ظلم وجبر کی انتہا
آج پوری دنیا کے مسلمان ایک ایسے ظلمت کدے میں قید ہیں کوئی ان کی آہ وبکا پرکان دھرنے والا نہیں۔
آج پوری دنیا کے مسلمان ایک ایسے ظلمت کدے میں قید ہیں کوئی ان کی آہ وبکا پرکان دھرنے والا نہیں،اپنے غم خود ہی نبیڑنا پڑ رہے ہیں، جلتے اور مسمار ہوتے گھروں کی خاک کو اڑتا دیکھنا بھی مقدر بن چکا ہے، پاکستان کا ہی کیا رونا دنیا بھرکے مسلمان بے سہارا و بے آسرا ہوچکے ہیں۔ معصوم بچے والدین ا ور گھروں سے بچھڑ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق شام میں جاری لڑائی کے باعث وہاں سے بھاگنے والے مظلوم بچوں کی تعداد10لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
بچوں کی عمریں 11سال کے قریب ہیں اور یہ معصوم بچے اپنے والدین سے بچھڑ کر خوف کے عالم میں کہیں دور بھاگنے پر مجبور ہوئے ہیں جب کہ 20لاکھ بچے بے آسرا ہوچکے ہیں، ان حالات میں چین کے وزیر خارجہ نے کہاہے کہ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کی ٹیم کے انسپکٹروں کو جو فرض سونپا گیا ہے وہ با مقصد اور صدر بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ مشاورت سے ہونا چاہیے۔ جب کہ ترک وزیر خارجہ احمد دائود اوغلو نے فوری طورپر اس پر عمل درآمدکی ضرورت پر زور دیا ہے اور اقوام متحدہ کی طرف سے کچھ نہ کرنے کی تنقید کی ہے، یہ ہیں ہمارے مسلمان حکمران؟ اگر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں طاقت کا جواب طاقت سے دیا جاتاہے تب بھی مسلمان ہی شہید ہوںگے، ان کی املاک تباہ وبرباد ہوگی، اس وقت اہم ضرورت عالم اسلام کے اتحاد کی ہے۔
چند روز قبل لبنان کی مساجد میں دھماکے ہوئے، پہلا دھماکہ طرابلس کی مسجد تقویٰ اور دوسرا ساحلی علاقے مینا کی ''مسجد السلام'' میں ہوا۔ نماز جمعہ پڑھنے والے نمازی شہید ہوئے اور شہر دھوئیں میں اٹ گیا۔ طرابلس کے نام سے فاطمہ بنت عبداﷲ یاد آگئیں۔ فاطمہ عرب لڑکی تھی جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ اس بہادر اور جری لڑکی کے لیے علامہ اقبال نے نظم بھی لکھی تھی۔ اس کے جذبہ شوق شہادت پر تحسین وآفرین کے پھول نچھاور کیے گئے۔ عنوان تھا ''فاطمہ بنت عبداﷲ'' موقعے کی مناسبت سے قارئین کے لیے تین اشعار:
فاطمہ، تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت، حور صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیان دیں کی شفائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اﷲ کے رستے میں بے تیغ وسپر
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر
یہ شوق شہادت ہی تو ہے جو مجاہدین کے جوش و ولولے کو بڑھاتاہے اور انھیں تازہ دم رکھتاہے۔ مسلمان کبھی بھی غیر مسلم سے جنگ نہیں لڑتا ہے اور نہ ہی یہ اﷲ کا حکم ہے لیکن جب دوسرے لوگ مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کردیں جیسا کہ فلسطین میں ہورہا ہے تب اپنی دفاع کے لیے مقابلہ کرنا ان کا حق ہے لیکن جہاں بھی مسلمان آپس میں لڑرہے ہیں ان کی پشت پناہی کرنے والی سپر پاور قوتیں ہیں جو انھیں اسلحہ بھی فراہم کرتی ہیں اور اپنی افواج بھی، مسلمانوں کو آپس میں لڑانے اور ملکی انتظام کو برباد کرنے کے لیے فضا کو ہموار کرتی ہیں۔ مسلمان ہر محاذ پر امریکی دوغلی پالیسی اور اسرائیلی چالبازی کی وجہ سے پسپا ہیں۔ آج اسرائیل کی پوری دنیا کے اہم ترین اداروں پر گرفت ہے۔ خواہ وہ میڈیا ہو یا تیل کے کنوئیں۔ دنیا میں جن ممالک میں تیل کی دولت ہے وہ مسلمان ممالک ہیں جب کہ نکاسی اور ترسیل یہودیوں کے ہی ہاتھ میں ہے۔ پوری دنیا کے ذرایع ابلاغ پر بھی یہودی ہی قابض ہیں، دنیا کے 10بڑے رسالوں کے مالک بھی یہی صیہونی ہیں۔ دنیا بھر کے تین بڑے اخبار اور دنیا بھر کی تینوں نیوز ایجنسیوں پر ان کا ہی غلبہ ہے یہ تمام کام انھوںنے امریکی صدور خصوصاً بل کلنٹن اور جارج بش کی دوستی اور تعاون سے کیے ہیں ان کا سالہا سال پرانا منصوبہ ہے جس پر عمل در آمد ہورہاہے ۔
لیکن افسوس! امت مسلمہ اور مسلم حکمران اپنی ذمے داریوں سے واقف نہیں وہ تعیشات زندگی کے مزے لے رہے ہیں اور یہ عیش وعشرت کے ذرایع بھی اہل مغرب نے مہیا کیے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں مست رہتے ہیں خواب خرگوش کے مزے لیتے ہیں۔ مغربی حکمرانوں و روساء سے دوستی کرکے فخر محسوس کرتے ہیں، تیل کی دولت بہم پہنچاتے ہیں اور ایک دن ایسا آتاہے جب امریکا اسرائیل کی خوشی کے لیے مسلمانوں کا قتل عام شروع کروادیتاہے۔ یہ گھنائونی سازش ہے۔ اس سازش کو بے نقاب کرنے والے ناپید ہوچکے ہیں۔ سوئے ہوئے اس وقت جاگتے ہیں جب پانی سر سے اونچا ہوجاتاہے۔ ان حالات اور مغرب کی شاطرانہ چالوں کو مسلم حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے۔ اتنی بھی کیا خود غرضی کہ اپنے بھائیوں کو آگ میں جلتا دیکھ کر کوئی ایکشن نہ لیں۔
تاریخ کے خونی صفحات سے اسی وقت سبق لینے کی ضرورت تھی جب سربوں نے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑدیے اور لاکھوں مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ کوسوو میں ڈھائی لاکھ مسلمان شہید کیے گئے اس کا کوئی ایسا شہر نہ بچا جس میں ہزاروں مسلمانوں کی اجتماعی قبریں موجود نہ ہوں، ان لاشوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں جنھیں زندہ جلادیاگیا۔ انھی قبروں میں خواتین اور بچوں کی ڈھانچے نما لاشیں ملی ہیں بچوں کی عمریں دو سال سے10سال اور 12سال تک تھیں یقیناً ان کی مائوں نے اپنے بچوں کو اپنے سینے سے لگاکر رکھا ہوگا کہ کہیں یہ بچے سفاکوں اور درندوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں لیکن وہ بچ نہ سکے چونکہ سربوں نے بڑے منظم طریقے سے مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا محض اس وجہ سے کہ مسلمان مشرقی یورپ میں کوئی مضبوط اسٹیٹ نہ بناسکیں۔ سربوں کو مغرب کی مدد حاصل تھی لہٰذا انھوںنے مذہبی تنافر میں ڈوب کر مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر ڈالا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انسانی تاریخ کا یہ قتل عام سب سے بڑا ہے۔ یورپ کی تاریخ کا سب سے بڑا بھیانک جرم جو کہ انسانوں کو زندہ درگور کرنے کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔
برما میں بھی مسلمانوں کے خلاف منظم حملے پھر شروع ہوچکے ہیں بدھ خاتون سے ظلم وزیادتی کے بعد بلوائیوں نے مسلمانوں کی آبادی پر دھاوا بول دیا اب پھر وہی صورتحال ہے جو چند ماہ پہلے تھی۔ بچنے والوں کے ابھی زخم بھرے بھی نہ ہوںگے کہ دوبارہ پھر بربریت وتشدد کی فضا پروان چڑھنے لگی۔ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے امت مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کے اندرونی خلفشار کو ختم کرے اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرے، ماضی کے بد ترین حالات کا جائزہ لے۔ عرصہ دراز سے مسلم امہ مشکلات اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں اور کوئی حامی ومدد گار دور تک نظر نہیں آتا ہے۔ اسی کسمپرسی میں نہتے شہری موت کی وادی میں بڑی آسانی کے ساتھ دھکیل دیے جاتے ہیں اور پھر بھولی بسری داستان کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو بچ گئے ہیں تو کیا وہ کل ان کی باری نہیں آسکتی ہے؟ وقت سے پہلے حفاظتی تدابیر اختیارکرنا دانش مندی ہے۔
ہمارا اپنا ملک پاکستان بھی اندرونی وبیرونی طور پر بے شمار مسائل اور مشکلات کا شکار ہے۔ کسی بھی ملک میں امن وسکون پیدا کرنے کے لیے حکمرانوں کا اپنے وطن سے مخلص ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن ادھر کی کہانی بھی بڑی ہی عجیب وغریب اور پریشان کن ہے جو آتاہے غریب رعایا پر ڈھیروں ٹیکس لگادیتاہے، ہر چیز مہنگی کردی جاتی ہے، وہ یہ نہیں سوچتے کہ عوام ٹیکس اور گرانی کا مقابلہ کرنے کے لیے رقم کہاں سے لائیں گے؟ تنخواہیں محدود، ملکی حالات خراب ہونے کی وجہ سے تجارت کرنا مشکل ترین، گویا جان جوکھوں کا کام زندگی بسرکرنا ہے چوری چکاری شہرت یافتہ آدمی کے بس کا کام نہیں، اب رہ گئی خودکشی، اس کے لیے حکومت نے تمام راستے کھول دیے ہیں جس طرح چاہیں ملک کے مجبور وفاقہ کش اور جابروں وظالموں کے ستائے ہوئے خودکشی کریں۔ حکومت کو کوئی اور کسی قسم کا اعتراض نہیں۔ یہ عوام کا ذاتی مسئلہ ہے سڑکوں پر دھکے کھائیں اور بھوکے پیٹ سوجائیں یہ ان کا نصیب۔
رعایا بے حال، ملک بے آسرا، بیرونی خطرات سر پر سیاہ چیلوں کی طرح منڈ لارہے ہیں، جائیں تو کہاں جائیں، ہاں! صاحب اختیار اور صاحب اقتدار کچھ کرسکتے ہیں اگر کرنا چاہیں تو؟