نخریلی اور نازک مزاج چوٹی

ہمالہ کی چوٹی تک پہنچنے کے خواہش مند لوگوں کی اب قطاریں لگ گئی ہیں اور آپ تصویروں میں اس بھیڑ بھڑکے کو دیکھ سکتے ہیں۔

zahedahina@gmail.com

ہمالہ کی چوٹی کو سرکرنے کی خواہش دنیا کے ہرکوہ پیما کے سینے میں مچلتی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر سال درجنوں کوہ پیما ہزاروں ڈالر خرچ کرکے نیپال یا تبت کی طرف سے اس مغرور اور 1953ء تک ناقابل تسخیر رہنے والی چوٹی تک پہنچنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں۔

چند دنوں پہلے یہ خبر آئی کہ ایک برطانوی کوہ پیما ایورسٹ کی چوٹی سے 150 میٹرکی دوری پر جان ہارگیا اور اسی کے ساتھ یہ خبر بھی ملی کہ 56 سالہ آئرش کوہ پیما جو 22ہزار 9 سو 65 فٹ کی بلندی پر پہنچ چکا تھا، اس نے اچانک واپسی کا فیصلہ کیا۔ وہ ناقابل بیان تھکن کے ساتھ ہی سانس کی تکلیف کا شکار تھا لیکن واپسی کے فیصلے کے باوجود وہ زندہ نہ رہ سکا اور کوہِ ہمالہ کی عظمت اور بلندی کو سلام کرتے ہوئے اس نے جان، جاں آفریں کے سپرد کردی۔

مجھے 1953ء کے وہ دن یاد ہیں جب انگریزی اور اردو اخباروں کی سرخیوں میں نیوزی لینڈ کے ہلیری اور شرپا تن سنگ کے نام جلی حروف میں چھپے ہوئے تھے۔ ان کی تصویریں بھی تھیں جو سیاہ وسفید میں چھپی ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں نہ رنگین چھپائی کا چلن تھا اور نہ تصویریں چمکتی ہوئی ہوتی تھیں۔ نیوزی لینڈ کا ہلیری اورکھٹمنڈوکا شرپا اپنے کوہ پیمائی لباس میں کچھ غیر انسانی مخلوق لگ رہے تھے۔ یقین نہیں آتا تھا کہ ان دونوں نے یہ چوٹی سرکرلی ہے۔ خاص طور پر شرپاتو بہت ہی اچھا لگ رہا تھا۔کچھ ہی دنوں پہلے اقبال کی ''بانگ درا'' شروع کی تھی۔ یہ ممکن نہ تھا کہ اس کی پہلی نظم سے دامن بچا کر نکل جائیں۔کیا روانی تھی اور لفظوں کا کیا ترنم تھا۔

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں...چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں...ایک جلوہ تھا کلیم ِطورِ سینا کے لیے...تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے...برف نے باندھی ہے دستار فضلیت تیرے سر...خندہ زن ہے جوکلاہ مہر عالم تاب پر...تیری عمر رفتہ کی اک آن ہے عہد کہن...وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن... چوٹیاں تیری ثریا سے ہیں سرگرمِ سخن...مسکنِ آبائے انسان بنا جب دامن ترا...کچھ بتا اس سیدھی سادھی زندگی کا ماجرا... داغ جس پر غازۂ رنگ تکلف کا نہ تھا...ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تُو... دوڑپیچھے کی طرف اے گردش ایام تُو۔

اب پلٹ کر گردشِ ایام کو کیا دیکھیں لیکن یہ ضرور ہے کہ جب ہلیری اور شرپاتن سنگ، سرمیں ہمالہ کی چوٹی سر کرنے کا سودا سر میں لے کر نکلے تھے، اس زمانے میں یہ خواب وخیال کی باتیں تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اس نخریلی اور نازک مزاج چوٹی کو سر کرنے کا احوال اردو کے بعض رسالوں میں بھی چھپا تھا اور لوگوں نے اسے لطف کے پڑھا تھا اور ان دونوں کوہ پیمائوں کو داد دی تھی۔ پھر یہ خبر بھی آئی کہ ہلیری کو سرکا خطاب دیا گیا۔ بھلا کون سوچ سکتا تھا کہ وہ نوجوان جس کے باپ کا پیشہ شہد کی مکھیاں پالنا تھا، وہ اسی کام میں باپ اور بھائی کا ہاتھ بٹاتا، روزانہ شہد کی مکھیاں اسے ڈنک مارتیں جس پر وہ شور مچاتا۔گرمی کے موسم میں شہد کی مکھیاں تھیں اور وہ تھا۔ موسم سرما شروع ہوتا تو وہ آس پاس کے برفیلے پہاڑوں کو سرکرنے کے لیے نکل کھڑا ہوتا۔

ساری دنیا پر دوسری جنگ عظیم کی آفت ٹوٹی تو ہلیری کو بھی جنگی محاذ پر جانے کا شوق ہوا۔اس شوق نے اسے بری طرح جھلس کر رکھ دیا۔ جنگ کا بخار اترا تو وہ اپنا تمام وقت کوہ پیمائی کے لیے صرف کرنے لگا۔


1953 میں ہمالہ کی چوٹی سر کرنے والے قافلے میں 400 لوگ شامل تھے۔ جن میں سے 362 قلی تھے، 20 شرپا گائیڈ اور 4500 کلو گرام سامان جو ان لوگوں کا زادِ سفر تھا۔ یہ لوگ 27900 فٹ تک پہنچے تو انھیںمعلوم تھا کہ جس محبوبۂ دل نواز کا دل جیتنے کے لیے وہ دنیا جہان کی مشکلیں اٹھاتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں، وہ اب ان سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔ ہلیری نے اپنے جوتے اٹھائے کہ انھیں چڑھا کر سفر پر روانہ ہو، تب اسے معلوم ہوا کہ اس کے جوتے برف ہوگئے ہیں۔ اب انھیں پگھلانے کا مرحلہ درپیش تھا، ہلیری نے انھیں چولہے پر رکھ دیا۔ دوگھنٹے میں ہلیری کے جوتے پگھلے تو وہ شرپاتن سنگ 14 کلو فی کس کے تھیلے کندھے پر اٹھاکر ایک بار پھر اپنے سفر پر روانہ ہوئے۔

وہ ٹھوس برف پر اپنی کلہاڑیوں سے راستہ بناتے رہے، ان کے سامنے 40 فٹ کی ایک چٹان تھی، شرپا اور ہلیری دونوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ جو برف کا گنبد ان کے سامنے ہے اس کے بعد کیا ہے۔ دونوں برف کے اس گنبد کو کلہاڑی سے چھیلتے رہے اور انچ انچ کرکے آگے بڑھتے رہے۔ پھر ہلیری نے اس گنبد پر قدم رکھا شرپا اس کے پیچھے تھا اور تب ان پر یہ سنسنی خیز انکشاف ہوا کہ وہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ پر کھڑے ہیں۔ 29 ہزار 28 فٹ کی بلندی پر دو انسان کھڑے تھے اور اس وقت دن کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ انھیں یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ اندازاً 15 منٹ اس برفیلی چوٹی پرکھڑے رہے جو اب تک ناقابل تسخیر تھی، جس پر کسی انسان کے قدم نہیں پہنچے تھے۔

ہلیری نے اپنے شرپا کی تصویر لی جس کے ہاتھ میں برف چھیلنے والی کلہاڑی ہے۔ شرپا نے جب ہلیری کی تصویر لینی چاہی تو اس نے منع کردیا۔ بی بی سی نیوز کے نمایندے کا کہنا تھا کہ شرپا تن سنگ کو تصویر کھینچنی نہیں آتی تھی۔ اس لیے ہلیری کی اس چوٹی پر کوئی تصویر نہیں ہے جسے سرکرنے کی خواہش نو عمری سے اس کے سینے میں مچلتی تھی۔ بعد میں کیمپ آفس کے لوگوں نے ان دونوں کی بہت سی تصویریں اتاریں جو ساری دنیا میں شایع ہوئیں۔ چوٹی سے پلٹتے ہوئے شرپا تن سنگ نے اسے مٹھائی نذر کرنی چاہی لیکن وہاں مٹھائی کہاں دھری تھی، پھر تن سنگ کو کچھ خیال آیا اور اس نے چوٹی کے چرنوں میں چاکلیٹ کے کچھ ٹکڑے رکھ دیے۔

