بھارتی انتخابات کارپوریٹ انڈیا جیت گیا
سرمایہ بہت کمال کی چیز ہے اس انتخاب میں سرمایہ اور سرمایہ دار یعنی کارپوریٹ انڈیا بی جے پی کے پیچھے کھڑا نظر آیا۔
11اپریل 2019ء سے شروع ہونے اور19مئی 2019تک جاری رہنے والے سات مرحلہ بھارتی انتخابات اپنے اختتام کو پہنچ گئے 23مئی کو گنتی ہوئی جس کے نتیجے میں نریندر مودی کی حکومت کو دوبارہ ایک اور ٹرم کے لیے اقتدار نصیب ہو گیا۔ نریندر مودی نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھا لیا ہے اور اپنی کابینہ بھی تشکیل دے دی ہے۔
بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت میں منعقد ہونے والے 2019کے یہ انتخابات دنیا کی تاریخ کے شاید سب سے بڑے انتخابات تھے۔ اس میں وہ بھارتی جو ووٹ دینے کا حق رکھتے تھے ان کی تعداد 900ملین تھی۔ 11اپریل کو اس کے پہلے مرحلے میں 20ریاستوں اور انڈین یونین کے علاقوں میں 91انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔ سات مرحلہ ان انتخابات میں کوئی ایک کروڑ دس لاکھ انتخابی عملے نے خدمات انجام دیں۔ بھارتی چیف الیکشن کمشنر کے دفتر یعنی الیکشن کمیشن کے ہیڈ کوارٹر میں 450 افسران نے ان انتخابات کا بندوبست کیا۔ اس چناؤ میں 5لاکھ ٹرانس جنڈر ووٹروں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔
یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ سات مرحلوں میں منعقد ہونے والے اس چناؤ میں ہر مرحلہ مکمل ہونے پر بیلٹ باکس الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی محفوظ کر لیے جاتے ہیں۔ اور کوئی بھی سیاسی پارٹی یہ شکوہ یا ہنگامہ نہیں کرتی کہ بیلٹ باکسز میں ہیر پھیر کر لی گئی ہے۔ یہ بہت حد تک بھارتی الیکشن کمیشن پر بھرپور اعتماد کو ظاہر کرتا ہے ۔
انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران یہ پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کامیاب تو ضرور ہو جائے گی لیکن شاید اتنی اکثریت نہ حاصل کر سکے کہ وہ اکیلی حکومت سازی کر سکے ۔ لیکن یہ سارے اندازے، ساری پیش گوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں ۔ بی جے پی پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو کر ابھری جب کہ انڈین نیشنل کانگریس کی انتخابی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ۔
23مئی کی شام ایک مختصر پریس کانفرنس میں راہول گاندھی نے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کر لی۔ بعد میں انڈین نیشنل کانگریس کے ایک اجلاس میں سونیا گاندھی کو لوک سبھا میں کانگریس کا پارلیمانی لیڈر چن لیا گیا۔ ان انتخابات میں بی جے پی کو 543کے ایوان میں 303نشستیں حاصل ہوئیں اور ان کی اتحادی جماعتوں کو 47نشستیں ملیں جب کہ انڈین نیشنل کانگریس کو 52نشستوں پر اور اس کی اتحادی جماعتوں کو 33پر کامیابی حاصل ہوئی باقی سیٹوں پر دوسرے امیدوار کامیاب ہوئے۔
