رویتِ ہلال کا بحران اور فواد چودھری کی توپیں

مفتی پوپلزئی جیسے چند عناصر کو نظرانداز کرنے کی ضرورت تھی لیکن فواد چودھری صاحب نے معاملہ پیچیدہ بنادیا


رویتِ ہلال کے معاملے میں فواد چودھری نے مفتی پوپلزئی صاحب کی جگہ مفتی منیب اور رویتِ ہلال کمیٹی کو بلاوجہ نشانے پر رکھ لیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سرکاری طور پر مختلف قمری مہینوں کی رویت کی ذمہ داری مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر ہے جو 1974 سے یہ کام احسن طریقے سے نباہ رہی ہے۔ تمام مکاتب فکر کے جید علماء کی نمائندگی اس کمیٹی میں موجود ہے؛ اور پوری قوم ان کے فیصلوں پر اعتماد کرتی ہے۔ محکمۂ موسمیات اور وفاقی خلائی تحقیقی ادارے سپارکو کی معاونت و مشاورت بھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ہمراہ ہوتی ہے اور تمام تر فیصلوں میں سائنسی محاسبات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

جب اس کمیٹی کی ذیلی و علاقائی کمیٹیوں کو رویت کی شہادتیں موصول ہوتی ہیں تو انہیں مختلف پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے۔ جن جگہوں پر رویت ممکن نہیں ہوتی یا جہاں رویت کا امکان بہت کم ہوتا ہے، ان کی شہادتوں کو اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی۔ یعنی صرف انہی علاقوں کی رویت پر عمل نہیں کیا جاتا جب تک اس کی تصدیق دوسرے علاقوں سے نہیں ہوتی۔

رویت ہلال کمیٹی ان گواہی دینے والوں سے ملاقات کرتی ہے یا ان سے ٹیلی فون پر بات کرتی ہے۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ چاند انہوں نے کس سمت دیکھا، چاند کا سائز کیا تھا، اور وہ افق سے کتنے زاویئے پر تھا، اس کی گولائی کا رخ کس سمت تھا۔ ان سوالات سے گواہی کی صداقت کا علم ہو جاتا ہے کیونکہ سائنسی محاسبات کی رو سے چاند کا افق سے زاویہ اور اس کی سمت مشخّص ہوتے ہیں۔ ان گواہیوں کو پرکھنے کے بعد مرکزی رویت ہلال کمیٹی فیصلہ کرتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے صوبۂ پختونخوا میں مسجد قاسم خان ہے جو ہمیشہ اس معاملے میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے برخلاف فیصلے صادر کرتی ہے، جس کی سربراہی مفتی شہاب الدین پوپلزئی کرتے ہیں۔ رویت ہلال کے مسئلے پر مسجد قاسم خان کو کسی بھی وفاقی سائنسی ادارے کی معاونت و مشاورت حاصل نہیں؛ اور ان کے فیصلوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ لوگ جدید فلکیات کا علم نہیں رکھتے۔ گواہیوں کو پرکھنے کا معیار جو مرکزی رویت ہلال کمیٹی اپناتی ہے، جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا، مسجد قاسم علی خان کے کرتا دھرتا اسے اپنانے سے قاصر ہیں۔ ان باتوں کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسجد قاسم علی خان کا طریقہ غیر علمی اور غیر سائنسی ہے۔

3 جون کو شوال المکرّم کا ہلال سائنسی لحاظ سے پورے پاکستان میں قابل رویت نہیں تھا لیکن انہوں نے چاند کو ڈھونڈ نکالا اور 4 جون کو خیبر پختونخوا کے اکثر علاقوں میں عید منائی گئی۔

راقم اپنے بزرگوں سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے سے قبل ہمارے گاؤں میں (جو کوہ قراقرم کی کسی وادی میں واقع ہے) چاند دیکھنے کےلیے پورے گاؤں والے جمع ہوا کرتے تھے۔ اس علاقے میں نقل و حمل بہت محدود اور دشوار گزار ہوا کرتی تھی اور چاند کی اطلاع زیادہ سے زیادہ وادیوں تک ہی محدود ہوتی تھی۔

