اساتذہ اورمعیارِ تعلیم
کیسے لکھوں کہ جس عنصرکاوجودہی نہیں ہے،اس کامعیارکیا ہوگا۔
محفوظ صاحب کاپیغام ملاکہ تعلیمی معیارپر ضرور لکھوں۔گرتاہوایاشائدبربادشدہ۔موجودہ عجیب سا معیارِ تعلیم واقعی مقامِ عبرت ہے۔آپ کے لیے محفوظ صاحب ایک نام ہے مگرمیرے لیے یہ قطعاًایک نام نہیں ہے۔یہ علم کی روشنی بکھیرنے والے وہ چراغ ہیں جوقسمت والوں کو نصیب ہوتے ہیں۔کیڈٹ کالج حسن ابدال میں بچوں کو پڑھانے والے اُستاد۔
صرف محفوظ صاحب ہی کیا،سلیمی صاحب، بخاری صاحب، صدیقی صاحب، خطیب صاحب، مصباح صاحب،فقیرمحمدصاحب اوردیگراساتذہ ایسے نایاب لوگ تھے جنہوں نے پوری نہیں،مکمل زندگی صرف ایک درسگاہ میں طالبعلموں کوپڑھانے میں صَرف کردی۔عملی طورپردنیاسے کٹے رہے مگراپنے طالبعلموں سے علم کی بنیاد پرجڑے رہے۔کمال کے لوگ، صاحبان، کمال کے لوگ۔ ان کے بغیرہم تمام طالبعلم کچھ بھی حاصل نہ کرسکتے تھے۔ان لوگوں نے ہمیں اتنامحنت کش بنادیاکہ سوچیں توحیرت ہوتی ہے۔
جب کیڈٹ کالج حسن ابدال گیاتو1972تھا۔یعنی پچھلی صدی کازمانہ۔لائل پورسے یک دم ایک فوجی اسکول میں جاناشروع میں حد درجہ مشکل تجربہ تھا۔آٹھویں سے شروع ہوکربارویں کلاس تک کی ایک حیرت انگیزدرسگاہ۔ آٹھویں کلاس میں طالبعلم گیارہ بارہ سال کاہی ہوتا ہے۔ بالکل کچی مٹی کی طرح۔جس طرف چاہیں جاسکتا ہے۔ گھرسے دور،ہوسٹل میں۔والدین کی عدم موجودگی میں جس طرح ان اساتذہ نے ہماری رہنمائی کی،وہ بذاتِ خودکمال ہے۔حقیقت ہے،ان لوگوں نے ہمیں انگلی پکڑ کرچلنا سکھایا۔ اعتماددیااوراتنااعلیٰ معیارِتعلیم دیا،جسکی توقع آج کے دورمیں کرناعبث ہے۔بات محفوظ صاحب سے شروع ہوئی تھی۔طویل قامت،سرخ وسفید انسان۔ بھاری آواز اور حد درجہ نرم خو،سائنس کے اُستاد تھے۔ عادت تھی کہ میں آگے والے ڈیسکوں پربیٹھتاتھا۔
اس لیے کہ اُستادجوکچھ بھی بولیں،اسکولکھنے میں آسانی رہے۔ سننے میں بھی آسانی رہے۔محفوظ صاحب،ڈائس پرکھڑے ہوکرزوردارآوازمیں سبق پڑھاتے تھے۔کئی بار سفید چاک ان کے ہاتھ میں ہوتاتھا،بلیک بورڈپرمسلسل لکھ رہے ہوتے تھے۔پھرکلاس کی طرف رخ کرکے دہراتے تھے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی بھی شاگردکوسائنس کاسبق سمجھ نہ آیاہو۔یادہے کہ وہ ہاؤس ماسٹربھی تھے۔یعنی ایک ہوسٹل کے وارڈن۔جناح ونگ یاشائدحیدرونگ۔میراخیال ہے جناح ونگ۔جیسے ہی پریڈختم ہوتا تھا اورہم لوگ ہوسٹل پہنچتے تھے توتمام ہاؤس ماسٹرزکاکام دوبارہ شروع ہوجاتا تھا۔بچوں کوگیمزپرلے جانا۔ڈنرکے لیے میس تک پہنچانا۔ اورپڑھنے کاایک پیریڈ کروانا۔یہ سب کچھ روزکے معمولات تھے۔ویسے ڈنرسے پہلے بھی ایک پریپ یعنی پڑھنے کا پریڈ ہوتاتھا۔