راہول گاندھی جو کہ ایک سابق وزیر اعظم ( راجیو گاندھی)کے بیٹے ، ایک سابق وزیر اعظم (اندرا گاندھی) کے پوتے اور بانی وزیر اعظم(جواہر لال نہرو) کے پڑپوتے ہیں ان کے بارے میں یہ تاثر قوی تر ہو کر ابھرا ہے کہ نہ تو وہ ایک سخت اور مضبوط رہنما ہیں اور نہ ہی ان کی شخصیت میں وہ طلسماتی عنصر موجود ہے جو عوام کو والہانہ ان کی طرف کھینچ کر لا سکے۔ ان کی والدہ سونیا گاندھی کو ابتدا سے ہی یہ DISADVANTAGEرہا ہے کہ اطالوی نژاد ہونے کی وجہ سے ہند دھرتی کی بیٹی شمار نہیں ہوتیں۔ اس لیے وہ بھی کوئی مثبت اثر نہیں ڈال سکیں۔ راہول گاندھی کی بہن پریانکا گاندھی البتہ مجمع اکٹھا کرنے کی بہت حد تک اہلیت کی حامل ہیں لیکن اپنی ماں اور بھائی کے ہو تے ہو ئے ان کی شخصیت کا جادو نہیں چل پاتا۔
یہاں یہ امر دلچسپی کا باعث ہو گا کہ پچھلے الیکشن جس میں جیت کر مودی پہلی دفعہ وزیر اعظم بنے اس میں نریندرا مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام سے جو جو وعدے کیے وہ سارے کے سارے وعدے ہی ہیں لیکن بھارتی عوام نے ایک بار پھر مودی کو دوسری مدت کے لیے پہلے سے زیادہ مینڈیٹ دے دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک تو عوام کی یادداشت واقعی بہت کمزور ہوتی ہے اور دوسرا برصغیر کے عوام اپنے لیڈر کی کارکردگی کو بالکل نہیں دیکھتے بس نعروں پر اعتماد کر کے مینڈیٹ دے دیتے ہیں اگر خطاب کرنے والاسحر طاری کر دے تو کوئی بھی مارک ان ٹونی(MARK ANTONY) جذبات ابھار کر عوامی اعتماد حاصل کر سکتا ہے۔
بھارت کے تمام بڑے کاروباری ادارے جیسے کہ ریلائسنس انڈسٹریز، برلاز، ٹاٹاز، ایچ سی ایل اور پریم جی وائپرو لمٹیڈ(Premji wipero Ltd)وغیرہ اور ان کاروباروں کے مشہور مالکان جیسے مکیش امبانی ،پریم جی، رتن ٹاٹا، شری متی کرن، دلیپ شنگھاوی، سنیل بھارتی، شیو نادر، کمار منگلام برلا اور دوسرے بے شمار مالکان اس چناؤ میں بی جے پی اور مودی کو سپورٹ کر رہے تھے۔
سرمایہ بہت کمال کی چیز ہے اس انتخاب میں سرمایہ اور سرمایہ دار یعنی کارپوریٹ انڈیا بی جے پی کے پیچھے کھڑا نظر آیا۔ اوربھارتی میڈیا نے مودی اور بی جے پی کا کھل کر ساتھ دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی میڈیا نے کیوں حمایت کی تو اس کا سیدھا سادھا جواب یہ کہ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کارپوریٹ انڈیا کا لازمی حصہ ہیں۔ ان کے مفادات بھی وہی ہیں جو بزنس ہاؤسز کے ہیں۔
یاد رہے کہ فروری کے آخری حصہ میں ہندوستانی مس ایڈونچر کے بعد مودی کی مشہوری میں ساتھ آٹھ پوائنٹس کی کمی واقع ہو چکی تھی لیکن بزنس ہاؤسز اور میڈیا نے بہت محنت سے عوام کو یہ باور کرایا کہ مودی ہی ہندوستان کا نجات دہندہ ہے اور اصل میں ہندوستان کو 27 فروری کو ناکامی نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کا ایک F-16 مارگرایا گیا ہے اور ایبٹ آباد میں پاکستان کا بہت نقصان ہوا، ہندوستان کی مصنوعی جیت اور مودی کی کامیاب لیڈر شپ کو اتنے اچھے انداز میں پیش کیا گیا کہ 27فروری 2019ء کی ہار کو جیت میں تبدیل کر کے مودی کو وہ سپورٹ مہیا کی گئی کہ بازی پلٹ گئی، کارپوریٹ انڈیا جس کی نمایندگی سبرامنیم جے شنکر کر رہے ہیں جیت گیا اور عوام کا ہندوستان ہار گیا۔ کارپوریٹ انڈیاکی نظر میں نریندرا مودی سارے کا سارا انڈین ہے He is every inch an Indian
بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت میں منعقد ہونے والے 2019کے یہ انتخابات دنیا کی تاریخ کے شاید سب سے بڑے انتخابات تھے۔ اس میں وہ بھارتی جو ووٹ دینے کا حق رکھتے تھے ان کی تعداد 900ملین تھی۔ 11اپریل کو اس کے پہلے مرحلے میں 20ریاستوں اور انڈین یونین کے علاقوں میں 91انتخابی حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔ سات مرحلہ ان انتخابات میں کوئی ایک کروڑ دس لاکھ انتخابی عملے نے خدمات انجام دیں۔ بھارتی چیف الیکشن کمشنر کے دفتر یعنی الیکشن کمیشن کے ہیڈ کوارٹر میں 450 افسران نے ان انتخابات کا بندوبست کیا۔ اس چناؤ میں 5لاکھ ٹرانس جنڈر ووٹروں نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا۔
یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ سات مرحلوں میں منعقد ہونے والے اس چناؤ میں ہر مرحلہ مکمل ہونے پر بیلٹ باکس الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی محفوظ کر لیے جاتے ہیں۔ اور کوئی بھی سیاسی پارٹی یہ شکوہ یا ہنگامہ نہیں کرتی کہ بیلٹ باکسز میں ہیر پھیر کر لی گئی ہے۔ یہ بہت حد تک بھارتی الیکشن کمیشن پر بھرپور اعتماد کو ظاہر کرتا ہے ۔
انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے دوران یہ پیش گوئی کی جا رہی تھی کہ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کامیاب تو ضرور ہو جائے گی لیکن شاید اتنی اکثریت نہ حاصل کر سکے کہ وہ اکیلی حکومت سازی کر سکے ۔ لیکن یہ سارے اندازے، ساری پیش گوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں ۔ بی جے پی پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو کر ابھری جب کہ انڈین نیشنل کانگریس کی انتخابی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ۔
23مئی کی شام ایک مختصر پریس کانفرنس میں راہول گاندھی نے انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کر لی۔ بعد میں انڈین نیشنل کانگریس کے ایک اجلاس میں سونیا گاندھی کو لوک سبھا میں کانگریس کا پارلیمانی لیڈر چن لیا گیا۔ ان انتخابات میں بی جے پی کو 543کے ایوان میں 303نشستیں حاصل ہوئیں اور ان کی اتحادی جماعتوں کو 47نشستیں ملیں جب کہ انڈین نیشنل کانگریس کو 52نشستوں پر اور اس کی اتحادی جماعتوں کو 33پر کامیابی حاصل ہوئی باقی سیٹوں پر دوسرے امیدوار کامیاب ہوئے۔
