پاکستانی طالبعلموں کا کارنامہ انسانی قدموں سے بجلی بنانے کا سستا ترین طریقہ ایجاد

پروجیکٹ پر سوا لاکھ لاگت، 300 میٹر کی ایک گلی میں ٹائلز نصب کیے جائیں تو7سے 8 بیٹریاں صرف 2 گھنٹے میں چارج ہوسکتی ہیں۔

اقرا یونیورسٹی کے 3 طالب علموں غالب ندیم، حافظ ولید اور علی اکبر نے پروجیکٹ مکمل کر لیا، پاکستانی ساختہ پرزوں سے تیار کیا گیا۔ فوٹو: فائل

SYDNEY:
کراچی کے باصلاحیت نوجوانوں نے انسانی قدموں سے بجلی پیدا کرنے کا آسان اور سستا ترین طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔

شاپنگ سینٹرز، فٹ پاتھ، پارکس اور دیگر پبلک مقامات پر خصوصی ٹائلز اور پینل بچھاکر بجلی حاصل کی جاسکتی ہے، انسانی قدموں کے دباؤ سے پیدا ہونے والی قوت کو خصوصی ٹائلز کے ذریعے بیٹری میں محفوظ کیا جا سکتا ہے جس سے برقی آلات، اسٹریٹ لائٹس وغیرہ روشن کی جا سکتی ہیں۔

اقرا یونیورسٹی کے فیکلٹی آف انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ کے 3 طالب علموں نے اس منصوبے کو انرجی ہارویسٹنگ کا نام دیا ہے جس کی مدد سے اب چلتے پھرتے بجلی پیدا ہو سکے گی۔

غالب ندیم، حافظ ولید اور علی اکبر نے بجلی پیدا کرنے والے انرجی ہارویسٹنگ ایجاد کا میکانزم بہت آسان رکھا ہے جس میں خصوصی ٹائلز یا لکڑی و مصنوعی گھاس سے تیار پینلز اور ایسے آلات استعمال کیے ہیں جن سے گزرا جائے تو قدموں کے دبائو سے بجلی پیدا ہوتی ہے جس سے بیٹری کو منسلک کیا جاتا اور پیدا ہونے والی بجلی اس بیٹری میں منتقل ہوتی ہے اور پھر بیٹری سے دیگر اشیا چارج ہوتی ہیں۔


مفت بجلی پیداکرنے والی انرجی ہارویسٹنگ کو پاکستانی پرزوں سے تیار کیا گیا ہے جبکہ80 فیصد پرزوں کے ڈیزائن بھی طالب علموں نے خود ہی تیار کیے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف لاگت کم آئی ہے بلکہ اس کے روزمرہ استعمال میں بھی آسانی پیدا ہوگی اوراسے شہر میں کہیں بھی نصب کیا جاسکتا ہے۔

مفت بجلی پیداکرنے والے انرجی ہارویسٹنگ کی سب سے بڑی اورخاص بات یہ ہے کہ اسے صرف ایک بار انسٹال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے بعد نہ ہی پیسہ خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی مینٹیننس پر کوئی خرچ آتا ہے۔ یہ ماحول دوست ہے جس سے آلودگی پیدانہیں ہوتی۔

پاکستان میں اس ٹیکنالوجی کی موجد ٹیم کے ایک ممبر غالب ندیم نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے ملک میں بجلی کے بحران کی شدت و اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس منصوبے پر کام کرنا شروع کیا اور 2 سال میں اسے مکمل کیا کیونکہ چلتے پھرتے بجلی پیدا کرنے پر لندن، رشیا اور چائنا سمیت بیرونی ممالک میں تو کام ہوا ہے لیکن پاکستان میں اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں ہوا اور ہمارے یہاں مارکیٹس، پارکس، واکنگ ٹریکس سمیت متعدد ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں انرجی ہارویسٹنگ کا پروجیکٹ لگایا جائے تو سیکڑوں والٹ بجلی پیدا ہو سکتی۔

غالب نے بتایا کہ شروع میں جب اس پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا تو بجلی پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا آیا ناکامی بھی ہوئی کیونکہ دیگر ممالک میں جس طرح کام ہوا اس کا میکانزم یہاں ملنا مشکل ہو رہا تھا لیکن بعد ازاں 4 سے8 مختلف طریقے استعمال کیے گئے اور بلاآخر کامیابی ہوئی، پروجیکٹ کی کامیابی کو چیک کرنے کیلیے پہلے مرحلے میں 6.5X3.5 فٹ کا لکڑی اور مصنوعی گھاس کا پینل بنایا ہے جس سے باآسانی بیٹری چارج کی جا سکتی ہے اور اس بیٹری سے گھر کے دیگر برقی آلات روشن کیے جا سکتے ہیں۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کو عملی طور پر فیلڈ میں نافذ کرنے کے لیے ایک جگہ بات چیت کی جا رہی ہے، اس پروجیکٹ پر سوا لاکھ روپے کا صرف ایک بار خرچہ آیا ہے اس کے بعد ہمیشہ کیلیے مفت بجلی ملتی رہے گی اور اگر 300 میٹر کی ایک گلی میں یہ منصوبہ نصب کیا جائے تو اس سے یو پی ایس کی7سے 8 بیٹریاں فری میں صرف2گھنٹے میں چارج ہو سکتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ میں صرف مکینیکل انرجی کو الیکٹریکل میں تبدیل کیا گیا ہے۔
Load Next Story