کم عمری کی شادی اور جعلسازی سہنے والی کوسکون کی تلاش
لاہور کی اقراسلیم ان خوش قسمت لڑکیوں میں سے ہے جو چینیوں سے جعلی شادی کرکے بھی بچ گئیں
لاہور میں بیدیاں روڈپرواقع مانوالہ کے ایک چھوٹے سے کرایے کے مکان میں اپنی بیوہ ماں کے ساتھ زندگی گزارنے والی 23 سالہ اقرا سلیم ان چندخوش قسمت پاکستانی لڑکیوں میں سے ایک ہے جن کی شادی چینی باشندوں سے ہوئی مگر چین جانے سے پہلے ہی ان کے چینی شوہروں کی اصلیت کا بھانڈا پھوٹ گیا اوران کی زندگی بربادہونے سے بچ گئی۔
اقرا کے چینی شوہر نے باقاعدہ اسلام قبول کیا، صرف تین چار دن اچھے گزرے پھر مشکلات شروع ہوگئیں، جعلی شادیاں کرکے لڑکیوں کو چین میں جسم فروشی کرانے کی خبروںکی وجہ سے اقرا نے گھر چھوڑا، اقراسلیم کہتی ہے اس نے بچپن سے آج تک دکھ ،مشکلات اورمصیبتیں دیکھی ہیں۔
28 مارچ 2019 کو اس کی شادی 24 سالہ چینی باشندے سن زی کوانگ سے ہوئی ، شادی کی ہنگامی اندازمیں ہونیوالی اس شادی کی تقریب چنیوٹ میں منعقدہوئی تھی، دونوں کا نکاح لاہورکے علاقہ کوٹھا پنڈکے ایک نکاح خواہ نے پڑھایا، چینی باشندے سن زی کوانگ نے 7 فروری 2019 کو لاہورکی جامعہ اشرفیہ میں اسلام قبول کیا جس کا باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کیاگیا تاہم قبول اسلام کے بعد اس سے نام تبدیل نہیں کیا۔
اقراسلیم نے بتایا شادی کے بعدوہ اپنے شوہرکے ساتھ ڈیفنس کے علاقہ لاہورمیں آگئی جس گھرمیں وہ رہتی تھیں وہاں 7,8چینی باشندے اور3 پاکستانی لڑکیاں پہلے سے موجودتھیں، ان کے ابتدائی دن اچھے گزرے لیکن اس کے بعد اس کے شوہرنے تشدداورمارپیٹ کرنا شروع کردی، اسے مختلف تقریبات اوردفاترمیں ساتھ لیکرجاتے تھے جبکہ اس کے ساتھی اس کے ساتھ نازیباحرکات کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
اقرا نے بتایا کہ مجھے چین لے جانے کے لیے ویزاکا انتظارکیا جارہا تھا تاہم دوران میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ چینی باشندے پاکستانی لڑکیوں سے شادی کرکے انھیں چین لے جاتے اورپھروہاں سے ان سے جسم فروشی کا مکروہ دھندہ کراتے ہیں، ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد وہ بہت ڈرگئی تھی اوراس نے اپنے چینی شوہرکے ساتھ نہ جانے کا فیصلہ کرلیا اوربالاخرایک دن اسے موقع مل گیا اوراپنی بیمارماں سے ملنے کے بہانہ کرکے وہاں سے نکل آئی اورپھرواپس نہیں گئی۔
اقراسلیم کی زندگی کی چینی باشندے سے چندہفتوں کی اس شادی سے پہلے کی کہانی انتہائی کرب اوردردناک ہے، اقراسلیم کے والد محمدسلیم سیکیورٹی گارڈہیں، وہ8 سال کی تھی جب اس کے والدنے دوسری شادی کرلی اوراسے لاہورکے ایک یتیم خانے میں چھوڑدیا جہاں وہ پرورش پاتی رہی، یتیم خانے میں زندگی گزارتے ہوئے جب وہ 14 برس کی ہوئی تواس کی شادی ایک رشتے دارسے کردی گئی۔
