میں مایوس نہیں ہوں
اس قدر ظلم کے باوجود ملک زندہ ہے اپنے سے کئی گنا بڑے ملک کے سامنے ڈٹا ہوا ہے۔
عید کی چھٹیاں مزے سے گزر رہی ہیں اخبارات کی بھی چھٹی ہے یوں ہم جیسے قلم کے مزدور بھی سانس لے لیتے ہیں۔ عید کی چھٹیوں میں خبریں تو نہ ہونے کے برابر تھیں البتہ ٹیلیویژن پر خوب رونق لگی رہی اور مقابلہ بازی کے زمانے میں ٹی وی چینلز نے اپنے ناظرین کے لیے پر لطف پروگرام پیش کیے۔ انھی پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہماری چھٹیاں ختم ہو گئیں اور اب ایک بار پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہیں ۔
یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے قوم میں پہلے بدعنوانی اور قانون شکنی کا کلچر پیدا کیا اور پھر اس کلچر میں اس ملک کو اس قدر لوٹا کہ اسے دیوالیہ کر دیا۔ میں عرض کروں گا کہ اس ہمہ گیر زوال کے باوجود ہماری قوم عظیم قوم ہے اور اس کی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت خود پاکستان ہے ۔ ہماری نئی نسل نے نہ دیکھا اور نہ اسے بتایا گیا کہ 1947میں یہ ملک ایک نقش برآب یعنی پانی پر ایک تصویر کے سوا کچھ نہ تھا۔ تباہ حال اور عزیزوںکے خون سے لتھڑے ہوئے مہاجرین تھے ۔
اسلحہ کے بغیر فوج تھی اور خزانہ نام کو نہ تھا ۔نہ دفتر کے لیے کوئی عمارت تھی اور نہ لکھنے کو کاغذ اور قلم دوات تھے۔مہاجرین سے بھرے ہوئے شہرکراچی میں خیمے لگا کر دفتر بنائے گئے تھے اور صابن کی خالی پیٹیاں کرسیاں اور میزیں تھیں۔ برائے نام دو تین چھوٹے موٹے کارخانے تھے اور پرانی طرز پر کھیتی باڑی کی جاتی تھی۔ دوسری طرف ہندوستان تھا۔ برطانوی سلطنت کا وارث جو برٹش انڈیا کہلاتا تھا اور جس میں سب کچھ تھا۔ پاکستان کے پاس خام مال پیدا کرنے والے علاقے تھے اور ہندوستان میں ان کے کارخانے تھے۔
برٹش انڈیا میں یہی طریق کار رائج تھا ۔ ریاست کے جدید اقتصادی معنوں میں پاکستان ایک ریاست نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر میں کہا جارہا تھا کہ یہ ملک قائم نہیں رہ سکے گا کیونکہ اس کی کوئی معاشی بنیاد نہیں ہے اور اس کے پاس ہنر مند اور قابل لوگ نہیں ہیں۔ یہ لٹے پٹے مفلوک الحال لوگوں کا ملک ہے یہ کہنا غلط نہیں کہ دنیا اس ملک کے خاتمے کی خبر سننے کی منتظر تھی جو ملک ایک مسلمان بینک اور ایک مسلمان ریاست سے پیسے لے کر اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کر رہا تھا وہ کیسے باقی رہ سکتا تھا اس نئے ملک نے ابھی پوری طرح آنکھیں نہیں کھولی تھیں کہ اسے ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑ گیا اور اس کی فوج کے پاس جو تھوڑا بہت اسلحہ انگریز کے زمانے سے چلا آرہا تھا اس جنگ میں کام آگیا اور جنگ کا خرچ الگ جو اس کی اوقات سے باہر تھا۔
