ٹریفک نظام
اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کا ٹریفک نظام بالکل فیل ہوچکا ہے۔
یہ صرف میرا تجربہ اور مشاہدہ ہی نہیں ہے بلکہ بے شمار گھومنے پھرنے ، گاڑی چلانے والے اور گھروں سے باہر اکثر وبیشتر روزانہ کی بنیاد پر نکلنے والے لوگوں کا تجربہ ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کا ٹریفک نظام بالکل فیل ہوچکا ہے۔اس نظام کے فیل ہونے کی بنیاد لوکل ٹریفک پولیس یا موٹروے پولیس کی کارکردگی نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ پبلک ٹرانسپورٹ سِسٹم کا نہ ہونا ہے۔ جس دارالحکومت میں پبلک ٹرانسپورٹ سِسٹم کا فقدان ہے وہ غالباً صرف اسلام آباد کا دارالحکومت ہی ہے۔ ویسے ایک دفعہ میں نے کسی غیرملکی TV چینل پر بچوں کے پروگرام میں پوچھا جانے والا ایک سوال سنا تھا جس میں پوچھا گیا تھا کہ دنیا کا وہ کون سا دارالحکومت ہے جس کا نہ ہی اپنا ہوائی اڈہ ہے اور نہ ہی ریلوے اسٹیشن۔ صحیح جواب تھا اسلام آباد۔ مجھے اس وقت احساس ہوا تھا کہ ہم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں اور دوسرے ملکوں کے لوگ ہمیں کیا سمجھتے ہیں۔
ہمیں شاید اب بھی اس بات کا پورا احساس نہیں ہوا کہ جس رفتار سے نئی گاڑیوں اور موٹروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ، نئے نئے ماڈل نئی اور پرانی گاڑیوں کے پرزے نہ صرف بن رہے بلکہ درآمد بھی ہو رہے ہیں، اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو کچھ ہی عرصہ کے بعد سڑکوں پر موٹریں ڈرائیو کرنا اور گاڑیوں میں سفر کرنا ایک عذاب کی شکل اختیار کرے گا جو بڑی بھیانک صورت حال ہوگی ۔ اس سے بھی زیادہ بھیانک صورت حال یہ ہے کہ اس سلسلے میں ابھی سوچنا بھی شروع نہیں کیا گیا۔ لاہور میں سار ے اعتراضات اور الزامات کے باوجود میٹرو بس سروس نے پبلک ٹرانسپورٹ سِسٹم کی افادیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ ملک کے باقی ماندہ شہروں کے اندر بھی اس جانب ہنگامی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
سنگاپور ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا کل رقبہ جب میں وہاں تھا لالو کھیت کے رقبہ کے برابر تھا۔ اس زمانے میں سنگا پور کی حکومت ملائشیاء سے مٹی لا لا کر سنگاپور کے ساحلوں پر ڈال ڈال کر اپنے ملک کا خشک رقبہ بڑھا رہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب کیا صورت ہے اور کس قدر زمینی رقبہ سمندر کے پانیوں پر حاصل کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ فی انچ ارب پتی لوگوں کی تعداد سنگاپور میں ہے۔ اس کے باوجود وہاں پر موٹر کاروں کی ایک مخصوص تعداد رکھی جاتی ہے تاکہ تھوڑے رقبے کے باعث ٹریفک کا نظام مفلوج نہ ہونے پائے۔ یعنی دیکھا آپ نے کہ ہم لوگوں کی نسبت حد درجہ دولت مند ہونے کے باوجود سنگاپور کے امیر لوگ بھی ذاتی موٹر گاڑیاں صرف اس لیے نہیں رکھتے تاکہ ٹریفک کا نظام بگڑنے نہ پائے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ سِسٹم اس قدر کارآمد اور مفید ہے کہ اپنی گاڑی رکھنے کی سکت ہونے کے باوجود اپنی گاڑی نہ رکھنے کا کوئی گلہ نہیں کرسکتا کیونکہ جن لوگوں کے پاس گاڑیاں ہیں ان پر طرح طرح کے پارکنگ ٹیکس بھی لگائے جاتے ہیں تاکہ دوسروں کی حوصلہ شکنی ہو۔ یہ سب کام اور کارروائیاں بہتر قومی مفاد میں کی جاتی ہیں اور ان تمام اقدامات کو سنگاپور کے تمام لوگ خوش دلی سے قبول کرتے ہیں۔
