جنگل کے باسی…
موت وہ منزل ہے جس پر کوئی بھی نہیں پہنچنا چاہتاحالانکہ موت برحق ہے۔
MULTAN:
موت کے خوف سے بڑھ کر بھی کوئی خوف ہو سکتا ہے، عموماً اس سوال کا جواب ناں میں ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ موت وہ منزل ہے جس پر کوئی بھی نہیں پہنچنا چاہتا، حالانکہ موت برحق ہے اور قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ موت سے بڑھ کر کیا خوف ہو سکتا ہے، اس کے لیے میں آپ کو ایک سچی کہانی سناتی ہوں، مگر اس کہانی کو کسی اور کی کہانی سمجھ کر نہ پڑھیں، بلکہ صبوحی کی اس کہانی کو، صبوحی کا لبادہ اوڑھ کر، خود کو صبوحی کے جوتوں میں محسوس کر کے اس کہانی کو پڑھیں ... (صبوحی ایک فرضی نام ہے)
میرا نام صبوحی ہے... میں اپنے شوہر اور بھائی کے ساتھ ایف ٹین مرکز گئی، وہ دونوں اتر کر ایک دکان میں گئے جب کہ میں گاڑی میں اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کے ساتھ بیٹھی تھی، میری نظر اسی دکان کی طرف تھی جس میں وہ دونوں گئے تھے، مجھے اپنی طرف کے شیشے پر دستک سنائی دی، میں نے دیکھا کہ وہ ایک نوجوان تھا، میں نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا اور اس سے غایت دریافت کی... ''آپ کے پاس لائٹر ہے؟'' اس نے احمقانہ سا سوال کیا، میں نے نفی میں جواب دیا اور شیشہ اوپر چڑھانے لگی تواس نے اپنے دونوں ہاتھ شیشے پر رکھ کر انھیں نیچے کی طرف دبانا شروع کر دیا... ساتھ ہی ساتھ وہ کہہ رہا تھا، ''آپ مجھے نظر انداز کیوں کر رہی ہیں؟''
میں نے دوسرے ہاتھ کو ہارن پر رکھ دیا اور اس وقت تک رکھے رکھا جب تک میرا شوہر اور بھائی اس دکان سے باہر نہ آ گئے...ان کی اس شخص سے گفتگو کا آغاز ہوا ہی تھا کہ ا س کے چند ساتھی بھی منظر پر آ گئے اور آپس میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، وہاں کچھ لوگوں نے صورت حال دیکھ کر بیچ میں پڑ کر معاملہ رفع دفع کروا دیا اور ہم گھر کو لوٹ آئے۔ ایک گھنٹے کے بعد ہمارے دروازے پر اطلاعی گھنٹی کی آواز آئی، عموما ایسا ہوتا نہیں کیونکہ ہم ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہتے ہیں اور جو بھی مہمان نیچے آ کر چوکیدار کو بتاتا ہے کہ اسے کس اپارٹمنٹ میں جانا ہے، چوکیدار ہمیں اطلاع کرتا ہے اور ہم سے تصدیق کرتا ہے کہ آیا آنیوالے مہمان ہمارے ہی ہیں اور عام طور پر بن بلائے یا اچانک آ جانے والے مہمانوں کے لیے ہمیں دو تین منٹ کاreactionکا وقت مل جاتا ہے... کون آ گیا، کہہ کر میرے شوہر نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ دو لڑکے ہاتھوں میں گن لیے ہمارے گھر میں داخل ہوئے، یہ انھی میں سے دو لڑکے تھے۔
اندر داخل ہوتے ہی انھوں نے میرے شوہر کو زد و کوب کرنا شروع کر دیا، میری ساس بیچ بچاؤ کے لیے درمیان میں آئیں تو انھوں نے انھیں بے دردی سے زمین پر پٹخ دیا، ان کے پاس میرا بیٹا تھا، جسے انھوں نے دیوار کی طرف پھینک دیا... ان کی نظریں مجھے تلاش کر رہی تھیں اور میں اپنے کمرے کے دروازے کے لاک کے سوراخ سے انھیں دیکھ چکی تھی۔ میں نے کمرے کو اندر سے لاک کیا، چٹخنی چڑھائی اور اپنی عزت بچانے کی خاطر اپنے کمرے کی کھڑکی سے کود کر ایک چھوٹی سی بالکونی پر آئی اور وہاں سے میں نے چیخ چیخ کر پڑوسیوں اور راہ چلتے لوگوں کو مدد کے لیے پکارا... چند لوگوں نے ہمارے فلیٹ کا احاطہ کر لیا اور کسی نے پولیس کو بھی اطلاع کر دی۔ ان دو میں سے ایک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور دوسرا وہیں پر تھا، پولیس بھی پہنچ گئی مگر پولیس نے معاملہ رفع دفع کروانے کی کوشش کی اور اس وقت مجمع میں کھڑا ہوا وہ اکیلا نوجوان مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق دھمکی نما الفاط میں معافی مانگ کر اپنی جان بچا گیا...
موقع ملتے ہی جانے سے پہلے اس نے اپنا تعارف بھی کروایا اور یہ بھی کہا کہ اس تک ہماری پہنچ نہیں... اگر ہم نے اس کا نام بھی کسی کے سامنے لیا تو ہمارے ساتھ اس سے بھی برا ہو گا جو کہ ابھی ہوا ہی نہیں۔ ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دیں اور یہ بھی بتایا کہ اس کی طاقت کے آگے کوئی کچھ نہیں خواہ وہ پولیس ہو یا کچھ اور... جسمانی تشدد کے اثرات تو وقت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں مگر جو خوف ہمارے لہو میں سرایت کر چکا ہے اس کا کوئی علاج نہیں۔ ہم نے راتوں رات سامان باندھا اور چوروں کی طرح چھپ کر ایک گیسٹ ہاؤس میں منتقل ہو گئے۔ ہم اسلام آباد کے ایک اچھے علاقے کے اچھے اپارٹمنٹ کی عمارت میں رہتے تھے، اب ہم کسی اور ٹھکانے کی تلاش میں ہیں اور کسی رات کے اندھیرے میں اس ٹھکانے میں منتقل ہو جائیں گے تا کہ ''کسی'' کو علم نہ ہو کہ ہم کہاں منتقل ہوئے ہیں۔
جہاں بھی جائیں گے، خوف ہمارا ہمراہی بن کر ہمارے ساتھ رہے گا، بازار جائیں گے تو ہر شخص مجرم نظر آئے گا، کوئی گاڑی کے نزدیک بھی کھڑا ہو گا تو میرا سارا جسم یہ سوچ کر سن ہو جائے گا کہ کہیں یہ میری گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹا کر یہ تو نہیں کہے گا کہ میں اسے نظر انداز کیوں کر رہی ہوں؟ کیا ہمیں بازار میں ہر راہ چلتے کو ''لفٹ'' دینا ہو گی؟ کیا اس ملک میں ایک واردات کی ابتدائی رپورٹ FIR لکھوانا اتنا مشکل کام ہو سکتا ہے، اس کا کبھی اندازہ نہ تھا۔کیا اس ملک میں جہاں مجرم بااثر شخص ہو یا کسی با اثر کی اولاد... وہاں قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا؟ ہم عورتیں پڑھ لکھ کر اس قابل ہو چکی ہیں کہ ملازمتیں کر کے اپنے شوہروں کے ساتھ گھر کی گاڑی چلاتی ہیں، اس کے لیے ہمیں اس حد تک با ہمت ہونا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس اپنی گاڑی ہو یا کوئی بھی ذریعہ کہ ہم اپنے کام پر پہنچنے کے لیے خود مختار ہوں نہ کہ ہمارے شوہر ہمیں دفتر سے لانے اور لے جانے کے لیے پابند ہوں۔ ہر روز صبح اور سہ پہر کے اوقات میں سیکڑوں عورتیں اور نوجوان لڑکیاں اپنے کاموں اور ملازمتوں پر جانے کے لیے اپنی گاڑیوں میں تن تنہا ہوتی ہیں۔ کیا وہ سوال نہیں کر سکتیں کہ کیا وہ ماڈرن دور کے ایک شہر... ایک اہم ملک کے دارالحکومت میں رہتی ہیں...
ہم کسی شہر کے باسی ہیں یا جنگل کے؟ کس مذہب کے پیرو کار ہیں... کس کتاب کے ماننے والے اور کس نبیﷺ کی امت، جہاں عورت کے لیے تعظیم ہے، تکریم ہے، عزت ہے، احترام ہے اور محبت۔ کیا آج کے اس دور میں بھی مرد جہالت کے قوانین کو مانتے ہیں؟ کیا ان کے نزدیک عورت ایک کھلونا ہے؟ عورت کو مار پیٹ کر، اسے بے عزت کر کے، اس کی طرف اپنی گندی نگاہیں ڈال کر، اس کی ہتک کر کے، اسے کمزور ثابت کر کے، اسے اپنے قدموں تلے روند کر، اس کی چادر تار تار کر کے... مرد کی کس حس کی تسکین ہوتی ہے؟ کیا ایسے مرد کسی مہذب ملک، شہر یا معاشرے میں رہنے اور انسان کہلائے جانے کے قابل ہوتے ہیں؟ اپنے جیسے مرد کو گن کے زور پر زد و کوب کرنا، یہ جا ن کر کہ وہ بے بس ہے، کیونکہ وہ نہتا ہے... اگر ان کے ناپاک ہاتھ میرے وجود تک پہنچ جاتے تو میراشوہر اپنی جان پر کھیل جاتا، ہر مرد ایسا ہی کرتا، جس کی بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کو کسی کے ناپاک ہاتھ چھونے کو بڑھتے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس سے محفوظ رہے۔ کیا ان مردوں کی کوئی ماں نہیں ہوتی جو کسی کی ماں کواپنی طاقت سے فرش چاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ڈیڑھ سال کے بچے کو دیوار پر دے مارنا کیا مردانگی ہے؟ ایک عورت کو اس لیے خراب کرنے کی خواہش رکھنا کہ اس نے بازار میں ایک آوارہ غنڈے کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور اس کا بڑھا ہوا ہاتھ نہیں تھاما، یہ کیا ہو رہا ہے؟
٭ سنا ہے کہ جنگل کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
٭ سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوںکی گھنی چھاؤں میںجا کر لیٹ جاتا ہے
٭ ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں، تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
٭ سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو، سارا جنگل جاگ جاتا ہے
٭ سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں، بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اسے پڑوسی مان لیتی ہیں
٭ کوئی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے، تو کسی لکڑی کے تختے پر گلہری ، سانپ ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
٭ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے، خداوندا... جلیل و معتبر!!
دانا و بینا، منصف و اکبر...میرے اس شہر میں
٭ اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر، سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے!
کیا ہمارے شہر جنگل سے بھی گئے گزرے ہیں، کیا ہمارے ہاں کے نوجوان جانوروں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں؟ کیا ہمارا قانون غنڈوں کے سامنے بے بس ہو چکا ہے؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب سچ میں ہے تو پھر اس ملک میں قانون کا اور قانون کے رکھوالوں کے ہونے کا کوئی جواز نہیں...
موت کے خوف سے بڑھ کر بھی کوئی خوف ہو سکتا ہے، عموماً اس سوال کا جواب ناں میں ہی ہو سکتا ہے، کیونکہ موت وہ منزل ہے جس پر کوئی بھی نہیں پہنچنا چاہتا، حالانکہ موت برحق ہے اور قرآن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ موت سے بڑھ کر کیا خوف ہو سکتا ہے، اس کے لیے میں آپ کو ایک سچی کہانی سناتی ہوں، مگر اس کہانی کو کسی اور کی کہانی سمجھ کر نہ پڑھیں، بلکہ صبوحی کی اس کہانی کو، صبوحی کا لبادہ اوڑھ کر، خود کو صبوحی کے جوتوں میں محسوس کر کے اس کہانی کو پڑھیں ... (صبوحی ایک فرضی نام ہے)
میرا نام صبوحی ہے... میں اپنے شوہر اور بھائی کے ساتھ ایف ٹین مرکز گئی، وہ دونوں اتر کر ایک دکان میں گئے جب کہ میں گاڑی میں اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کے ساتھ بیٹھی تھی، میری نظر اسی دکان کی طرف تھی جس میں وہ دونوں گئے تھے، مجھے اپنی طرف کے شیشے پر دستک سنائی دی، میں نے دیکھا کہ وہ ایک نوجوان تھا، میں نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کیا اور اس سے غایت دریافت کی... ''آپ کے پاس لائٹر ہے؟'' اس نے احمقانہ سا سوال کیا، میں نے نفی میں جواب دیا اور شیشہ اوپر چڑھانے لگی تواس نے اپنے دونوں ہاتھ شیشے پر رکھ کر انھیں نیچے کی طرف دبانا شروع کر دیا... ساتھ ہی ساتھ وہ کہہ رہا تھا، ''آپ مجھے نظر انداز کیوں کر رہی ہیں؟''
میں نے دوسرے ہاتھ کو ہارن پر رکھ دیا اور اس وقت تک رکھے رکھا جب تک میرا شوہر اور بھائی اس دکان سے باہر نہ آ گئے...ان کی اس شخص سے گفتگو کا آغاز ہوا ہی تھا کہ ا س کے چند ساتھی بھی منظر پر آ گئے اور آپس میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، وہاں کچھ لوگوں نے صورت حال دیکھ کر بیچ میں پڑ کر معاملہ رفع دفع کروا دیا اور ہم گھر کو لوٹ آئے۔ ایک گھنٹے کے بعد ہمارے دروازے پر اطلاعی گھنٹی کی آواز آئی، عموما ایسا ہوتا نہیں کیونکہ ہم ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں رہتے ہیں اور جو بھی مہمان نیچے آ کر چوکیدار کو بتاتا ہے کہ اسے کس اپارٹمنٹ میں جانا ہے، چوکیدار ہمیں اطلاع کرتا ہے اور ہم سے تصدیق کرتا ہے کہ آیا آنیوالے مہمان ہمارے ہی ہیں اور عام طور پر بن بلائے یا اچانک آ جانے والے مہمانوں کے لیے ہمیں دو تین منٹ کاreactionکا وقت مل جاتا ہے... کون آ گیا، کہہ کر میرے شوہر نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ دو لڑکے ہاتھوں میں گن لیے ہمارے گھر میں داخل ہوئے، یہ انھی میں سے دو لڑکے تھے۔
اندر داخل ہوتے ہی انھوں نے میرے شوہر کو زد و کوب کرنا شروع کر دیا، میری ساس بیچ بچاؤ کے لیے درمیان میں آئیں تو انھوں نے انھیں بے دردی سے زمین پر پٹخ دیا، ان کے پاس میرا بیٹا تھا، جسے انھوں نے دیوار کی طرف پھینک دیا... ان کی نظریں مجھے تلاش کر رہی تھیں اور میں اپنے کمرے کے دروازے کے لاک کے سوراخ سے انھیں دیکھ چکی تھی۔ میں نے کمرے کو اندر سے لاک کیا، چٹخنی چڑھائی اور اپنی عزت بچانے کی خاطر اپنے کمرے کی کھڑکی سے کود کر ایک چھوٹی سی بالکونی پر آئی اور وہاں سے میں نے چیخ چیخ کر پڑوسیوں اور راہ چلتے لوگوں کو مدد کے لیے پکارا... چند لوگوں نے ہمارے فلیٹ کا احاطہ کر لیا اور کسی نے پولیس کو بھی اطلاع کر دی۔ ان دو میں سے ایک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور دوسرا وہیں پر تھا، پولیس بھی پہنچ گئی مگر پولیس نے معاملہ رفع دفع کروانے کی کوشش کی اور اس وقت مجمع میں کھڑا ہوا وہ اکیلا نوجوان مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق دھمکی نما الفاط میں معافی مانگ کر اپنی جان بچا گیا...
موقع ملتے ہی جانے سے پہلے اس نے اپنا تعارف بھی کروایا اور یہ بھی کہا کہ اس تک ہماری پہنچ نہیں... اگر ہم نے اس کا نام بھی کسی کے سامنے لیا تو ہمارے ساتھ اس سے بھی برا ہو گا جو کہ ابھی ہوا ہی نہیں۔ ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دیں اور یہ بھی بتایا کہ اس کی طاقت کے آگے کوئی کچھ نہیں خواہ وہ پولیس ہو یا کچھ اور... جسمانی تشدد کے اثرات تو وقت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں مگر جو خوف ہمارے لہو میں سرایت کر چکا ہے اس کا کوئی علاج نہیں۔ ہم نے راتوں رات سامان باندھا اور چوروں کی طرح چھپ کر ایک گیسٹ ہاؤس میں منتقل ہو گئے۔ ہم اسلام آباد کے ایک اچھے علاقے کے اچھے اپارٹمنٹ کی عمارت میں رہتے تھے، اب ہم کسی اور ٹھکانے کی تلاش میں ہیں اور کسی رات کے اندھیرے میں اس ٹھکانے میں منتقل ہو جائیں گے تا کہ ''کسی'' کو علم نہ ہو کہ ہم کہاں منتقل ہوئے ہیں۔
جہاں بھی جائیں گے، خوف ہمارا ہمراہی بن کر ہمارے ساتھ رہے گا، بازار جائیں گے تو ہر شخص مجرم نظر آئے گا، کوئی گاڑی کے نزدیک بھی کھڑا ہو گا تو میرا سارا جسم یہ سوچ کر سن ہو جائے گا کہ کہیں یہ میری گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹا کر یہ تو نہیں کہے گا کہ میں اسے نظر انداز کیوں کر رہی ہوں؟ کیا ہمیں بازار میں ہر راہ چلتے کو ''لفٹ'' دینا ہو گی؟ کیا اس ملک میں ایک واردات کی ابتدائی رپورٹ FIR لکھوانا اتنا مشکل کام ہو سکتا ہے، اس کا کبھی اندازہ نہ تھا۔کیا اس ملک میں جہاں مجرم بااثر شخص ہو یا کسی با اثر کی اولاد... وہاں قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا؟ ہم عورتیں پڑھ لکھ کر اس قابل ہو چکی ہیں کہ ملازمتیں کر کے اپنے شوہروں کے ساتھ گھر کی گاڑی چلاتی ہیں، اس کے لیے ہمیں اس حد تک با ہمت ہونا پڑتا ہے کہ ہمارے پاس اپنی گاڑی ہو یا کوئی بھی ذریعہ کہ ہم اپنے کام پر پہنچنے کے لیے خود مختار ہوں نہ کہ ہمارے شوہر ہمیں دفتر سے لانے اور لے جانے کے لیے پابند ہوں۔ ہر روز صبح اور سہ پہر کے اوقات میں سیکڑوں عورتیں اور نوجوان لڑکیاں اپنے کاموں اور ملازمتوں پر جانے کے لیے اپنی گاڑیوں میں تن تنہا ہوتی ہیں۔ کیا وہ سوال نہیں کر سکتیں کہ کیا وہ ماڈرن دور کے ایک شہر... ایک اہم ملک کے دارالحکومت میں رہتی ہیں...
