کیا ہم عید کے پیغام پر پورا اترے
خدا کرے کہ ہمارے ملک کے عوام ایک دوسرے کی خوشیوں کو اسی طرح دوبالا کرتے رہیں۔
پاکستانی قوم، عید کے موقعے پر خوشیوں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوئی، مجموعی طور پر ملک میں امن و امان کی صورتحال پر امن رہی ۔ اس بات کا کریڈٹ بلاشبہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جاتا ہے جنھوں نے فول پروف سیکیورٹی انتظامات کیے تھے۔ صد شکر کہ کوئی افسوسناک سانحہ رونما نہیں ہوا۔
مسلمان رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے مستفید ہو کر عید کا تہوار مناتے ہیں، گو کہ دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور ہر مذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذاہب کے تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے حامل ہیں اور ہمارے نبی کریمﷺ ، جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو وہاں کے لوگ مختلف تہوار مناتے تھے۔
حضور نے ان باتوں کو سخت ناپسند فرمایا اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے دعا فرمائی اور دو عیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کروا لیں، جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک میں حضور نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ '' ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے ، تم بھی عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔
اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالاضحی منایا کرو۔'' چنانچہ مسلمانوں نے اپنے پیارے رسولﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں یکم شوال دو ہجری کو پہلی بار عید منائی، عیدالفطر حقیقت میں مسلمانوں کی خوشی اور مسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ انھیں نصیب ہوتا ہے۔
ایک ماہ مسلسل اللہ کی عبادت کا فریضہ ادا کر کے مسلمان اپنے دل میں مسرت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قلب میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے، اور ان کے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روزے رکھ کر انھوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال مسلمان چھوٹا، بڑا، امیر، غریب، مرد ، عورت غرض ہر شخص رمضان المبارک کے اختتام پر بڑے تزک و احتشام سے عید الفطر مناتے ہیں۔
دراصل عید تورنگوں کا نام ہے۔ بچوں کا میٹھی سویوں اور عید کی نماز پر اپنے بڑوں کے ساتھ جانے اور رنگ برنگ غباروں سے کھیلنے کا موسم ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک عرصے سے دو عیدیں کرنے کا رواج بھی چلا آ رہا ہے۔ اس بار بھی ایک روز قبل خیبر پختون خوا میں عید منانے کی روایت برقرار رکھی گئی ہے۔
بہرحال چاند رات منانے اور عید کی خوشیوں پر سبھی کا حق ہے۔ روزہ دار کے لیے تو عید ایک انعام اور تحفے کی حیثیت رکھتی ہے، اگرچہ اس وقت دنیا ایک گلوبل ویلج کی حیثیت اختیارکر گئی ہے لیکن انسانوں کے رویوں نے انھیں ایک دوسرے سے دور کر دیاہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ لوگ پھر سے ایک دوسرے کے قریب آ جائیں۔ عید کی خوشیوں میں ایک دوسرے کو اپنے ساتھ شریک کریں، جس طرح کبھی ماضی میں ایسے مناظر دکھائی دیتے تھے۔
عید کی خوشیوں کے رنگ اسی وقت دل و نظر کو بھلے لگتے ہیں جب وہ سب کے سنگ ہوں۔ یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور لاوارثوں اور معذوروں کو بھی اس دن کی خوشیوں میں شامل کرنے کا نام عید ہے۔ یہی عید کا حقیقی پیغام ہے ،کیا ہم عید کے اس پیغام پر پورا اترے؟ یہی مرحلہ سوچنے اور اپنے احتساب کا ہے۔ ملک کی سرحدوں پر دفاع کا فریضہ انجام دینے والے محافظوں اور شہروں میں عوام کی جان و مال کے لیے عید کے دن بھی ڈیوٹی سرانجام دینے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی اس دن کی خوشیاں مبارک ہوں۔
چاند دیکھنے کی طرح ایک دوسرے کو اپنے دلی جذبات کے اظہار کے لیے عید کارڈ بھیجنے کی روایت بھی دم توڑ رہی ہے اور بہت سی روایتوں کی طرح اس رسم اور روایت کو بھی جاری رکھنا ضروری ہے۔ اب تو لوگ بس موبائل کے ایک میسج کے ذریعے مشینی انداز میں ایڈوانس عید مبارک دینے لگے ہیں ۔ دراصل مذہبی تہوار موسم اور معاشرت سے ہم آہنگ ہو کر ہمارے مزاج اور عادات کے عکاس بن جاتے ہیں۔ ہم ان سے خوشیاں کشید کر کے نئی قوت حاصل کرتے ہیں۔
جب میڈیا اور انٹرٹینمینٹ چینلز وجود میں نہیں آئے تھے تو سال بھر میں جشن منانے اور خاندانوں کے مل بیٹھنے کو یہ سب سے بڑا مذہبی تہوار ہوتا تھا ۔ رشتے دار اور روزگار کے سلسلے میں دور دراز حتیٰ کہ پردیس میں بسنے والے اپنے پیاروں کی دید سے عید کو خوشگوار اور یادگار بنانے کے لیے لمبے سفر طے کر کے آتے تھے۔ دوستوں ، عزیزوں، چاہنے والوں ، ماں باپ اور بچوں کے لیے عید کی آمد پردیسی پیاروں سے ملاقات کا وسیلہ بن کر آتی تھی۔ اس عید کی اصل روح فطرانہ اور زکوۃ ہے جو معاشرے کے ضرورتمند اور نادار افراد کو ساتھ لے کر چلنے اور خوشیاں بانٹنے کا وسیلہ ہے۔ رمضان کا آغاز زکوۃ اور اختتام فطرانے سے ہوتا ہے۔ اس طرح یہ عید خدمتِ خلق کا تہوار ہے جو ایثار اور اْخوت سے لبریز ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ ہم نے اس عید پر اپنے سفید پوش رشتہ داروں اور غربا کی ضرورتوں کو کس حد تک محسوس کیا۔ کچھ پل بچھڑ جانے والے دوستوں کی اولاد اور خاندان کے ساتھ بِتا کر انھیں اپنائیت کا احساس دلائیں۔ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے'اس بار مہنگائی اور اشیا کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے نے عوام کے لیے مسائل پیدا کیے جس سے کاروباراور معاشی سرگرمیوں کی رفتار بھی قدرے متاثر ہوئی۔
کاروبار میں اس طرح کی تیزی اور سرعت دیکھنے میں نہیں آئی جو ہر سال نظر آتی رہی۔ ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ ماضی قریب میں عید کے موقعے پر روٹھے ہوؤں کو منانے کا رواج تھا۔ غلطی کرنے والا جب صلح کی غرض سے جاتا تو چل کر آنے والے کی قدر کی جاتی اور پشیمانی اور روایتی معافی کے بجائے کھلے بازوؤں سے آؤبھگت کی جاتی۔ اس ساری پریکٹس کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن زمانہ بہت جلدی بدل گیا ہے یا شاید ہم ہی تیز رفتار وقت کے ساتھ الجھ کر اپنی ثقافتی قدروں اور روایات کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ لیکن کچھ بھی ہو انسان اپنے اصل کی طرف لوٹ کر ضرور آتا ہے کیوں کہ اسی صورت میں وہ سچی خوشی حاصل کرتا ہے۔
جب سے واٹس ایپ اور فیس بک وجود میں آئے ہیں ہر قسم کے کیک ، مٹھائیوں اور پکوان کا لین دین یہیں انجام پاتا رہا ہے۔ نت نئے عید کارڈز بھی یہی پوسٹ ہوتے ہیں۔ عید ایک چھوٹا سا تین حرفی لفظ ہے جو عربی لفظ عود سے نکلا ہے ، اس کے معنی لوٹ آنے اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید کیونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے اس لیے اس کا نام عید پڑ گیا، عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ۔ تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو۔
اس بار عید پر سورج آگ برساتا رہا، قیامت خیز گرمی کی لہر نے عوام کو کافی مشکلات سے دوچار کیا ۔ عید کے بعد بجٹ پیش کیا جائے یہ بجٹ عوام پر کیا کیا قیامت ڈھائے گا یہ چند دن میں معلوم ہو جائے گا ، دوسری جانب متحدہ اپوزیشن نے بھی حکومت کے خلاف تحریک چلانے اور سڑکوں پر آنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ یعنی سیاسی موسم بھی گرم ترین ہو گا ۔