کسی سال عید کا چاند دیکھنے کےلیے گاؤں والے ایک بلندی پر جمع تھے۔ سب ہلالِ عید دیکھنے کی کوششوں میں مگن تھے لیکن کسی کو بھی چاند نظر نہ آیا۔ اچانک ایک ضعیف و نحیف بوڑھے نے بلند آواز سے درود پڑھنا شروع کیا اور کہا کہ چاند نظر آگیا۔ سب نے اس بزرگ کی نظروں کی سمت دیکھا لیکن کسی کو بھی چاند نظر نہ آیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ چاند کدھر ہے؟ بزرگ نے اسی سمت اشارہ کیا جس سمت وہ دیکھ رہے تھے۔ سب نے دیدے پھاڑ پھاڑ کر اس سمت دیکھا لیکن چاند نظر نہ آیا۔ جب غور کیا تو پتا چلا کہ بڑھاپے کی وجہ سے بزرگ کی بھنویں آنکھوں پر گرچکی تھیں جس میں سے کوئی سفید بال ان کی آنکھوں کے سامنے آیا ہوا تھا۔ بزرگ کی بصارت نے اس کو چاند کی طرح دیکھا اور یوں ان کو چاند نظر آ گیا۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسجد قاسم خان والی شہادتیں بھی شاید اسی قسم کی ہوتی ہوں گی اگر ہم ان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیں، وگر نہ کسی صورت بھی 3 جون کی شب چاند کی رویت ممکن نہ تھی۔

اس سال فواد چودھری صاحب کی انٹری ہوتی ہے جو کچھ عرصہ قبل اتفاق سے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بن گئے تھے۔ انہوں نے رویت ہلال کے مسئلے کو حل کرنے کےلیے کیلنڈر بنانے کی تجویز دے دی۔ ان کے کیلنڈر کے مطابق 5 جون کو عیدالفطر ہونا قرار پائی جو سائنسی محاسبات کی رو سے بالکل درست ہے۔ لیکن ساتھ ہی مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر انہوں نے اعتراضات کی بوچھاڑ کردی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور مولوی پرانی دوربینوں سے رویت کی کوشش کر رہے ہیں۔

حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مسجد قاسم علی خان کے غیر علمی اور غیر سائنسی طریقۂ کار پر تنقید کی جاتی اور انہیں سرکاری فیصلوں کے برخلاف جانے سے روکا جاتا، میڈیا پر قدغن لگائی جاتی کہ وہ ان کو بالکل بھی کوریج نہ دے تاکہ قوم یکسوئی سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں پر عمل کرے۔ لیکن چودھری صاحب نے اپنی تمام تر توپوں کا رخ مفتی منیب الرّحمان کی طرف کردیا حالانکہ رویت ہلال کمیٹی پہلے سے ہی سائنسی طریقے پر عمل کررہی ہے۔ علماء کرام کی توہین و تضحیک اس پر مستزاد تھی جو قابل مذمّت ہے۔

یہ صورتحال ایسی تھی جیسے ایک سرکاری ادارہ دوسرے سرکاری ادارے سے تصادم اختیار کررہا ہے۔ اس کی روک تھام کے بجائے امسال خیبر پختونخوا کی حکومت نے مفتی پوپلزئی پر اعتماد کرتے ہوئے 4 جون کو عید کا اعلان کر دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ تحریک انصاف کے مختلف حکومتی ارکان کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے اور ان کی دلچسپی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے تک محدود ہے، جس کا واضح ثبوت خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی اور فواد چودھری کے درمیان لفظی جنگ ہے۔ شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے اس فیصلے سے قبل وزیراعظم عمران خان کو اعتماد میں لیا تھا۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ وزیراعظم نے ایک صوبائی حکومت کو اس اہم مسئلے پر سرکاری حکومت کے برخلاف جانے کی اجازت کیسے دی؟

فواد چودھری صاحب چاند کے مسئلے کو غیر منصفانہ طریقے سے حل کرنے نکلے تھے لیکن انہوں نے بحران میں مزید اضافہ کردیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے، ان کے فیصلوں کو سائنسی بنیادوں پر مزید استوار کرنے کےلیے سفارشات دیتے اور مسجد قاسم خان جیسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرتے۔ لیکن یہاں اس کے برعکس عمل کیا گيا جس کا خمیازہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے مسجد قاسم خان کو سند بخشنے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ ریاست کے مختلف اداروں میں ہم آہنگی کو یقینی بنائیں اور ایسے عناصر کو لگام دیں جو فساد کا باعث ہیں۔

راقم سمجھتا ہے کہ پاکستان میں رویت ہلال کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، تمام پاکستانی اپنی تمام تر سیاسی و مسلکی وابستگیوں کے باوجود مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلانات پر عمل کرتے تھے۔ مفتی پوپلزئی جیسے چند عناصر کو نظرانداز کرنے کی ضرورت تھی لیکن فواد چودھری کی اینٹری نے معاملے کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں