خیبر بینک کا کیا بنا
کم از کم ان سیاحوں اور ہوٹل انڈسٹری کا لحاظ رکھ کر خیبر بینک کی برانچ کھول دی جائے
ابھی فیس بک پر کالام کے دوست کی آہ و بکا والی پوسٹ پڑھنے کو ملی، جس میں بینک کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ذلیل و خوار ہونے کی داستان بیان کی گئی تھی۔ یقیناً یہ ایک انتہائی بڑا مسئلہ ہے جو ہمارے منتخب نمائندوں نے مکمل طور پر پس پشت ڈال دیا ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں مظفر سید جوکہ وزیر خزانہ تھے، کالام میں ایک جلسے میں وعدہ کرچکے تھے کہ آپ کےلیے خیبربینک بنائیں گے۔ جب جب جلسہ ختم ہوا، تو پھر رات گئی بات گئی۔
مہینوں انتظار کرتے رہے مگر نہ کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا اور نہ کسی نے ان سے پوچھنے کی جسارت کی۔ بعد میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق جب کالام گئے تو کالام پریس کلب کے دوستوں کے ساتھ چند اہم مسائل لے کر ان کے پاس گئے۔ جب میں نے ان سے عرض کیا کہ سراج صاحب آپ ہی کی پارٹی کے وزیر خزانہ مظفرسید نے خیبربینک کا وعدہ کیا تھا، مگر کئی مہینے گزرنے کے باجود نہ بینک کا کچھ پتا ہے اور نہ ان کا۔ تو ان کا جواب کچھ یوں تھا۔
''کیا یہاں لوگوں کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ بینک میں رکھ سکیں؟''
یہ سوال ان کا بجا تھا اور یقیناً یہاں کے بھوکے ننگوں کا پورے سال کا بجٹ چھوٹے سے پرس میں سما سکتا ہے تو پھر بینک کی کیا ضرورت ہے؟ بہرحال ہم نے اصل وجہ بتائی کہ کالام کی اتنی بڑی ہوٹل نڈسٹری ہے کہ اس کو "ہوٹلوں کا شہر" کہا جاتا ہے۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں جو روزانہ کروڑوں کے حساب سے سیاحت پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ زراعت اور غیرسرکاری و سرکاری اداروں کے الگ مسائل ہیں۔
یہ سب سننے کے بعد سراج الحق صاحب نے اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لیا اور فوری طور پر اسمبلی کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ بعد میں ہمارے تحصیل ناظم حبیب اللہ ثاقب سمیت کئی نمائندگان منت سماجت کےلیے جاتے رہے، مگر خیبرپختونخوا اسمبلی کو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں لگا۔
کالام سے پچاس کلومیٹر دور مدین میں اب دوسرا اے ٹی ایم "بینک آف خیبر" کے بجائے "بینک آف پنجاب " کا کھل گیا، لیکن پختونخوا بینک کی کوئی برانچ تک نہ کھل سکی۔ اس سے قبل "حبیب بینک" کے ساتھ ایک صندوقچہ سا تھا جس پر اے ٹی ایم لکھا تھا، لیکن کبھی اس سے پیسے نکالتے نہیں دیکھے گئے۔ پچھلے دنوں بینک کے ایک افسر سے پوچھا تو کہنے لگے، چھوڑدیں یار! یہ اے ٹی ایم مقامی لوگ خراب کردیتے ہیں، ٹھیک کرتے کرتے تھک گئے۔ اس سے قبل اس بینک کے منیجر نے اس صندوقچے کو بحال رکھا تھا، مگر ان کے تبادلے کے بعد صندوقچے کے ماتھے پر "ناکارہ" کا پوسٹر چسپاں ہے۔
حیرانی تو اس بات پر ہے کہ نجی بینک کاروباری ہوتے ہیں، وہ اپنے کاروبار کو فروغ دینے کےلیے پہاڑی کی چوٹی پر بھی اے ٹی ایم کی ضرورت پڑے، تو بنادیتے ہیں، جیساکہ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں پہاڑوں پر ٹاور نصب کرکے اپنے نیٹ ورک کو پھیلادیتی ہیں۔ لیکن سوات کوہستان کی اتنی بڑی سیاحت، زراعت اور ہوٹل انڈسٹری کے باوجود بھی کسی نجی بینک نے یہاں اپنی برانج کھولنے کی ہمت نہیں کی۔
چلیے! دیگر بینکوں کا اپنا ذاتی کاروبار ہے، فروغ دینا ہے یا زوال دینا ہے، لیکن خیبر بینک پر تو پورے صوبے کا حق ہے۔ جب اپر دیر میں بن سکتا ہے، جب دیگر پہاڑی علاقوں میں بن سکتا ہے تو سوات کوہستان میں کیوں نہیں؟
