پرستان تھیٹر کے مکین
شوبز کی دنیا خواہ پاکستان کی ہو یا بھارت کی، بڑی بے رحم ہے۔
لاہور:
شوبز کی دنیا خواہ پاکستان کی ہو یا بھارت کی، بڑی بے رحم ہے۔ جب تک شہرت برقرار رہتی ہے، لوگ سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں، لیکن شہرت ہمیشہ نصف النہار پر نہیں رہتی۔ وہ جو اپنے عروج کے زمانے میں کسی کو گھاس نہیں ڈالتے، ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ خود حسرت و یاس کی تصویر بن جاتے ہیں اور ماضی کو یاد کرتے کرتے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کتنے ہی اداکار، صداکار، گلوکار اور فنکار تھے، جنھیں وقت نے یاد نہیں رکھا۔ پتہ نہیں شہرت ملتے ہی انسان دوسروں کو حقیر کیوں سمجھنے لگتا ہے۔ شہرت دولت بھی لاتی ہے۔ دولت سے شہرت بھی خریدی جا سکتی ہے اور جب یہ دونوں ساتھ ہوں تو پھر بعض اوقات انسان کو فرعون بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ مثال کے طور پر ''پرنس آف منروا مووی ٹون'' صادق علی جس نے سہراب مودی کی شہرہ آفاق فلم ''پکار'' میں کام کیا، بے حد وجیہہ اور خوبصورت آدمی تھے۔
لوگ بتاتے ہیں کہ اپنے عروج کے زمانے میں اگر چوکیدار ان کی گاڑی کے لیے گیٹ کھولنے میں ذرا سی بھی دیر کرتا تھا، تو وہ آگ بگولا ہو جاتے تھے اور بے نقط سناتے تھے۔ سہراب مودی کے ادارے ''منروا مووی ٹون'' کے باقاعدہ ملازم تھے۔ لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد سہراب مودی نے انھیں انڈیا ہی میں رہنے کی درخواست کی بلکہ التجا کی لیکن آزاد وطن کی محبت انھیں یہاں کھینچ لائی۔ پاکستان کی نو زائیدہ فلم انڈسٹری میں انھیں کوئی کام نہ ملا، اس صدمے نے ان کی زبان بند کر دی اور انھیں فالج ہو گیا۔ صادق علی کراچی میں کیپٹل سینما والی گلی میں ایک پان کی دکان پہ سفید قمیض اور پاجامہ پہنے، سر پہ گول ٹوپی لگائے ایک اسٹول پہ حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے رہا کرتے تھے۔
صادق علی نے عروج کا زمانہ بھی دیکھا جب وہ پرنس کہلاتے تھے اور یہ بھی جب وہ محتاجی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کیپٹل سینما کے مالک نے اپنے ملازمین سے کہہ رکھا تھا کہ صادق علی روزانہ ایک شو فری دیکھنے کے حقدار ہیں، لہٰذا جب تک وہ زندہ رہے روزانہ ایک فلم کا شو وہ ضرور دیکھتے تھے۔ شاید اس لیے کہ وہ پردہ سیمیں پہ اپنی جوانی اور شہرت کی قندیلیں دیکھتے تھے۔ یا پھر اس بات پہ پچھتاتے تھے کہ انھوں نے سہراب مودی کی بات کیوں نہیں مانی۔ بالکل اسی طرح جیسے جوشؔ صاحب اکثر اس بات پہ ملول ہوتے تھے کہ انھوں نے پنڈت نہرو کی بات کیوں نہ مانی۔
اسی طرح مجھے وحید مراد کا خیال آتا ہے۔ کیا شہرت تھی، کیا زمانہ تھا، نثار مراد کے بیٹے تھے، طارق روڈ پر ان کا پیلے رنگ کا گھر تھا، جس کا نام مجھے آج تک یاد ہے Lilyen House۔ نثار مراد اور ان کی اہلیہ کو بھی دیکھا تھا، دونوں بے حد ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھے، بیٹے کو اﷲ نے شہرت عطا کی تو غرور شخصیت میں شامل ہو گیا۔ پرستار ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے تھے۔ لیکن جب کسی انسان کے سر پہ شہرت کے سرخاب کا پر لگ جائے تو وہ خود کو پرستان تھیٹر کا مکین سمجھنے لگتا ہے، جہاں عام انسانوں کا گزر نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا ہوا۔۔۔۔ شہرت کی دیوی نے منہ موڑا تو تنہائی دوست بن گئی، اپنے قانونی اور خونی رشتے دور ہو گئے، انھیں اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ لیکن ایک منہ بولی بہن نے رشتہ نبھایا، وہ اپنی موت تک اسی منہ بولی بہن کے گھر مقیم رہے، البتہ موت کے بعد والی وارث بھی آ گئے، وحیدی کلب بھی بن گیا، وحید مراد کو خوب کیش کرایا جا رہا ہے، لیکن جب وہ زندہ تھا تو نہ اس کے گھر والے پاس تھے اور نہ ہی فلمی صنعت نے اس کی طرف توجہ دی کہ یہ لوگ اندھیروں کے نہیں، اجالوں کے ساتھی ہوتے ہیں۔!!
