ہمدردی
بعض نام کسی غیرمعمولی عمل کے ذریعے کسی شخصیت سے اس طرح جڑ جاتے ہیں کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ کر نا مشکل ہو جاتا ہے۔
بعض نام اور الفاظ کسی غیرمعمولی عمل کے ذریعے سے کسی شخصیت کے نام سے اس طرح جڑ جاتے ہیں کہ انھیں ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ادبی جریدے ''نقوش'' کے ایڈیٹر اور ناشر محمد طفیل مرحوم کا ادبی حلقوں میں نام ہی ''محمد نقوش'' پڑ گیا تھا۔ کم و بیش یہی صورت حال دیسی طریقہ علاج کے مشہور دوا خانے ''ہمدرد'' کی ہے کہ اب یہ لفظ حکیم محمد سعید مرحوم کے حوالے سے ایک مستقل استعارے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے غالباً یہ نام ان کے بزرگوں کے وقت سے چلا آ رہا ہے۔
(ان کے بڑے بھائی حکیم محمد حمید کے ساتھ تو مجھے ایک بار دہلی میں ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ہے، وہاں بھی یہ ادارہ اسی نام سے قائم ہے لیکن وطن عزیز میں حکیم محمد سعید اور ہمدرد کی رفاقت کو اپنی مثال آپ کہا جا سکتا ہے) دوا سازی کے حوالے سے بھی ''ہم درد'' کی ترکیب انتہائی موزوں ہے کہ اس میں درد کی شراکت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس ترکیب سے مجھے یاد آیا کہ برادرم انور مسعود نے گزشتہ دنوں ایک ہی جیسا بلڈ گروپ رکھنے والوں کے لیے ایک پرانی ترکیب کو نئے مفہوم دے کر ایک ایسے لفظ کی نشاندہی کی ہے جس کا متبادل غالباً دنیا کی کسی بھی زبان میں موجود نہیں ''دم'' کا لفظ عربی زبان میں ''خون'' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جسے انگریزی میں Blood کہتے ہیں۔ اب اگر اس سے پہلے ''ہم'' کا اضافہ کیا جائے تو یہ ایک طرح کی شراکت یعنی گروپ کا متبادل بن جاتا ہے اور یوں ایک ہی جیسے بلڈ گروپ کے حامل افراد کو ''ہم دم'' کہنا انتہائی موزوں اور لسانی اعتبار سے بالکل درست ہو گا۔
اس سے پہلے کہ یہ بات ہمدرد سے ہم دم اور پھر اس سے آگے کی طرف نکل جائے میں اس موضوع کی طرف واپس آتا ہوں جس کے لیے یہ کالم لکھا جا رہا ہے اور وہ ہے اس ادارے ہمدرد فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ذیلی اداروں کی شکل میں ان تعلیمی پروگراموں کا جو اپنی اہمیت اور نوعیت کے اعتبار سے ہم سب کی توجہ کے مستحق ہیں کہ تعلیم اور بالخصوص پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے مسائل وقت کا انتہائی سنگین موضوع قرار دیے جا سکتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے 80کی دہائی میں جب حکیم محمد سعید مرحوم نے ہمدرد یونیورسٹی' دارالحکمہ کی بنیاد رکھی تھی (جس کے لیے انھوں نے اس خاکسار سمیت کوئی سو کے قریب منتخب افراد سے بنیاد کی اینٹیں بھی رکھوائی تھیں) تو بہت سے احباب نے مختلف وجوہات کی بنا پر اسے ایک ناقابل عمل منصوبہ قرار دیا تھا کہ اس کے لیے اس وقت کے کراچی شہر سے خاصے فاصلے پر ایک ویران سی جگہ کو منتخب کیا گیا تھا جہاں بچوں کا تو کیا بڑوں کا پہنچنا بھی کارِ دارد تھا لیکن پھر ہم سب نے دیکھا کہ ویرانے میں کس طرح سے بہار آئی اور فاصلے کس سرعت اور آسانی سے سمٹتے چلے گئے۔ حکیم صاحب کی خوش نظر اور خوش فکر صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد نے اپنے عظیم باپ کے خواب کی تعبیر کو جس طرح سے اعتماد' مقام اور تسلسل دیا ہے اس کے لیے وہ بجا طور پر توصیف کی مستحق ہیں کہ وہ اس وسیع کاروباری سلطنت پر حکمرانی کرنے کے بجائے اس سے حاصل شدہ وسائل کو خدمت خلق اور رفاع عامہ کے کاموں میں خوشدلی سے استعمال کرتی چلی جا رہی ہیں۔
ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جس کی نئی انتظامی کمیٹی میں مجھے بھی شامل کیا گیا ہے۔ لاہور سے میرے علاوہ محترم ایس ایم ظفر اس کے رکن ہیں۔ میٹنگ میں ادارے کے مختلف تعلیمی شعبوں کے سربراہ بھی شریک تھے کہ اس سالانہ میٹنگ میں ان کی کارکردگی کے جائزے کے ساتھ ساتھ ان کو درپیش مسائل اور بجٹ کی منظوری کے مراحل بھی شامل تھے۔ چیئر پرسن محترمہ سعدیہ راشد ان کی صاحبزادی اور ہمدرد یونیورسٹی کے سربراہ حکیم حنان صاحب کے علاوہ سابق گورنر سندھ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر، سیاسی رہنما افضال حنیف اور سائنس کی دنیا کے انتہائی اہم ڈاکٹر عطا الرحمٰن خان بھی شریک تھے (جو چند گھنٹے قبل ملائیشیا سے واپس تشریف لائے تھے اور چند گھنٹے بعد انھیں عوامی جمہوریہ چین کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اب یہ ان کی ہمدرد سے وابستگی اور تعلیم کے فروغ سے کمٹ منٹ کا کمال ہے کہ وہ نہ صرف اس میٹنگ میں شریک ہوئے بلکہ اپنے ماہرانہ مشوروں، معلومات اور تجاویز سے بھی مسلسل نوازتے رہے)
باقی کارروائی اپنی جگہ لیکن دو باتیں اس گفتگو کے دوران زیادہ زیر بحث رہیں اور چونکہ ان کا تعلق ہمارے بنیادی تعلیمی مسائل سے ہے اس لیے ان کے بارے میں غور وفکر کی ضرورت ہے۔ پہلا مسئلہ تو یہ تھا کہ ہمدرد ویلیج اسکول پراجیکٹ میں تعلیم مفت ہونے کے باوجود بچوں کا ڈراپ ریٹ بہت زیادہ ہے (ان میں 55% بچے بلوچستان کے دیہاتی علاقوں سے لیے جاتے ہیں) دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ہمدرد اسکول کے شاندار نتائج کے باوجود (اس برس کل 126 بچے میٹرک کے امتحان میں شریک ہوئے جن میں سے 122 نے A+ اور باقی چار نے A گریڈ حاصل کیا جو ہر اعتبار سے ایک معیاری اور شاندار نتیجہ کہا جا سکتا ہے) ہمدرد انٹر کالج میں داخلہ لینے والے اچھے طلبہ کی تعداد بہت کم ہے کہ بیشتر بچے شہر کے دوسرے تعلیمی اداروں میں داخلہ لے لیتے ہیں۔
اس رجحان کی جو بنیادی وجوہات سامنے آئیں ان میں سوشل سائنسز، ادب اور فنون لطیفہ سے بوجوہ کم ہوتی ہوئی دلچسپی، طلبہ کے گھروں سے غیرمعمولی فاصلہ اور ٹرانسپورٹ کے مسائل، کلاسوں کے بجائے جگہ جگہ اکیڈمیز اور انٹرنیٹ کا بڑھتا ہوا استعمال وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کمی کو اگرچہ وظائف اور دیگر سہولیات سے پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر خاطرخوا نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ دوسری طرف ویلیج اسکول کے بچوں کے ڈراپ ریٹ میں تسلسل اور زیادتی کی وجہ یہ سامنے آئی کہ زیادہ تر بچوں کے والدین دوسرے اور دوردراز کے صوبوں سے آ کر یہاں رہائش پذیر ہوئے ہیں اور جب یہ لوگ آبائی گھروں کو جاتے ہیں تو بچے بہت لمبے عرصے کے لیے یا تو غیرحاضر رہتے ہیں یا والدین میں تعلیمی شعور کی کمی اور بڑھتے ہوئے معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اسکول کو چھوڑ کر کسی کام کاج میں لگ جاتے ہیں اور یوں تعلیم کا مقابلہ بیک وقت جہالت اور معاشی مسائل سے ہونے لگتا ہے۔
اب یہ دونوں رویے اور مسئلے ایسے ہیں جو قدرے بدلی ہوئی شکل میں ہمارے سارے تعلیمی ماحول کا حصہ ہیں۔ سرکاری اور مختلف رفاعی اداروں کی طرف سے تعلیم کے میدان میں جو بھی کاوشیں کی جا رہی ہیں ان میں انگلش میڈیم اسکولوں کے بہتر معیار' سہولیات' جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے متعلق استعداد میں برتری کی صورت حال مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہے اور جب تک ان دونوں نظاموں کو مقابلے کے بجائے اتفاق اور ''ہم دردی'' کی آنکھ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ یہ خلیج یوں ہی بڑھتی چلی جائے گی۔
(ان کے بڑے بھائی حکیم محمد حمید کے ساتھ تو مجھے ایک بار دہلی میں ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا ہے، وہاں بھی یہ ادارہ اسی نام سے قائم ہے لیکن وطن عزیز میں حکیم محمد سعید اور ہمدرد کی رفاقت کو اپنی مثال آپ کہا جا سکتا ہے) دوا سازی کے حوالے سے بھی ''ہم درد'' کی ترکیب انتہائی موزوں ہے کہ اس میں درد کی شراکت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس ترکیب سے مجھے یاد آیا کہ برادرم انور مسعود نے گزشتہ دنوں ایک ہی جیسا بلڈ گروپ رکھنے والوں کے لیے ایک پرانی ترکیب کو نئے مفہوم دے کر ایک ایسے لفظ کی نشاندہی کی ہے جس کا متبادل غالباً دنیا کی کسی بھی زبان میں موجود نہیں ''دم'' کا لفظ عربی زبان میں ''خون'' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جسے انگریزی میں Blood کہتے ہیں۔ اب اگر اس سے پہلے ''ہم'' کا اضافہ کیا جائے تو یہ ایک طرح کی شراکت یعنی گروپ کا متبادل بن جاتا ہے اور یوں ایک ہی جیسے بلڈ گروپ کے حامل افراد کو ''ہم دم'' کہنا انتہائی موزوں اور لسانی اعتبار سے بالکل درست ہو گا۔
اس سے پہلے کہ یہ بات ہمدرد سے ہم دم اور پھر اس سے آگے کی طرف نکل جائے میں اس موضوع کی طرف واپس آتا ہوں جس کے لیے یہ کالم لکھا جا رہا ہے اور وہ ہے اس ادارے ہمدرد فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ذیلی اداروں کی شکل میں ان تعلیمی پروگراموں کا جو اپنی اہمیت اور نوعیت کے اعتبار سے ہم سب کی توجہ کے مستحق ہیں کہ تعلیم اور بالخصوص پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے مسائل وقت کا انتہائی سنگین موضوع قرار دیے جا سکتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے 80کی دہائی میں جب حکیم محمد سعید مرحوم نے ہمدرد یونیورسٹی' دارالحکمہ کی بنیاد رکھی تھی (جس کے لیے انھوں نے اس خاکسار سمیت کوئی سو کے قریب منتخب افراد سے بنیاد کی اینٹیں بھی رکھوائی تھیں) تو بہت سے احباب نے مختلف وجوہات کی بنا پر اسے ایک ناقابل عمل منصوبہ قرار دیا تھا کہ اس کے لیے اس وقت کے کراچی شہر سے خاصے فاصلے پر ایک ویران سی جگہ کو منتخب کیا گیا تھا جہاں بچوں کا تو کیا بڑوں کا پہنچنا بھی کارِ دارد تھا لیکن پھر ہم سب نے دیکھا کہ ویرانے میں کس طرح سے بہار آئی اور فاصلے کس سرعت اور آسانی سے سمٹتے چلے گئے۔ حکیم صاحب کی خوش نظر اور خوش فکر صاحبزادی محترمہ سعدیہ راشد نے اپنے عظیم باپ کے خواب کی تعبیر کو جس طرح سے اعتماد' مقام اور تسلسل دیا ہے اس کے لیے وہ بجا طور پر توصیف کی مستحق ہیں کہ وہ اس وسیع کاروباری سلطنت پر حکمرانی کرنے کے بجائے اس سے حاصل شدہ وسائل کو خدمت خلق اور رفاع عامہ کے کاموں میں خوشدلی سے استعمال کرتی چلی جا رہی ہیں۔
