کامیابی کی دلیل

ہم خود سے کبھی مسلمان بننے کی کوششیں ہی نہیں کرتے۔ اگر ایسا کریں تو پتہ چلے گا کہ سب سے زیادہ آسان کام مسلمان بننا ہے۔


Moosa Raza Afandi June 09, 2019
[email protected]

آج کل علم اتنا پھیل چکا ہے کہ چند دہائیاں پہلے تک علم کی اس قدر وسعت کا تصور بھی محال تھا یہ بات کبھی وہم و گمان میں بھی نہ آئی تھی کہ بچے بڑوں سے زیادہ جاننے لگ جائیں گے۔ یہاں تک کہ بڑوں کا تجربہ ان کے علم کے آگے ہیچ ہو جائے گا۔ بڑے چاہیں گے بھی تو اپنے بچوں سے آگے نہیں بڑھ پا سکیں گے۔

اسٹیفن ہاکنگ جیسا سائنسدان جس نے گردن سے نیچے سارے دھڑ کی معذوری کے ساتھ ایک وہیل چیئر پر زندگی کے پچاس سال گزار دیے بیسویں صدی سے پہلے کی انسانی تاریخ پیدا نہیں کر سکی۔ کس طاقت نے اسے پچاس سال تک وھیل چیئر پر مرنے نہیں دیا؟ کس تگ و دو نے اسے زندہ رکھا؟ کون سی امید تھی کہ اسٹیفن ہاکنگ اتنی طویل مدت تک حوصلہ نہ ہارا؟۔ اس کی کیا تحقیق تھی؟ کون سی نئی بات اس نے دریافت کی؟ کون سی ایجاد کا سہرا اس کے سر رکھا گیا؟

ان باتوں کا تعلق میرے آ چکے کالم سے نہیں۔ میں صرف وہ بات جاننا چاہتا ہوں کہ کس چیز کے جس کے باعث وہ اپنے اردگرد رنگ برنگی دنیا کی چکا چوند یہاں تک کہ اپنے پیاروں کی موجودگی تک سے بے پرواہ ہو کر پوری یکسوئی کے ساتھ پورے پچاس سال تک ایک وہیل چیئر پر اپنی تحقیق اور جستجو کرتا رہا۔دنیا کی کوئی ریاضت ' دنگل یا ا کھاڑہ ' فوجی تربیت' دینی مشکلات اور مشقتیں جن میں سالوں تک ٹھنڈے پانیوں میں کھڑے رہنا' جنگلوں ' بیابانوں اور پہاڑوں کی خاموشیوں کو سہہ جانا' غاروں کی تاریکیوں سے باہر نہ نکلنا' تن تنہا سمندروں کو پار کرنا یا اکیلے دنیا کا فضائی سفر اختیار کرنا کیا اس عزم ہمت اور حوصلے کی برابر ی کر سکتا ہے جس کا مظاہرہ اسٹیفن ہاکنگ نے ایک وہیل چیئر پر پچاس سال گزارے کیا؟ نہیں ہرگز نہیں۔ کیوں؟

اس لیے کہ جن لوگوں کا مقابلتاً سرسری طور پر ذکر ہوا انھوں نے اپنے اپنے کار ہائے نمایاں مکمل جسمانی صحت و تندرستی کے ساتھ انجام دیے ۔ گردن سے نیچے ایک ناکارہ دھڑ کے ساتھ نہیں ۔اب اسی سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ وہ کون سا جذبہ تھا' کون سا حوصلہ تھا' کیسی لگن تھی جس نے اسے مکمل بیچارگی اور جسمانی لاچاری کے باوجود مرنے نہیں دیا؟ ظاہر ہے کہ میں کبھی اسٹیفن ہاکنگ سے نہیں ملا میں نے اسے دیکھا تک نہیں میں تو صرف اس کے مرنے کے بعد اس سے واقف ہوا۔ اس کی مصیبت اور اس کی عظمت سے واقف ہوا۔ پھر میںکیسے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ فلاں وجہ سے یا فلاں صلاحیت کے باعث اپنی معجزاتی زندگی گزارنے میں کامیاب ہوا؟

فارسی کی ایک مشہور مثل ہے ''فکر ہر کس بہ قدر ہمت اوست'' فکر کا یہاں مطلب غور کرنا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آدمی اپنی ہمت اور اسطاعت کے حساب سے غور کرتا ہے۔ آدمی کی زندگی جس پیشے سے بھی وابستہ ہو جائے عام مشاہدہ یہی ہے کہ زندگی کا زیادہ تر حصہ آدمی کی فکر اس کے پیشے سے متعلق ہی رہتی ہے۔ اپنے پیشے کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں ہی آدمی سوچ بچار کرتا رہتا ہے کیوں؟

اس لیے کہ اس کے پیشے کے ساتھ ہی اس کے بیوی بچوں کا مستقبل بندھا رہتا ہے۔ گھر کے اخراجات' رہن سہن کے طور طریقے معاشی اور معاشرتی عروج و زوال سب کا تعلق اس کے پیشے سے ہی وابستہ رہتا ہے۔ گھر کی آمدنی اور اخراجات ہی اس کے بچوں کی دینی سماجی اور اخلاقی اقدار کا تعین کرتی ہے۔ یہ ساری باتیں آدمی کے ذہن اور دماغ کے گرد ایک ایسا حصار کھینچ دیتی ہیں کہ جس سے باہر نکلنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک آدمی اپنی حیثیت' اس کی حقیقت' اس کی افادیت اور خاص کر اس کی مقصدیت پر غور کرنا شروع نہ کرے۔

یہ بات اکثر لوگوں کے لیے اس قدر مفصل ہوتی ہے وہ اسے ناممکن سمجھ بیٹھتے ہیں اور سرسری غور و فکر کے بعد ہر بات کو نصیب کا لکھا سمجھ کر '' جیسا ہوں جہاں ہوں ٹھیک ہوں'' کے تحت زندگی گزار دیتے ہیں۔ ایک عام آدمی کے پاس چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک قوم یا خطے کا باشندہ ہو کوئی چارہ نہیں ہوتا اس میں رنگ و ملک ومذہب عقیدے کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ آدمی کی بدبختی یہ ہے کہ وہ بالکل بھی نہیں جانتا کہ غور و فکر ایک ایسا ایندھن ہے جو اسے بلند ترین مقامات تک پہنچا دیتا ہے۔ وہ مقامات چاہے دنیاوی ہوںیا دینی۔کیا فکر عقائد سے بلا ہوتا ہے؟

بالکل ' سو فیصد فکر کسی بھی قسم کے عقائد سے بلند ہوتا ہے۔ دین مصطفی ﷺ وہ واحد دین مبین ہے جس سے غور وفکر اور مسلسل غور و فکر کے حکم کے ذریعے اپنے خیالات نظریات اور عقائد کو غور وفکر اور دلیل کے ساتھ پرکھنے کی ہدایت جاری کی۔ اس نے خدائے واحد لا شریک کو بھی بلا دلیل نہیں منوایا۔ ''دین میںکوئی جبر نہیں'' کا اعلان کر کے صرف غور و فکر کو کسوٹی بنایا تاکہ مسلمان کبھی گمراہ نہ ہو سکے۔ انسانی فطرت کو دینی احکامات کے تابع رکھا تاکہ آدمی سیدھے راستے پر چڑھ کر اترنے نہ پائے۔

منزل کے حصول کو مقصد نہیں بنایا بلکہ سیدھے راستے پر چلنے کو مقصد بنایا۔منزل تک کون پہنچا اس کا فیصلہ تو آخرت میںہو گا لیکن سیدھے راستے پر کون چلا یہ اس دنیا میں سب کو نظر آ جاتا ہے۔ سیدھا راستہ رحمن کا راستہ ہے اور دوسرا راستہ شیطان کا راستہ ہے۔ دونوں راستے صاف صاف نظر آتے ہیں۔آدمی کو بدبختی یہ ہے کہ وہ اکثردونوں راستوں کو آپس میں خلط ملط کر دیتا ہے ایک کو دوسرے سے ملا کر چلتا ہے جس کے باعث بھٹک جاتا ہے۔اس بھٹکنے سے بچنے کے لیے غور وفکر چاہیے۔ مسلسل غور و فکر چاہیے۔ خود سے غور و فکر چاہیے۔ ہم مسلمان اس لیے ہیں کہ مسلمان گھر میں پیدا ہوئے۔

ہندو اس لیے ہندو ہے کہ ہند و کے گھر میں پیدا ہوتا ہے۔ ہم خود سے کبھی مسلمان بننے کی کوششیں ہی نہیں کرتے۔ اگر ایسا کریں تو پتہ چلے گا کہ سب سے زیادہ آسان کام مسلمان بننا ہے لیکن بدقسمتی سے اتنے آسان کام کو ہم نے خود ہی مشکل ترین کام بنا دیا ہے جو ایندھن اسٹیفن جیکسن کے ہاتھ لگ گیا تھا وہ غور وفکر اور یقین کا ایندھن تھا۔ جب تک ہم مسلسل غور وفکر نہیں کریں گے اچھے مسلمان بھی نہیں بن سکیں گے۔ جب تک ہم اپنی تاریخ پر اپنی روایات پر اپنی اخلاقیات پر اور اپنی ترجیحات پر ہر ہر زاویئے سے غور و فکر نہیں کریں گے-

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں