قومی کھیل کو نئی زندگی دینے کے لیے انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے

پاکستان ہاکی میں آپریشن کلین اپ ضروری ہو گیا۔


Mian Asghar Saleemi September 01, 2013
حریف ٹیموں سے ڈرنے یا گھبرانے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر مقابلہ کرنے والے کھلاڑی ہی فتح کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ فوٹو : فائل

ڈاکٹر مجاہد کامران ایشیا کے چند بڑے تعلیمی اداروں میں سے ایک پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں، بظاہر سیدھی سادھی نظر آنے والی یہ شخصیت علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے، استدلال سے بھرپور ان کے لیکچرز سننے والوں کے دل میں گھر کر جاتے ہیں، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا تھا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کسی بحث میں شریک ہوں تو شرکاء ان کے فن خطابت، عقل وذہانت اور فہم و فراست کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

انہوں نے رمضان المبارک میں پاکستان ہاکی ٹیم کے اعزاز میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا، کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے ڈاکٹر صاحب اپنی نشست سے اٹھے اور بولتے ہی چلے گئے۔ ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ حاضرین کے دل میں اتر رہا تھا۔ خطاب کے بعد راقم کو ڈاکٹرصاحب کے ساتھ بالمشافہ گفتگوکا موقع میسر آیا، اس بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ کھیل ہار جیت سکھاتا ہے، اگر آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تو کامیابی و کامرانی بھی ضرور آپ کا مقدر بنے گی۔ ان کے مطابق ایونٹس کے دوران حریف ٹیموں سے ڈرنے یا گھبرانے کی بجائے ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر مقابلہ کرنے والے کھلاڑی ہی فتح کے حقدار ٹھہرتے ہیں۔ڈاکٹر مجاہد کامران کی عقابی نگاہوں نے اسی وقت بھانپ لیا تھا کہ ہاکی کا سنہری دور واپس لانے کے لئے گرین شرٹس کوماہر کوچز کے ساتھ ماہر نفسیات کی بھی ضرورت ہے۔

جمعہ کو پاکستان ہاکی ٹیم سیمی فائنل میں جنوبی کوریا سے ہار کر نہ صرف ایشیا کپ بلکہ ورلڈکپ کی دوڑ سے باہر ہوئی تو ڈاکٹر مجاہد کامران کی گفتگو فلم بن کر میری آنکھوں کے سامنے چلنے لگی۔ بلاشبہ چار بار کی عالمی چیمپئن ٹیم کا 42سال بعد میگا ایونٹ میں شرکت سے ہی محروم رہ جانا قومی ہاکی کے لئے بہت بری خبر ہے۔ میرے رفقاء کار کہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم مقابلوں سے پہلے ہی عالمی کپ سے باہر ہو گئی، ہاکی کا جنازہ نکل گیا۔

میرا ان کو جواب تھا کہ ہم قوم ہی نہیں نظر آتے تو قومی کھیل کی شکست پرماتم کیوں اور کس لئے کریں ؟ ہم نے پہلے کون سے کارنامے سر انجام دیئے، یادے رہے ہیں جو پاکستان ہاکی ٹیم نہیں دے سکی؟ ہماری ترجیحات تو حب الوطنی کی بجائے ذاتی فائدے بن چکے ہیں۔ لوٹ مار کرپشن، بیروزگاری، مہنگائی، بم دھماکوں، لوڈشیڈنگ اور سیلابوں نے ہمیں ذہنی طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔ ہمارے ملک کی سکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ ایک شخص اسلام آباد کی ایک معروف سڑک کنارے کھڑے ہو کر پانچ گھنٹے تک پورے ملک کو یرغمال بنا کر رکھتا ہے اور ہمارے سکیورٹی ادارے بے بسی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔

موجودہ ملکی حالات میں پوری قوم کی طرح ہماری ہاکی ٹیم بھی نفسیاتی دباؤ کا شکارہے۔ ورلڈکپ کی دوڑ سے بھی باہر ہونے کی ذمہ داری یقینی طور پر کھلاڑیوں کے ساتھ ٹیم مینجمنٹ پر بھی عائد ہوتی ہے جو حقیقی معنوں میںپلیئرز کے مسائل کو سمجھ کر انہیں ورلڈ ہاکی سیریز کے بعد ایشیا کپ کے لئے بھی تیار نہ کر سکی۔ اس موقع پر نہ جانے کیوں مجھے پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اور منیجر بریگیڈیئر عاطف یاد آ رہے ہیں۔ 1960ء روم اولمپکس، 1968ء میکسیکو اولمپکس اور 1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس کے فاتح کھلاڑی اور منیجر ہر بڑے ایونٹ میں اہم میچ سے قبل کھلاڑیوں میں جیت کا جذبہ اور کامیابی کی تڑپ پیدا کرنے کے لئے انہیں جذباتی انداز میں خطاب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ '' میرا یا اپنا نہیں پوری قوم کا خیال رکھنا، ان کروڑوں ہم وطنوں کو مایوس نہ کرنا جو ریڈیو اور ٹی وی کے سامنے ایک آس لے کر بیٹھے ہیں۔