ہمدرد ایجوکیشن سوسائٹی بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جس کی نئی انتظامی کمیٹی میں مجھے بھی شامل کیا گیا ہے۔ لاہور سے میرے علاوہ محترم ایس ایم ظفر اس کے رکن ہیں۔ میٹنگ میں ادارے کے مختلف تعلیمی شعبوں کے سربراہ بھی شریک تھے کہ اس سالانہ میٹنگ میں ان کی کارکردگی کے جائزے کے ساتھ ساتھ ان کو درپیش مسائل اور بجٹ کی منظوری کے مراحل بھی شامل تھے۔ چیئر پرسن محترمہ سعدیہ راشد ان کی صاحبزادی اور ہمدرد یونیورسٹی کے سربراہ حکیم حنان صاحب کے علاوہ سابق گورنر سندھ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر، سیاسی رہنما افضال حنیف اور سائنس کی دنیا کے انتہائی اہم ڈاکٹر عطا الرحمٰن خان بھی شریک تھے (جو چند گھنٹے قبل ملائیشیا سے واپس تشریف لائے تھے اور چند گھنٹے بعد انھیں عوامی جمہوریہ چین کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اب یہ ان کی ہمدرد سے وابستگی اور تعلیم کے فروغ سے کمٹ منٹ کا کمال ہے کہ وہ نہ صرف اس میٹنگ میں شریک ہوئے بلکہ اپنے ماہرانہ مشوروں، معلومات اور تجاویز سے بھی مسلسل نوازتے رہے)
باقی کارروائی اپنی جگہ لیکن دو باتیں اس گفتگو کے دوران زیادہ زیر بحث رہیں اور چونکہ ان کا تعلق ہمارے بنیادی تعلیمی مسائل سے ہے اس لیے ان کے بارے میں غور وفکر کی ضرورت ہے۔ پہلا مسئلہ تو یہ تھا کہ ہمدرد ویلیج اسکول پراجیکٹ میں تعلیم مفت ہونے کے باوجود بچوں کا ڈراپ ریٹ بہت زیادہ ہے (ان میں 55% بچے بلوچستان کے دیہاتی علاقوں سے لیے جاتے ہیں) دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ہمدرد اسکول کے شاندار نتائج کے باوجود (اس برس کل 126 بچے میٹرک کے امتحان میں شریک ہوئے جن میں سے 122 نے A+ اور باقی چار نے A گریڈ حاصل کیا جو ہر اعتبار سے ایک معیاری اور شاندار نتیجہ کہا جا سکتا ہے) ہمدرد انٹر کالج میں داخلہ لینے والے اچھے طلبہ کی تعداد بہت کم ہے کہ بیشتر بچے شہر کے دوسرے تعلیمی اداروں میں داخلہ لے لیتے ہیں۔
اس رجحان کی جو بنیادی وجوہات سامنے آئیں ان میں سوشل سائنسز، ادب اور فنون لطیفہ سے بوجوہ کم ہوتی ہوئی دلچسپی، طلبہ کے گھروں سے غیرمعمولی فاصلہ اور ٹرانسپورٹ کے مسائل، کلاسوں کے بجائے جگہ جگہ اکیڈمیز اور انٹرنیٹ کا بڑھتا ہوا استعمال وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس کمی کو اگرچہ وظائف اور دیگر سہولیات سے پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر خاطرخوا نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ دوسری طرف ویلیج اسکول کے بچوں کے ڈراپ ریٹ میں تسلسل اور زیادتی کی وجہ یہ سامنے آئی کہ زیادہ تر بچوں کے والدین دوسرے اور دوردراز کے صوبوں سے آ کر یہاں رہائش پذیر ہوئے ہیں اور جب یہ لوگ آبائی گھروں کو جاتے ہیں تو بچے بہت لمبے عرصے کے لیے یا تو غیرحاضر رہتے ہیں یا والدین میں تعلیمی شعور کی کمی اور بڑھتے ہوئے معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اسکول کو چھوڑ کر کسی کام کاج میں لگ جاتے ہیں اور یوں تعلیم کا مقابلہ بیک وقت جہالت اور معاشی مسائل سے ہونے لگتا ہے۔
اب یہ دونوں رویے اور مسئلے ایسے ہیں جو قدرے بدلی ہوئی شکل میں ہمارے سارے تعلیمی ماحول کا حصہ ہیں۔ سرکاری اور مختلف رفاعی اداروں کی طرف سے تعلیم کے میدان میں جو بھی کاوشیں کی جا رہی ہیں ان میں انگلش میڈیم اسکولوں کے بہتر معیار' سہولیات' جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے متعلق استعداد میں برتری کی صورت حال مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہے اور جب تک ان دونوں نظاموں کو مقابلے کے بجائے اتفاق اور ''ہم دردی'' کی آنکھ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ یہ خلیج یوں ہی بڑھتی چلی جائے گی۔