6برسوں میں اللہ پاک نے اسے 2 بچے دیے، وہ ہنسی خوشی زندگی گزاررہی تھی کہ اس کے شوہر نے اپنی ایک کزن کے ساتھ دوسری شادی کرلی اوراسے گھرسے نکال دیا، وہ دوبارہ واپس اپنی والدہ کے پاس آگئیں جواپنے شوہرسے علیحدہ زندگی گزاررہی تھیں، ماں خود بے سہاراتھی وہ میرابوجھ کب تک برداشت کرتیں، میرابھائی بھی مجھ پرتشددکرتا، گالیاں نکالتا،ان حالات سے تنگ آکرمیں گھرسے نکل گئی اورایک جاننے والے فیملی کے پاس چلی گئی۔
اس فیملی نے میرے پہلے شوہرسے طلاق لینے میں میری مددکی، طلاق کے کچھ عرصہ بعد میں نے اسی فیملی کے ایک نوجوان سے شادی کرلی جومجھے دبئی لے گیا اوروہاں لے جاکرلڑکیوں سے جسم فروشی کا دھندہ کرانے والے گروہ کے ہاتھ بیچ دیا، وہاں جاکرمجھے اس فیملی کے مکروہ دھندے کا علم ہوا، وہ پاکستان سے ایسی ہی بے سہارا اورمجبورلڑکیوں سے شادی کرکے انھیں دبئی لے جاتا اور پھروہاں ان سے جسم فروشی کرائی جاتی۔
اقراسلیم نے بتایا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، وہ ان بھیڑیوں کے چنگل سے نکلناچاہتی تھی ایسے میں ایک بھارتی نوجوان نے اس کی مددکی ، اس نے میراپاکستان واپسی کا ٹکٹ بنوادیا اورمیں واپس لاہورآگئی، اقراکے مطابق جب وہ لاہورتو واپس اپنی ماں کے گھرگئی لیکن معلوم ہوا کہ اس کی ماں وہ گھرچھوڑکرجاچکی ہے، باپ سے بھی کوئی رابطہ نہیں تھا، ان کا جوفون نمبرتھا وہ اٹینڈہی نہیں کرتے تھے، جب وہ لاہورپہنچی تواس کے پاس صرف دوہزار روپے تھے ، وہ لاہورسے چنیوٹ چلی گئی جہاں ایک فیملی کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔
اس فیملی نے بتایا کہ اس کے لیے کوئی نوکری تلاش کرے گی، چنیوٹ میں قیام کے دوران ایک خاتون اس کے لیے ایک چینی باشندے کا رشتہ لیکرآگئی لیکن وہ اب شادی نہیں کرناچاہتی تھی وہ پہلے ہی دو بار دھوکہ کھاچکی تھی اب زندگی مزیداجیرن نہیں بناناچاہتی تھی تاہم اس فیملی اورخاتون نے بتایا کہ وہ چین میں جاکربہت خوش رہے گی، اس کی زندگی سنورجائے گی اور پاکستان سے جواس کی بری یادیں وابستہ ہیں ان سے بھی چھٹکارامل جائے گا، اس وجہ سے وہ شادی کے لیے راضی ہوگئیں، چینی باشندوں نے پہلے ایک ہفتے بعد شادی کا کہا لیکن پھروہ دوسرے ہی دن آگئے، نکاح خواہ اورگواہ وہ لاہور سے لیکرگئے تھے۔
اسے بتایا گیا کہ اس کے چینی شوہرنے ایک ماہ پہلے ہی اسلام قبول کیاہے اسے اس کے شوہرکے قبول اسلام کا سرٹیفکیٹ بھی دکھایاگیاجو لاہورکی جامعہ اشرفیہ کی طرف سے جاری کیاگیاتھا، اقراسلیم کے مطابق اس کی شادی کرانے والی خاتون نے چینی باشندوں سے 50 ہزار روپے لیے تھے جس میں سے اسے ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا حق مہرکے جو20 ہزار روپے ملے تھے وہ بھی اس کے شوہرنے بعدمیں واپس لے لیے۔
شادی کے بعد وہ لاہورکے علاقے ڈیفنس میں آگئی جہاں پہلے سے ہی کئی چینی نوجوان موجودتھے جبکہ تین پاکستانی لڑکیاں بھی تھیں جن کی میری طرح چندروزپہلے ہی شادی ہوئی تھی، وہ لوگ ہمیں مختلف تقریبات میں لیکرجاتے اورجب کسی نوجوان کا رشتہ کرانا ہوتا توہمیں ساتھ لے جاتے اورکہتے کہ ہم اس فیملی کوبتائیں کہ شادی کے بعد وہ اچھی اورخوشگوارزندگی گزاررہی ہیں۔