یاد رکھو کہ میچ کے اختتام کے بعد شائقین کو یہی کہنا چاہیے کہ تم نے بہترین کھیل پیش کیا اور یہ کہ ہار جیت خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بطور کھلاڑی، کپتان، منیجر اور سیکرٹری پی ایچ ایف ذمہ داریاں نبھانے کے دوران گرین شرٹس کی عالمی سطح پر کامیابیوں کا گراف سب سے اوپر رہا۔ ہاکی کے فلاسفر، سمندر اور دیوتا کے خطابات پانے والے بریگیڈیئر عاطف کھیل کے ساتھ ساتھ اپنی ماں سے بھی بے پناہ محبت کرتے۔ جب وہ میدان میں ہوتے تودھرتی ماں کے ساتھ اپنی والدہ کے لبوں پر سجی دعاؤں کو بھی ذہن مین رکھتے اور میچ کے دوران ہر مشکل وقت میں لاشعوری طور پر اپنی ماں سے باتیں کرنے لگتے ''ماں میچ پھنسا ہوا ہے''، ''ماں گول نہیں ہو رہا''، ''ماں یہ میچ جیتنا ہے'' جیسی باتیں ان کے دل ودماغ میں گردش کرتیں، دیکھتے ہی دیکھتے کھیل کا نقشہ بدلنے لگتا۔

مشکلات آسانیوں میں تبدیل ہونے لگتیں، گول ہونے لگتے اور ہارا ہوا میچ فتح میں تبدیل ہو جاتا۔ سوچنے کی بات ہے کیا پاکستان ہاکی ٹیم سمیت دوسرے کھیلوں سے وابستہ کتنے کھلاڑی ایسے ہیں جو میچ کے دوران وطن اور اپنی کھیل سے محبت کا ایسا جذبہ لے کر میدان میںمیں اترتے ہیں؟ وہ تو اس وقت بھی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کامیابی کی صورت میں کتنے ڈالرز ہمارے ہاتھ آئیں گے، غیر ملکی لیگز اور کلبوں کے ساتھ معاہدوں کی صورت میں کتنے ڈالرز اور پاؤنڈز ان کے بینک اکاؤنٹس کی رونق بڑھائیں گے۔

کھلاڑیوں کی طرح یہی حال ہماری حکومتوں کا بھی ہے، طاقت کے نشے میں چور ہمارے حکمرانوں کو لوٹ مار اور کرپشن سے اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ ملکی سپورٹس کی بہتری کے لئے سوچتے پھریں، حالانکہ ماضی میں جب بھی قومی ٹیمیں بڑے ایونٹس میں شرکت کے لئے جاتیں تو کھلاڑیوں کے حوصلے بڑھانے کے لئے سربراہ مملکت انہیں خود الوداع کہتا اور جیت کی صورت میں ان کے اعزاز میں پروقار تقریبات کا اہتمام کیا جاتا جس میں پلیئرز کو انعام وکرام سے نوازا جاتا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ہمارے حکمران ٹیموں کو انعامی رقوم دینے کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن ان کے کئے گئے وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے۔محمد آصف نے عالمی سنوکر بن کر قوم کو عرصہ بعد اتنی بڑی خوشی دینے کا کارنامہ سر انجام دیا، صوبائی حکومتوں نے انہیں انعامات دینے کے لئے بیانات کا خوب مقابلہ کیا مگر ایک پائی بھی ان کے ہاتھ نہ آئی۔



ہمیں یہ ماننا اور تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایک ٹیم کی عمر اورکھلاڑی کے کھیلنے کی استعداد تقریباً دس برس ہوتی ہے، اس سے زیادہ استفادہ محض اضافی بونس ہو سکتا ہے۔ 1948ء میں پاکستان نے پہلی بار بین الاقوامی سطح پر ہاکی مقابلوں میں حصہ لیا اور پہلی باقاعدہ ٹیم نے صحیح صورت اختیار کرنے میں 10 برس کا عرصہ لیا۔ دس سال بعد1958 ء میں پاکستان نے پہلی بار ٹوکیو میں ایشین چیمپئن شپ جیتی۔ صرف 2 برس کے بعد جب 1960ء میں پاکستان نے روم اولمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کیا تو اس میں 1948ء کی قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے صرف ایک کھلاڑی میجر حمیدی شامل تھے، باقی تمام پلیئرز کھیل کو خیر باد کہہ چکے تھے۔

1962ء میں جب بریگیڈیئر منظور حسین عاطف کی قیادت میں پاکستان نے جکارتہ ایشین گیمز میں بھارت کو شکست دے کرگرینڈ سلام مکمل کیا تو اس ٹیم میں 1948ء کی ٹیم کا ایک بھی کھلاڑی شامل نہ تھا۔ 1958ء کے دس سال کے بعد1958ء میں پاکستان نے میکسیکو اولمپکس میں میں طلائی تمغہ جیتا تو اس میں بھی گزشتہ عشرہ میںکھیلنے والا کوئی کھلاڑی موجود نہ تھا۔ 1969ء میں نوجوان کھلاڑیوں کو تلاش کرنے کے لئے اوپن ٹرائلز ہوئے اور ابتدائی طور پر 200کھلاڑی منتخب ہوئے۔ اس کے بعد مقابلوں کا دوسرا مرحلہ ہوا تو منتخب کھلاڑیوں کی تعداد 100 رہ گئی اور تیسرے مرحلے میں 60 کھلاڑی منتخب ہو گئے۔ ان کھلاڑیوں کی 2ٹیمیں اے اور بی تشکیل دی گئیں، 1969ء میں جب لاہور ہاکی فیسٹول انٹرنیشنل منعقد ہوا تو اس عالمی میلے میں بھی پہلی اور دوسری پوزیشن لینے والی پاکستانی کی سینئر اور جونیئر ٹیمیں تھیں۔

بعدازاں انہیں کھلاڑیوں میں شامل پلیئرز نے 1970ء کی بنکاک ایشین گیمز اور اور 1971ء کے بارسلونا ورلڈ کپ اور 1972ء کے میونخ اولمپکس میں شاندار کارکردگی دکھائی۔1968ء کے دس سال کے بعد 1978ء میں بھی پاکستان نے ورلڈ کپ میں گولڈ میڈل حاصل کیا ، اس کے بعد پہلی چیمپئنز ٹرافی میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور اس برس کے آخر میں اصلاح الدین کی قیادت میں پاکستان ہاکی ٹیم نے بنکاک میں بھارت کو شکست دے کر ایک بار پھر ایشیائی چیمپئن شپ جیت لی۔اس کے بعد1992 ء میں بھی گرین شرٹس نے بارسلونا اولمپکس میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا اور اس کے بعد یہ اولمپکس میں پاکستان کا آخری میڈل بھی ثابت ہوا ہے۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ 1994ء کے ورلڈ کپ کا تاج سر پر سجانے کے بعد مستقبل کی تیاری کے لئے دس سالہ تھیوری پر غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی جس کے بعد مایوسیاں اور ناکامیاں گرین شرٹس کا مقدر بن گئیں۔ عالمی مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کے خلاف میدان میں اترنے سے قبل ہی ہمت ہارنے والی ٹیمیں آج ہمیں آنکھیں دکھاتی ہیں، ان کے مقابل کھیلتے ہوئے ہماری حکمت عملی اس طرح ناکام ہوتی ہے جیسے گرین شرٹس کھیلنے کا ہنر ہی بھول گئے ہوں۔ملائیشیا میں جاری ایشیا کپ کے لئے ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا گیا جو ماضی میں بھی گرین شرٹس کی ناکامیوں کا سبب بنتے رہے ہیں۔

ایشیاکپ میں ہار کے بعد چلے ہوئے کارتوسوں سے جان چھڑا نے کا وقت آگیا ہے، ٹیم میں آپریشن کلین اپ کرتے ہوئے نئے خون کو آگے آنے کا موقع دیا جائے، جونیئرز کو تسلسل کے ساتھ بین الاقوامی دوروں پر بھیج کر کھلاڑیوں کی خوبیاں اور خامیاں نوٹ کرنے کے بعد ان پر سائنسی بنیادوں پر کام کیا جائے، تازہ دھچکے کے بعد اب تیر بہدف نسخہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، طویل مدت کے لئے پلاننگ کئے بغیر رسوائی کی اس کھائی سے نکلنا ممکن نہیں ہو گا۔ شائقین کھیل کی طرح راقم کا دل بھی خون کے آنسو رو رہا ہے لیکن کیا ہمیں یہ فرض کر لینا چاہیے کہ ورلڈ کپ سے باہر ہونے کے بعد سب کچھ ختم ہو گیا؟ تو جواب سیدھا سادا ہے کہ نہیں ہر گز نہیں، رات جتنی اندھیری، تاریک اور سیاہ ہوتی ہے، اس کی صبح اتنی ہی روشن اور امید افزاء ہوتی ہے اور شائقین ہاکی کو بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور ہمارے مذہب نے بھی ہمیں اس بات کا سبق دیا ہے کہ مایوسی گناہ ہے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں