بچوں کی بربادی میں والدین کی غفلتیں
کیوں آئے روز ہمارے ملک میں بچوں کے اغوا اور زیادتی جیسے واقعات رونما ہورہے ہیں؟
''مما مما! مجھے چاکلیٹ کھانی ہے۔ میں اور بھائی، ہم دونوں باہر جارہے ہیں۔''
''نہیں بیٹا، رُک جاؤ۔'' کمرے کے اندر سے ایک ہلکی اور سرسری سی آواز آتی ہے۔ کیونکہ مما اپنے فون پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ سارے دن کی داستان سنانے میں مصروف ہوتی ہیں۔
''چلو بھائی چلتے ہیں۔ مما کچھ نہیں کہیں گی۔''
یہ چند الفاظ پیاری سی چار سالہ مشعل کے تھے۔ دونوں بہن بھائی بڑی تیزی کے ساتھ چاکلیٹ خریدنے کےلیے قریبی اسٹور کی طرف اپنے قدم دوڑاتے ہیں۔
اسٹور پر پہنچ جاتے ہیں اور اپنی پسند کی رنگارنگ چاکلیٹس کو دیکھ کر خوب مرغوب ہوتے ہیں۔ اسٹور پر پڑے چاکلیٹس کے چند ڈبوں نے مشعل اور اُس کے بھائی کے چہروں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ بکھیر رکھی تھی۔ دونوں بہن بھائی اپنی معصوم اور ننھی سی خواہش کی تکمیل پر خوش ہوجاتے ہیں اور چاکلیٹس ہاتھ میں تھامے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ چونکہ رات دس، ساڑھے دس کا ٹائم ہوا تھا اور سڑک پر اندھیرے کے باعث مشعل کو گھر کا راستہ تلاش کرنے میں دشواری ہورہی تھی۔ گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں دور سے ایک آدمی پاس آتا ہے اور بچوں سے یہ بات دریافت کرنے کی کوششش کرتا ہے کہ بیٹا آپ کہاں سے ہو؟ گھر کا پتہ معلوم ہے کہ نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
بچے جو کہ انتہائی ناسمجھی کی ننھی سی عمر کا شکار تھے، اُس انجان آدمی کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوگئے۔
اب رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے اور اُن دونوں بچوں کے گھر میں ایک کہرام کی سی حالت تھی۔ جو والدہ اپنے بچوں سے غافل فون میں مگن تھیں، وہ اب اِدھر ادھر اپنے دونوں بچوں کےلیے بے تاب پھر رہی تھیں۔
حسب معمول صبح ہوتی ہے اور ہر نیوز چینل سے ایک ہی آواز اٹھتی ہے :-
"لاہور شہر کے اندرونی علاقے سے کچرے کے ڈھیر پر دو معصوم بچوں کی لاشیں ملی ہیں۔"
آگے سب وہی کچھ ہوتا ہے، جو آئے روز ہمارے ٹی وی چینلز پر دکھایا جاتا ہے۔
کیوں آئے روز ہمارے ملک میں بچوں کے اغوا اور زیادتی جیسے واقعات رونما ہورہے ہیں؟ کیوں ہر کچرے کے ڈھیر سے کمسن بچوں کی لاشیں ملتی ہیں؟ ہم سب لوگ نیوز چینلز پر نشر ہونے والے ہر مواد کو دیکھ کر تو بڑا تاؤ دکھاتے ہیں۔ بڑی بڑی این جی اوز سرگرم ہوتی ہیں، ان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے بچوں کو انصاف دلانے کے لیے۔ کبھی جسٹس فار زینب، کبھی جسٹس فار فرشتہ، تو کبھی جسٹس فار آصفہ جیسی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ اور چند دن بعد یہ تمام آوازیں بند ہوجاتی ہیں۔ لیکن کوئی اس ظلم اور ستم کے کھیل کی روک تھام کےلیے مثبت کردار ادا ہی نہیں کرتا۔ اور نہ کوئی شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے، بچوں کو اس وحشت سے بچانے کی۔
