بس ایک آدمی نے۔۔۔

وہ افراد جنھوں نے بندوق کے زور پر لوگوں کی بڑی تعداد کو یرغمال بنالیا

دنیا کے مختلف ممالک میں دہشت کے ذریعے اپنی بات منوانے کے انفرادی نوعیت کے واقعات۔ فوٹو: فائل

پاکستان کی تاریخ حیرت انگیز، دہشت ناک، پُرتجسس اور شرم ناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔

ہر کچھ عرصے بعد ہمارے ہاں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ، حادثہ یا سانحہ رونما ہوتا ہے جو ہمیں حیران کرجاتا ہے یا خوف کے سائے مزید گہرے کرجاتا ہے، اس میں تجسس کا کوئی خون کی روانی تیز کردینی والا عنصر ہوتا ہے یا پورا وجود شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے۔ گذشتہ دنوں اسلام آباد میں سکندر نامی ایک جنونی کے ہاتھوں پانچ گھنٹے تک ''ریاست'' کو یرغمال بنائے رکھنے کا تماشا بھی ایک ایسا ہی واقعہ تھا، جس نے قوم کو حیران بھی کیا، دہشت زدہ بھی، تجسس میں بھی ڈالے رکھا اور دنیا کے سامنے اپنے ملک اور اداروں کی ہونے والی جگ ہنسائی کے باعث ہر پاکستانی کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں۔ اس نوعیت کے واقعات دنیا بھر میں پیش آتے رہے ہیں۔ آئیے! ایسے ہی کچھ واقعات پر نظر دوڑائیں اور یہ جانیں اور متعلقہ ممالک کے ادارے دہشت کا کھیل کھیلنے والے مجرموں سے کیسے نمٹے۔

جب شاہ راہ یرغمال بنی

کولمبس (امریکا)

امریکی ریاست اوہائیو کے شہر کولمبس کی ایک شاہراہ اس وقت شہریوں کے لیے خوف کی علامت بن گئی جب ایک شخص نے تمام علاقے کو اسلحے کے زور پر مفلوج بنادیا۔

Douglas Conleyنام کا یہ شخص نفسیاتی مریض تھا اور خودکشی پر آمادہ تھا دنیا بھر سے ناراض ''ڈگلس کلونی'' شاہراہ کے عین درمیان ایک کرسی پر بیٹھ کر پولیس کے اہل کاروں کو اپنے قریب آنے پر خود کو مارنے کی دھمکی دیتا رہا۔ 2007میں پیش آنے والے اس واقعے کا ڈراپ سین اس وقت ہوا جب ریاست اوہائیو کے ''کولمبس پولیس ڈپارٹمنٹ'' کے ماہر نشانہ بازMike Plumbنے 60گز کی دوری سے ڈگلس کلونی کے ہاتھ میں موجود 38-Snubnosedریوالور کو فائر کرکے ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ اس تمام واقعے کا اہم پہلو یہ ہے کہ ماہر نشانہ باز ''مائیک پلمب'' کے فائر سے بالشت بھر کی جسامت کے ریوالور کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے دوران مجرم ڈگلس کلونی کو زرہ برابر بھی زخم نہیں آیا، بلکہ جیسے ہی ریوالور اس کے ہاتھ سے نکلا تو اس کی حیرت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔

دوسری طرف مائیک پلمب کو ان کے اس شان دار کارنامے پر کولمبس پولیس ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا گیا ہے۔



ناسا کی عمارت پر قبضہ

ٹیکساس (امریکا)

مشہور امریکی خلائی تحقیقی ادارے NASA کی وجہ شہرت یوں تو خلائی تحقیق اور خلائی مشنزکی تیاری ہے، تاہم 20اپریل 2007کو یہ ادارہ ایک اور سبب کی وجہ سے دنیا بھر میں زیرموضوع آگیا۔ ہوا یوں کہ ایک ساٹھ سالہ شخص''ولیم فلپس'' (William A. Phillips)نے ریاست ٹیکساس میں واقع ناسا کے ''جانسن اسپیس سینٹر'' کی عمارت نمبر44پر قبضہ کر کے ایک ملازم کو یرغمال بنا لیا تھا۔