اس نوزائیدہ ملک کو کاری ضرب اس وقت لگی جب اس کا بانی اور قوم کو نئی زندگی دینے والا لیڈر اسے تنہا چھوڑ کر چلاگیا۔ میں اس وقت بچہ تھا مگر مجھے اپنے بڑوں کے یہ بین یاد ہیں کہ ''بابا ہم کہاں جائیں گے ہمارا کیا ہوگا''۔ نئے پاکستان کی بے بسی اور بے بضاعتی کی داستان بڑی طویل ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے مگر ہم نے دیکھا دنیا نے دیکھا کہ جو ملک چلنے اور زندہ رہنے کے لائق دکھائی نہیں دیتا تھا وہ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر لڑتا بھڑتا قائم رہا اور آگے بڑھتا گیا۔
آج کے پاکستان میں شہروں میں عالیشان عمارتیں ہیں حکمرانوں کے محلات ہیں وسیع اور طویل شاہراہیں ہیں اور میرے ایک دور افتادہ بارانی علاقے کے گاؤں میں کوئی مکان کچا نہیں ہے۔کل تک ملک میں ہزاروں کارخانوں کی مشینیں گڑ گڑا رہی تھیں اور ان کی چمنیاں دھواں چھوڑ رہی تھیں۔ ہمارا تیار کردہ کپڑا دنیا کا بہترین کپڑا تھا ہم بہترین سامان تیار کرتے تھے، آج بھی کھیلوں کے سامان، کٹلری اور طبی آلات میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے ہم اعلیٰ درجے کا چمڑہ تیارکرتے ہیں، ہماری ٹی شرٹیں دنیا بھر میں مقبول ہیں اور عربوں کے بادشاہ تک ہماری چپلیں استعمال کرتے ہیں جس طرح ہماری ابتدائی دور کی بے بضاعتی کی داستان طویل ہے اسی طرح ہماری ترقی کی داستان بھی طویل ہے۔
ہم ایک نہایت دلیر، ہنرمند اور مضبوط فوج کے مالک ہیں جس کے پاس اب دنیا کا طاقتور ترین اسلحہ بھی موجود ہے جس میں ہم سات ایٹمی ممالک میں سے ایک ہیں، اگر بدقسمتی سے ہمیں کمینہ دشمن ورثے میں نہ ملتا تو شایدہم قومی ترقی میں بہت ہی آگے نکل چکے ہوتے اور اپنا سرمایہ دفاع کے بجائے معاشرتی بہبود پر خرچ کرتے۔
بیرونی دشمن تو جو تھا وہ ہمارے بس میں نہیں تھا لیکن ہمیں ملک کے اندر اس سے زیادہ خطرناک دشمنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ملک کی بدقسمتی کی کیا انتہا ہے جس کے حکمران کرپٹ اور اسے لوٹ کر کھا جانے والے ہوں ۔ یہ ایک ایسا آزار ہے جس کی دوا نہیں ہے چنانچہ یہی ہوا کہ ہمارے بزرگوں نے جو کچھ جمع کیا تھا وہ یہ بدعنوان کھا گئے۔انھوں نے جب ملک کے اندر اپنی ہوس مٹانے کا سامان نہ پایا تو بیرونی ملکوں کی امداد کو کھانا شروع کر دیا۔ اربوں کی امداد پاکستان کے نام پر حاصل کی اور اپنے نام کر لی خود کھا گئے اور ملک کو مقروض کر گئے اتنا مقروض کہ وہ دیوالیہ ہو گیا۔
اس قدر ظلم کے باوجود ملک زندہ ہے اپنے سے کئی گنا بڑے ملک کے سامنے ڈٹا ہوا ہے، اتنی مسلسل دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کے باوجود ایٹم بم بھی بنا لیتا ہے اور ہزاروں میل لمبی سرحد کی حفاظت بھی کر لیتا ہے صرف ایک زرعی فصل میں زور لگا دے تو نہ صرف اپنا بلکہ ایک آدھ فالتو ملک کا غلہ بھی اگا لیتا ہے اور قرضوں کا جنجال نہ ہو توا س کے کپاس اور چاول کی فصلیں اسے ضرورت کا زرمبادلہ بھی دے دیتی ہیں ۔
