے اس طرح ادا کر رہا ہے کہ کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ مدد انھیں کہاں سے مل رہی ہے۔ ناتھا فاؤنڈیشن صدقات اور زکوٰۃ قبول نہیں کرتا البتہ جو چاہے کار خیر کے لیے عطیہ دے سکتا ہے۔ ناتھا فاؤنڈیشن نے چار ہزار افراد کو راشن فراہم کیا دو سو سے زائد افراد کی آنکھوں کے مفت آپریشن کرائے اور سات سو طلبا کی فیس فراہم کی جا رہی ہے جب کہ ایم کیو ایم پاکستان رمضان میں جو امدادی سامان تقسیم کرتی ہے اس کی بڑی تقریب منعقد کروا کے کھلے عام مستحقین میں امدادی سامان کی تقسیم کا کام سالوں سے سماجی خدمت کے نام پر سیاسی طور پر کر رہی ہے اور بعض دیگر فلاحی ادارے یا سیاسی حضرات میڈیا کی موجودگی میں دکھاوے کے لیے امدادی سامان تقسیم کرتے آ رہے ہیں جب کہ شرعی طور پر کہا جاتا ہے کہ کسی کی امداد ایسے کی جائے کہ دوسرے ہاتھ کو پتہ بھی نہ چلے۔

رمضان المبارک میں اگر بازاروں کی رونق بڑھتی ہے تو پہلی تراویح سے ہی مساجد میں بڑھنے والی رونق دیکھنے والی ہوتی ہے۔ روزوں کے گزرنے کے ساتھ ہی بازاروں میں رش بڑھتا ہے تو مسجدوں میں نماز کی قطاریں کم ہونے لگتی ہیں اور دوسرے عشرے کے بعد وہی نمازی رہ جاتے ہیں جو مستقل نماز پڑھتے آ رہے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ تراویح میں جو حافظ حضرات تیز پڑھتے ہیں وہاں مسجد میں رونق رہتی ہے اور جو حافظ حضرات ایک سپارہ پڑھنے میں بھی سوا سپارے کا وقت لگاتے ہیں وہاں نمازی دن بہ دن کم ہوتے جاتے ہیں اور رمضان کی رونق ماند پڑتی جاتی ہے۔ بعض مساجد میں رمضان المبارک میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے فجر، عصر اور عشا کی نمازوں کے بعد درس دیے جاتے ہیں جس سے جمعہ کے جمعے نماز پڑھنے والوں کو مدد ملتی ہے اور واضح کیا جاتا ہے کہ نماز نہ پڑھنے کی کوئی معافی نہیں ہے مگر مسلمان توجہ نہیں دیتے اور رمضان شروع ہوتے ہی عارضی نمازی بنے ہوتے ہیں۔

رمضان المبارک اور روزے گزر گئے۔ مساجد کی رونقیں ختم ہوئیں۔ بڑے پیمانے پر افطاری کرانے والے روزوں کے بعد کسی کو پانی پلانے کے بھی روادار نظر نہیں آتے۔ اب روزے گزرنے کے بعد زندگی معمول پر آرہی ہے اور اگر تبدیلی نہیں آتی تو گراں فروشی میں جو رمضان سے قبل شروع ہوکر اب روزے گزرنے کے بعد بھی برقرار رہتی ہے جو ایک بار بڑھ گئی تو کم ہونے میں نہیں آتی۔
Load Next Story