آج 9 جون ہے

1947 سے 2019ء تک دہائیاں گزر گئیں لیکن زخم مندمل نہیں ہوئے۔ وہ آج بھی ہرے ہیں۔

zahedahina@gmail.com

ہم بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ رمضان کی تاریخیں تھیں جب پاکستان وجود میں آیا۔گھروں میں گلیوں میں جھنڈے اور جھنڈیاں لگتیں۔ جشن کا سماں ہوتا اور آزادی کے جشن سے عیدکی خوشیاں گلے ملنے لگتیں۔

وقت گزرتا رہا، ذہن کے دریچے کھلتے گئے،اندازہ ہوا کہ وہ واقعہ جو ہمارے لیے رونقوں کا سبب تھا ، اس نے لاکھوں کوگھر سے بے گھرکردیا تھا ،خون میں نہلا دیا تھا۔ بچے مائوں سے بچھڑگئے تھے،ان کے سامنے ذبح کردیے گئے تھے، اپنے قرابت داروں کا دل دوز قصہ معلوم ہوا ۔ وہ لوگ دلی سے جائے امان کی تلاش میں نکلے تھے، انھیں امان نہ مل سکی۔ 27 بچوں، بوڑھوں، جوانوں، عورتوں اور لڑکیوں میں سے 8 برس کی صرف ایک بچی لاشوں کے نیچے چھپ کر زندہ بچی۔ ایسی ہی نہ جانے کتنی کہانیاں۔

دونوں طرف کے ظالموں اور مظلوموں کا قصہ۔ بے شمار لوگوں کے لیے زندگی ایک عذاب مسلسل بن گئی۔ جمی انجینئر نے دونوں طرف کے سوختہ بختوں کے لیے تقسیم کی کہانیوں پر مشتمل روغنی تصویریں بنائیں جن کی نمائش دنیا کی بڑی آرٹ گیلریوںمیں ہوئی۔ ان کو دیکھ کر دل کا عجب عالم ہوتا ہے۔ انھیںدیکھیے اور سکتے میں رہیے۔ یہ کون لوگ تھے، یہ کہاں گئے، خاک میں مل جانے والے مرد، اپنے بچھڑجانے والوں کو رونے والیاں، مائوں کو ڈھونڈتے ہوئے بچے، جن کا بچپن غارت ہوگیا۔

یہ قتل وغارت گری صرف غریبوں اور بد حالوں کو چھوکر نہیں گزری، اس نے ہماری اشرافیہ کے گھر اور ان کی زندگیاں بھی تہس نہس کردیں۔اس وقت اردو اور انگریزی کے دو ادیب یاد آرہے ہیں۔ ہندوستان میں انگریزی کے مشہورادیب اور''ٹرین ٹو پاکستان'' کے معروف مصنف خوشونت سنگھ لکھتے ہیں:

''لاہورمیں یکایک بلوے پھوٹ پڑے۔ بلوے سکھ لیڈر تارا سنگھ نے شروع کیے۔انھوں نے ایک جذباتی ڈرامہ پنجاب قانون ساز اسمبلی کے باہر کھیلا۔ چیمبرکے اندر وزیراعلیٰ خضرحیات ٹوانہ مسلم لیگ کے دبائوکے آگے جھک گئے اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔اب یہ ظاہر ہوچکا تھا کہ پنجاب کے مسلمان مطالبۂ پاکستان کے طرفدار ہوچکے ہیں۔ جوں ہی اجلاس ختم ہوا، ماسٹر تارا سنگھ نے نیام سے اپنی کرپان نکالی اور چلا اٹھے '' پاکستان مردہ باد '' یہ ایک جلتی ہوئی ماچس،گیس سے بھرے ہوئے کمرے میں پھینکنے کے مترادف تھا ۔ تمام صوبے میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑک اٹھے۔ قتل کرنے میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا کیونکہ وہ اکثریت میں تھے۔ زیادہ منظم تھے اور ہندوئوں اور سکھوں کے مقابلے میں ان کی تحریک بھی زیادہ مستحکم تھی۔

پنجاب پولیس عام طور پر مسلمانوں پر مشتمل تھی اور اپنے ہم مذہبوں کی بلاججھک طرفدار تھی۔ صرف راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) مسلم منڈلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے منظم جماعت تھی۔ مگر وہ صرف چند بم پھوڑسکتی تھی جس سے ایک دو آدمی مرتے ہیں۔ پھر وہ بھی اس سین سے ہٹ گئی۔ شہری سکھوں کی حالت قابل رحم تھی۔ وہ اپنی فوجی طاقت کی شیخی بگھار سکتے تھے۔ (جو ناپید تھی) اور اپنی کرپانیں ہلاسکتے تھے۔ جنھیں کبھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ ایک دن ایک بہاری جو ایک پیٹرول اسٹیشن پرکام کرتا تھا۔ دن دیہاڑے چاقو سے قتل کردیا گیا۔ چاقو 11-12 برس کے دو لڑکوں نے چلایا تھا۔

جن سکھوں کو معلوم بھی نہیں تھا سائیکل پر جاتے ہوئے انھیں ان رسوں سے گرایا گیا جو سڑک پر اس سرے سے اس سرے تک لگے ہوئے تھے۔ رسے دونوں طرف سے یکایک اٹھا لیے گئے اورپھر سکھ چھری سے قتل کر دیے گئے۔ ہماری راتیں ان نعروں سے برباد ہوتی تھیں کہ ایک طرف سے یکایک ''اللہ اکبر'' کی آواز آتی اور دوسری طرف سے اس کا جواب ''ست سری اکال'' اور ''ہرہر مہا دیو'' دیا جاتا۔ مسلمان زیادہ پُراعتماد تھے۔ وہ ہندو اور سکھ آبادیوں کے نزدیک آجاتے اور چلاتے۔ ہوشیار۔ شکارکا ہے انتظار۔جون 1947ء کی ایک گرم سہ پہرکو وہ تھوڑی بہت مزاحمت بھی جو ہندو اور سکھ کر رہے تھے ختم ہوئی۔ ہم نے بندوقوں یا چیخوں کی کوئی آواز نہیںسنی، صرف شہرکے اوپر چھائے سیاہ بادلوں کو دیکھا۔


''شاہ عالمی کا پورا ہندو محلہ جلا دیا گیا تھا۔ ہندو اور سکھ لاہور چھوڑکر جا رہے تھے اور جوکچھ اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے ، لے جارہے تھے۔ کچھ دنوں بعد وہ نکالے گئے اور اس وقت وہ کچھ بھی نہ لے سکے۔ مسلم ہمسایوں نے ان کے گھر اور ان کی چیزیں لے لی تھیں۔''

''اردو کی مشہور و معروف ادیب قرۃ العین حیدر نے ''کارجہاں دراز ہے' میں لکھا ہے کہ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم نے اپنی زندگی بھرکی پونجی سے دہرہ دون میں گھر بنایا، جس کا نام ''آشیانہ'' رکھا تھا۔ ''کارجہاں دراز ہے'' میں انھوں نے آشیانہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ولایتی پریوں کے گھر جیسافیری ٹیل اور پکچریسک مکان تھا۔ سرخ چھت، باہرکی دیواریں چاکلیٹ کے رنگ کی۔ ہرکمرہ اپنے اندر ایک دنیا رکھتا تھا۔خوبصورت ڈرائنگ و ڈائننگ روم۔چاروسیع وعریض بیڈ روم۔ چارایک سے ایک پراسرار ڈریسنگ روم ، پانچ عدد برآمدے ، وسیع برساتی جس کے اندر دو کاریں کھڑی ہوجاتی تھیں۔ایک گیسٹ روم اور ایک یلدرم صاحب کی اسٹڈی۔''

اور پھر وہ اسی آشیانے کو بلوائیوں کے ہاتھوں جلتا دیکھتی اور ہمیں دکھاتی ہیں۔

'' روشنی سے فضا منور ہوگئی۔ میں سیڑھیاں اترکر دریچے میں آگئی جو میرے گھرکی طرف کھلتا تھا۔مدھم اجالاتھا، جس میں رفتہ رفتہ سارا منظرعیاں ہوگیا۔ دماغ نے جو مائوف ہوگیا تھا آہستہ آہستہ کام کرنا شروع کیا۔ یہ سامنے جو جلے ہوئے راکھ کے ڈھیر پڑے ہیں یہ ''آشیانہ'' ہے۔ جسے میرے مرحوم باپ نے مدتیں گزریں بڑے چائو سے تعمیر کرایا تھا۔ اور آج 9 جون ہے اور آج اس سمے بالا آخر ہم نے اپنی قسمت کا فیصلہ دیکھ لیا ہے۔ باغ کے درخت جل چکے تھے اور اب وہ فرنیچر باہر لالاکر اس کے بون فائر بنا رہے تھے۔ صوفے۔ قالین۔ ابا جان کی کتابوںکی الماریاں۔ ساری پرانی مانوس عزیز چیزیں۔ روشنی میں ان کے چہرے دمک رہے تھے۔ میںنے آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ میں وہیں راج محل کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوں اور سامنے مکمل تاریکی ہے۔ پوپھٹنے سمے کا جو اجالا ابھی پھیلا تھا۔ وہ پھر رات کی اتھاہ سیاہی میں ڈوب گیا تھا۔ آشیانے کے باغ میں آگ کی جو روشنی بھڑکی تھی ۔ وہ بجھ چکی تھی، جلی ہوئی راکھ کے ذرے پچھلے پہرکی ٹھنڈی ہوا میں ادھر ادھر اڑ رہے تھے۔''

یہ المناک اتفاق ہے کہ خوشونت سنگھ اور قرۃ العین حیدر کے گھروں پر بلوائیوں کے ہاتھوں جو آفت آئی وہ 9 جون کی تاریخ تھی اور یہ بھی محض اتفاق ہے کہ آج جب یہ سطریں آپ کی نگاہوں سے گزر رہی ہیں، تب بھی 9 جون ہے۔ 1947 سے 2019ء تک دہائیاں گزر گئیں لیکن زخم مندمل نہیں ہوئے۔ وہ آج بھی ہرے ہیں۔

برصغیر کا عام آدمی جن کٹھنائیوں سے گزرا، اس کا انیس فاطمہ قدوائی نے بہت تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے جب اپنی کتاب''آزادی کی چھائوں میں'' لکھنی شروع کی ہے تو وہ دلی میں ہیں، ان کے شوہر شفیع احمد قدوائی دہرہ دون میں نفرتوں کی بھڑکی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور پھر اسی کوشش میں بے دردی سے قتل کردیے جاتے ہیں۔ ان کی لاش ایک گٹھری میں سمٹ جاتی ہے اور پہچان'' پارکر'' کے اس قلم سے ہوتی ہے جو ان کے کرتے کی جیب میں لگا ہوا تھا۔

بیگم انیس قدوائی نے یہ جاں کاہ صدمہ رو پیٹ کر اور ماتم کرتے نہیں سہا۔ وہ دلی میں ان لوگوں کی خدمت میں جٹ گئیں جو لٹ پٹ کردلی پہنچے تھے اور آتش انتقام میں جل رہے تھے۔ ان کی کتاب عوام پرگزرنے والی ابتلا کا قصہ ہے۔ ایسی داستان جسے پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ انسان ذلتوںکے اس تحت الثریٰ میں بھی گر سکتا ہے اور پھر اسی میں ہمیں وہ انسان بھی نظر آتے ہیں جنہوں نے دوسرے فرقے کے لوگوں کے بدترین ظلم سہے ہیں پھر بھی ان ہی کی خدمت میں لگے رہے اس لیے کہ ان کے اندر کا انسان زندہ تھا۔آزادی جب مل رہی تھی اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم انسانوں کی کھال میں چھپے ہوئے بھیڑیوں کو دیکھیں گے اور اگیا بیتال ہمارے دیہاتوں، ہمارے شہروں میں اپنا خونیں رقص کریں گے۔

آج 9جون 2019 ہے۔ زمانہ ہمارے پیروں کے نیچے سے سرسراتا ہوا گزرگیا ہے۔ 72 برس بیت گئے، 72 برس ایک لمبی مدت ہوتی ہے، کاش ہم نے ان دنوں میں کچھ سیکھ لیا ہوتا۔
Load Next Story