لہٰذا ایک بار پھر عرض کرتے ہیں کہ ہمارے لیے ہماری سائیڈ والی جیب ہی کافی، لیکن کم از کم ان سیاحوں اور ہوٹل انڈسٹری کا لحاظ رکھ کر خیبر بینک کی برانچ کھول دی جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مہینوں انتظار کرتے رہے مگر نہ کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا اور نہ کسی نے ان سے پوچھنے کی جسارت کی۔ بعد میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق جب کالام گئے تو کالام پریس کلب کے دوستوں کے ساتھ چند اہم مسائل لے کر ان کے پاس گئے۔ جب میں نے ان سے عرض کیا کہ سراج صاحب آپ ہی کی پارٹی کے وزیر خزانہ مظفرسید نے خیبربینک کا وعدہ کیا تھا، مگر کئی مہینے گزرنے کے باجود نہ بینک کا کچھ پتا ہے اور نہ ان کا۔ تو ان کا جواب کچھ یوں تھا۔
''کیا یہاں لوگوں کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ بینک میں رکھ سکیں؟''
یہ سوال ان کا بجا تھا اور یقیناً یہاں کے بھوکے ننگوں کا پورے سال کا بجٹ چھوٹے سے پرس میں سما سکتا ہے تو پھر بینک کی کیا ضرورت ہے؟ بہرحال ہم نے اصل وجہ بتائی کہ کالام کی اتنی بڑی ہوٹل نڈسٹری ہے کہ اس کو "ہوٹلوں کا شہر" کہا جاتا ہے۔ یہاں لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں جو روزانہ کروڑوں کے حساب سے سیاحت پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ زراعت اور غیرسرکاری و سرکاری اداروں کے الگ مسائل ہیں۔
یہ سب سننے کے بعد سراج الحق صاحب نے اس معاملے کو بڑی سنجیدگی سے لیا اور فوری طور پر اسمبلی کو آگاہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ بعد میں ہمارے تحصیل ناظم حبیب اللہ ثاقب سمیت کئی نمائندگان منت سماجت کےلیے جاتے رہے، مگر خیبرپختونخوا اسمبلی کو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں لگا۔
کالام سے پچاس کلومیٹر دور مدین میں اب دوسرا اے ٹی ایم "بینک آف خیبر" کے بجائے "بینک آف پنجاب " کا کھل گیا، لیکن پختونخوا بینک کی کوئی برانچ تک نہ کھل سکی۔ اس سے قبل "حبیب بینک" کے ساتھ ایک صندوقچہ سا تھا جس پر اے ٹی ایم لکھا تھا، لیکن کبھی اس سے پیسے نکالتے نہیں دیکھے گئے۔ پچھلے دنوں بینک کے ایک افسر سے پوچھا تو کہنے لگے، چھوڑدیں یار! یہ اے ٹی ایم مقامی لوگ خراب کردیتے ہیں، ٹھیک کرتے کرتے تھک گئے۔ اس سے قبل اس بینک کے منیجر نے اس صندوقچے کو بحال رکھا تھا، مگر ان کے تبادلے کے بعد صندوقچے کے ماتھے پر "ناکارہ" کا پوسٹر چسپاں ہے۔
حیرانی تو اس بات پر ہے کہ نجی بینک کاروباری ہوتے ہیں، وہ اپنے کاروبار کو فروغ دینے کےلیے پہاڑی کی چوٹی پر بھی اے ٹی ایم کی ضرورت پڑے، تو بنادیتے ہیں، جیساکہ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیاں پہاڑوں پر ٹاور نصب کرکے اپنے نیٹ ورک کو پھیلادیتی ہیں۔ لیکن سوات کوہستان کی اتنی بڑی سیاحت، زراعت اور ہوٹل انڈسٹری کے باوجود بھی کسی نجی بینک نے یہاں اپنی برانج کھولنے کی ہمت نہیں کی۔
چلیے! دیگر بینکوں کا اپنا ذاتی کاروبار ہے، فروغ دینا ہے یا زوال دینا ہے، لیکن خیبر بینک پر تو پورے صوبے کا حق ہے۔ جب اپر دیر میں بن سکتا ہے، جب دیگر پہاڑی علاقوں میں بن سکتا ہے تو سوات کوہستان میں کیوں نہیں؟
لہٰذا ایک بار پھر عرض کرتے ہیں کہ ہمارے لیے ہماری سائیڈ والی جیب ہی کافی، لیکن کم از کم ان سیاحوں اور ہوٹل انڈسٹری کا لحاظ رکھ کر خیبر بینک کی برانچ کھول دی جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