ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم…
دلدار صاحب! اگرچہ اب ہم میں نہیں رہے لیکن ایسا لگتا ہے ان کی جدائی بس عارضی جدائی ہے۔ وہ زندگی سے بھرپور ایک ایسی۔۔۔
FAISALABAD:
دلدار صاحب! اگرچہ اب ہم میں نہیں رہے لیکن ایسا لگتا ہے ان کی جدائی بس عارضی جدائی ہے۔ وہ زندگی سے بھرپور ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ ان کی موت کا یقین نہیں آتا۔ گویا یوں ہی تھوڑی دیر کے لیے باری تعالیٰ کے حضور معاملات من و تو سلجھانے میں اپنا گریباں چاک دامن یزداں چاک کے بعد واپس آجائیں گے اور ایک بار پھر استدلالی تیقن کی ترنگ میں ذرا اوپر اٹھا ہوا ان کا چہرہ اور نیم و آنکھیں ہمارے سامنے ہوں گی۔ راقم السطور ان سے کسی قریبی تعلق کا دعویدار نہیں ہے۔ کسی درجے میں اگر ایسا ہے بھی تو اسے یک طرفہ محبت اور عقیدت مندی کا نام دینا زیادہ صحیح ہوگا۔
بس ہائی اسکول کے زمانے میں ان کی کلاس میں بیٹھنے کا شرف حاصل رہا۔ یہ ایسی خوش قسمتی تھی جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ وہ زیادہ تر باصلاحیت اور زندگی کی دوڑ میں کامیاب لوگوں سے ربط رکھتے تھے اور خود بھی ان ہی صفات سے متصف تھے۔ ان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی۔ کبھی کبھی ازراہ تفنن فرماتے جس طرح بڑے لوگوں کے اقوال ہوتے ہیں تم ہمارا بھی ایک قول گرہ میں باندھ لو کبھی وقت ضایع مت کرو۔ چاہے سب کچھ ضایع ہوجائے۔ اقبال کی شاعری میں یہی پیغام ہے اور حضور رسالت مآبؐ کی زندگی سے بھی یہی سبق ملتا ہے۔ سید دلدار علی سے فرمان فتح پوری کے سفر کو اسی جدوجہد کی مثال سمجھنا چاہیے۔
وہ ہمیں ریاضی پڑھاتے تھے اور ریاضی کے استادوں کی طرح کسی قدر سخت گیر بھی واقع ہوئے تھے۔ کہتے تھے مرنے کے بعد بھی حساب کتاب سے چھٹکارہ نہیں ہے۔ اس وقت بھی حساب پوچھا جائے گا۔ تم لوگوں کی حالت دیکھ کر لگتا ہے تم سب تو وہاں فیل ہوجاؤ گے۔ ان کا ماننا تھا پڑھائی اور پٹائی ساتھ ساتھ چلتی رہنی چاہیے۔ ورنہ کام نہیں بنتا۔ اس فارمولے کا اطلاق ہم جیسوں پر ہوتا رہتا تھا۔ بلکہ جب نالائقی حد سے گزر جاتی تو تعمیل حکم میں کوئی جعلی سرپرست بھی مہیا کرنا پڑجاتا۔ ہمارے پیر بھائی جو ان کی نگرانی میں ریسرچ کا کام کرتے تھے معلوم نہیں اس نازک صورت حال سے کس طرح عہدہ برآ ہوتے ہوں گے۔ کیونکہ دلدار صاحب کسی کی خاطر اپنے اصول توڑنے سے تو رہے۔ لڑکے ان کے مزاج آشنا ان کی دکھتی رگ پہچانتے تھے۔
جب کبھی ریاضی پڑھنے کا موڈ نہیں ہوتا کوئی شعر کوئی ادبی نکتہ لڑھکا دیا جاتا اور وہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی انجان بن جاتے۔ پھر کلاس روم کے کھڑکی دروازے بند کردیے جاتے اور مکمل رازداری کی ضمانت کے ساتھ کسی صدائے جرس کے بغیر قافلہ شعر و ادب رواں دواں ہوجاتا۔ اس وقت دلدار صاحب کی طاقت لسانی دیدنی و شنیدنی ہوتی۔ وہ فن اور صداقت فکر کے بارے میں بہت اعلیٰ معیارات رکھتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقعے پر انھوں نے بتایا کہ کس طرح آزادی اظہار کے جرم پر جب ایک ادیب کے ہاتھ قلم کیا جانے لگے تو اس نے پہلے اپنا دایاں ہاتھ پیش کردیا کہ لکھنے کا کام میرا یہ ہاتھ کرتا ہے۔ یہ سب بعید از قیاس نہیں ہے۔ انھوں نے ایک ایسے ماحول میں تربیت پائی تھی جس کے خواب و عذاب اب سے بہت مختلف تھے۔ جہاں اقدار بھی اپنے مرکز سے علیحدہ نہیں ہوئی تھی۔ جہاں گنے بیچنے والا بھی آواز لگاتا تھا کنکوا کون لوٹے گا۔ اب نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ لوگ رہے۔ جو چند ایک باقی رہ گئے ہیں وہ بھی دھیرے دھیرے ساتھ چھوڑے جاتے ہیں۔
ان سطور کے ساتھ ایک فلم میرے ذہن میں چلنے لگی ہے۔ اپنا کلاس روم اپنے ہم جماعت زندہ تصویروں کی طرح سامنے چل پھر رہے ہیں۔
''سر نے پچھلے بیج کو انگریزی پڑھائی۔ اب ہمیں ریاضی پڑھا رہے ہیں۔ اگلے سال پتہ نہیں کیا پڑھائیں۔''
''اس لیے کہ سر آل راؤنڈر ہیں۔''
''ہاں ہاں اس کا مطلب ہے ہم محض کرکٹ کے کھلاڑی ہوئے۔''
''سر! آپ اردو کیوں نہیں پڑھاتے؟''
''اس قابل نہیں سمجھے گئے۔''
''اس سال آپ انگریزی کو کیوں نہیں پڑھا رہے؟''
''نالائق ثابت ہوئے۔''
انھیں کام کی ایسی دھن تھی کہ دسویں جماعت کو انگریزی پڑھاتے پڑھاتے انھوں نے اردو میں انگریزی گرامر کی کتاب مرتب کردی۔ جو کم و بیش سو صفحات پر مشتمل ہوگی۔ جس کی قیمت دس پندرہ روپے سے زیادہ نہیں تھی۔ ہنستے ہنستے فرمایا کرتے تم لوگوں نے اس میں ہماری شاعری پڑھی ہے؟
آئی فاعل یو مفعول
ورب کے پی ٹی کو مت بھول
حسب ضرورت لفظ بدل کر
شامل کرنا ہے معقول
ان کی شاعری میری نظر سے نہیں گزری۔ لیکن میں سمجھتا ہوں۔ شاعری میں ان کا کسب کمال بس اسی حد تک ہوگا۔ وہ ایک تحقیقی، استدلالی اور منطقی ذہن رکھتے تھے جو شاعرانہ سپردگی ربودگی اور افتادگی سے کچھ ایسا علاقہ نہیں رکھتا۔ اپنا سارا کلام کسی کے پاؤں میں رکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ نیاز صاحب نے بھی اسی عذر کے تحت اپنی شاعری اٹھاکر طاق پر رکھ دی تھی۔ یاد پڑتا ہے راشد صاحب نے کسی جگہ سلیم بھائی کی بقراطیت کو ان کی شعری سرگرمیوں کے لیے ممکنہ رکاوٹ بتایا ہے۔ شاعری کے لیے شاید ایک بار سب کچھ پڑھ کر بھول جانا ضروری ہوتا ہے۔
عالی جی آرٹس کونسل کے ایک جلسے میں فرمانے لگے میں یہاں آنے سے ہچکچا رہا تھا لیکن مقررین کی فہرست میں فرمان صاحب کا نام دیکھا تو بے فکر ہوگیا کہ یہ ایک ہی شخص پورے وقت کے لیے کافی ہے۔ کسی اور کو اظہار خیال کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ وہ خود فرماتے تھے۔ میں دن میں جب تک کم ازکم ایک گھنٹہ بول نہ لوں کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ پھر سب نے وہ منظر بھی دیکھا کہ سردار نشتر کی وفات پر تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو دو جملوں سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے۔ آواز رندھ گئی۔ دسویں جماعت کے طلباء کی الوداعی تقریب میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انھیں سہارا دے کر اپنی نشست تک واپس لانا پڑا۔ہمارے ہمہ وقت چوکس میڈیا کو شاید اب تک یہ خبر نہیں پہنچی ہے کہ ہم ایک کتنے بڑے آدمی سے محروم ہوگئے ہیں۔ ورنہ اسلام آباد ڈرامے کے ساتھ کہیں کونے کھدرے میں یہ مذکور بھی ہوتا۔