ہلیری کے پاس ایک صلیب تھی جو اس کے دوست نے اسے دی تھی۔ وہ اس نے چھٹ پٹ محبوبۂ دلنوازکے چرنوں میں بھینٹ کی اور واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ مشکل یہ تھی کہ ہواکے جھکڑوں نے ان کے نقش قدم مٹا دیے تھے۔ جن پر چل کر وہ نیچے کیمپ تک پہنچتے۔ انھیں نیچے اترنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا، دوسری طرف نیچے بیس کیمپ میں ان کے ساتھی،ان کا انتظار کرتے ہوئے تھک گئے تھے اور انھوں نے اوپر کی طرف سفر شروع کردیا تھا۔ دونوں کی راستے میں ملاقات ہوئی۔ اپنے دوست کو دیکھتے ہی ہلیری نے نعرہ مارا '' ہم نے اس بدمعاش کو پچھاڑ دیا۔''

یہ لوگ فتح کے نشے میں سرشار کھٹمنڈو پہنچے تو انھیں معلوم ہوا کہ یہ خبر لندن عین اس وقت پہنچی جب ملکہ الزبتھ دوم کی تخت نشینی کا جشن منایا جارہا تھا۔ فوراً ہلیری کو سر کا اور تن سنگ کو جارج میڈل دیا گیا۔ نیپال کے بادشاہ تری بھون نے اپنے شرپا کو ''اسٹار آف نیپال''دیا۔ ہلیری کی تصویر نیوزی لینڈکے پانچ ڈالرکے نوٹ پر چھاپی گئی اور اسے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ کوہِ ہمالہ کو سرکرنے کی پچاسویں سالگرہ پرنیپال کی حکومت نے جشن منایا اور ہلیری کو نیپال کی اعزازی شہریت عطا کی۔ہلیری یہ اعزاز حاصل کرنے والا پہلا غیر ملکی تھی۔1960 میں اس نے نیپال کے شرپا لوگوں کی تعلیم اور فلاح وبہبود کے لیے ہمالین ٹرسٹ قائم کیا۔ اس نے نیپال کے دور دراز علاقوں میں بچوں کے لیے اسکول اور اسپتال قائم کیے۔ وہ بنگلہ دیش میں نیوزی لینڈ کا ہائی کمشنر رہا اور نیپال میں اس نے سفارتی خدمات انجام دیں۔ وہ شان سے زندہ رہا اور ختم ہوا تو نیوزی لینڈ میں اس کی موت کا سوگ منایا گیا۔یہ ایک قومی صدمہ تھا اور جسے ساری قوم نے محسوس کیا۔

یہ صدمے کی بات ہے کہ ہمالہ کی چوٹی تک پہنچنے کے خواہش مند لوگوں کی اب قطاریں لگ گئی ہیں اور آپ تصویروں میں اس بھیڑ بھڑکے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسی بھیڑ کے سبب کئی لوگ اپنی جان سے گزرچکے ہیں۔ اور یہ سب کمائی کی ہوس میں ہورہا ہے۔ ہلیری کے بیٹے نے کہا کہ اگر ڈیڈی زندہ ہوتے اور اس ہجوم کو دیکھتے جو کوہ ہمالہ کے تقدس کو پامال کررہا ہے، تو وہ بہت غم زدہ ہوتے۔ کوہ ہمالہ کا راستہ صاف کرنے کی مہم چلی تو نیپالیوں نے اب تک چار میتیں اور10 ٹن کوڑا کرکٹ اکٹھا کیا ہے، اس سے بڑی توہین کوہ ہمالہ کی کیا ہوسکتی ہے۔
Load Next Story