شمیم آرا، آج اجنبی ملک میں کوما میں پڑی ہے۔ زندگی نے اسے شہرت و دولت دونوں عطا کی۔ سانولی سلونی، سادہ، رہنے والی ستاروں کی بستی کی، لیکن مزاج میں سادگی گھریلو لڑکیوں جیسی۔ دکھ دینے والوں نے اسے بھی روحی بانو کی طرح بہت دکھ دیے، لیکن پھر وہ اس لحاظ سے روحی بانو سے خوش قسمت ہے کہ اس کا بیٹا اس کے پاس ہے۔۔۔۔ روحی بانو کو نئی نسل تو شاید جانتی بھی نہ ہو لیکن استاد ذاکر حسین ستار نواز کی بہن جس حال میں ہے، خدا دشمن کو بھی ایسا وقت نہ دکھائے۔ فاروق ضمیر، خالد سعید بٹ اور انور سجاد کی تکون نے جب ''کہانی کی تلاش میں'' نامی سیریز پی ٹی وی سے شروع کی، اس میں روحی بانو نے ایسے ایسے مختلف النوع کردار ادا کیے جن کا کوئی جواب نہیں۔۔۔۔ ماسٹرز ڈگری ہولڈر ذہین فنکارہ نے محبت کا زخم کھایا، فریب کھایا اور ایک بیٹے کے ساتھ جینے لگی۔ فلمی دنیا پڑھی لکھی اداکارہ کو برداشت نہ کر سکی کہ یہاں دوسری ہی دنیا کا راج ہے، بلکہ قبضہ ہے۔ آج اس کا کیا حال ہے۔۔۔۔۔؟ مخبوط الحواس عورت جو اپنا جوان بیٹا بھی کھو چکی ہے، سگی بہن جو خاصی مالدار ہے اسے بھی اس کی کوئی فکر نہیں۔۔۔۔ کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ رشتے خون کے ہی ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں نے ٹی وی اسکرین پہ تماشا لگایا، اسے بطور مہمان بلایا جہاں وہ موجودہ دنیا سے کٹی ہوئی ماضی میں زندہ تھی۔
پہلی رنگین فلم ''آن'' کی ہیروئن نادرہ کو یاد کیجیے۔ زیادہ فلموں میں کام نہیں کیا، شادی بھی نہیں کی۔ فلمی دنیا سے کنارہ کشی کے بعد ممبئی کے ایک فلیٹ میں رہتی تھی، جہاں بلڈنگ کے لوگ اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ بالکل اکیلی تھی، لیکن کوئی دکھ نہ تھا، وہ اب بھی خود کو ''آن'' کی ہیروئن ہی سمجھتی تھی اور اسی خوش فہمی میں زندہ تھی کہ لوگ اسے بھولے نہیں ہیں۔ جب کوئی فون پر اس سے گھر کا پتہ پوچھتا تو کہتی ''ارے، کسی سے بھی ممبئی میں پوچھ لو کہ نادرہ کہاں رہتی ہے، لوگ پہنچا دیں گے۔'' اسی خوش گمانی میں ساری عمر مبتلا رہی، جیسے اس نے اپنی شخصیت کے گرد ایک ہالہ بنالیا تھا جس سے وہ باہر نہیں نکلنا چاہتی تھی۔
اسی طرح کا حال اداکارہ و گلوکارہ ثریا کا تھا۔ بے مثال گائیکی کی مالک، حسن و خوبصورتی کا شاہکار۔ جس نے بے شمار فلموں میں ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ مرزا غالب نامی فلم میں اس کی اداکاری دیکھنے کے قابل تھی۔ دیو آنند اس کے عشق میں بری طرح مبتلا تھے۔ دونوں شادی بھی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہی ازلی ''نانی'' آڑے آ گئی اور یہ شادی نہ ہو سکی۔ پھر انگریزی فلموں کا مایہ ناز اداکار گریگوری پیک ہندوستان آیا اور اس سے ملنے کی کوشش کرتا رہا۔ لگاتار کئی دن وہ ثریا کے فلیٹ کے سامنے دن بھر کھڑا رہتا تھا کہ اس کی ایک جھلک دیکھ لے۔ لیکن ثریا نے کھڑکی نہ کھولی۔۔۔۔۔ وہ ناکام و نامراد واپس چلا گیا۔۔۔۔۔ پھر زمانہ بدلا، بالوں میں چاندی اتر آئی، گل سرخ باسی پھول بن گیا، بڑی بڑی روشن آنکھیں مایوسیوں کے سمندر میں ڈوب گئیں، کام ملنا بند ہو گیا، ایکٹر رول کرنے سے اس نے منع کر دیا اور خود اپنی دنیا آباد کر لی، پرستاروں نے آنا بھی چھوڑ دیا تھا۔
پروین بابی، سرو قامت، خوبصورت، سوشیالوجی کی پروفیسر جب اچانک فلمی دنیا میں آئی تو تہلکہ مچا دیا، تقریباً تمام بڑے ہیروز کے ساتھ کام کیا، فلمی دنیا پہ بھرپور راج کیا، پھر نجانے کیوں امریکا چلی گئی۔ نجانے کیسے پروین بابی کو نشے کی لت پڑ گئی اور یہیں سے اس کا زوال شروع ہوا۔ گلاب جیسا چہرہ پھول کر کپا ہوتا گیا، کھال لٹک گئی۔ وہ ممبئی واپس آئی تو اپنے فلیٹ میں قید ہو گئی، پڑوسیوں سے بھی ملنا جلنا نہیں تھا اور پھر ایک دن پتہ چلا کہ وہ مر گئی۔۔۔۔ پڑوسیوں نے جب دیکھا کہ دودھ کی بوتلیں اور اخبار تین دن سے دروازے کے باہر پڑے ہیں تو انھوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ تب پتہ چلا کہ وہ پڑوسن تو بھارتی فلموں کی سپر اسٹار پروین بابی تھی۔
بھارت میں پھر بھی صورت حال بہتر ہے کہ وہاں کی فلم انڈسٹری بہت مضبوط اور جاندار ہے۔ وہ اپنے سینئر فنکاروں کی مدد کسی نہ کسی طرح کرتے رہتے ہیں لیکن یہاں ہمارے ہاں معاملہ بہت تشویشناک ہے۔ فلم انڈسٹری خود ''کوما'' میں ہے۔ ایسے میں فنکاروں کا پرسان حال کون ہو ۔۔۔۔۔ کتنی ہی اداکارائیں، گلوکار اور موسیقار کسمپرسی کی موت مر گئے اور جو زندہ ہیں وہ خود پر ماتم کناں ہیں کہ کوئی اور پیشہ اختیار کیوں نہ کیا۔ میڈم آزوری ہو یا ببو، آشا پوسلے ہو یا میناشوری، وحید مراد ہوں یا پروین بابی، نادرہ ہو یا ثریا، یا پرنس آف منروا مووی ٹون صادق علی۔ سب پرستان تھیٹر کے باسی، آج اس پرستان تھیٹر میں صرف ایک پری رہ گئی۔۔۔۔۔ روحی بانو۔ پاکستان کا سرمایۂ افتخار۔ لیکن مالدار اداکار اور اداکاراؤں کو بھی توفیق نہیں کہ اس کی خبر گیری کریں۔ فلمی دنیا اسی کا نام ہے، بے حس، ظالم اور نہایت بے رحم!!
