ساف فٹبال چیمپئن شپ قومی ٹیم توقعات کے بوجھ سے آزاد

فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے اور پاکستان میں بھی اس کھیل سے لگاؤ رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔

قومی فٹبال ٹیم توجہ کی کمی اور ناقص حکمت عملی کے باعث کی عالمی مقابلوں میں قابل ذکر کارکردگی دکھانے سے قاصر رہی ہے۔ فوٹو : فائل

فٹبال دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے، پاکستان میں بھی اس سے لگاؤ رکھنے والوں کی کمی نہیں لیکن گراس روٹ سطح پر توجہ کی کمی اور ناقص حکمت کی وجہ سے گرین شرٹس عالمی مقابلوں میں قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں، چند مخصوص علاقوں سے سامنے آنے والے چند فٹبالرز پر مشتمل قومی ٹیمیں اپنا وجود منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں، ایشیائی سطح کے مقابلوں میں کبھی کبھار بہتر پرفارمنس سامنے آجائے تو بھی شائقین اسے غنیمت سمجھتے ہیں۔

پاکستان فٹبال فیڈریشن کا قیام 5 دسمبر 1947 کو عمل میں آیا، قائداعظم محمد علی جناح پہلے پیٹرن انچیف بنے، 1948 میں فیفا کا رکن بننے کے بعدگرین شرٹس نے پہلا بین الاقوامی میچ 1950 میں ایران کے خلاف کھیلا جس میں 5-1 سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی ٹیم نے اپنی پہلی انٹرنیشنل کامیابی اسی سال سری لنکا کے خلاف حاصل کی جبکہ روایتی حریف بھارت کو زیر کرنے کے لیے 9 سال تک انتظار کرنا پڑا۔

پاکستان ٹیم کے عروج کا دور 1954 سے 1958 تک کہا جاسکتا ہے، کھیل میں دنیا کی سپر پاوررز کے مقابلے میں اترنے کی منزل تو کوسوں دور رہی، تاہم گرین شرٹس نے کم ازکم ایشائی سطح پر اپنا ریکارڈ ضرور بہتر کیا، قومی ٹیم نے سری لنکا میں ہونے والے کولمبو کپ میں ایک بار چیمپئن اور دوسری مرتبہ رنرز اپ رہنے کا اعزاز حاصل کیا، بعد ازاں ملائیشیا میں شیڈول ملایا کپ میں تھائی لینڈ، جاپان اور انڈونیشیا جیسی اچھی ٹیموں کو زیر کرنے سے کھلاڑیوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا، مشرقی پاکستان کی 1971 میں علیحدگی کے بعد ٹیم کئی باصلاحیت بنگالی کھلاڑیوں کی خدمات سے محروم ہوگئی جس کے نتیجے میں کارکردگی متاثر ہوئی۔

پاکستان تاریخ میں کبھی بھی ایشین گیمز یا ورلڈ کپ کیلیے کوالیفائی نہیں کرسکا، فیفا رینکنگ میں قومی ٹیم 1994 میں بہترین پوزیشن 141 پر پہنچی مگر اس کے بعد مسلسل زوال کا ایک ایسا سفر شروع ہوا جو رکنے کا نام نہیں لے رہا، گرین شرٹس موجودہ رینکنگ میں167 ویں نمبر پر ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں فٹبال کا کھیل بام عروج پر پہنچ چکا، یورپ اور لاطینی امریکہ کے فٹبالرز اپنی تکنیک میں کئی طرح کی تبدیلیاں لاکر اسے انتہائی دلچسپ اور شائقین کے لیے تفریح کا بھرپور ذریعہ بنا رہے ہیں،کروڑوں پرستار کھلاڑیوں کی ایک ایک ادا پر داد دیتے نظر آتے ہیں،مختلف کلبز کا اثاثہ سمجھے جانے والے فٹبال سٹارز کا شمار دنیا کے مہنگے ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان میں ایک طرف تو اس کھیل کو گراس روٹ سطح پر بری طرح نظر انداز کیا گیا، دوسری طرف اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، ہمارے ہاں کھیل سے لگاؤ رکھنے والے بھی موجود ہیں اور کوشش کی جائے تو ٹیلنٹ تلاش کرنا بھی ناممکن نہیں،کئی باصلاحیت کھلاڑی ایسے ہوں گے جنہیں مناسب رہنمائی فراہم کی جائے تو مستقبل میں بتدریج بہتری لانے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے۔

کے پی کے، بلوچستان اور کراچی کے علاقے لیاری میں فٹبال کے حوالے سے نوجوانوں میں بے حد شوق پایا جاتا ہے جسے ملک بھر میں پھیلانے کی ضرورت ہے، یہ امر بھی دلچسپی اور اہمیت کا حامل ہے کہ مقامی سطح کے فٹبال مقابلوں کو دیکھنے کے لیے عوام کا جم خفیر موجود ہوتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں بھی دیگر ملکوں کی طرح کھیل کو بے حد پسند کیا جاتا ہے،اس مقبولیت کو پروان چڑھانے، ٹیلنٹ پر توجہ دینے اور اسے نکھارنے کیلیے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔


فٹبال کے فروغ کے لیے ابتدائی مراحل میں ملک بھر میں میدانوں کی تعداد میں اضافہ اور گراس روٹ لیول پر انفراسٹرکچر کو بہتربنانا ہوگا۔ پاکستان میں فٹبال کے چند ہی گراؤنڈز ہیں، کرکٹ ٹیم کی چند گراں قدر کامیابیوں نے دیگر کھیلوں کی طرح فٹبال کو بھی بہت متاثر کیا ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ فٹبال کے کرتا دھرتا افراد کو کھیل کا حقیقی خادم بنانے کے لیے درست اقدامات اٹھائے، مناسب سہولیات کی فراہمی سے رونالڈو، میسی، کاکا اور ڈروگبا کے مداح ہزاروں نوجوانوں کو خود بھی اس کھیل میں نام بنانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔

گرین شرٹس ساف فٹبال چیمپئن شپ میں شرکت کے لیے نیپال میں موجود ہیں، ٹیم کی قیادت کے آر ایل کلب کے سٹرائیکر ثمر اسحاق کے سپرد ہے، ٹیم کو 5 ایسے پاکستانی نژاد کھلاڑیوں کی خدمات بھی حاصل ہیں جو مغربی کلبوں کی بھی نمائندگی کررہے ہیں، ڈیفینڈر ذیشان رحمان انگلش کلب فلہم کے سینٹر بیک رہ چکے ہیں آج کل وہ ہانگ کانگ کے کلب کیچی کی طرف سے کھیلتے ہیں، گول کیپر یوسف بٹ ڈینش کلب گولسٹرپ کے اہم رکن ہیں، ان کے بھائی ڈیفینڈر یعقوب بٹ اسی ملک کے سکوشویڈ ایف سی کی جانب سے کھیلتے ہیں، سٹرائیکر حسن بشیر ڈنمارک کلب فریمڈ اماگر کا حصہ ہیں، ایک اور پلیئر مڈفیلڈر عدنان احمد انگلش کلب ڈرائلسڈن کی طرف سے کھیلتے ہیں۔

ساف چیمپئن شپ میں شرکت سے قبل گرین شرٹس افغانستان کے خلاف واحد میچ کابل میں کھیل چکے جس میں انہیں 3 گول سے شکست کا صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا۔کھٹمنڈو پہنچنے کے بعد پریکٹس میچ میں پاکستان کیلیے نیپالی انڈر 19 ٹیم بھی وبال جان بن گئی، اور مقابلہ ایک، ایک گول سے ڈرا ہوا۔ تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو پاکستان ٹیم کبھی ساف فٹبال چیمپئن شپ میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرسکی، گرین شرٹس 1993 سے شروع ہونے والے جنوبی ایشیا ایونٹ کے 9 ایڈیشن میں صرف 1997ء اور2005ء میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

ہفتہ کے روز شروع ہونے والے ایونٹ کے گروپ مقابلوں میں پاکستان کو سخت حریفوں بھارت، نیپال اوربنگلہ دیش کا سامنا ہے۔ ایونٹ میں شریک افغانستان ٹیم اس وقت فیفا رینکنگ میں139 ویںپوزیشن پر ہے، بھارت کا نمبر 145 واں، مالدیپ کا153، بنگلہ دیش کا 158واں ہے۔

صرف سری لنکا، نیپال اور بھوٹان ہی وہ ٹیمیں ہیں جو عالمی رینکنگ میں پاکستان سے کمتر ہیں۔ ٹیم کی حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے رواں ایونٹ میں کسی بڑی کامیابی کی امیدیں رکھنا حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا، نومنتخب کوچ شاملان بھی کسی بڑے دعوے سے گریزاں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ ضرور موجود ہے تاہم چند دنوں میں ہی کارکردگی میں نکھار لانا ممکن نہیں، پلیئرزکیساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے میں وقت لگے گا، 6 ماہ بعد ہی پرفارمنس میں بہتری لانے کی نوید سنائی جاسکتی ہے۔

یاد رہے کہ ایونٹ میں پاکستان ٹیم کو آج روایتی حریف بھارت کا چیلنج درپیش ہوگا، گرین شرٹس 3 ستمبر کو میزبان نیپال کے مقابل ہوں گے، 5 ستمبر کو بنگلہ دیشی دیوار سامنے ہو گی۔ ہر گروپ کی 2 ٹاپ ٹیموں کو سیمی فائنل میں رسائی کا پروانہ ملے گا، فائنل فور مقابلے8 جبکہ فیصلہ کن معرکہ11 ستمبر کو شیڈول ہے۔
Load Next Story