ہم طالبعلم تومحنت کرتے ہی تھے۔مگرمحفوظ صاحب اورتمام ہاؤس ماسٹر،ہماری جتنی ہی محنت کرتے تھے۔ شائدہم سے بھی زیادہ۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کے لوگ اب کہاں گئے ہیں۔ہیں بھی کہ نہیں۔اندازہ ہے کہ ضرور موجود ہونگے۔ اچھے اساتذہ کے بغیرمعاشرے بالکل جنگل بن جاتے ہیں۔ جو تھوڑاسادم ہمارے ملک میں موجودہے وہ اچھے اساتذہ کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔محفوظ صاحب کو میرانام چالیس سال بعدبھی یادہے،یہ بھی ایک پائیدار بات ہے۔ویسے حسن ابدال میں،ہمارے پرنسپل صاحب، کرنل این ڈی حسن اورتمام اساتذہ کوتمام طالبعلموں کے نام اَزبر تھے۔
یقین فرمائیے میں اکثرنام بھول جاتا ہوں۔ مگر ان لوگوں کی یادداشت ایسی تھی کہ ہرطالبعلم کانام سو فیصد یاد تھا۔ایک دن صدیقی صاحب کہنے لگے کہ کالج کے اساتذہ، تمام طالبعلموں کوان کے والدین سے زیادہ جانتے اورسمجھتے ہیں۔ یہ بات مکمل طورپردرست تھی۔خیال رہے کہ والدین سے توہماری ملاقات صرف چھٹیوں میں ہوتی تھی۔زیادہ وقت توکالج میں اساتذہ کے ساتھ گزرتا تھا۔ لہذاوہ تمام، ہمیں والدین سے سوفیصدبہترجانتے اور پہچانتے تھے۔ ویسے اب میں اپنے ماضی کے اساتذہ پرغور کرتا ہوں، تو حیرت ہوتی ہے۔جس لگن اورتوانائی سے ہمیں پڑھاتے تھے، اس احساس کوموجودہ زمانے میں مفقود پاتا ہوں۔
سلیمی صاحب،عمرونگ کے ہاؤس ماسٹر تھے۔ داڑھی رکھی ہوئی تھی۔درمیانے قدکے انسان تھے۔ سائنس میں زولوجی پڑھاتے تھے۔کمال کے اُستادتھے۔ فجرسے بہت پہلے اُٹھتے۔پھرطالبعلموں کوفجرکی نمازکے لیے اُٹھاتے تھے۔ میں اورنگ زیب ونگ میں تھا۔عمرونگ سے تھوڑے سے فاصلے پر۔سلیمی صاحب روزاپنے ہوسٹل سے اورنگ زیب ونگ آتے۔پہلے محی الدین کواُٹھاتے اورپھرمجھے۔ سردیوں میں ایک براؤن کلرکاسواتی گاؤن پہنتے تھے۔ پانچ برس فجرکی نمازمسجدمیں ان کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں۔ ہر طالبعلم کے لیے شفیق اوراسے باکرداربناناچاہتے تھے۔
دھیمہ مزاج رکھنے والے سلیمی صاحب۔جب زولوجی پڑھاتے تولگتا تھاکہ انھیں کتاب لفظ بہ لفظ یادہے۔میٹرک میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔سائنس کی آدھی کتابیں پڑھ چکے تھے کہ حکومت نے نصاب تبدیل کردیا۔سلیمی صاحب نے کلاس میں اعلان کیاکہ اب نئی کتاب سے سبق یادکرنے ہیں اوراب وقت آدھارہ گیاہے۔یقین فرمائیے ہم نے پورے سال کاکورس آدھے سال میں صرف اس لیے پڑھ لیاکہ سلیمی صاحب پڑھاتے ہیں۔نہ وہ گھبرائے اورنہ ہمیں پریشان ہونے دیا۔کمال کے انسان تھے۔آج بھی ان کے چہرے کی مسکراہٹ ذہن میں نقش ہے۔
جہاں محفوظ صاحب اورسلیمی صاحب جیسے سائنس کے اساتذہ تھے،وہاں اسلامیات پڑھانے والے خطیب صاحب بھی تھے۔خطیب صاحب کانام کیاتھا۔کسی کو معلوم نہیں تھا۔سب انھیں خطیب صاحب کے نام سے ہی جانتے تھے۔اسلامیات کے ٹیچرہونے کے ساتھ ساتھ کالج کی مسجدکے امام بھی تھے۔حیرت انگیز شخص۔ سائیکل پرآتے تھے۔طویل قامت تھے۔سائیکل پرانکی ٹانگیں دہری سی ہوجاتی تھیں۔اکثرشیروانی پہناکرتے تھے۔دین سے شدیدمحبت کرتے تھے۔انھیں یقین تھاکہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ضرورہوگی۔
اس بات کابھی یقین تھاکہ دین کاغلبہ طالبعلموں کے ذریعے سے ہی رونماہوگا۔جب فجرکے لیے طالبعلموں کوجگانے آتے،توہوسٹل کے شروع میں ہی بلند آوازوں سے بولناشروع کردیتے۔ان کے کہے ہوئے فقرے کمال تھے۔کہتے تھے۔تم لوگ ہی روس اورامریکا سے ملک کوآگے نکالوگے۔تم لوگ ہی اسلام کے سپاہی ہوگے۔ فوجی اسکول تھا۔لہذا،اکثرطالبعلم فوج میں گئے اوروہاں جاکرقوم کے لیے فولادبن گئے۔خطیب صاحب کئی بارباتیں کرتے کرتے روپڑتے تھے۔انھیں غم تھاکہ مسلمان دنیاوی معاملات میں اتناپیچھے کیسے رہ گئے۔یقین تھاکہ نوجوان ہی اس قوم کااصل اثاثہ ہیں۔امامت میں کمال کی خوش الحان تلاوت کرتے تھے۔خطیب صاحب متوازن انسان تھے اوردین میں دلیل کے قائل تھے۔پاٹ دار آوازمیں لیکچردیتے تھے۔نصاب میں دی گئی سورتیں انھوںنے ہمیں دنوں میں یادکروائی تھیں۔خطیب صاحب دنیامیں آئے ہی اسلامیات کی تعلیم دینے کے لیے تھے۔شائدانکی زندگی کامقصدہی یہی تھا۔
یہاں میں صدیقی صاحب کاذکر کرنا ضرور چاہتا ہوں۔اُردوکے استادتھے اوراورنگ زیب ونگ کے ہاؤس ماسٹربھی تھے۔یعنی ان سے چوبیس گھنٹے کاتعلق تھا۔ جتنے سخت مزاج نظرآتے تھے۔دل کے اتنے ہی نرم۔ اردوزبان کوجانتے تھے،پہچانتے تھے۔پڑھاتے بھی کمال تھے۔آج کے طالبعلموں کوپتہ نہیں ہوگا۔سترکی دہائی میں اردومیں مختلف شعراورنثرنگاروں کے حالات زندگی یاد کرنا نصاب میں شامل تھا۔یہ انسانی یادداشت کاکافی سخت امتحان تھا۔میرتقی میر،اسداللہ خان غالب سے لے کرالطاف حسین حالی تک سب شامل تھے۔یہی معاملہ نثرنگاروں کا بھی تھا۔حالات زندگی میں ہرتفصیل تھی۔شاعرکہاں پیدا ہوا۔کن کن آفات سے گزرا۔کلام کیاتھا۔شاعری کی خصوصیات کیسی تھیں۔ویسے کوئی بھی لکھاری یاسوچنے والا ایسا نہیں ہے جومشکلات کی بھٹی کی تپش سے نہ گزرا ہو۔