شوبز کی دنیا خواہ پاکستان کی ہو یا بھارت کی، بڑی بے رحم ہے۔ جب تک شہرت برقرار رہتی ہے، لوگ سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں، لیکن شہرت ہمیشہ نصف النہار پر نہیں رہتی۔ وہ جو اپنے عروج کے زمانے میں کسی کو گھاس نہیں ڈالتے، ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب وہ خود حسرت و یاس کی تصویر بن جاتے ہیں اور ماضی کو یاد کرتے کرتے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ کتنے ہی اداکار، صداکار، گلوکار اور فنکار تھے، جنھیں وقت نے یاد نہیں رکھا۔ پتہ نہیں شہرت ملتے ہی انسان دوسروں کو حقیر کیوں سمجھنے لگتا ہے۔ شہرت دولت بھی لاتی ہے۔ دولت سے شہرت بھی خریدی جا سکتی ہے اور جب یہ دونوں ساتھ ہوں تو پھر بعض اوقات انسان کو فرعون بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ مثال کے طور پر ''پرنس آف منروا مووی ٹون'' صادق علی جس نے سہراب مودی کی شہرہ آفاق فلم ''پکار'' میں کام کیا، بے حد وجیہہ اور خوبصورت آدمی تھے۔
لوگ بتاتے ہیں کہ اپنے عروج کے زمانے میں اگر چوکیدار ان کی گاڑی کے لیے گیٹ کھولنے میں ذرا سی بھی دیر کرتا تھا، تو وہ آگ بگولا ہو جاتے تھے اور بے نقط سناتے تھے۔ سہراب مودی کے ادارے ''منروا مووی ٹون'' کے باقاعدہ ملازم تھے۔ لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد سہراب مودی نے انھیں انڈیا ہی میں رہنے کی درخواست کی بلکہ التجا کی لیکن آزاد وطن کی محبت انھیں یہاں کھینچ لائی۔ پاکستان کی نو زائیدہ فلم انڈسٹری میں انھیں کوئی کام نہ ملا، اس صدمے نے ان کی زبان بند کر دی اور انھیں فالج ہو گیا۔ صادق علی کراچی میں کیپٹل سینما والی گلی میں ایک پان کی دکان پہ سفید قمیض اور پاجامہ پہنے، سر پہ گول ٹوپی لگائے ایک اسٹول پہ حسرت و یاس کی تصویر بنے بیٹھے رہا کرتے تھے۔
صادق علی نے عروج کا زمانہ بھی دیکھا جب وہ پرنس کہلاتے تھے اور یہ بھی جب وہ محتاجی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کیپٹل سینما کے مالک نے اپنے ملازمین سے کہہ رکھا تھا کہ صادق علی روزانہ ایک شو فری دیکھنے کے حقدار ہیں، لہٰذا جب تک وہ زندہ رہے روزانہ ایک فلم کا شو وہ ضرور دیکھتے تھے۔ شاید اس لیے کہ وہ پردہ سیمیں پہ اپنی جوانی اور شہرت کی قندیلیں دیکھتے تھے۔ یا پھر اس بات پہ پچھتاتے تھے کہ انھوں نے سہراب مودی کی بات کیوں نہیں مانی۔ بالکل اسی طرح جیسے جوشؔ صاحب اکثر اس بات پہ ملول ہوتے تھے کہ انھوں نے پنڈت نہرو کی بات کیوں نہ مانی۔
اسی طرح مجھے وحید مراد کا خیال آتا ہے۔ کیا شہرت تھی، کیا زمانہ تھا، نثار مراد کے بیٹے تھے، طارق روڈ پر ان کا پیلے رنگ کا گھر تھا، جس کا نام مجھے آج تک یاد ہے Lilyen House۔ نثار مراد اور ان کی اہلیہ کو بھی دیکھا تھا، دونوں بے حد ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھے، بیٹے کو اﷲ نے شہرت عطا کی تو غرور شخصیت میں شامل ہو گیا۔ پرستار ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے تھے۔ لیکن جب کسی انسان کے سر پہ شہرت کے سرخاب کا پر لگ جائے تو وہ خود کو پرستان تھیٹر کا مکین سمجھنے لگتا ہے، جہاں عام انسانوں کا گزر نہیں ہو سکتا۔ پھر کیا ہوا۔۔۔۔ شہرت کی دیوی نے منہ موڑا تو تنہائی دوست بن گئی، اپنے قانونی اور خونی رشتے دور ہو گئے، انھیں اکیلا چھوڑ دیا گیا۔ لیکن ایک منہ بولی بہن نے رشتہ نبھایا، وہ اپنی موت تک اسی منہ بولی بہن کے گھر مقیم رہے، البتہ موت کے بعد والی وارث بھی آ گئے، وحیدی کلب بھی بن گیا، وحید مراد کو خوب کیش کرایا جا رہا ہے، لیکن جب وہ زندہ تھا تو نہ اس کے گھر والے پاس تھے اور نہ ہی فلمی صنعت نے اس کی طرف توجہ دی کہ یہ لوگ اندھیروں کے نہیں، اجالوں کے ساتھی ہوتے ہیں۔!!
شمیم آرا، آج اجنبی ملک میں کوما میں پڑی ہے۔ زندگی نے اسے شہرت و دولت دونوں عطا کی۔ سانولی سلونی، سادہ، رہنے والی ستاروں کی بستی کی، لیکن مزاج میں سادگی گھریلو لڑکیوں جیسی۔ دکھ دینے والوں نے اسے بھی روحی بانو کی طرح بہت دکھ دیے، لیکن پھر وہ اس لحاظ سے روحی بانو سے خوش قسمت ہے کہ اس کا بیٹا اس کے پاس ہے۔۔۔۔ روحی بانو کو نئی نسل تو شاید جانتی بھی نہ ہو لیکن استاد ذاکر حسین ستار نواز کی بہن جس حال میں ہے، خدا دشمن کو بھی ایسا وقت نہ دکھائے۔ فاروق ضمیر، خالد سعید بٹ اور انور سجاد کی تکون نے جب ''کہانی کی تلاش میں'' نامی سیریز پی ٹی وی سے شروع کی، اس میں روحی بانو نے ایسے ایسے مختلف النوع کردار ادا کیے جن کا کوئی جواب نہیں۔۔۔۔ ماسٹرز ڈگری ہولڈر ذہین فنکارہ نے محبت کا زخم کھایا، فریب کھایا اور ایک بیٹے کے ساتھ جینے لگی۔ فلمی دنیا پڑھی لکھی اداکارہ کو برداشت نہ کر سکی کہ یہاں دوسری ہی دنیا کا راج ہے، بلکہ قبضہ ہے۔ آج اس کا کیا حال ہے۔۔۔۔۔؟ مخبوط الحواس عورت جو اپنا جوان بیٹا بھی کھو چکی ہے، سگی بہن جو خاصی مالدار ہے اسے بھی اس کی کوئی فکر نہیں۔۔۔۔ کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ رشتے خون کے ہی ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں نے ٹی وی اسکرین پہ تماشا لگایا، اسے بطور مہمان بلایا جہاں وہ موجودہ دنیا سے کٹی ہوئی ماضی میں زندہ تھی۔
پہلی رنگین فلم ''آن'' کی ہیروئن نادرہ کو یاد کیجیے۔ زیادہ فلموں میں کام نہیں کیا، شادی بھی نہیں کی۔ فلمی دنیا سے کنارہ کشی کے بعد ممبئی کے ایک فلیٹ میں رہتی تھی، جہاں بلڈنگ کے لوگ اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ بالکل اکیلی تھی، لیکن کوئی دکھ نہ تھا، وہ اب بھی خود کو ''آن'' کی ہیروئن ہی سمجھتی تھی اور اسی خوش فہمی میں زندہ تھی کہ لوگ اسے بھولے نہیں ہیں۔ جب کوئی فون پر اس سے گھر کا پتہ پوچھتا تو کہتی ''ارے، کسی سے بھی ممبئی میں پوچھ لو کہ نادرہ کہاں رہتی ہے، لوگ پہنچا دیں گے۔'' اسی خوش گمانی میں ساری عمر مبتلا رہی، جیسے اس نے اپنی شخصیت کے گرد ایک ہالہ بنالیا تھا جس سے وہ باہر نہیں نکلنا چاہتی تھی۔
اسی طرح کا حال اداکارہ و گلوکارہ ثریا کا تھا۔ بے مثال گائیکی کی مالک، حسن و خوبصورتی کا شاہکار۔ جس نے بے شمار فلموں میں ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ مرزا غالب نامی فلم میں اس کی اداکاری دیکھنے کے قابل تھی۔ دیو آنند اس کے عشق میں بری طرح مبتلا تھے۔ دونوں شادی بھی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہی ازلی ''نانی'' آڑے آ گئی اور یہ شادی نہ ہو سکی۔ پھر انگریزی فلموں کا مایہ ناز اداکار گریگوری پیک ہندوستان آیا اور اس سے ملنے کی کوشش کرتا رہا۔ لگاتار کئی دن وہ ثریا کے فلیٹ کے سامنے دن بھر کھڑا رہتا تھا کہ اس کی ایک جھلک دیکھ لے۔ لیکن ثریا نے کھڑکی نہ کھولی۔۔۔۔۔ وہ ناکام و نامراد واپس چلا گیا۔۔۔۔۔ پھر زمانہ بدلا، بالوں میں چاندی اتر آئی، گل سرخ باسی پھول بن گیا، بڑی بڑی روشن آنکھیں مایوسیوں کے سمندر میں ڈوب گئیں، کام ملنا بند ہو گیا، ایکٹر رول کرنے سے اس نے منع کر دیا اور خود اپنی دنیا آباد کر لی، پرستاروں نے آنا بھی چھوڑ دیا تھا۔
پروین بابی، سرو قامت، خوبصورت، سوشیالوجی کی پروفیسر جب اچانک فلمی دنیا میں آئی تو تہلکہ مچا دیا، تقریباً تمام بڑے ہیروز کے ساتھ کام کیا، فلمی دنیا پہ بھرپور راج کیا، پھر نجانے کیوں امریکا چلی گئی۔ نجانے کیسے پروین بابی کو نشے کی لت پڑ گئی اور یہیں سے اس کا زوال شروع ہوا۔ گلاب جیسا چہرہ پھول کر کپا ہوتا گیا، کھال لٹک گئی۔ وہ ممبئی واپس آئی تو اپنے فلیٹ میں قید ہو گئی، پڑوسیوں سے بھی ملنا جلنا نہیں تھا اور پھر ایک دن پتہ چلا کہ وہ مر گئی۔۔۔۔ پڑوسیوں نے جب دیکھا کہ دودھ کی بوتلیں اور اخبار تین دن سے دروازے کے باہر پڑے ہیں تو انھوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ تب پتہ چلا کہ وہ پڑوسن تو بھارتی فلموں کی سپر اسٹار پروین بابی تھی۔
بھارت میں پھر بھی صورت حال بہتر ہے کہ وہاں کی فلم انڈسٹری بہت مضبوط اور جاندار ہے۔ وہ اپنے سینئر فنکاروں کی مدد کسی نہ کسی طرح کرتے رہتے ہیں لیکن یہاں ہمارے ہاں معاملہ بہت تشویشناک ہے۔ فلم انڈسٹری خود ''کوما'' میں ہے۔ ایسے میں فنکاروں کا پرسان حال کون ہو ۔۔۔۔۔ کتنی ہی اداکارائیں، گلوکار اور موسیقار کسمپرسی کی موت مر گئے اور جو زندہ ہیں وہ خود پر ماتم کناں ہیں کہ کوئی اور پیشہ اختیار کیوں نہ کیا۔ میڈم آزوری ہو یا ببو، آشا پوسلے ہو یا میناشوری، وحید مراد ہوں یا پروین بابی، نادرہ ہو یا ثریا، یا پرنس آف منروا مووی ٹون صادق علی۔ سب پرستان تھیٹر کے باسی، آج اس پرستان تھیٹر میں صرف ایک پری رہ گئی۔۔۔۔۔ روحی بانو۔ پاکستان کا سرمایۂ افتخار۔ لیکن مالدار اداکار اور اداکاراؤں کو بھی توفیق نہیں کہ اس کی خبر گیری کریں۔ فلمی دنیا اسی کا نام ہے، بے حس، ظالم اور نہایت بے رحم!!