اقراسلیم نے بتایا چندہفتے تک سب کچھ ٹھیک تھا، وہ خوش تھی کہ اب چین میں جاکر چین کی زندگی گزارسکیں گی لیکن اسی دوران میڈیا پریہ خبریں چلنا شروع ہوگئیں کہ چینی باشندے پاکستان سے لڑکیوں سے شادی کرکے انھیں چین لے جاتے اورپھروہاں ان سے جسم فروشی کراتے ہیں، جب چندایک چینی باشندوں کے پکڑے جانے کی خبریں سامنے آئیں تو اس کا شوہروہ گھرچھوڑکرکہیں اورمنتقل ہوگیا، میں باقی لوگوں کے ساتھ وہیں رہتی تھی لیکن میں نے فیصلہ کرلیاتھا کہ میں اب ان کے ساتھ چین نہیں جاؤں گی۔
ایک دن اسے موقع مل گیا وہ اپنی بیمارماں سے ملنے کا بہانہ کرکے وہاں سے نکلی اوراپنی ماں کے پاس آگئی ، اب وہ یہاں ایک کمرے کے اس مکان میں رہتی ہیں،اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کا چینی شوہرفون کرکے اسے واپس آنے کا کہتا ہے اور انکار پر قتل کرنے کی دھمکیاں دیتاہے ، وہ درخواست لیکرایف آئی اے کے پاس بھی گئیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوسکی، اقرا سلیم کوڈی ایچ اے کے جس گھرمیں رکھاگیاتھا وہ گھراب خالی پڑاہے۔
مالک مکان کے مطابق چینی باشندے اچانک گھر چھوڑ کر چلے گئے ، ان کا کچھ سامان اب بھی اس گھرمیں موجودہے لیکن وہ کرائے کی بقایا رقم دیتے ہیں نہ ہی سامان لینے واپس آئے ہیں، پاکستان میں اب تک مسلم اورمسیحی لڑکیوں سے شادیاں رچانے والے درجنوں چینی باشندے گرفتارہوچکے ہیں اوران کیخلاف تحقیقات کی جارہی ہیں جبکہ ایسے گروہ کے خلاف بھی کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں جومجبوراوربے سہارالڑکیوں کو چینی باشندوں سے شادی کے لئے تلاش کرتااورچینی باشندوں سے رقم لیتا تھا۔
اقرا کے چینی شوہر نے باقاعدہ اسلام قبول کیا، صرف تین چار دن اچھے گزرے پھر مشکلات شروع ہوگئیں، جعلی شادیاں کرکے لڑکیوں کو چین میں جسم فروشی کرانے کی خبروںکی وجہ سے اقرا نے گھر چھوڑا، اقراسلیم کہتی ہے اس نے بچپن سے آج تک دکھ ،مشکلات اورمصیبتیں دیکھی ہیں۔
28 مارچ 2019 کو اس کی شادی 24 سالہ چینی باشندے سن زی کوانگ سے ہوئی ، شادی کی ہنگامی اندازمیں ہونیوالی اس شادی کی تقریب چنیوٹ میں منعقدہوئی تھی، دونوں کا نکاح لاہورکے علاقہ کوٹھا پنڈکے ایک نکاح خواہ نے پڑھایا، چینی باشندے سن زی کوانگ نے 7 فروری 2019 کو لاہورکی جامعہ اشرفیہ میں اسلام قبول کیا جس کا باقاعدہ سرٹیفکیٹ جاری کیاگیا تاہم قبول اسلام کے بعد اس سے نام تبدیل نہیں کیا۔
اقراسلیم نے بتایا شادی کے بعدوہ اپنے شوہرکے ساتھ ڈیفنس کے علاقہ لاہورمیں آگئی جس گھرمیں وہ رہتی تھیں وہاں 7,8چینی باشندے اور3 پاکستانی لڑکیاں پہلے سے موجودتھیں، ان کے ابتدائی دن اچھے گزرے لیکن اس کے بعد اس کے شوہرنے تشدداورمارپیٹ کرنا شروع کردی، اسے مختلف تقریبات اوردفاترمیں ساتھ لیکرجاتے تھے جبکہ اس کے ساتھی اس کے ساتھ نازیباحرکات کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