ماضی سے حالات دیکھیے اورہمارے دورتک آجائیے۔ سوچنے اورلکھنے والے انسان حددرجہ مشکلات اورامتیازی سلوک سے گزرتے ہیں۔صدیقی صاحب جب کسی شاعر کے حالات زندگی یادکرواتے تھے تواس وقت توذہن نشین ہوجاتے تھے۔مگرکچھ دن بعد،دوسرے شاعرکے حالات یادکرتے ہوئے گڈمڈ ہوجاتے تھے۔کبھی میرتقی میرکے زندگی کے معاملات آتش سے مل جاتے تھے اورکبھی غالب کی مشکل زندگی،انشااللہ خان انشاء سے مناسبت اختیار کر جاتی تھی۔ایک دن صدیقی صاحب کو مشکل بتائی توانھوں نے سنجیدگی سے مشورہ دیاکہ یادرکھنے کے لیے تواترکی ضرورت ہے۔میں نے یہ نسخہ گرہ سے باندھ لیا۔اس کے بعد کوئی چیزبھی حافظے سے باہرنہ جاسکی۔حالات زندگی تو اَزبرہوئے ہی،مگرسائنس اور دیگر مضامین بھی مسلسل مشق کے ذریعے مسخرہوگئے۔
آٹھویں جماعت میں گرمیوں کی چھٹیوں کاہوم ورک ملا۔اردومیں ایک کتاب کو پڑھنا تھا اورپھراس پر تجزیہ لکھناتھا۔پتہ نہیں،کہاں سے مجھے جوش ملیح آبادی کی ''یادوں کی بارات''مل گئی۔پڑھی اوراس پر چارصفحے لکھ ڈالے۔صدیقی صاحب نے پڑھاتو پوچھنے لگے کہ کیاتم نے واقعی اتنی ضخیم کتاب پڑھی ہے۔یہ تجزیہ کسی اورسے تونہیں لکھوایا۔ وثوق سے بتایاکہ میں نے کتاب ہی پڑھی ہے۔صدیقی صاحب میراجواب سنکر حیران رہ گئے۔
یادوں کی بارات میں کئی ایسی باتیں درج تھیں جوبچوں کے لیے ہرگزہرگزنہیں تھیں۔ ہاں، مجھے کتاب کے اکثرمندرجات سمجھ نہیں آئے تھے۔مگراپنی سمجھ بوجھ کے تحت جویادرکھ سکتاتھا،یادرکھااورلکھ ڈالا۔اردوکی تدریس میں صدیقی صاحب کاکوئی مقابلہ نہیں تھا۔آج میں جوٹوٹی پھوٹی اردولکھ سکتاہوں،اس میں صدیقی صاحب کاعمل دخل سترسے اَسی فیصدتک ہے۔حیرت انگیزشخصیت کے مالک تھے۔کچھ عرصہ پہلے دنیاسے چل بسے۔خدا،انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔صرف ایک کالم میں اپنے اساتذہ کے متعلق لکھناناممکن ہے۔
ہاں،آخرمیں محفوظ صاحب کے حکم کے مطابق معیارِ تعلیم پرصرف یہ لکھوں گا،کہ نہ وہ اساتذہ رہے اورنہ وہ طالبعلم۔ نہ وہ محنت کی عادت رہی اورنہ ہی علم سے عشق کرنے کی روش۔نہ سبق اَزبرکرنے کی وہ جدوجہدرہی اورنہ کتاب سے وہ محبت۔ان حالات میں معیارِتعلیم کیاہوگا۔ اس کا کیا جواب دوں۔کیسے لکھوں کہ جس عنصرکاوجودہی نہیں ہے،اس کامعیارِکیاہوگا۔شائداسے عدم معیار کہنا بہتر ہوگا۔ یا شائد کچھ نہ کہنازیادہ بہتر!
صرف محفوظ صاحب ہی کیا،سلیمی صاحب، بخاری صاحب، صدیقی صاحب، خطیب صاحب، مصباح صاحب،فقیرمحمدصاحب اوردیگراساتذہ ایسے نایاب لوگ تھے جنہوں نے پوری نہیں،مکمل زندگی صرف ایک درسگاہ میں طالبعلموں کوپڑھانے میں صَرف کردی۔عملی طورپردنیاسے کٹے رہے مگراپنے طالبعلموں سے علم کی بنیاد پرجڑے رہے۔کمال کے لوگ، صاحبان، کمال کے لوگ۔ ان کے بغیرہم تمام طالبعلم کچھ بھی حاصل نہ کرسکتے تھے۔ان لوگوں نے ہمیں اتنامحنت کش بنادیاکہ سوچیں توحیرت ہوتی ہے۔
جب کیڈٹ کالج حسن ابدال گیاتو1972تھا۔یعنی پچھلی صدی کازمانہ۔لائل پورسے یک دم ایک فوجی اسکول میں جاناشروع میں حد درجہ مشکل تجربہ تھا۔آٹھویں سے شروع ہوکربارویں کلاس تک کی ایک حیرت انگیزدرسگاہ۔ آٹھویں کلاس میں طالبعلم گیارہ بارہ سال کاہی ہوتا ہے۔ بالکل کچی مٹی کی طرح۔جس طرف چاہیں جاسکتا ہے۔ گھرسے دور،ہوسٹل میں۔والدین کی عدم موجودگی میں جس طرح ان اساتذہ نے ہماری رہنمائی کی،وہ بذاتِ خودکمال ہے۔حقیقت ہے،ان لوگوں نے ہمیں انگلی پکڑ کرچلنا سکھایا۔ اعتماددیااوراتنااعلیٰ معیارِتعلیم دیا،جسکی توقع آج کے دورمیں کرناعبث ہے۔بات محفوظ صاحب سے شروع ہوئی تھی۔طویل قامت،سرخ وسفید انسان۔ بھاری آواز اور حد درجہ نرم خو،سائنس کے اُستاد تھے۔ عادت تھی کہ میں آگے والے ڈیسکوں پربیٹھتاتھا۔
اس لیے کہ اُستادجوکچھ بھی بولیں،اسکولکھنے میں آسانی رہے۔ سننے میں بھی آسانی رہے۔محفوظ صاحب،ڈائس پرکھڑے ہوکرزوردارآوازمیں سبق پڑھاتے تھے۔کئی بار سفید چاک ان کے ہاتھ میں ہوتاتھا،بلیک بورڈپرمسلسل لکھ رہے ہوتے تھے۔پھرکلاس کی طرف رخ کرکے دہراتے تھے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی بھی شاگردکوسائنس کاسبق سمجھ نہ آیاہو۔یادہے کہ وہ ہاؤس ماسٹربھی تھے۔یعنی ایک ہوسٹل کے وارڈن۔جناح ونگ یاشائدحیدرونگ۔میراخیال ہے جناح ونگ۔جیسے ہی پریڈختم ہوتا تھا اورہم لوگ ہوسٹل پہنچتے تھے توتمام ہاؤس ماسٹرزکاکام دوبارہ شروع ہوجاتا تھا۔بچوں کوگیمزپرلے جانا۔ڈنرکے لیے میس تک پہنچانا۔ اورپڑھنے کاایک پیریڈ کروانا۔یہ سب کچھ روزکے معمولات تھے۔ویسے ڈنرسے پہلے بھی ایک پریپ یعنی پڑھنے کا پریڈ ہوتاتھا۔