صرف سنگاپور پر ہی بس نہیں ہے بلکہ پورے یورپ کے تمام ملکوں میں آپ سفر کرکے دیکھ لیں۔ اس قدر پرانے اور اس قدر ترقی یافتہ ہونے کے باوجود گاڑیوں کی تعداد یا ٹریفک ہم جیسے غریب اور پس ماندہ ملک کی نسبت بہت کم ہے۔ اس کی واحد وجہ بھی یہی ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ سِسٹم اس قدر موثر اور کارآمد اور با سہولت ہے کہ لوگوں کو اس کے استعمال میں زیادہ بہتری نظر آتی ہے۔
مندرجہ بالا صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرا غور کریں کہ لوگ کتنا پٹرول جو خطیر زرمبادلہ خرچ کرکے در آمد کیا جاتا ہے سڑکوں پر ٹریفک جام میں کھڑے کھڑے پھونک دیتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں اسکول کے بچوں کے لیے اسکول کی بسیں چلتی ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں متمول گھرانے کے بچوں کے لیے گاڑیوں کی جو تعداد محض اسکول لیجانے اور اسکول سے لانے کے لیے مخصوص اوقات میں استعمال ہوتی ہے اس کے اوپر خرچ کیا جانے والا پٹرول سوائے ملکی دولت کے زیاں کے اور کچھ نہیں کبھی غور کیا کہ آج ہم جس صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں یا پھر اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہم سب کا اللہ رسول کو ماننے کے باوجود صرف اور صرف دولت کا پچاری ہونا ہے۔ ہم نے ہر چیز کا معیار دولت کو ہی بنا لیا ہے۔
دولتمند ہی عقلمند بھی ہے دولتمند ہی عزت دار اور شریف بھی ہے دولت مند ہی خاندانی بھی ہے۔ اور جو کچھ بھی ایک بڑے آدمی کو ہونا چاہیے اس کے لیے دولتمند ہونا ہی بنیادی شرط ٹھہر گیا ہے۔ اب جب ہر چیز کا معیار دولت ہی ٹھہر گیا ہو تو اس کا انجام وہی ہوگا جو ہو رہا ہے یعنی ہر شخص اور ہر خاندان اس کوشش میں ہے کہ دوسروں پر باور کرا سکے کہ وہ بھی دولت والا ہے۔ ظاہر ہے اس قسم کے تاثرات قائم کرنے کے لیے قیمتی سے قیمتی گاڑی میں سفر کرنا یا کسی بھی قسم کی گاڑی میں گھومنا پھرنا ایک آسان اور واضح طریقہ ہے جو مطلوبہ نتائج کا حامل ہوتا ہے لوگ قرضے لے کرگاڑیاں خریدتے ہیں تاکہ بھرم قائم رہے اس بھرم نے حقیقت میں ہمیں کنگال کردیا ہے ہم اندر سے کھوکھلے ہوچکے ہیں۔ ایک دوسرے کا اعتماد کھوچکے ہیں کیونکہ ہم نے جس شاخ پر آشیانہ بنانے کا پروگرام بنایا وہ شاخ ہی نازک تھی۔ غالباً اسی لیے ناپائیداری ہمارا مقدر بن گئی ہے اور ہم گرنے کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں۔
بات یہ ہے کہ گرنا نہیں چاہتے اگر ہم گرگئے تو پھر اٹھ نہیں سکیں گے دوسرے لوگ اوروں کو گرتا دیکھ کر سنبھل جاتے ہیں ہم کس قدر بدنصیب ہیں کہ خود ٹھوکریں کھانے کے باوجود نہیں سنبھل رہے۔ آخر ہم کیا چاہتے ہیں کیا ہماری کوئی سوچ نہیں ہے کیا ہم بالکل ہی ناکارہ ہوچکے ہیں کیا ہمارے ارادے ختم ہوچکے ہیں کیا ہماری تمنائیں غرق ہوگئی ہیں یا ہم مایوس ہوچکے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جب مایوسی شروع ہوتی ہے تو صلاحیتیں ختم ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور صلاحیتوں کا ہوتے ہوئے ختم ہونا بہت بڑا ظلم ہوگا۔ خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ آمین