مانا کہ اس ملک میں بہت سی ایسی خامیاں ہیں جن کا تقریباً 80 فیصد الزام حکومت اور ان سے جڑے چند ذرائع کے سر رکھ دیا جاتا ہے۔ کچھ ذمے داریاں ایسی ہیں جن میں حکومت کو عوام کے شانہ بشانہ چلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب ہمارے ملک سے کسی بھی بچے یا بچی کی لاش ملتی ہے تو سارا الزام اٹھا کر حکومت کے سر رکھ دیا جاتا ہے۔ جبکہ اصل معاملہ والدین کی اپنی غفلت سے جڑا ہوا ہے۔ جیسا کہ اوپر میں نے مشعل اور اس کے بھائی کے اغوا پر مختصر سی روشنی ڈالی ہے۔ جس میں سارے واقعے کی ذمے داری صرف اور صرف والدین کی غفلت پر عائد ہوتی ہے۔ نہ والدین اپنے کمسن بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور نہ اُن کی عمر پر نظر رکھتے ہیں کہ آیا کہ اُن کی عمر اکیلے گلی، محلے کی دکانوں پر جانے کی ہے یا نہیں؟ چاہے وہ آپ کا بیٹا ہو یا بیٹی! بچے بچے ہیں۔
ہم جب بھی گھر سے باہر دیکھتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے بچے، جن کی عمریں تقریباً دو، تین، یا چار سال کے لگ بھگ ہوتی ہیں، محض ایک ٹافی، ایک چاکلیٹ، اور ایک بسکٹ کی غرض سے اغواکاری اور تشدد جیسے بھیانک واقعات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اگر والدین یہ سوچیں کہ اگر ہم اپنے بچوں کی چند ننھی ضروریات کی چیزیں جو وہ معمول کے مطابق مانگتے ہیں، اُن چیزوں کو گھر لا کر رکھ لیں، جس کی وجہ سے ان کمسن بچوں کو اکیلے باہر نہ جانا پڑے تو زینب اور فرشتہ جیسے واقعات میں تقریباً 60 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔
اپنے بچوں کو شعوری عمر تک پہنچنے دیں، تاکہ اُنہیں کسی کی پہچان ہوسکے۔ دو یا چار سال کا بچہ، بچی، اپنے دشمن کی پہچان نہیں کرسکتے۔ لیکن والدین تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے بچے کس لاشعوری کی عمر میں ہیں۔ گھر کے اندر پڑے چاکلیٹس اور بسکٹس کے چند ایکسٹرا ڈبے آپ کے بچوں کی خواہش بھی پوری کرسکتے ہیں اور اُن کی حفاظت کی ضمانت بھی۔ والدین اپنے بچوں کے باہر نکلنے سے غفلت نہ برتیں تو، ہمارے ملک کے ہر شہر میں رونما ہونے والے بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات کو کسی قدر کم کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''نہیں بیٹا، رُک جاؤ۔'' کمرے کے اندر سے ایک ہلکی اور سرسری سی آواز آتی ہے۔ کیونکہ مما اپنے فون پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ سارے دن کی داستان سنانے میں مصروف ہوتی ہیں۔
''چلو بھائی چلتے ہیں۔ مما کچھ نہیں کہیں گی۔''
یہ چند الفاظ پیاری سی چار سالہ مشعل کے تھے۔ دونوں بہن بھائی بڑی تیزی کے ساتھ چاکلیٹ خریدنے کےلیے قریبی اسٹور کی طرف اپنے قدم دوڑاتے ہیں۔
اسٹور پر پہنچ جاتے ہیں اور اپنی پسند کی رنگارنگ چاکلیٹس کو دیکھ کر خوب مرغوب ہوتے ہیں۔ اسٹور پر پڑے چاکلیٹس کے چند ڈبوں نے مشعل اور اُس کے بھائی کے چہروں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ بکھیر رکھی تھی۔ دونوں بہن بھائی اپنی معصوم اور ننھی سی خواہش کی تکمیل پر خوش ہوجاتے ہیں اور چاکلیٹس ہاتھ میں تھامے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ چونکہ رات دس، ساڑھے دس کا ٹائم ہوا تھا اور سڑک پر اندھیرے کے باعث مشعل کو گھر کا راستہ تلاش کرنے میں دشواری ہورہی تھی۔ گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں دور سے ایک آدمی پاس آتا ہے اور بچوں سے یہ بات دریافت کرنے کی کوششش کرتا ہے کہ بیٹا آپ کہاں سے ہو؟ گھر کا پتہ معلوم ہے کہ نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
بچے جو کہ انتہائی ناسمجھی کی ننھی سی عمر کا شکار تھے، اُس انجان آدمی کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوگئے۔