راہول گاندھی جو کہ ایک سابق وزیر اعظم ( راجیو گاندھی)کے بیٹے ، ایک سابق وزیر اعظم (اندرا گاندھی) کے پوتے اور بانی وزیر اعظم(جواہر لال نہرو) کے پڑپوتے ہیں ان کے بارے میں یہ تاثر قوی تر ہو کر ابھرا ہے کہ نہ تو وہ ایک سخت اور مضبوط رہنما ہیں اور نہ ہی ان کی شخصیت میں وہ طلسماتی عنصر موجود ہے جو عوام کو والہانہ ان کی طرف کھینچ کر لا سکے۔ ان کی والدہ سونیا گاندھی کو ابتدا سے ہی یہ DISADVANTAGEرہا ہے کہ اطالوی نژاد ہونے کی وجہ سے ہند دھرتی کی بیٹی شمار نہیں ہوتیں۔ اس لیے وہ بھی کوئی مثبت اثر نہیں ڈال سکیں۔ راہول گاندھی کی بہن پریانکا گاندھی البتہ مجمع اکٹھا کرنے کی بہت حد تک اہلیت کی حامل ہیں لیکن اپنی ماں اور بھائی کے ہو تے ہو ئے ان کی شخصیت کا جادو نہیں چل پاتا۔
یہاں یہ امر دلچسپی کا باعث ہو گا کہ پچھلے الیکشن جس میں جیت کر مودی پہلی دفعہ وزیر اعظم بنے اس میں نریندرا مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوام سے جو جو وعدے کیے وہ سارے کے سارے وعدے ہی ہیں لیکن بھارتی عوام نے ایک بار پھر مودی کو دوسری مدت کے لیے پہلے سے زیادہ مینڈیٹ دے دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک تو عوام کی یادداشت واقعی بہت کمزور ہوتی ہے اور دوسرا برصغیر کے عوام اپنے لیڈر کی کارکردگی کو بالکل نہیں دیکھتے بس نعروں پر اعتماد کر کے مینڈیٹ دے دیتے ہیں اگر خطاب کرنے والاسحر طاری کر دے تو کوئی بھی مارک ان ٹونی(MARK ANTONY) جذبات ابھار کر عوامی اعتماد حاصل کر سکتا ہے۔
بھارت کے تمام بڑے کاروباری ادارے جیسے کہ ریلائسنس انڈسٹریز، برلاز، ٹاٹاز، ایچ سی ایل اور پریم جی وائپرو لمٹیڈ(Premji wipero Ltd)وغیرہ اور ان کاروباروں کے مشہور مالکان جیسے مکیش امبانی ،پریم جی، رتن ٹاٹا، شری متی کرن، دلیپ شنگھاوی، سنیل بھارتی، شیو نادر، کمار منگلام برلا اور دوسرے بے شمار مالکان اس چناؤ میں بی جے پی اور مودی کو سپورٹ کر رہے تھے۔
سرمایہ بہت کمال کی چیز ہے اس انتخاب میں سرمایہ اور سرمایہ دار یعنی کارپوریٹ انڈیا بی جے پی کے پیچھے کھڑا نظر آیا۔ اوربھارتی میڈیا نے مودی اور بی جے پی کا کھل کر ساتھ دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی میڈیا نے کیوں حمایت کی تو اس کا سیدھا سادھا جواب یہ کہ بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کارپوریٹ انڈیا کا لازمی حصہ ہیں۔ ان کے مفادات بھی وہی ہیں جو بزنس ہاؤسز کے ہیں۔
یاد رہے کہ فروری کے آخری حصہ میں ہندوستانی مس ایڈونچر کے بعد مودی کی مشہوری میں ساتھ آٹھ پوائنٹس کی کمی واقع ہو چکی تھی لیکن بزنس ہاؤسز اور میڈیا نے بہت محنت سے عوام کو یہ باور کرایا کہ مودی ہی ہندوستان کا نجات دہندہ ہے اور اصل میں ہندوستان کو 27 فروری کو ناکامی نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کا ایک F-16 مارگرایا گیا ہے اور ایبٹ آباد میں پاکستان کا بہت نقصان ہوا، ہندوستان کی مصنوعی جیت اور مودی کی کامیاب لیڈر شپ کو اتنے اچھے انداز میں پیش کیا گیا کہ 27فروری 2019ء کی ہار کو جیت میں تبدیل کر کے مودی کو وہ سپورٹ مہیا کی گئی کہ بازی پلٹ گئی، کارپوریٹ انڈیا جس کی نمایندگی سبرامنیم جے شنکر کر رہے ہیں جیت گیا اور عوام کا ہندوستان ہار گیا۔ کارپوریٹ انڈیاکی نظر میں نریندرا مودی سارے کا سارا انڈین ہے He is every inch an Indian