اسٹاک مارکیٹ منزل ہے کہاں تیری
جب بھی اسٹاک مارکیٹ نیچے جاتی ہے تو گھبرائے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ زندگی سہمی سہمی بسر ہو رہی ہے۔
لاہور:
''کیوں جناب۔ کیا کھیل ختم ہوگیا؟''
یہ وہ سوال ہے جو ڈرے اور گھبرائے ہوئے لوگ جب بھی اسٹاک مارکیٹ نیچے جاتی ہے تو پوچھتے ہیں۔ ہم تو خیر ویسے ہی ایک سہمی اور گھبرائی ہوئی زندگی بسر کررہے ہیں لیکن یہ سوال تو ہر جگہ پوچھا جاتا ہے، کئی روز کی مسلسل مندی سے ہر کسی کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں، گوروں کے بھی اور کالوں کے بھی۔ خصوصاً جب مشرقی وسطیٰ میں ایک اور تباہ کن جنگ فقط چند دنوں کی دوری پر ہو تو ہر طرح کی مارکیٹیں اس کا اثر لیتی ہیں۔ تیل، سونا، کرنسی اور حصص، سبھی کچھ اس کی زد میں آجاتا ہے، ان دنوں تیل اور سونے کے دام اوپر جارہے ہیں اور اگر آپ نے کرنسی کا حشر دیکھنا ہو تو ذرا بھارتی روپے کو گرتے ہوئے دیکھیں۔ آپ کو مزہ آئے گا۔
جہاں تک ہماری اسٹاک مارکیٹ کا تعلق ہے تو میں اسے خراب ہرگز نہیں سمجھتا، اسے مندی نہیں بلکہ تیزی میں کمی سمجھیں۔ اس کی وجوہات وہ نہیں ہیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ عالمی حالات کا اثر ہماری محدود مارکیٹ پر دس فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا۔ تیزی رک جانے کی وجوہات ہماری اپنی ہیں، ان میں ایک اہم وجہ یہ ہے کہ رزلٹ سیزن ختم ہورہا ہے، کمپنیوں کے رزلٹ آنے اور ڈیویڈنڈ ملنے کی خوش خبریوں سے جو جوش اور ولولہ سرمایہ کاروں میں پیدا ہوتا ہے وہ رزلٹ آنے کے بعد ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔آئی ایم ایف سے بغل گیر ہونے کے بعد ہم نے جو لڈیاں ڈالی ہیں اس میں اس نے ہمارے کان میں کچھ کھسر پھسر کی ہے اور چپکے سے ہماری جیب میں بھی ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اب اس کی بہت سی باتیں ماننا ہوںگی۔ 13 ستمبر کو جو نئی مانیٹری پالیسی آنے والی ہے، اسٹاک مارکیٹ اس سے کچھ خوفزدہ ہے۔ خیال ہے کہ اس میں شرح سود بڑھائی جائے گی۔ اگر نصف فیصد سے لے کر ایک فیصد تک بڑھائی جاتی ہے تو اس کا مارکیٹ پر کوئی خاص منفی اثر نہیں ہوگا۔ اتنے اضافے سے جو نقصان ہونا ہے اسے وہ پہلے ہی قبول کرچکی ہے، اس سے زیادہ اضافہ کیا گیا تو چند روز کے لیے مارکیٹ دم سادھ کے رکے گی پھر چل پڑے گی۔
ادھر ٹیکس کے حسابات جمع کروانے کا موسم بھی سر پہ ہے۔ ایف بی آر نے جو نیا ٹیکس ریٹرن فارم جاری کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب کی بار تمام ٹیکس گزاروں کو ویلتھ اسٹیٹمنٹ بھی ساتھ ہی جمع کروانا ہوگی۔ اس کے بغیر ریٹرن داخل ہی نہیں ہوسکے گی۔ اس میں سو بکھیڑے ہیں۔ اثاثوں کی اتنی تفصیل دینا پڑے گی کہ لوگوں کی چیخ نکل جائے گی۔ ایف بی آر کے موجودہ چیئرمین بھی شہرت کے حامل ہیں لیکن دیکھنا ہوگا کہ ان چیخوں اور ان کی اذیت پسندی میں کیا نسبت ہے۔ ارے صاحب! اصلاح پسندی کے آفاقی طریقوں پر عمل کریں۔ لوگوں کو قانون کے جال میں لانا ہے تو پہلے ہاتھ میں پکڑا ہوا جوتا ایک طرف رکھیں۔ آسان فارم بناکر آسان اعداد و شمار پوچھیں۔ تفاصیل آیندہ کے لیے رکھ چھوڑیں۔ تبھی لوگ اس طرف آئیںگے۔ تفصیلات کے اسی مخمصے کی وجہ سے بھی بہت سے سرمایہ کار یا تو مال بیچ رہے ہیں یا چپ ہوکے بیٹھ رہے ہیں۔
