دشمنوں سے ہوشیار

لگتا ہے سعودی عرب اور خلیجی ممالک پاکستان سے ناراض ہیں۔


عثمان دموہی June 09, 2019
[email protected]

پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والوں میں کئی ممالک شامل ہیں۔ بھارت تو خیر ہے ہی سرفہرست مگر اس سلسلے میں بھارت کی مدد کرنے والے ملک بھی کئی ہیں۔ جن میں برطانیہ نے تو خود ہی اپنی شناخت ظاہرکردی ہے۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل لندن میں ہوا تھا، اب اس قتل کو کئی سال گزر چکے ہیں وہاں کی پولیس کی ذمے داری تھی کہ وہ قاتلوں کو گرفتار کرکے انھیں کیفر کردار تک پہنچانے میں مدد کرتی مگر لندن پولیس تو کیا اسکاٹ لینڈ یارڈ بھی مجرمین کو سزا دلانے کے بجائے ان کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔

اب جب کہ پاکستانی پولیس قاتلوں پر مقدمہ قائم کرچکی ہے اور اب فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے اس آخری مرحلے میں برطانوی پولیس کی مدد کی اشد ضرورت ہے کہ وہ بھی اپنے ثبوت عدالت میں پیش کردے مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے برطانوی حکومت نے اس کیس کے ثبوت پیش کرنے اور مجرمین کو پاکستان کے حوالے کرنے سے صاف انکار کردیا ہے اور بڑی ڈھٹائی سے کہا ہے کہ وہ اس لیے شواہد اور مجرمین کو پیش نہیں کرسکتی کیونکہ قاتلوں کو پاکستان میں پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔

برطانوی حکومت کے اس انکار سے مبصرین یہ نتیجہ اخذکر رہے ہیں چونکہ لندن میں مقیم ایک خاص پاکستانی مہمان اس قتل کی زد میں ہے چنانچہ برطانوی حکومت اپنے اس خاص مہمان کو کسی خاص مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتی، اسی لیے اس نے اس قتل کے سلسلے میں سخت رویہ اختیار کرلیا ہے لیکن سب کو ہی معلوم ہے کہ اس کی ایم آئی سکس اور بھارتی ''را'' مل کر اس خاص مہمان کی حفاظت اور مہمان نوازی پر مامور ہیں کیونکہ وہ ان کے لیے بہت کام کا آدمی ہے۔

کراچی میں گزشتہ تیس برس تک اسی مہمان خاص کے ذریعے کراچی کو تباہ و برباد کیا جاتا رہا۔ خیر سے ہماری سیکیورٹی فورسز نے دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور اب کراچی کی رونقیں پھر سے بحال ہوچکی ہیں مگر بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ دشمن ابھی بھی موقع کی تاک میں ہیں۔

اب کراچی کی سیاست میں بھی انقلابی تبدیلی آچکی ہے تمام سیاسی پارٹیاں مثبت رول ادا کر رہی ہیں اور تمام کا ہی مطمع نظر ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود ہے لیکن یہ بات بھی سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ کراچی میں امن کو واپس لانے میں سابق میئرکراچی اور پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ انھوں نے کراچی میں سرگرم طاغوتی قوتوں کے خلاف دلیرانہ آواز بلند کی تھی اور موت کی بھی پرواہ نہیں کی تھی۔

انھوں نے ہی کراچی کی تمام کمیونٹیزکو اتحاد و یکجہتی کی جانب مائل کیا جس کے ہمت افزا نتائج نکلے ہیں ۔ مارچ 2015سے لے کر آج تک کراچی میں کوئی لسانی یا فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا ہے۔ کراچی کی اس امن پسند فضا نے پورے ملک میں خوشگوار ماحول پیدا کیا ہے۔ اس وقت ملک کے بیرونی دشمنوں نے ملک کے اندر اپنے کچھ نئے ایجنٹ تیارکرلیے ہیں۔ پی ٹی ایم قبائلی علاقوں کو پھر سے دہشت گردی کا گڑھ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔

مغربی میڈیا اس تنظیم کی بھرپور ہمت افزائی کررہا ہے۔ بی بی سی تو ہمیشہ سے پاکستان کی مخالفت پرکمربستہ ہے۔ بھارتی ذرائع کے مطابق وہ بھارتی مالی تعاون پر ہی زندہ ہے اور اسی لیے وہ بھارتی ہدایت پر پاکستان کی ساکھ کو خراب کرنے کا پابند ہے۔ گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزی کے حوالے سے بی بی سی کی ایک جھوٹی خبر کا حوالہ دیا ہے۔ بی بی سی تو روز ہی ایسی خبریں دیتا رہتا ہے مگر کشمیریوں پر بھارتی ریاستی ظلم و بربریت کا کبھی ذکر نہیں کرتا۔

حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ پینٹا گون سوشل میڈیا پر عالم اسلام اور خصوصی طور پر پاکستان اور ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لیے ایک ادارے کو خصوصی مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ ایران تو خیر اپنے اسلامی تشخص کی وجہ سے مغرب کی دشمنی برداشت کر رہا ہے مگر پاکستان کو نشانہ بنانے کی وجہ اس کا کامیاب جوہری پروگرام ہے۔ حالانکہ پاکستان مغرب کو باور کراچکا ہے کہ اس کے ایٹم بم کا نشانہ اسرائیل نہیں ہے یہ صرف بھارت کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے مگر مغرب پھر بھی پاکستان کی جوہری صلاحیت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی ایٹمی اثاثے ہر وقت خطرے میں ہیں۔ چنانچہ ان کی حفاظت کے لیے ہر وقت مستعد رہنا ہوگا۔ مغرب تو خیر ہمارا ہے ہی دشمن مگر ہمارے عرب بھائیوں کے تیور ہم سے کیوں بگڑے ہوئے ہیں۔ وہ اب ہم سے زیادہ بھارتی مفادات کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اس کی واضح مثال گزشتہ مارچ میں ابوظہبی میں منعقدہ اسلامی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے دی جا سکتی ہے جس میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے سشما سوراج کو مدعو کیا گیا تھا اور پھر بھارت کو اس تنظیم کا مستقبل ممبر بنانے پر زور دیا گیا تھا۔

اب مکہ مکرمہ میں منعقد ہونے والی حالیہ اسلامی کانفرنس کے سربراہی اجلاس میں فلسطین اور کشمیر پر زوردار تقاریر تو ضرور ہوئیں مگر اجلاس کے اختتام پر جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیے میں مسئلہ کشمیر کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ اسلامی کانفرنس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بھارت پر زور دیا ہے اور کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کی حمایت کی ہے۔ ہر مشترکہ اعلامیے میں پہلے کشمیریوں کی آزادی کو واضح جگہ دی جاتی رہی ہے مگر اس دفعہ کشمیر کے مسئلے کو نظرانداز کر کے بھارت کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ معاملہ بہت سنگین ہے۔

دراصل عالمی سطح پر اسلامی کانفرنس ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے اور وہ اس لیے کہ اسلامی کانفرنس کے قیام کا مقصد ہی مسلم امہ کے مسائل کو اجاگر کرنا اور انھیں حل کرانے کے لیے جد و جہد کرنا ہے۔ واضح ہو کہ محض بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مسئلہ کشمیر سے پہلو تہی کرنا اس ادارے کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

لگتا ہے سعودی عرب اور خلیجی ممالک پاکستان سے ناراض ہیں اس لیے کہ شاید ہم نے یمن کی جنگ میں عربوں کا کھل کر ساتھ دینے سے گریزکیا تھا ، چنانچہ وہ اس کا بدلہ بھارت کو اسلامی کانفرنس کا ممبر بنا کر لینا چاہتے ہیں اگر ایسا ہی تو پھر اسرائیل کو بھی اس تنظیم کا کیوں نہ ممبر بنا لیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ سربراہی اجلاس میں عمران خان کی تقریر بہت زوردار تھی مگر لگتا ہے وزارت خارجہ اپنی ذمے داریاں نبھانے میں کوتاہی کی مرتکب ہوئی ہے۔

اسلامی کانفرنس صرف سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کی ملکیت نہیں ہے۔ یہ تمام مسلم ممالک کی مشترکہ تنظیم ہے۔ اس کے آئین کیمطابق کوئی غیر مسلم ملک اس کا ممبر نہیں بن سکتا۔ اس کانفرنس میں شریک پاکستانی وفد کو چاہیے تھا کہ وہ یہاں ہوش مندی سے کام لیتے۔ ابو ظہبی اجلاس میں بھارت کو خلیجی ممالک کی جانب سے ترجیح دیے جانے کے بعد انھیں مکہ کانفرنس کی کارروائی پر مکمل نظر رکھنی چاہیے تھی اور خاص طور پر مشترکہ اعلامیے کے تیار ہوتے وقت وہاں موجود ہونا چاہیے تھا اس طرح بھارتی طرفدار مشترکہ اعلامیے میں مسئلہ کشمیر کو نظرانداز نہ کرپاتے۔

بہرحال اب اس روش کے خاتمے کے لیے پاکستان کو اسلامی کانفرنس کی انتظامیہ سے بھرپور احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے ساتھ ہی سعودی حکومت اور متحدہ عرب امارات کو اس زیادتی سے ضرور آگاہ کیا جائے اور انھیں بھارت کے مسلم کش رویے سے بھی روشناس کرایا جائے۔ بہترین سفارت کاری سے ان کا فیور حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک بی بی سی کا تعلق ہے اس کی نشریات پر نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بعض دفعہ ایسا لگتا ہے کہ اس کے اسلام آباد سینٹر میں بیٹھے ''را'' کے لوگ وہاں کے اسٹاف سے اپنی مرضی کی رپورٹنگ کراتے ہیں ورنہ وہاں کے مقامی اسٹاف سے تو وطن کے خلاف کسی جھوٹی رپورٹنگ کی امید نہیں کی جا سکتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں