معیشت کی صورتحال پر ورلڈ بینک کی نئی رپورٹ
اگر ہمارے قومی مسیحاؤں کی معاشی ترقی کے بیانات اور دعوؤں کا حوالہ دیں تو صورتحال اندوہ ناک نظر آتی ہے۔
KARACHI:
عالمی معیشت میں سست روی کے باعث ولد بینک نے مالی سال 2019-20 ء کے لیے بین الاقوامی اقتصادی شرح کی نمو میں کمی کردی ہے ، عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں معاشی سست روی کے باعث رواں سال کے دوران عالمی معیشت کی شرح نمو میں کمی کا امکان ہے۔ مالی سال 2018-19 ء کے دوران عالمی معیشت کی شرح ترقی 3 فیصد رہی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی کی رپورٹ کے اجرا کے حوالے سے عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ آیندہ سال ترقی کی پذیر ملکوں میں معاشی استحکام کی توقع ہے تاہم اقتصادی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار رہے گی ،ترقی پذیر ملکوں کی معیشت تجارتی مسائل سے دوچار ہے ،جہاں سرمایہ کاری کی شرح انتہائی کم ہے، امیر ملکوں میں بھی شرح نمو کی رفتار میں کمی دیکھی جاسکتی ہے،عالمی بینک کے صدر نے کہا کہ کہ غربت کے خاتمے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تیز رفتار ترقی ناگزیر ہے۔
یہ عالمی بینک کے صدر کی معروضات ہیں،اگر ہمارے قومی مسیحاؤں کی معاشی ترقی کے بیانات اور دعوؤں کا حوالہ دیں تو صورتحال اندوہ ناک نظر آتی ہے، کوئی حقیقت کا ادراک کرنے کو تیار نہیں،ہر شخص معیشت کے بارے میں اندازوں اور قیاس و امکانات یا وعدوں پر جئے جانے کا مشورہ دے رہا ہے۔
ادھر پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟نواز شریف ملک کے منتخب وزیراعظم تھے، سلیکٹڈ نہیں تھے۔ سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ معیشت تباہ ہو رہی ہے اور مہنگائی سے عوام پریشان ہیں۔اپوزیشن بجٹ کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔عوام میں بجٹ پر بوجھ ڈالا گیا تو خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
سید خورشیداحمد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدے ہوئے ہیں وہ خطرناک ہیں، بجٹ میں زیادہ نہیں سی ای سی اجلاس میں آیندہ کے لائحہ عمل کافیصلہ کرنے کی پوری کوشش کریںگے ، اپوزیشن ٹف ٹائم دے گی ، عوام کے اوپر جوبجٹ ایٹم بم کی طرح پھینکاجائیگا اسے ناکام کرینگے، عوام سڑکوں پر نہیں نکلیں گے، یہ حکومت کی خوش فہمی ہے تو انھیں خوش فہمی میں ہی رہنے دیں ۔
واضح رہے میڈیا نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ حکومت ایک نیا اقدام کرنے جارہی ہے، بتایا جاتا ہے کہ آڑھتی کی آمدنی پر ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔ ٹرن اوور پر ٹیکس عائد کیا جائے گا،اس وقت آڑھتی 5 ہزار سے 10 ہزار تک ٹیکس دے رہے ہیں، جولائی تا مارچ صرف 121 ملین روپے ٹیکس ملا، تجاویز کی منطور ی سے 700 ارب ٹیکس حاصل ہوگا۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا کہ تاحال معیشت میں سائنٹیفک بنیادوں پر بحران سے نکلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا،مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ سمیت دیگر مشیران کی کوشش ہے کہ اس گرداب سے معیشت کو کسی نہ کسی طرح نکال لیا جائے تاکہ بجٹ عوام کو اگر زیر بار نہیں کرتا تو اتنا تو ریلیف دے کہ عوام مہنگائی کا عذاب سہنے کے قابل ہوجائیں۔ بہر کیف وقت سخت ہے اور حکومت ''ڈیول اینڈ د ی ڈیپ سی'' کے بیچ پھنسی ہوئی ہے ۔ اسے معاشی ناخداؤں سے امید کی توقع رکھنی ہی چاہیے۔
عالمی معیشت میں سست روی کے باعث ولد بینک نے مالی سال 2019-20 ء کے لیے بین الاقوامی اقتصادی شرح کی نمو میں کمی کردی ہے ، عالمی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں معاشی سست روی کے باعث رواں سال کے دوران عالمی معیشت کی شرح نمو میں کمی کا امکان ہے۔ مالی سال 2018-19 ء کے دوران عالمی معیشت کی شرح ترقی 3 فیصد رہی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ اقتصادی ترقی کی رفتار میں کمی کی رپورٹ کے اجرا کے حوالے سے عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگرچہ آیندہ سال ترقی کی پذیر ملکوں میں معاشی استحکام کی توقع ہے تاہم اقتصادی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار رہے گی ،ترقی پذیر ملکوں کی معیشت تجارتی مسائل سے دوچار ہے ،جہاں سرمایہ کاری کی شرح انتہائی کم ہے، امیر ملکوں میں بھی شرح نمو کی رفتار میں کمی دیکھی جاسکتی ہے،عالمی بینک کے صدر نے کہا کہ کہ غربت کے خاتمے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تیز رفتار ترقی ناگزیر ہے۔
یہ عالمی بینک کے صدر کی معروضات ہیں،اگر ہمارے قومی مسیحاؤں کی معاشی ترقی کے بیانات اور دعوؤں کا حوالہ دیں تو صورتحال اندوہ ناک نظر آتی ہے، کوئی حقیقت کا ادراک کرنے کو تیار نہیں،ہر شخص معیشت کے بارے میں اندازوں اور قیاس و امکانات یا وعدوں پر جئے جانے کا مشورہ دے رہا ہے۔
ادھر پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟نواز شریف ملک کے منتخب وزیراعظم تھے، سلیکٹڈ نہیں تھے۔ سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ معیشت تباہ ہو رہی ہے اور مہنگائی سے عوام پریشان ہیں۔اپوزیشن بجٹ کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔عوام میں بجٹ پر بوجھ ڈالا گیا تو خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
سید خورشیداحمد شاہ کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدے ہوئے ہیں وہ خطرناک ہیں، بجٹ میں زیادہ نہیں سی ای سی اجلاس میں آیندہ کے لائحہ عمل کافیصلہ کرنے کی پوری کوشش کریںگے ، اپوزیشن ٹف ٹائم دے گی ، عوام کے اوپر جوبجٹ ایٹم بم کی طرح پھینکاجائیگا اسے ناکام کرینگے، عوام سڑکوں پر نہیں نکلیں گے، یہ حکومت کی خوش فہمی ہے تو انھیں خوش فہمی میں ہی رہنے دیں ۔
واضح رہے میڈیا نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ حکومت ایک نیا اقدام کرنے جارہی ہے، بتایا جاتا ہے کہ آڑھتی کی آمدنی پر ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے۔ ٹرن اوور پر ٹیکس عائد کیا جائے گا،اس وقت آڑھتی 5 ہزار سے 10 ہزار تک ٹیکس دے رہے ہیں، جولائی تا مارچ صرف 121 ملین روپے ٹیکس ملا، تجاویز کی منطور ی سے 700 ارب ٹیکس حاصل ہوگا۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا کہ تاحال معیشت میں سائنٹیفک بنیادوں پر بحران سے نکلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا،مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ سمیت دیگر مشیران کی کوشش ہے کہ اس گرداب سے معیشت کو کسی نہ کسی طرح نکال لیا جائے تاکہ بجٹ عوام کو اگر زیر بار نہیں کرتا تو اتنا تو ریلیف دے کہ عوام مہنگائی کا عذاب سہنے کے قابل ہوجائیں۔ بہر کیف وقت سخت ہے اور حکومت ''ڈیول اینڈ د ی ڈیپ سی'' کے بیچ پھنسی ہوئی ہے ۔ اسے معاشی ناخداؤں سے امید کی توقع رکھنی ہی چاہیے۔