حرف آخر ہماری دعا ہے کہ خدا کرے کہ ہمارے ملک کے عوام ایک دوسرے کی خوشیوں کو اسی طرح دوبالا کرتے رہیں۔ ملک کو دہشت گردی اور دیگر خرافات سے نجات ملے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی اپنے عوام میں رہ کر ان خوشیوں کا تحفظ کریں۔اﷲ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور اسے ہر قسم کی آفات اور شر سے محفوظ رکھے۔
مسلمان رمضان المبارک کے فیوض و برکات سے مستفید ہو کر عید کا تہوار مناتے ہیں، گو کہ دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور ہر مذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذاہب کے تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے حامل ہیں اور ہمارے نبی کریمﷺ ، جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تو وہاں کے لوگ مختلف تہوار مناتے تھے۔
حضور نے ان باتوں کو سخت ناپسند فرمایا اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے دعا فرمائی اور دو عیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کروا لیں، جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک میں حضور نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ '' ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے ، تم بھی عیدیں مناتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری عیدوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔
اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالاضحی منایا کرو۔'' چنانچہ مسلمانوں نے اپنے پیارے رسولﷺ کے اس ارشاد کی تعمیل میں یکم شوال دو ہجری کو پہلی بار عید منائی، عیدالفطر حقیقت میں مسلمانوں کی خوشی اور مسرت کا وہ محبوب دن ہے، جو سال بھر میں صرف ایک مرتبہ انھیں نصیب ہوتا ہے۔
ایک ماہ مسلسل اللہ کی عبادت کا فریضہ ادا کر کے مسلمان اپنے دل میں مسرت اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے قلب میں ایمان کی روشنی پیدا ہوتی ہے، اور ان کے دل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ روزے رکھ کر انھوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کر لی ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ ہر سال مسلمان چھوٹا، بڑا، امیر، غریب، مرد ، عورت غرض ہر شخص رمضان المبارک کے اختتام پر بڑے تزک و احتشام سے عید الفطر مناتے ہیں۔
دراصل عید تورنگوں کا نام ہے۔ بچوں کا میٹھی سویوں اور عید کی نماز پر اپنے بڑوں کے ساتھ جانے اور رنگ برنگ غباروں سے کھیلنے کا موسم ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک عرصے سے دو عیدیں کرنے کا رواج بھی چلا آ رہا ہے۔ اس بار بھی ایک روز قبل خیبر پختون خوا میں عید منانے کی روایت برقرار رکھی گئی ہے۔
بہرحال چاند رات منانے اور عید کی خوشیوں پر سبھی کا حق ہے۔ روزہ دار کے لیے تو عید ایک انعام اور تحفے کی حیثیت رکھتی ہے، اگرچہ اس وقت دنیا ایک گلوبل ویلج کی حیثیت اختیارکر گئی ہے لیکن انسانوں کے رویوں نے انھیں ایک دوسرے سے دور کر دیاہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ لوگ پھر سے ایک دوسرے کے قریب آ جائیں۔ عید کی خوشیوں میں ایک دوسرے کو اپنے ساتھ شریک کریں، جس طرح کبھی ماضی میں ایسے مناظر دکھائی دیتے تھے۔
عید کی خوشیوں کے رنگ اسی وقت دل و نظر کو بھلے لگتے ہیں جب وہ سب کے سنگ ہوں۔ یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور لاوارثوں اور معذوروں کو بھی اس دن کی خوشیوں میں شامل کرنے کا نام عید ہے۔ یہی عید کا حقیقی پیغام ہے ،کیا ہم عید کے اس پیغام پر پورا اترے؟ یہی مرحلہ سوچنے اور اپنے احتساب کا ہے۔ ملک کی سرحدوں پر دفاع کا فریضہ انجام دینے والے محافظوں اور شہروں میں عوام کی جان و مال کے لیے عید کے دن بھی ڈیوٹی سرانجام دینے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی اس دن کی خوشیاں مبارک ہوں۔
چاند دیکھنے کی طرح ایک دوسرے کو اپنے دلی جذبات کے اظہار کے لیے عید کارڈ بھیجنے کی روایت بھی دم توڑ رہی ہے اور بہت سی روایتوں کی طرح اس رسم اور روایت کو بھی جاری رکھنا ضروری ہے۔ اب تو لوگ بس موبائل کے ایک میسج کے ذریعے مشینی انداز میں ایڈوانس عید مبارک دینے لگے ہیں ۔ دراصل مذہبی تہوار موسم اور معاشرت سے ہم آہنگ ہو کر ہمارے مزاج اور عادات کے عکاس بن جاتے ہیں۔ ہم ان سے خوشیاں کشید کر کے نئی قوت حاصل کرتے ہیں۔
جب میڈیا اور انٹرٹینمینٹ چینلز وجود میں نہیں آئے تھے تو سال بھر میں جشن منانے اور خاندانوں کے مل بیٹھنے کو یہ سب سے بڑا مذہبی تہوار ہوتا تھا ۔ رشتے دار اور روزگار کے سلسلے میں دور دراز حتیٰ کہ پردیس میں بسنے والے اپنے پیاروں کی دید سے عید کو خوشگوار اور یادگار بنانے کے لیے لمبے سفر طے کر کے آتے تھے۔ دوستوں ، عزیزوں، چاہنے والوں ، ماں باپ اور بچوں کے لیے عید کی آمد پردیسی پیاروں سے ملاقات کا وسیلہ بن کر آتی تھی۔ اس عید کی اصل روح فطرانہ اور زکوۃ ہے جو معاشرے کے ضرورتمند اور نادار افراد کو ساتھ لے کر چلنے اور خوشیاں بانٹنے کا وسیلہ ہے۔ رمضان کا آغاز زکوۃ اور اختتام فطرانے سے ہوتا ہے۔ اس طرح یہ عید خدمتِ خلق کا تہوار ہے جو ایثار اور اْخوت سے لبریز ہے۔
سوچنا یہ ہے کہ ہم نے اس عید پر اپنے سفید پوش رشتہ داروں اور غربا کی ضرورتوں کو کس حد تک محسوس کیا۔ کچھ پل بچھڑ جانے والے دوستوں کی اولاد اور خاندان کے ساتھ بِتا کر انھیں اپنائیت کا احساس دلائیں۔ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام میں سے اکثریت کی زندگی مشکل کر دی ہے'اس بار مہنگائی اور اشیا کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے نے عوام کے لیے مسائل پیدا کیے جس سے کاروباراور معاشی سرگرمیوں کی رفتار بھی قدرے متاثر ہوئی۔
کاروبار میں اس طرح کی تیزی اور سرعت دیکھنے میں نہیں آئی جو ہر سال نظر آتی رہی۔ ہم کو چاہیے خاص طور پر ان مسلمانوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ ماضی قریب میں عید کے موقعے پر روٹھے ہوؤں کو منانے کا رواج تھا۔ غلطی کرنے والا جب صلح کی غرض سے جاتا تو چل کر آنے والے کی قدر کی جاتی اور پشیمانی اور روایتی معافی کے بجائے کھلے بازوؤں سے آؤبھگت کی جاتی۔ اس ساری پریکٹس کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن زمانہ بہت جلدی بدل گیا ہے یا شاید ہم ہی تیز رفتار وقت کے ساتھ الجھ کر اپنی ثقافتی قدروں اور روایات کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ لیکن کچھ بھی ہو انسان اپنے اصل کی طرف لوٹ کر ضرور آتا ہے کیوں کہ اسی صورت میں وہ سچی خوشی حاصل کرتا ہے۔
جب سے واٹس ایپ اور فیس بک وجود میں آئے ہیں ہر قسم کے کیک ، مٹھائیوں اور پکوان کا لین دین یہیں انجام پاتا رہا ہے۔ نت نئے عید کارڈز بھی یہی پوسٹ ہوتے ہیں۔ عید ایک چھوٹا سا تین حرفی لفظ ہے جو عربی لفظ عود سے نکلا ہے ، اس کے معنی لوٹ آنے اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید کیونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے اس لیے اس کا نام عید پڑ گیا، عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ۔ تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو۔
اس بار عید پر سورج آگ برساتا رہا، قیامت خیز گرمی کی لہر نے عوام کو کافی مشکلات سے دوچار کیا ۔ عید کے بعد بجٹ پیش کیا جائے یہ بجٹ عوام پر کیا کیا قیامت ڈھائے گا یہ چند دن میں معلوم ہو جائے گا ، دوسری جانب متحدہ اپوزیشن نے بھی حکومت کے خلاف تحریک چلانے اور سڑکوں پر آنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ یعنی سیاسی موسم بھی گرم ترین ہو گا ۔
حرف آخر ہماری دعا ہے کہ خدا کرے کہ ہمارے ملک کے عوام ایک دوسرے کی خوشیوں کو اسی طرح دوبالا کرتے رہیں۔ ملک کو دہشت گردی اور دیگر خرافات سے نجات ملے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی اپنے عوام میں رہ کر ان خوشیوں کا تحفظ کریں۔اﷲ تعالیٰ وطن عزیز کی حفاظت فرمائے اور اسے ہر قسم کی آفات اور شر سے محفوظ رکھے۔