تقریباً چار گھنٹے تک سو چھوٹی بڑی عمارتوں اور 1620ایکڑ پر پھیلے ہوئے جانسن اسپیس سینٹر اور اردگرد کی سڑکوں کو مفلوج بنائے رکھنے والے اس واقعے میں ملزم نے یرغمال ملازم اور خود کو مار لیا تھا۔

ٹیکساس کے ہیوسٹن پولیس ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کیپٹن Dwayne Ready کے مطابق حملہ آور ولیم فلپس ''اسپیس سینٹر'' میں گذشتہ چودہ برسوں سے عارضی حیثیت سے ملازمت کررہا تھا اور اسے یہ خدشہ تھا کہ اسے اس کے باسDavid Beverly کی ایما پر ملازمت سے فارغ کرد یا جائے گا۔ چناںچہ ولیم فلپس نے ڈیوڈ بیورلی کو یرغمال بنانے کے بعد عمارت پر قبضہ کرلیا۔ تاہم چار گھنٹے گذرنے کے بعد وہ اپنے اعصاب پر قابو نہ رکھ سکا اور یرغمال ڈیوڈ بیورلی اور خود کو گولی مار کر ختم کرلیا۔ اس واقعے کے بعد ناسا کے اس انتہائی اہم ''جانسن اسپیس سینٹر'' میں سیکیوریٹی کے نظام پر کئی سوالیہ نشانات اٹھائے گئے تھے۔

جب مورچہ بند ملزم نے کی بندوق سے حکومت

نیپئر (نیوزی لینڈ)

2009کے وسط میں نیوزی لینڈ کے چھوٹے سے ساحلی شہر ''نیپئر'' کا ایک بڑا حصہ تین دنوں تک ہر قسم کی سرگرمیوں کے لیے معطل کردیا گیا تھا۔ واقعے کے مطابق سابق فوجی رضاکارJan Molenaarکے گھر پر جب منشیات کی تلاشی کے لیے مقامی پولیس نے چھاپا مارنے کی کوشش کی تو'' جان مولنار'' نے خود کو گھر میں مورچہ بند کرلیا اور تین دنوں تک پولیس اور علاقے کے لوگوں کو اپنی بندوق کے زور پر نچاتا رہا۔

اس دوران اس نے پولیس سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار کردیا تھا۔ خود کو '' ٹوٹل ریمبو'' کہنے والے جان مولنار کے گھر کو سو سے زاید پولیس اہل کاروں نے تین دن تک اپنے گھیرے میں لیے رکھا۔ تاہم جب کچھ پولیس اہل کار 51سالہ جان مولنار کے گھر میں داخل ہوئے تو گرفتاری سے قبل ہی اس نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی۔




ایک شخص نے پورے علاقے کو مفلوج کردیا

ٹولویوس (جنوبی فرانس)

''میں فرانسیسی فوج کی افغانستان میں موجودگی کے خلاف ہوں۔'' 22مارچ 2012کو اپنی موت سے قبل فرانس کے ٹی وی ''چینل 24'' سے گفتگو کرنے والے24سالہ ''محمد مرحا'' نے جنوبی فرانس کے علاقے Toulouseمیں اپنے اپارٹمنٹ میں مورچہ بند ہونے کے بعد بتیس گھنٹے تک سارے علاقے کو مفلوج بنائے رکھا۔

فرانس کے شہری اور الجیرین نسل سے تعلق رکھنے والے محمد مرحا کے بارے میں فرانسیی حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس نے دہشت گردی کی تربیت افغانستان اور پاکستان کے علاقے وزیرستان سے حاصل کی ہے۔ فرانسیسی وزیرداخلہ Claude Gueantکے مطابق جب فرانسیسی پولیس کی اسپیشل فورسElite RAID کے کمانڈوز نے محمد مرحا کے اپارٹمنٹ پر دھاوا بولا تو اس نے باتھ روم کی کھڑکی سے چھلانگ لگا دی اور سر پر چوٹ لگنے کے باعث موقع ہی پر ہلاک ہوگیا۔