ہم کسی شہر کے باسی ہیں یا جنگل کے؟ کس مذہب کے پیرو کار ہیں... کس کتاب کے ماننے والے اور کس نبیﷺ کی امت، جہاں عورت کے لیے تعظیم ہے، تکریم ہے، عزت ہے، احترام ہے اور محبت۔ کیا آج کے اس دور میں بھی مرد جہالت کے قوانین کو مانتے ہیں؟ کیا ان کے نزدیک عورت ایک کھلونا ہے؟ عورت کو مار پیٹ کر، اسے بے عزت کر کے، اس کی طرف اپنی گندی نگاہیں ڈال کر، اس کی ہتک کر کے، اسے کمزور ثابت کر کے، اسے اپنے قدموں تلے روند کر، اس کی چادر تار تار کر کے... مرد کی کس حس کی تسکین ہوتی ہے؟ کیا ایسے مرد کسی مہذب ملک، شہر یا معاشرے میں رہنے اور انسان کہلائے جانے کے قابل ہوتے ہیں؟ اپنے جیسے مرد کو گن کے زور پر زد و کوب کرنا، یہ جا ن کر کہ وہ بے بس ہے، کیونکہ وہ نہتا ہے... اگر ان کے ناپاک ہاتھ میرے وجود تک پہنچ جاتے تو میراشوہر اپنی جان پر کھیل جاتا، ہر مرد ایسا ہی کرتا، جس کی بیوی، بیٹی، بہن یا ماں کو کسی کے ناپاک ہاتھ چھونے کو بڑھتے، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس سے محفوظ رہے۔ کیا ان مردوں کی کوئی ماں نہیں ہوتی جو کسی کی ماں کواپنی طاقت سے فرش چاٹنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ڈیڑھ سال کے بچے کو دیوار پر دے مارنا کیا مردانگی ہے؟ ایک عورت کو اس لیے خراب کرنے کی خواہش رکھنا کہ اس نے بازار میں ایک آوارہ غنڈے کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور اس کا بڑھا ہوا ہاتھ نہیں تھاما، یہ کیا ہو رہا ہے؟
٭ سنا ہے کہ جنگل کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
٭ سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا
درختوںکی گھنی چھاؤں میںجا کر لیٹ جاتا ہے
٭ ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں، تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
٭ سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو، سارا جنگل جاگ جاتا ہے
٭ سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں، بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اسے پڑوسی مان لیتی ہیں
٭ کوئی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے، تو کسی لکڑی کے تختے پر گلہری ، سانپ ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں
٭ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے، خداوندا... جلیل و معتبر!!
دانا و بینا، منصف و اکبر...میرے اس شہر میں
٭ اب جنگلوں کا ہی کوئی قانون نافذ کر، سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے!
کیا ہمارے شہر جنگل سے بھی گئے گزرے ہیں، کیا ہمارے ہاں کے نوجوان جانوروں سے بھی بدتر ہو چکے ہیں؟ کیا ہمارا قانون غنڈوں کے سامنے بے بس ہو چکا ہے؟ اگر ان سب سوالوں کا جواب سچ میں ہے تو پھر اس ملک میں قانون کا اور قانون کے رکھوالوں کے ہونے کا کوئی جواز نہیں...