اب رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے اور اُن دونوں بچوں کے گھر میں ایک کہرام کی سی حالت تھی۔ جو والدہ اپنے بچوں سے غافل فون میں مگن تھیں، وہ اب اِدھر ادھر اپنے دونوں بچوں کےلیے بے تاب پھر رہی تھیں۔
حسب معمول صبح ہوتی ہے اور ہر نیوز چینل سے ایک ہی آواز اٹھتی ہے :-
"لاہور شہر کے اندرونی علاقے سے کچرے کے ڈھیر پر دو معصوم بچوں کی لاشیں ملی ہیں۔"
آگے سب وہی کچھ ہوتا ہے، جو آئے روز ہمارے ٹی وی چینلز پر دکھایا جاتا ہے۔
کیوں آئے روز ہمارے ملک میں بچوں کے اغوا اور زیادتی جیسے واقعات رونما ہورہے ہیں؟ کیوں ہر کچرے کے ڈھیر سے کمسن بچوں کی لاشیں ملتی ہیں؟ ہم سب لوگ نیوز چینلز پر نشر ہونے والے ہر مواد کو دیکھ کر تو بڑا تاؤ دکھاتے ہیں۔ بڑی بڑی این جی اوز سرگرم ہوتی ہیں، ان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے بچوں کو انصاف دلانے کے لیے۔ کبھی جسٹس فار زینب، کبھی جسٹس فار فرشتہ، تو کبھی جسٹس فار آصفہ جیسی آوازیں سننے کو ملتی ہیں۔ اور چند دن بعد یہ تمام آوازیں بند ہوجاتی ہیں۔ لیکن کوئی اس ظلم اور ستم کے کھیل کی روک تھام کےلیے مثبت کردار ادا ہی نہیں کرتا۔ اور نہ کوئی شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے، بچوں کو اس وحشت سے بچانے کی۔
مانا کہ اس ملک میں بہت سی ایسی خامیاں ہیں جن کا تقریباً 80 فیصد الزام حکومت اور ان سے جڑے چند ذرائع کے سر رکھ دیا جاتا ہے۔ کچھ ذمے داریاں ایسی ہیں جن میں حکومت کو عوام کے شانہ بشانہ چلنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب ہمارے ملک سے کسی بھی بچے یا بچی کی لاش ملتی ہے تو سارا الزام اٹھا کر حکومت کے سر رکھ دیا جاتا ہے۔ جبکہ اصل معاملہ والدین کی اپنی غفلت سے جڑا ہوا ہے۔ جیسا کہ اوپر میں نے مشعل اور اس کے بھائی کے اغوا پر مختصر سی روشنی ڈالی ہے۔ جس میں سارے واقعے کی ذمے داری صرف اور صرف والدین کی غفلت پر عائد ہوتی ہے۔ نہ والدین اپنے کمسن بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور نہ اُن کی عمر پر نظر رکھتے ہیں کہ آیا کہ اُن کی عمر اکیلے گلی، محلے کی دکانوں پر جانے کی ہے یا نہیں؟ چاہے وہ آپ کا بیٹا ہو یا بیٹی! بچے بچے ہیں۔
ہم جب بھی گھر سے باہر دیکھتے ہیں تو چھوٹے چھوٹے بچے، جن کی عمریں تقریباً دو، تین، یا چار سال کے لگ بھگ ہوتی ہیں، محض ایک ٹافی، ایک چاکلیٹ، اور ایک بسکٹ کی غرض سے اغواکاری اور تشدد جیسے بھیانک واقعات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اگر والدین یہ سوچیں کہ اگر ہم اپنے بچوں کی چند ننھی ضروریات کی چیزیں جو وہ معمول کے مطابق مانگتے ہیں، اُن چیزوں کو گھر لا کر رکھ لیں، جس کی وجہ سے ان کمسن بچوں کو اکیلے باہر نہ جانا پڑے تو زینب اور فرشتہ جیسے واقعات میں تقریباً 60 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔
اپنے بچوں کو شعوری عمر تک پہنچنے دیں، تاکہ اُنہیں کسی کی پہچان ہوسکے۔ دو یا چار سال کا بچہ، بچی، اپنے دشمن کی پہچان نہیں کرسکتے۔ لیکن والدین تو یہ جانتے ہیں کہ ہمارے بچے کس لاشعوری کی عمر میں ہیں۔ گھر کے اندر پڑے چاکلیٹس اور بسکٹس کے چند ایکسٹرا ڈبے آپ کے بچوں کی خواہش بھی پوری کرسکتے ہیں اور اُن کی حفاظت کی ضمانت بھی۔ والدین اپنے بچوں کے باہر نکلنے سے غفلت نہ برتیں تو، ہمارے ملک کے ہر شہر میں رونما ہونے والے بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات کو کسی قدر کم کرسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