ہم طالبعلم تومحنت کرتے ہی تھے۔مگرمحفوظ صاحب اورتمام ہاؤس ماسٹر،ہماری جتنی ہی محنت کرتے تھے۔ شائدہم سے بھی زیادہ۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس طرح کے لوگ اب کہاں گئے ہیں۔ہیں بھی کہ نہیں۔اندازہ ہے کہ ضرور موجود ہونگے۔ اچھے اساتذہ کے بغیرمعاشرے بالکل جنگل بن جاتے ہیں۔ جو تھوڑاسادم ہمارے ملک میں موجودہے وہ اچھے اساتذہ کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔محفوظ صاحب کو میرانام چالیس سال بعدبھی یادہے،یہ بھی ایک پائیدار بات ہے۔ویسے حسن ابدال میں،ہمارے پرنسپل صاحب، کرنل این ڈی حسن اورتمام اساتذہ کوتمام طالبعلموں کے نام اَزبر تھے۔
یقین فرمائیے میں اکثرنام بھول جاتا ہوں۔ مگر ان لوگوں کی یادداشت ایسی تھی کہ ہرطالبعلم کانام سو فیصد یاد تھا۔ایک دن صدیقی صاحب کہنے لگے کہ کالج کے اساتذہ، تمام طالبعلموں کوان کے والدین سے زیادہ جانتے اورسمجھتے ہیں۔ یہ بات مکمل طورپردرست تھی۔خیال رہے کہ والدین سے توہماری ملاقات صرف چھٹیوں میں ہوتی تھی۔زیادہ وقت توکالج میں اساتذہ کے ساتھ گزرتا تھا۔ لہذاوہ تمام، ہمیں والدین سے سوفیصدبہترجانتے اور پہچانتے تھے۔ ویسے اب میں اپنے ماضی کے اساتذہ پرغور کرتا ہوں، تو حیرت ہوتی ہے۔جس لگن اورتوانائی سے ہمیں پڑھاتے تھے، اس احساس کوموجودہ زمانے میں مفقود پاتا ہوں۔
سلیمی صاحب،عمرونگ کے ہاؤس ماسٹر تھے۔ داڑھی رکھی ہوئی تھی۔درمیانے قدکے انسان تھے۔ سائنس میں زولوجی پڑھاتے تھے۔کمال کے اُستادتھے۔ فجرسے بہت پہلے اُٹھتے۔پھرطالبعلموں کوفجرکی نمازکے لیے اُٹھاتے تھے۔ میں اورنگ زیب ونگ میں تھا۔عمرونگ سے تھوڑے سے فاصلے پر۔سلیمی صاحب روزاپنے ہوسٹل سے اورنگ زیب ونگ آتے۔پہلے محی الدین کواُٹھاتے اورپھرمجھے۔ سردیوں میں ایک براؤن کلرکاسواتی گاؤن پہنتے تھے۔ پانچ برس فجرکی نمازمسجدمیں ان کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں۔ ہر طالبعلم کے لیے شفیق اوراسے باکرداربناناچاہتے تھے۔
دھیمہ مزاج رکھنے والے سلیمی صاحب۔جب زولوجی پڑھاتے تولگتا تھاکہ انھیں کتاب لفظ بہ لفظ یادہے۔میٹرک میں ایک عجیب واقعہ ہوا۔سائنس کی آدھی کتابیں پڑھ چکے تھے کہ حکومت نے نصاب تبدیل کردیا۔سلیمی صاحب نے کلاس میں اعلان کیاکہ اب نئی کتاب سے سبق یادکرنے ہیں اوراب وقت آدھارہ گیاہے۔یقین فرمائیے ہم نے پورے سال کاکورس آدھے سال میں صرف اس لیے پڑھ لیاکہ سلیمی صاحب پڑھاتے ہیں۔نہ وہ گھبرائے اورنہ ہمیں پریشان ہونے دیا۔کمال کے انسان تھے۔آج بھی ان کے چہرے کی مسکراہٹ ذہن میں نقش ہے۔
جہاں محفوظ صاحب اورسلیمی صاحب جیسے سائنس کے اساتذہ تھے،وہاں اسلامیات پڑھانے والے خطیب صاحب بھی تھے۔خطیب صاحب کانام کیاتھا۔کسی کو معلوم نہیں تھا۔سب انھیں خطیب صاحب کے نام سے ہی جانتے تھے۔اسلامیات کے ٹیچرہونے کے ساتھ ساتھ کالج کی مسجدکے امام بھی تھے۔حیرت انگیز شخص۔ سائیکل پرآتے تھے۔طویل قامت تھے۔سائیکل پرانکی ٹانگیں دہری سی ہوجاتی تھیں۔اکثرشیروانی پہناکرتے تھے۔دین سے شدیدمحبت کرتے تھے۔انھیں یقین تھاکہ اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ضرورہوگی۔
اس بات کابھی یقین تھاکہ دین کاغلبہ طالبعلموں کے ذریعے سے ہی رونماہوگا۔جب فجرکے لیے طالبعلموں کوجگانے آتے،توہوسٹل کے شروع میں ہی بلند آوازوں سے بولناشروع کردیتے۔ان کے کہے ہوئے فقرے کمال تھے۔کہتے تھے۔تم لوگ ہی روس اورامریکا سے ملک کوآگے نکالوگے۔تم لوگ ہی اسلام کے سپاہی ہوگے۔ فوجی اسکول تھا۔لہذا،اکثرطالبعلم فوج میں گئے اوروہاں جاکرقوم کے لیے فولادبن گئے۔خطیب صاحب کئی بارباتیں کرتے کرتے روپڑتے تھے۔انھیں غم تھاکہ مسلمان دنیاوی معاملات میں اتناپیچھے کیسے رہ گئے۔یقین تھاکہ نوجوان ہی اس قوم کااصل اثاثہ ہیں۔امامت میں کمال کی خوش الحان تلاوت کرتے تھے۔خطیب صاحب متوازن انسان تھے اوردین میں دلیل کے قائل تھے۔پاٹ دار آوازمیں لیکچردیتے تھے۔نصاب میں دی گئی سورتیں انھوںنے ہمیں دنوں میں یادکروائی تھیں۔خطیب صاحب دنیامیں آئے ہی اسلامیات کی تعلیم دینے کے لیے تھے۔شائدانکی زندگی کامقصدہی یہی تھا۔
یہاں میں صدیقی صاحب کاذکر کرنا ضرور چاہتا ہوں۔اُردوکے استادتھے اوراورنگ زیب ونگ کے ہاؤس ماسٹربھی تھے۔یعنی ان سے چوبیس گھنٹے کاتعلق تھا۔ جتنے سخت مزاج نظرآتے تھے۔دل کے اتنے ہی نرم۔ اردوزبان کوجانتے تھے،پہچانتے تھے۔پڑھاتے بھی کمال تھے۔آج کے طالبعلموں کوپتہ نہیں ہوگا۔سترکی دہائی میں اردومیں مختلف شعراورنثرنگاروں کے حالات زندگی یاد کرنا نصاب میں شامل تھا۔یہ انسانی یادداشت کاکافی سخت امتحان تھا۔میرتقی میر،اسداللہ خان غالب سے لے کرالطاف حسین حالی تک سب شامل تھے۔یہی معاملہ نثرنگاروں کا بھی تھا۔حالات زندگی میں ہرتفصیل تھی۔شاعرکہاں پیدا ہوا۔کن کن آفات سے گزرا۔کلام کیاتھا۔شاعری کی خصوصیات کیسی تھیں۔ویسے کوئی بھی لکھاری یاسوچنے والا ایسا نہیں ہے جومشکلات کی بھٹی کی تپش سے نہ گزرا ہو۔
ماضی سے حالات دیکھیے اورہمارے دورتک آجائیے۔ سوچنے اورلکھنے والے انسان حددرجہ مشکلات اورامتیازی سلوک سے گزرتے ہیں۔صدیقی صاحب جب کسی شاعر کے حالات زندگی یادکرواتے تھے تواس وقت توذہن نشین ہوجاتے تھے۔مگرکچھ دن بعد،دوسرے شاعرکے حالات یادکرتے ہوئے گڈمڈ ہوجاتے تھے۔کبھی میرتقی میرکے زندگی کے معاملات آتش سے مل جاتے تھے اورکبھی غالب کی مشکل زندگی،انشااللہ خان انشاء سے مناسبت اختیار کر جاتی تھی۔ایک دن صدیقی صاحب کو مشکل بتائی توانھوں نے سنجیدگی سے مشورہ دیاکہ یادرکھنے کے لیے تواترکی ضرورت ہے۔میں نے یہ نسخہ گرہ سے باندھ لیا۔اس کے بعد کوئی چیزبھی حافظے سے باہرنہ جاسکی۔حالات زندگی تو اَزبرہوئے ہی،مگرسائنس اور دیگر مضامین بھی مسلسل مشق کے ذریعے مسخرہوگئے۔
آٹھویں جماعت میں گرمیوں کی چھٹیوں کاہوم ورک ملا۔اردومیں ایک کتاب کو پڑھنا تھا اورپھراس پر تجزیہ لکھناتھا۔پتہ نہیں،کہاں سے مجھے جوش ملیح آبادی کی ''یادوں کی بارات''مل گئی۔پڑھی اوراس پر چارصفحے لکھ ڈالے۔صدیقی صاحب نے پڑھاتو پوچھنے لگے کہ کیاتم نے واقعی اتنی ضخیم کتاب پڑھی ہے۔یہ تجزیہ کسی اورسے تونہیں لکھوایا۔ وثوق سے بتایاکہ میں نے کتاب ہی پڑھی ہے۔صدیقی صاحب میراجواب سنکر حیران رہ گئے۔
یادوں کی بارات میں کئی ایسی باتیں درج تھیں جوبچوں کے لیے ہرگزہرگزنہیں تھیں۔ ہاں، مجھے کتاب کے اکثرمندرجات سمجھ نہیں آئے تھے۔مگراپنی سمجھ بوجھ کے تحت جویادرکھ سکتاتھا،یادرکھااورلکھ ڈالا۔اردوکی تدریس میں صدیقی صاحب کاکوئی مقابلہ نہیں تھا۔آج میں جوٹوٹی پھوٹی اردولکھ سکتاہوں،اس میں صدیقی صاحب کاعمل دخل سترسے اَسی فیصدتک ہے۔حیرت انگیزشخصیت کے مالک تھے۔کچھ عرصہ پہلے دنیاسے چل بسے۔خدا،انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔صرف ایک کالم میں اپنے اساتذہ کے متعلق لکھناناممکن ہے۔
ہاں،آخرمیں محفوظ صاحب کے حکم کے مطابق معیارِ تعلیم پرصرف یہ لکھوں گا،کہ نہ وہ اساتذہ رہے اورنہ وہ طالبعلم۔ نہ وہ محنت کی عادت رہی اورنہ ہی علم سے عشق کرنے کی روش۔نہ سبق اَزبرکرنے کی وہ جدوجہدرہی اورنہ کتاب سے وہ محبت۔ان حالات میں معیارِتعلیم کیاہوگا۔ اس کا کیا جواب دوں۔کیسے لکھوں کہ جس عنصرکاوجودہی نہیں ہے،اس کامعیارِکیاہوگا۔شائداسے عدم معیار کہنا بہتر ہوگا۔ یا شائد کچھ نہ کہنازیادہ بہتر!