دنیا بھر کی درسگاہیں

اعلیٰ تعلیم کی کتابیں انگریزی زبان میں ہوتی ہیں اس لیے اسٹوڈنٹس کو انگریزی زبان پر پورا عبور حاصل ہونا چاہیے۔

جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے ، لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شعور بڑھ رہا ہے اور خاص طور پر اعلیٰ تعلیم ، اس سلسلے میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے بھی بڑی پیشرفت ہوئی ہے، جس کے لیے میرٹ کی بنیاد پر ملک کے اندر اور بیرون ملک یونیورسٹیوں نے اسکالرشپ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کی وجہ سے طلبا اور طالبات P.H.D اور اس سے آگے پڑھنے کے لیے گاؤں ، گوٹھ سے غریب ماں باپ کے بچے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں جس میں نالج سینٹر لاڑکانہ کے پروفیسر مختیار سموں کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ وہ نالج سینٹر میں انگریزی بولنے اور لکھنے کا فن سکھا رہے ہیں۔

جیساکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگریزی کی مہارت ضروری ہے اور اس سلسلے میں انٹرنیٹ پر بہت ساری معلومات موجود ہیں جو انگریزی زبان میں ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ انگریزی سیکھنے کے مراکز چھوٹے شہروں اورگاؤں میں نہیں ہیں اور اس معلومات کو حاصل کرنے کے لیے کمپیوٹر یا پھر اچھے موبائل فون بھی چاہئیں جس کے لیے بجلی بھی ہونی چاہیے جو گاؤں میں 15 سے 18 گھنٹے نہیں ہوتی۔

اس کے علاوہ یہ ساری چیزیں مہنگی ہیں اور ایک مزدور اور ہاری کے بچے نہیں لے سکتے جس کی وجہ سے مختیار سموں نے اپنے نالج سینٹر میں غریب بچوں کے لیے آدھی فیس اور مفت پڑھائی کا بھی انتظام کر رکھا ہے اور باقی جگہ کا کرایہ، بجلی کا بل، ٹیچرز کی تنخواہیں اور دوسرے اخراجات وہ صاحب حیثیت شاگردوں کی فیس سے پورا کرتے ہیں۔

مختلف گاؤں اور چھوٹے شہروں سے بھی بچے لاڑکانہ شہر میں اس مرکز میں آکر انگریزی زبان سیکھتے ہیں اور کمپیوٹر میں موجود انٹرنیٹ کے ذریعے علمی معلومات لیتے ہیں اور خاص طور پر اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں معلومات جو انگریزی میں ہیں اسے حاصل کرکے apply کرتے ہیں اور دنیا کی جتنی بڑی یونیورسٹیاں ہیں ان میں اسکالر شپ حاصل کرتے ہیں جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔

اب جو لوگ انگریزی اچھی نہ ہونے کی صورت میں یا پھر کمپیوٹر اور جدید موبائل سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے یا پھر دور دراز علاقوں میں رہنے سے وہ یہ سہولیات حاصل نہیں حاصل کرپاتے ہیں ان کے لیے پروفیسر مختیار سموں نے دنیا کی تقریباً 125 اہم اور بڑی درسگاہوں کے بارے میں معلومات انٹرنیٹ سے حاصل کی جس میں یورپ، ایشیا، امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا اور افریقہ شامل ہیں۔

ان یونیورسٹیوں میں سے کئی یونیورسٹیوں کا انھوں نے visit بھی کیا، وہاں کی انتظامیہ، اساتذہ اور اسٹوڈنٹس سے ملے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں میرٹ پر اسکالرشپ دینے کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اس سلسلے میں خاص طور پر وہ پروفیسر بھی تھے جنھوں نے وہاں پر تعلیم حاصل کی اور انھیں وہیں پر جاب مل گئی جب کہ پاکستان سے اور خاص طور پر سندھ کے چھوٹے چھوٹے علاقوں سے آئے تھے جن کے والدین بہت ہی غریب تھے جس میں کئی مزدور، ہاری اور پرائمری ٹیچر تھے۔ یہ اسٹوڈنٹ دن رات محنت کرکے، مزدوری کرکے اس مقام پر پہنچے تھے۔ وہاں سے واپسی پر مختیار سموں نے یونیورسٹیوں پر الگ الگ سندھ کے مشہور اخبار کے میگزین میں مضامین لکھنے شروع کیے۔


مضامین لکھنے کا سلسلہ انھوں نے 12 اپریل 2013ء سے شروع کیا جو ہفتہ وار چھپتا رہا اور 125 یونیورسٹیوں کے بارے میں معلومات کا سلسلہ پورے ڈھائی سال تک جاری رہا جو 11 نومبر 2017ء کو مکمل ہوا جس میں کبھی کبھار سلسلہ منقطع ہوجاتا تھا جس کی وجہ سے انھیں بڑی کوفت بھی ہوتی تھی۔ اب جب یہ سلسلہ پورا ہوا تو ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اسے کتابی صورت میں لائیں جس کے لیے انھوں نے کئی بڑے نام والے پبلشرز سے رابطہ کیا اور سندھ کے محکمہ کلچر سے بھی رابطہ جاری رکھا لیکن کہیں سے بھی انھیں مثبت جواب نہیں ملا ، مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے ہی ادارے نالج سینٹرکی بنائی ہوئی سمبارا پبلشرز سے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرکے پہلی کتاب '' دنیا جوں درس گاہوں'' کے نام سے پہلا حصہ چھپوایا۔

اس کتاب میں صرف یورپ کی یونیورسٹیوں کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔ اس میں تقریباً 44 یونیورسٹیاں شامل ہیں جن میں آکسفورڈ یونیورسٹی،کیمبرج یونیورسٹی، باتھ یونیورسٹی، ریڈنگ یونیورسٹی وغیرہ شامل ہیں۔ اس کتاب کو انھوں نے ان نوجوانوں کے نام کیا ہے جنھوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کی ہے۔ اس کتاب کے 208 صفحے ہیں جس کی قیمت صرف 300 روپے اس لیے رکھی گئی ہے کہ عام اسٹوڈنٹس بھی اسے خرید سکے اور سندھی میں اس لیے لکھا گیا ہے کہ سندھ کے چھوٹے علاقوں کے بچے بھی اسے اچھی طرح پڑھ کر گائیڈنس حاصل کریں۔ کتاب کے مصنف کے بارے میں رضوان گل نے لکھا ہے جو خود بھی اچھے رائٹر ہیں۔

'' کتاب کا ٹائٹل بڑا خوبصورت ہے جو ہرے رنگ سے تصویروں سے بڑا پرکشش لگ رہا ہے۔ اس میں پیپر بھی اچھے گرام کا سفید اور صاف ہے جسے کم نظر والے بھی آسانی کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ اس کتاب سے نہ صرف اسٹوڈنٹس بلکہ پروفیسر بھی پڑھ کر فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ کتاب ہر عام آدمی کو بھی پڑھنی چاہیے اور خاص طور پر پڑھے لکھے والدین کیونکہ یہ کتاب ایک ڈاکومنٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اور کلچر ڈیپارٹمنٹ کو اپنی لائبریریوں کے لیے ضرور خریدنی چاہیے۔ ''

کتاب میں اپنے خیالات لکھتے ہوئے ڈاکٹر علی نواز نے کہا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنا تعلیمی معیار بڑھائیں اور دوسرے استاد ڈاکٹر دائم علی دربان بھی علی نواز کی طرح ریڈنگ یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹ رہے اور اب وہیں پڑھاتے ہیں۔ ان لوگوں کا تعلق سندھ کے غریب گھرانوں سے ہے۔

اس کتاب کا دوسرا حصہ جلد ہی مارکیٹ میں آجائے گا جس میں بھی مزید 44 یونیورسٹیوں کا ذکر ہوگا جن کا تعلق امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا سے ہے، جب کہ 125 میں سے باقی یونیورسٹیوں کا تعلق ایشیا کے ملکوں سے ہے اور یہ کتاب کا تیسرا حصہ ہوگا۔ اس میں ایک بات واضح ہے کہ ایشیا کی یونیورسٹیوں کا معیار بھی باقی یونیورسٹیوں سے کم نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کی یونیورسٹیوں میں بھی پاکستانی اسٹوڈنٹ اسکالرشپ حاصل کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کی کتابیں انگریزی زبان میں ہوتی ہیں اس لیے اسٹوڈنٹس کو انگریزی زبان پر پورا عبور حاصل ہونا چاہیے اور جس بھی مضمون میں وہ پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں بھی وسیع معلومات ہونی ضروری ہے۔

میں پروفیسر مختیار سموں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے اسٹوڈنٹس کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں اتنی معلومات حاصل کرکے اس کا پہلا حصہ چھپوایا اور باقی دو حصے بھی جلد شایع ہو جائیں گے۔ ہماری صوبائی حکومت کو چاہیے کہ اب وہ دوسری دوکتابیں حکومت کی طرف سے نہ صرف چھپوائیں بلکہ رائٹر کو معاوضہ بھی ادا کریں۔ اس کے لیے لاڑکانہ کی ضلع انتظامیہ کو بھی کچھ کرنا چاہیے اور نہیں تو اس کی جو بھی کتابیں چھپ جائیں انھیں کالج، یونیورسٹیوں اور لائبریریوں کے لیے خریدیں تاکہ اس شخص کی ہمت افزائی ہو اور وہ مزید اس طرح کی علمی اور ادبی کتابیں لکھیں۔
Load Next Story