اقرا نے بتایا کہ مجھے چین لے جانے کے لیے ویزاکا انتظارکیا جارہا تھا تاہم دوران میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ چینی باشندے پاکستانی لڑکیوں سے شادی کرکے انھیں چین لے جاتے اورپھروہاں سے ان سے جسم فروشی کا مکروہ دھندہ کراتے ہیں، ان خبروں کے سامنے آنے کے بعد وہ بہت ڈرگئی تھی اوراس نے اپنے چینی شوہرکے ساتھ نہ جانے کا فیصلہ کرلیا اوربالاخرایک دن اسے موقع مل گیا اوراپنی بیمارماں سے ملنے کے بہانہ کرکے وہاں سے نکل آئی اورپھرواپس نہیں گئی۔
اقراسلیم کی زندگی کی چینی باشندے سے چندہفتوں کی اس شادی سے پہلے کی کہانی انتہائی کرب اوردردناک ہے، اقراسلیم کے والد محمدسلیم سیکیورٹی گارڈہیں، وہ8 سال کی تھی جب اس کے والدنے دوسری شادی کرلی اوراسے لاہورکے ایک یتیم خانے میں چھوڑدیا جہاں وہ پرورش پاتی رہی، یتیم خانے میں زندگی گزارتے ہوئے جب وہ 14 برس کی ہوئی تواس کی شادی ایک رشتے دارسے کردی گئی۔
6برسوں میں اللہ پاک نے اسے 2 بچے دیے، وہ ہنسی خوشی زندگی گزاررہی تھی کہ اس کے شوہر نے اپنی ایک کزن کے ساتھ دوسری شادی کرلی اوراسے گھرسے نکال دیا، وہ دوبارہ واپس اپنی والدہ کے پاس آگئیں جواپنے شوہرسے علیحدہ زندگی گزاررہی تھیں، ماں خود بے سہاراتھی وہ میرابوجھ کب تک برداشت کرتیں، میرابھائی بھی مجھ پرتشددکرتا، گالیاں نکالتا،ان حالات سے تنگ آکرمیں گھرسے نکل گئی اورایک جاننے والے فیملی کے پاس چلی گئی۔
اس فیملی نے میرے پہلے شوہرسے طلاق لینے میں میری مددکی، طلاق کے کچھ عرصہ بعد میں نے اسی فیملی کے ایک نوجوان سے شادی کرلی جومجھے دبئی لے گیا اوروہاں لے جاکرلڑکیوں سے جسم فروشی کا دھندہ کرانے والے گروہ کے ہاتھ بیچ دیا، وہاں جاکرمجھے اس فیملی کے مکروہ دھندے کا علم ہوا، وہ پاکستان سے ایسی ہی بے سہارا اورمجبورلڑکیوں سے شادی کرکے انھیں دبئی لے جاتا اور پھروہاں ان سے جسم فروشی کرائی جاتی۔
اقراسلیم نے بتایا اس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، وہ ان بھیڑیوں کے چنگل سے نکلناچاہتی تھی ایسے میں ایک بھارتی نوجوان نے اس کی مددکی ، اس نے میراپاکستان واپسی کا ٹکٹ بنوادیا اورمیں واپس لاہورآگئی، اقراکے مطابق جب وہ لاہورتو واپس اپنی ماں کے گھرگئی لیکن معلوم ہوا کہ اس کی ماں وہ گھرچھوڑکرجاچکی ہے، باپ سے بھی کوئی رابطہ نہیں تھا، ان کا جوفون نمبرتھا وہ اٹینڈہی نہیں کرتے تھے، جب وہ لاہورپہنچی تواس کے پاس صرف دوہزار روپے تھے ، وہ لاہورسے چنیوٹ چلی گئی جہاں ایک فیملی کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔
اس فیملی نے بتایا کہ اس کے لیے کوئی نوکری تلاش کرے گی، چنیوٹ میں قیام کے دوران ایک خاتون اس کے لیے ایک چینی باشندے کا رشتہ لیکرآگئی لیکن وہ اب شادی نہیں کرناچاہتی تھی وہ پہلے ہی دو بار دھوکہ کھاچکی تھی اب زندگی مزیداجیرن نہیں بناناچاہتی تھی تاہم اس فیملی اورخاتون نے بتایا کہ وہ چین میں جاکربہت خوش رہے گی، اس کی زندگی سنورجائے گی اور پاکستان سے جواس کی بری یادیں وابستہ ہیں ان سے بھی چھٹکارامل جائے گا، اس وجہ سے وہ شادی کے لیے راضی ہوگئیں، چینی باشندوں نے پہلے ایک ہفتے بعد شادی کا کہا لیکن پھروہ دوسرے ہی دن آگئے، نکاح خواہ اورگواہ وہ لاہور سے لیکرگئے تھے۔
اسے بتایا گیا کہ اس کے چینی شوہرنے ایک ماہ پہلے ہی اسلام قبول کیاہے اسے اس کے شوہرکے قبول اسلام کا سرٹیفکیٹ بھی دکھایاگیاجو لاہورکی جامعہ اشرفیہ کی طرف سے جاری کیاگیاتھا، اقراسلیم کے مطابق اس کی شادی کرانے والی خاتون نے چینی باشندوں سے 50 ہزار روپے لیے تھے جس میں سے اسے ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا حق مہرکے جو20 ہزار روپے ملے تھے وہ بھی اس کے شوہرنے بعدمیں واپس لے لیے۔
شادی کے بعد وہ لاہورکے علاقے ڈیفنس میں آگئی جہاں پہلے سے ہی کئی چینی نوجوان موجودتھے جبکہ تین پاکستانی لڑکیاں بھی تھیں جن کی میری طرح چندروزپہلے ہی شادی ہوئی تھی، وہ لوگ ہمیں مختلف تقریبات میں لیکرجاتے اورجب کسی نوجوان کا رشتہ کرانا ہوتا توہمیں ساتھ لے جاتے اورکہتے کہ ہم اس فیملی کوبتائیں کہ شادی کے بعد وہ اچھی اورخوشگوارزندگی گزاررہی ہیں۔
اقراسلیم نے بتایا چندہفتے تک سب کچھ ٹھیک تھا، وہ خوش تھی کہ اب چین میں جاکر چین کی زندگی گزارسکیں گی لیکن اسی دوران میڈیا پریہ خبریں چلنا شروع ہوگئیں کہ چینی باشندے پاکستان سے لڑکیوں سے شادی کرکے انھیں چین لے جاتے اورپھروہاں ان سے جسم فروشی کراتے ہیں، جب چندایک چینی باشندوں کے پکڑے جانے کی خبریں سامنے آئیں تو اس کا شوہروہ گھرچھوڑکرکہیں اورمنتقل ہوگیا، میں باقی لوگوں کے ساتھ وہیں رہتی تھی لیکن میں نے فیصلہ کرلیاتھا کہ میں اب ان کے ساتھ چین نہیں جاؤں گی۔
ایک دن اسے موقع مل گیا وہ اپنی بیمارماں سے ملنے کا بہانہ کرکے وہاں سے نکلی اوراپنی ماں کے پاس آگئی ، اب وہ یہاں ایک کمرے کے اس مکان میں رہتی ہیں،اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کا چینی شوہرفون کرکے اسے واپس آنے کا کہتا ہے اور انکار پر قتل کرنے کی دھمکیاں دیتاہے ، وہ درخواست لیکرایف آئی اے کے پاس بھی گئیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوسکی، اقرا سلیم کوڈی ایچ اے کے جس گھرمیں رکھاگیاتھا وہ گھراب خالی پڑاہے۔
مالک مکان کے مطابق چینی باشندے اچانک گھر چھوڑ کر چلے گئے ، ان کا کچھ سامان اب بھی اس گھرمیں موجودہے لیکن وہ کرائے کی بقایا رقم دیتے ہیں نہ ہی سامان لینے واپس آئے ہیں، پاکستان میں اب تک مسلم اورمسیحی لڑکیوں سے شادیاں رچانے والے درجنوں چینی باشندے گرفتارہوچکے ہیں اوران کیخلاف تحقیقات کی جارہی ہیں جبکہ ایسے گروہ کے خلاف بھی کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں جومجبوراوربے سہارالڑکیوں کو چینی باشندوں سے شادی کے لئے تلاش کرتااورچینی باشندوں سے رقم لیتا تھا۔