طاقتوروں کی دنیا اسے بری نظروں سے دیکھتی ہے مگر اس سے صرف نظر بھی نہیں کر سکتی اور اس کی قوم بے تاب ہے کسی اچھی قیادت کے لیے تا کہ اپنے وطن عزیز کو ایک غالب وطن بنا سکے۔ کیا عمران خان اسے ایسی قیادت دے سکتے ہیں مجھے یقین ہے کوئی نہ کوئی چنگاری اس خاک میں سے شعلہ بن کر ضرور بھڑکے گی اور پاکستان کو منور کر دے گی ۔دنیا جو کبھی اس کے وجود اور بقاء سے مایوس تھی اس کی سج دھج کو حیرت کے ساتھ دیکھے گی، میں بالکل مایوس نہیں ہوں اور نہ ہی آپ کو مایوس ہونے دوں گا کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔
یہ حقیقت ثابت شدہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے قوم میں پہلے بدعنوانی اور قانون شکنی کا کلچر پیدا کیا اور پھر اس کلچر میں اس ملک کو اس قدر لوٹا کہ اسے دیوالیہ کر دیا۔ میں عرض کروں گا کہ اس ہمہ گیر زوال کے باوجود ہماری قوم عظیم قوم ہے اور اس کی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت خود پاکستان ہے ۔ ہماری نئی نسل نے نہ دیکھا اور نہ اسے بتایا گیا کہ 1947میں یہ ملک ایک نقش برآب یعنی پانی پر ایک تصویر کے سوا کچھ نہ تھا۔ تباہ حال اور عزیزوںکے خون سے لتھڑے ہوئے مہاجرین تھے ۔
اسلحہ کے بغیر فوج تھی اور خزانہ نام کو نہ تھا ۔نہ دفتر کے لیے کوئی عمارت تھی اور نہ لکھنے کو کاغذ اور قلم دوات تھے۔مہاجرین سے بھرے ہوئے شہرکراچی میں خیمے لگا کر دفتر بنائے گئے تھے اور صابن کی خالی پیٹیاں کرسیاں اور میزیں تھیں۔ برائے نام دو تین چھوٹے موٹے کارخانے تھے اور پرانی طرز پر کھیتی باڑی کی جاتی تھی۔ دوسری طرف ہندوستان تھا۔ برطانوی سلطنت کا وارث جو برٹش انڈیا کہلاتا تھا اور جس میں سب کچھ تھا۔ پاکستان کے پاس خام مال پیدا کرنے والے علاقے تھے اور ہندوستان میں ان کے کارخانے تھے۔
برٹش انڈیا میں یہی طریق کار رائج تھا ۔ ریاست کے جدید اقتصادی معنوں میں پاکستان ایک ریاست نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر میں کہا جارہا تھا کہ یہ ملک قائم نہیں رہ سکے گا کیونکہ اس کی کوئی معاشی بنیاد نہیں ہے اور اس کے پاس ہنر مند اور قابل لوگ نہیں ہیں۔ یہ لٹے پٹے مفلوک الحال لوگوں کا ملک ہے یہ کہنا غلط نہیں کہ دنیا اس ملک کے خاتمے کی خبر سننے کی منتظر تھی جو ملک ایک مسلمان بینک اور ایک مسلمان ریاست سے پیسے لے کر اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کر رہا تھا وہ کیسے باقی رہ سکتا تھا اس نئے ملک نے ابھی پوری طرح آنکھیں نہیں کھولی تھیں کہ اسے ایک جنگ کا سامنا کرنا پڑ گیا اور اس کی فوج کے پاس جو تھوڑا بہت اسلحہ انگریز کے زمانے سے چلا آرہا تھا اس جنگ میں کام آگیا اور جنگ کا خرچ الگ جو اس کی اوقات سے باہر تھا۔
اس نوزائیدہ ملک کو کاری ضرب اس وقت لگی جب اس کا بانی اور قوم کو نئی زندگی دینے والا لیڈر اسے تنہا چھوڑ کر چلاگیا۔ میں اس وقت بچہ تھا مگر مجھے اپنے بڑوں کے یہ بین یاد ہیں کہ ''بابا ہم کہاں جائیں گے ہمارا کیا ہوگا''۔ نئے پاکستان کی بے بسی اور بے بضاعتی کی داستان بڑی طویل ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے مگر ہم نے دیکھا دنیا نے دیکھا کہ جو ملک چلنے اور زندہ رہنے کے لائق دکھائی نہیں دیتا تھا وہ اندرونی اور بیرونی محاذوں پر لڑتا بھڑتا قائم رہا اور آگے بڑھتا گیا۔
آج کے پاکستان میں شہروں میں عالیشان عمارتیں ہیں حکمرانوں کے محلات ہیں وسیع اور طویل شاہراہیں ہیں اور میرے ایک دور افتادہ بارانی علاقے کے گاؤں میں کوئی مکان کچا نہیں ہے۔کل تک ملک میں ہزاروں کارخانوں کی مشینیں گڑ گڑا رہی تھیں اور ان کی چمنیاں دھواں چھوڑ رہی تھیں۔ ہمارا تیار کردہ کپڑا دنیا کا بہترین کپڑا تھا ہم بہترین سامان تیار کرتے تھے، آج بھی کھیلوں کے سامان، کٹلری اور طبی آلات میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے ہم اعلیٰ درجے کا چمڑہ تیارکرتے ہیں، ہماری ٹی شرٹیں دنیا بھر میں مقبول ہیں اور عربوں کے بادشاہ تک ہماری چپلیں استعمال کرتے ہیں جس طرح ہماری ابتدائی دور کی بے بضاعتی کی داستان طویل ہے اسی طرح ہماری ترقی کی داستان بھی طویل ہے۔
ہم ایک نہایت دلیر، ہنرمند اور مضبوط فوج کے مالک ہیں جس کے پاس اب دنیا کا طاقتور ترین اسلحہ بھی موجود ہے جس میں ہم سات ایٹمی ممالک میں سے ایک ہیں، اگر بدقسمتی سے ہمیں کمینہ دشمن ورثے میں نہ ملتا تو شایدہم قومی ترقی میں بہت ہی آگے نکل چکے ہوتے اور اپنا سرمایہ دفاع کے بجائے معاشرتی بہبود پر خرچ کرتے۔
بیرونی دشمن تو جو تھا وہ ہمارے بس میں نہیں تھا لیکن ہمیں ملک کے اندر اس سے زیادہ خطرناک دشمنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ملک کی بدقسمتی کی کیا انتہا ہے جس کے حکمران کرپٹ اور اسے لوٹ کر کھا جانے والے ہوں ۔ یہ ایک ایسا آزار ہے جس کی دوا نہیں ہے چنانچہ یہی ہوا کہ ہمارے بزرگوں نے جو کچھ جمع کیا تھا وہ یہ بدعنوان کھا گئے۔انھوں نے جب ملک کے اندر اپنی ہوس مٹانے کا سامان نہ پایا تو بیرونی ملکوں کی امداد کو کھانا شروع کر دیا۔ اربوں کی امداد پاکستان کے نام پر حاصل کی اور اپنے نام کر لی خود کھا گئے اور ملک کو مقروض کر گئے اتنا مقروض کہ وہ دیوالیہ ہو گیا۔
اس قدر ظلم کے باوجود ملک زندہ ہے اپنے سے کئی گنا بڑے ملک کے سامنے ڈٹا ہوا ہے، اتنی مسلسل دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کے باوجود ایٹم بم بھی بنا لیتا ہے اور ہزاروں میل لمبی سرحد کی حفاظت بھی کر لیتا ہے صرف ایک زرعی فصل میں زور لگا دے تو نہ صرف اپنا بلکہ ایک آدھ فالتو ملک کا غلہ بھی اگا لیتا ہے اور قرضوں کا جنجال نہ ہو توا س کے کپاس اور چاول کی فصلیں اسے ضرورت کا زرمبادلہ بھی دے دیتی ہیں ۔
طاقتوروں کی دنیا اسے بری نظروں سے دیکھتی ہے مگر اس سے صرف نظر بھی نہیں کر سکتی اور اس کی قوم بے تاب ہے کسی اچھی قیادت کے لیے تا کہ اپنے وطن عزیز کو ایک غالب وطن بنا سکے۔ کیا عمران خان اسے ایسی قیادت دے سکتے ہیں مجھے یقین ہے کوئی نہ کوئی چنگاری اس خاک میں سے شعلہ بن کر ضرور بھڑکے گی اور پاکستان کو منور کر دے گی ۔دنیا جو کبھی اس کے وجود اور بقاء سے مایوس تھی اس کی سج دھج کو حیرت کے ساتھ دیکھے گی، میں بالکل مایوس نہیں ہوں اور نہ ہی آپ کو مایوس ہونے دوں گا کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