دوسری طرف حکومت کی بدحواسیوں نے بھی جلوہ دکھانا شروع کردیا ہے۔ کراچی آپریشن کو کراچی والوں کے لیے فرسٹریشن بناکے رکھ دیا ہے۔ سارا دن ٹی وی پر جو کچھ چلتا ہے اسے دیکھ کے یوں لگتاہے کہ اسکرین کی کسی نہ کسی طرف آگے یا اس کے پیچھے گدوبندر (مشہور پاگل خانہ) ضرور موجود ہے۔ ویسے مبارک ہو کہ آپریشن سے ہونے والے ڈپریشن کو دور کرنے کے لیے سکون آور گولیاں اب آسانی سے دستیاب ہیں۔ بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ اب اتنی ''بالغ'' ہوچکی ہے کہ اب چھوٹی موٹی بدامنی یا ہڑتال کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن کراچی آپریشن کی موجودہ ہاہاکار لامحالہ مارکیٹ کی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوگی۔ اس حوالے سے کچھ احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ اب اس کی بنیادیں اتنی مضبوط ہیں کہ چھوٹا موٹا زلزلہ آسانی سے سہہ سکتی ہے، سمجھ دار لوگ ایسے موقع پر سمجھ داری کے بعض بڑے منافع بخش کام کر جایا کرتے ہیں۔
بعض حلقوں نے یہ افواہ اڑائی ہے کہ حالیہ گراوٹ کی وجہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرف سے فروخت کا دبائو ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں، اول تو غیر ملکی انویسٹرز کا وجود ہی مشکوک ہے۔ یہ جو کبھی کبھار ڈالروں میں براہ راست سرمایہ کاری کا ذکر سننے میں آتا ہے یہ گوروں کے ڈالر نہیں بلکہ پاکستان سے ''فلائی'' کیا ہوا وہی پیسہ ہوتا ہے جو ہمارے ہوشیار شرفاء حالات کا رخ دیکھ کر محفوظ سرزمینوں کی طرف روانہ کردیتے ہیں۔ جب موقع اور منافع مناسب دکھائی دے تو یہ ڈالروں کی شکل میں اسے واپس لے آتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی آوت جاوت میں یہ پیسہ دگنا بھی ہو جاتا ہے اور سفید بھی۔ بہرحال یہ پیسہ فی الحال یہیں موجود ہے۔ انھوں نے جو ''بلیوچپ'' شیئرز خریدے تھے ان کے دام اونچی سطح پر ہی قائم ہیں۔ شنید ہے کہ انھی میں سے ایک گروہ نے جو لاہور میں موجود ہے، کراچی کے کچھ ماہرین کے ساتھ مل کے چند شیئرز میں چند لمبے ہاتھ مارنے کی کوشش کی تھی اور وہ اس کوشش میں پھنس گیا ہے، ان شیئرز میں آج کل فروخت کا دبائو اسی وجہ سے ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ 2005 اور 2008 کی طرح یہ پھر سٹہ بازوں کی مارکیٹ بن گئی ہے اور عنقریب لوگ پھر سے لٹ جائیںگے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، پہلی بات تو یہ کہ تیزی کے بڑے بڑے ریکارڈ توڑنے کے باوجود مارکیٹ ابھی حقیقی طور پر 2008 کی سطح پر بھی نہیں پہنچی ہے۔ اس وقت KSE-30 انڈیکس 19ہزار کی حد عبور کرگیا تھا جب کہ اس جمعہ کو جب مارکیٹ بند ہوئی تو یہ انڈیکس صرف 17250 پر بند ہوا ہے۔ یہی مارکیٹ کا حقیقی لیول ہے، اس کی تصدیق تمام بڑے شیئرز کے اس وقت کے اور آج کے نرخ کے تقابل سے کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک KSE-100 انڈیکس کا تعلق ہے تو وہ ماہرین کا خیال ہے کہ اس مالی سال کے آخر تک جب حکومتی پالیسیوں پر عمل درآمد کی شکل واضح ہونا شروع ہوگی تو مارکیٹ آج سے کوئی 15 فیصد تک بڑھ چکی ہوگی۔
یہاں کوئی 700 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ جو صحیح انویسٹرز ہیں وہ دیکھ بھال کے اور پرکھ کے اچھی کمپنی میں پیسہ لگاتے ہیں اور پھر صبر سے کام لیتے ہیں۔ وہ کبھی مار نہیں کھاتے ہاں البتہ جن لوگوں کی فطرت میں ہی جوا کھیلنا لکھا ہے اور جن کی مت ماری گئی ہے وہ بھیڑ چال میں چھوٹی چھوٹی سی بدبودار کمپنیوں میں گھستے ہیں اور پھر پیسہ ڈبو کے اسٹاک مارکیٹ کو برا بھلا کہتے ہیں، انھیں اس کام سے کوئی روک بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ تو سڑک کے کنارے کھڑے ہوکے اس بات پر بھی سٹہ کھیلتے ہیں کہ آنے والی تیسری گاڑی کا نمبر جفت ہوگا یا طاق۔ کرکٹ کے اسکور اور ہر بال پر بھی جوا ہوتا ہے۔ آپ ہی بتائیے اب اس میں سڑک پر سے گزرنے والی گاڑی کا یا کرکٹ کی گیند کا کیا قصور؟