وزیر داخلہ کے مطابق اس دوران بھی وہ پولیس پر متواتر فائر کررہا تھا۔ تاہم دوسری جانب ڈیڑھ د ن تک پورے علاقے کو مفلوج بنائے رکھنے والے اس آپریشن کے حوالے سے بہت سے حلقے حکومتی طرز عمل پر ناخوش تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیوں کہ محمد مرحا ایک نفسیاتی مریض تھا اور وہ 2008 میں خودکشی کی ناکام کوشش بھی کرچکا تھا، لہٰذا اسے زندہ گرفتار کرنا چاہیے تھا۔ تاہم پولیس نے اپنے گھیرائو کے باعث محمد مرحا کے اعصاب شل کردیے اور وہ اپنی جان بچانے کے لیے بلند مقام سے کود گیا اور اس طرح اس پر لگائے گئے الزامات کی حقیقت اب کبھی سامنے نہیں آسکے گی۔

ڈسکوری چینل کا صدردفتر مفلوج کردیا

میری لینڈ (امریکا)

امریکی ریاست میری لینڈ کے علاقے ''سلور اسپرنگ'' میں مشہور زمانہ تحقیقی ٹی وی چینل '' ڈسکوری '' کا ہیڈ آفس واقع ہے۔ یکم ستمبر2010 کو James Jay Lee نام کے ایک شخص نے ڈسکوری چینل کے ہیڈ آفس کو اپنی بندوق کی گرفت میں لے کر عملاً عضو معطل بنادیا تھا۔ اگرچہ 43 سالہ''جیمز جے لی '' ماحولیات کی بہتری کے حوالے سے سرگرم کارکن تھا، تاہم اس کا خیال تھا کہ ڈسکوری چینل اور دیگر دوسرے ادارے ماحولیات کے حوالے سے درست معلومات بہم نہیں پہنچا رہے ہیں۔

کورین باپ اور جاپانی ماں کے بطن سے پیدا ہونے والے جیمز جے لی کو تارکین وطن کے حوالے سے ڈسکوری چینل کے پروگرامAnchor baby پر بھی اعتراض تھا۔ اس حوالے سے وہ اپنے خیالات گاہے بہ گاہے اپنی ویب سائٹ Savetheplanetprotest.com پر پیش کرتا رہتا تھا۔

منٹگمری پولیس ڈپارٹمنٹ کی ترجمان Angela Cruz کے مطابق جیمز جے لی کے پاس ڈسکوری چینل کے ہیڈ آفس کو مفلوج کرنے کے لیے نہ صرف دو پستول تھے بل کہ اس کے پاس دھماکاخیز مواد بھی تھا، جس کی بنا پر پولیس جیمز جے لی سے گفتگو کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتی تھی، لیکن جیمز جے لی کے جارحانہ رویے اور عملے کو یرغمال بنانے کے بعد پولیس ڈپارٹمنٹ کے ماہر نشانہ بازوں نے جیمز جے لی کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔



اپنے بچوں سے ملنے کی خاطر

برسبین (آسٹریلیا)

آسٹریلین ریاست کوئنز لینڈ کے سب سے بڑے شہر برسبین کی ''کوئین اسٹریٹ مال'' کی وجہ شہرت بازار اور خریداروں کا ہجوم ہے، لیکن8 مارچ 2013 کو اِس بازار میں اس وقت کرفیو کا سماں ہوگیا تھا، جب چونتیس سالہ Lee Matthew Hillier نے عین بازار کے درمیان کھڑے ہوکر اپنی ہی بندوق اپنے سرپر رکھ دی اور خودکشی کا اعلان کردیا۔

یہ اعلان سنتے ہیں تمام بازار سنسان ہوگیا، جب کہ مقامی پولیس بھی آپہنچی۔ ان گنت ٹیٹوز سے جسم کو سجائے ہوئے نیم برہنہ شحص پولیس سے بھی درخواست کرتا رہا کہ اس کے سر پر گولی ماردی جائے یا پھر اسے اس کے بچوں سے ملوایا جائے۔ پولیس ڈپارٹمنٹ کے ترجمانMark Ainsworthکے مطابق ملزم کا اپنے تین بچوں کے حوالے سے بیوی سے مقدمہ چل رہا تھا۔ تاہم مسلح شخص کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے تمام علاقے کو خالی کرالیا۔

اس دوران ہزاروں افراد جائے وقوع کے گرد جمع ہوگئے۔ تاہم تقریباً چار گھنٹے کی ناکام گفت و شنید کے بعد پولیس نے فائر کرکے مسلح شخص کو زخمی کر کے اسے گرفتار کرلیا۔
Load Next Story