برطانیہ جرمنی کینیڈا کا شام کیخلاف فوجی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار

سلامتی کونسل کا اجلاس بے نتیجہ، برطانوی پارلیمنٹ میں شام کیخلاف فوجی کارروائی کی قرارداد مسترد


AFP/Net News/Monitoring Desk August 31, 2013
سلامتی کونسل کا اجلاس بے نتیجہ، برطانوی پارلیمنٹ میں شام کیخلاف فوجی کارروائی کی قرارداد مسترد. فوٹو اے ایف پی

برطانوی پارلیمنٹ میں شام کیخلاف ممکنہ کارروائی سے متعلق حکومتی قرارداد مسترد کر دی گئی۔

جرمنی نے بھی شام کیخلاف فوجی کارروائی کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے برطانیہ کے بغیر بھی کارروائی کر سکتے ہیں، فرانس کا کہنا ہے کہ شام پر چند دن کے اندر اندر حملے کا امکان ہے۔ شام کی صورتحال پر سلامتی کونسل کا اجلا س جمعہ کو بھی بے نتیجہ رہا۔ برطانوی دارالعوام کے ارکان کی اکثریت نے حکومت کی جانب سے شام کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کیخلاف ووٹ دیا ہے۔ وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے شامی حکومت کیخلاف پیش کی گئی قرارداد کو تیرہ ووٹوں سے شکست دی گئی۔ قرارداد کے حق میں دو سو بہتر جبکہ مخالفت میں دو سو پچاسی ووٹ آئے۔ جس کے بعد وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ قرارداد رد ہونے سے ثابت ہوتا ہے کہ دارالعوام نہیں چاہتا کہ کارروائی کی جائے، حکومت اس کے مطابق کام کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ نے فیصلہ سنا دیا کہ وہ شام کیخلاف فوجی کارروائی میں شرکت نہیں چاہتے۔ حکومت اس فیصلے کا احترام کرتی ہے اور اسی کے مطابق عمل کرے گی۔ ادھر فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ برطانوی پارلیمان کی طرف سے شام پر حملے کیخلاف ووٹ دینے سے فرانس کا شام کیخلاف سخت کارروائی کا عزم نہیں بدلا۔ تمام ممکنہ راستوں پر غور کیا جا رہا ہے اور چند دنوں کے اندر اندر حملے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بیان سے قبل امریکی وزیرِ دفاع چک ہیگل نے کہا تھا کہ امریکا ممکنہ حملے کیلیے دوسرے ممالک کے تعاون کی کوششیں جاری رکھے گا۔ فلپائن کے دورے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چک ہیگل نے کہا کہ واشنگٹن برطانوی پارلیمنٹ کا احترام کرتا ہے۔ دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ برطانیہ کے بغیر بھی شام کیخلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔



شام کے بحران سے نمٹنے کیلیے امریکا اپنے بہترین مفاد میں قدم اٹھائے گا۔ قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کانگریس کے اراکین کو شام کیخلاف فوجی کارروائی کے حوالے سے بریفنگ دی۔ جان کیری نے اس موقع پر کہا کہ واشنگٹن دوسرے ممالک کی خارجہ پالیسی کا تابع نہیں ہو سکتا۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے 5 مستقل اراکین کا مختصر اجلاس ہوا۔ تاہم سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں پانچوں ممالک میں تفریق واضح رہی۔ ایک سفارتکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس اجلاس میں روس اور چین ایک طرف جبکہ امریکا، برطانیہ اور فرانس دوسری جانب رہے۔ دریں اثنا جرمنی کی حکومت نے کسی بھی فوجی کارروائی میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔

ادھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ شام کیخلاف کسی ممکنہ فوجی کارروائی کو روک دیں ،روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خارجہ پالیسی کے سربراہ نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کے بغیر شام پر فوجی حملے کے دنیا کے پورے نظام پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔کینیڈا نے بھی شام کیخلاف فوجی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے، این بی سی نیوز کے ایک سروے کے مطابق امریکیوں کی اکثریت نے شام پر فوجی حملے کی مخالفت کر دی۔ 10 میں سے 8 امریکیوں نے کہا کہ اگر امریکہ شام پر فوجی حملہ کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے کانگریس سے اجازت لینا ہوگی۔ اے ایف پی کے مطابق نیویارک کے ٹائم سکوائر میں سیکڑوں لوگوں نے شام کیخلاف ممکنہ امریکی فوجی کارروائی کیخلاف مظاہرہ کیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں